• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انوار البدر، حدیث طاووس

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
حدیث طاووس

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا أبو توبة، حدثنا الهيثم يعني ابن حميد، عن ثور، عن سليمان بن موسى، عن طاوس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم «يضع يده اليمنى على يده اليسرى، ثم يشد بينهما على صدره وهو في الصلاة»
طاؤوس بن کیسان سے مروی ہے کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہا تھ بائیں کے اوپر رکھتے اورانہیں اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے۔[سنن أبي داود 1/ 201]


حوالے :
سنن ابوداؤد:ـکتاب الصلوٰة:باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر759۔
سنن ابوداؤد(ترجمہ مجلس علمی دار الدعوة):ـ ج1ص363 حدیث نمبر759۔
سنن ابوداؤد(مع تحقیق زبیرعلی زئی):ـ ج1ص570 حدیث نمبر759۔
ابوداؤد مع عون المعبود:ـسیٹ نمبر1جلدنمبر2ص327حدیث نمبر775۔


اس حدیث میں نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی مکمل صراحت ہے اور یہ روایت مرسلا بالکل صحیح ہے جیساکہ اس کے رجال پر پوری تفصیل آگے آرہی ہے۔
رہا اس روایت کا مرسل ہونا تو عرض ہے احناف کے یہاں مرسل روایت حجت ہوتی ہے جیساکہ ان کی بہت کتب میں اس کی صراحت ہے ۔

علامہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حنفی مذہب کے امام سرخسي کتاب الاصول ج1 ص360 میں لکھتے ہیں کہ :فَاَمَّا مَرَاسِیْلُ الْقَرْنِ الثَّانِیْ وَ الثَّالِثِ حُجَّۃٌ فِیْ قَوْلِ عُلَمَائِنَا ۔
کہ دوسرے اور تیسرے قرن(یعنی تابعین )کی مرسل روایت ہمارے (احناف ) علماء کