طاہر رمضان
رکن
- شمولیت
- دسمبر 25، 2012
- پیغامات
- 77
- ری ایکشن اسکور
- 167
- پوائنٹ
- 55
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی سماع الموتٰی کی منکر ہیں
السلامُ علیکم! سماع الموتٰی کے سلسے میں ایک پوسٹ پہلے بھی لگا چکا ہوں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ مردے اہلِ دنیا کا کلام نہیں سنتے۔ اب اسی سلسے میں دوسری پوسٹ لایا ہوں جس سے انشاء اللہ مسئلہ واضح ہو جائے گا اور حق قبول کرنے والوں کے لیے حق نکھر کر سامنے آجائے گا ، باقی ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ ہمیں حق و ہدایت قبول کرنے کی توفیق عطاء فرما اور ضد سے بچا (آمین)۔
گزشتہ سے پیوستہ بات یہ تھی کہ بدر کے مقتولین سے جب نبی کریم ﷺ نے کلام کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کیا ردِ عمل تھا کہ جو انہوں نے پوچھا کہ آپ ﷺ ایسے اجساد سے کلام فرما رہے ہیں جن میں ارواح موجود نہیں ہیں ،بے جان ہیں۔۔ پھر کچھ حوالاجات تھے کہ مقتولین کا سننا معجزہ تھا اور ایک عظیم تابعی، حضرت قتادہؒ کا قول حدیث میں ہی نقل ہے کہ :
قَالَ قَتَادَةُ أَحْيَاهُمْ اللَّهُ حَتَّی أَسْمَعَهُمْ قَوْلَهُ تَوْبِيخًا وَتَصْغِيرًا وَنَقِيمَةً وَحَسْرَةً وَنَدَمًا
قتادہ نے کہا کہ اللہ نے اس وقت ان کو زندہ فرمادیا تھا تاکہ ان کو اپنی ذلت و رسوائی اور اس سزا سے شرمندگی حاصل ہو۔
بخاری شریف
اس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں تھی سماع الموتٰی کے مسئلے میں کہ اہل قبور ، اہلِ دنیا کا کلام نہین سنتے اور بدر کے مقتولین کا سننا صرف ایک معجزہ تھا ،لیکن پھر بھی مزید تسلی کے لیئے آگے بڑھتے ہیں کہ یہی بات جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تک پہنچتی ہے تو وہ کیا کہتی ہیں۔۔
حَدَّثَنِي عُثْمَانُ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ وَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی قَلِيبِ بَدْرٍ فَقَالَ هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ثُمَّ قَالَ إِنَّهُمْ الْآنَ يَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ فَذُکِرَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ إِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُمْ الْآنَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِي کُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ هُوَ الْحَقُّ ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَی حَتَّی قَرَأَتْ الْآيَةَ
عثمان بن ابی شیبہ عبدہ سن سلیمان ہشام حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے اور فرمایا کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ سچا پایا؟ پھر فرمایا اے مشرکو! تمہارے رب نے تم سے جو وعدہ کیا تھا بے شک تم نے وہ پالیا پھر فرمایا یہ لوگ اس وقت میرا کہنا سن رہے ہیں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے بیان کی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ نے اس طرح فرمایا تھا کہ اب معلوم ہوگیا جو میں ان سے کہتا تھا وہ سچ تھا پھر انہوں نے سورت نمل کی یه آیت پڑھی (اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَاتُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَا ءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ) 27۔ النمل : 88) آخر تک یعنی اے پیغمبر صلی الله علیه وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کونهیں سنا سکتے ۔
صحیح بخاری، کتاب: غزوات کا بیان، باب: ابوجہل کے قتل کا بیان
پھر اس کے ساتھ ہی حدیث بیان ہے کہ :
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ ذُکِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَفَعَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِبُکَائِ أَهْلِهِ فَقَالَتْ وَهَلَ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَيُعَذَّبُ بِخَطِيئَتِهِ وَذَنْبِهِ وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْکُونَ عَلَيْهِ الْآنَ قَالَتْ وَذَاکَ مِثْلُ قَوْلِهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَی الْقَلِيبِ وَفِيهِ قَتْلَی بَدْرٍ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَقَالَ لَهُمْ مَا قَالَ إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ إِنَّمَا قَالَ إِنَّهُمْ الْآنَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ مَا کُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَی وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ يَقُولُ حِينَ تَبَوَّئُوا مَقَاعِدَهُمْ مِنْ النَّارِ
عبید بن اسماعیل ابواسامہ ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ حضرت عائشہ کے سامنے حضور اکرم کے اس ارشاد کا ذکر آیا کہ مردے پر اس کے عزیزوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو رسول اکرم تک پہنچی ہوئی بتاتے ہیں حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ مردے پر اپنی خطاؤں اور گناہوں کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے اور اس کے عزیز روتے ہی رہتے ہیں یہ بالکل ایسا ہی مضمون ہے جیسے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم مشرکین بدر کے لاشوں کے گڑھے پر کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میرا کہنا سن رہے ہیں حالانکہ حضور نے فرمایا تھا کہ ان کو اب معلوم ہوگیا کہ میں جو کچھ ان سے کہتا تھا وہ سچ اور حق تھا اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سورت نمل کی یه آیت تلاوت فرمائی ترجمه (اے پیغمبر! تم مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے اور اے پیغمبر صلی الله علیه وسلم! تم قبروں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے) حضرت عروه کهتے ہیں که حضرت عائشه کی مراد اس آیت کے پڑھنے سے یه تھی که جب ان کو دوزخ میں اپنا ٹھکانه مل جائے گا۔
صحیح مسلم میں بھی حدیث موجود ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ ذُکِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِبُکَائِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ فَقَالَتْ وَهِلَ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَيُعَذَّبُ بِخَطِيئَتِهِ أَوْ بِذَنْبِهِ وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْکُونَ عَلَيْهِ الْآنَ وَذَاکَ مِثْلُ قَوْلِهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَی الْقَلِيبِ يَوْمَ بَدْرٍ وَفِيهِ قَتْلَی بَدْرٍ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَقَالَ لَهُمْ مَا قَالَ إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ وَقَدْ وَهِلَ إِنَّمَا قَالَ إِنَّهُمْ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ مَا کُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَی وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ يَقُولُ حِينَ تَبَوَّئُوا مَقَاعِدَهُمْ مِنْ النَّارِ ۔
ابوکریب، ابواسامہ، ہشام، حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ذکر کیا گیا کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرفوعاً نقل کرتے ہیں کہ میت کو قبر میں اپنے اہل وعیال کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا وہ بھول گئے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ وہ اپنے گناہ اور خطاؤں کی وجہ سے عذاب پاتا ہے اور اس کے اہل پر جواب رو رہے ہیں، ان کو یہ قول اسی قول کی طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر کے دن کنویں پر کھڑے ہوئے اور اس کنویں میں مشرکین کے بدری مقتول تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو فرمایا جو فرمایا کہ وہ سنتے ہیں جو میں کہتا ہوں، حالانکہ وہ بھول گئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا البتہ وہ جانتے ہیں جو میں ان کو کہتا تھا وہ حق ہے پھر سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آیت (اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى) 27۔ النمل : 80) وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ) 35۔فاطر : 22) تو نہیں سنا سکتا جو مردہ ہیں اور جو قبروں میں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو سنانے والے نہیں ہیں اس میں اللہ تعالیٰ ان کے حال کی خبر دیتا ہے کہ وہ دوزخ میں اپنی جگہ پر پہنچ چکے ہیں۔
ان سب احادیثِ مبارکہ کو اگر سمجھ سے پڑھا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا مسئلہ سمجھا رہی ہے کہ إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَی وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ مردے نہیں سنتے ، اور نبی کریم ﷺ نے جو خطاب فرمایا تھا وہ خطاب ایسا ہی تھا کہ تم لوگوں نے میری بات نہ مانی اور تم لوگوں نے اپنا انجام پا لیا ۔ جیسے ایک باپ اپے بیٹے کو کسی خطرناک کام سے روکتا ہے اور اسی کام کی وجہ سے اسکی موت ہو جاتی ہے اور باپ میت کو کہتا ہے کہ دیکھا تو نے میرا کہا نہ مانا اور تو اس انجام کو پہنچ گیا ۔
اور دوسری بات یہ کہ ان دو آیات إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَی وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سے یہی ثابت ہے کہ مردے نہیں سنتے کیونکہ ان آیات کی تفسیر اب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے ، اب ایسی ثقہ مفسرہ و محدثہ کی تفسیر بھلا کوئی کیسے جھٹلا سکتا ہے جس کے گھر میں قرآں اترتا تھا اور آپ رضی اللہ عنہا خود نبی کریم ﷺ سے قرآں سمجھا کرتی تھیں ۔
تیسری بات یہ کہ اس وقت کسی بھی صحابی نے حضرت عائشہ کی اس تفسیر سے اختلاف نہیں کیا کہ ان آیات کا یہ مطلب نہیں جو آپ بیان فرما رہی ہیں (کیونکہ آج کل بہت سے لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ یہاں پر سماع کی نفی نہیں بلکہ اسماع کی نفی ہے ۔ ان کےلیے گزارش ہے کہ ان آیات کی تفسری اس عظیم مفسرہ سے سمجھ لیں جو سب مؤمنین کی ماں ہیں ۔ ) بلکہ سب نے خاموشی اختیار کی کہ ہاں آپ رضی اللہ عنہا صحیح فرما رہی ہیں کہ ان آیات سے نفیِ سماع موتٰی ثابت ہے ۔
اب اتنے واضح دلائل و براہین سے یہ بات روزِ روشن کی طرح نکھر کر سامنے آگئی ہے کہ سماع الموتٰی کے صحابہ قطعی قائل نہ تھے بلکہ سماع موتٰی کا نکار کرتے تھے ۔ اور الحمد للہ ، ثم الحمداللہ آج اہل حق کا مسلک بھی وہی ہے جو صحابہ اکرام اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا تھا ۔
انشاء اللہ ، اگرا اللہ نے توفیق دی تھی تواگلی دفعہ " قرآن و سنت سے سماعِ الموتٰی کی نفی " کے ساتھ حاضر ہوں گا ۔
آپ کی دعاؤں کا طلبگار ، ڈاکٹر طاہر رمضان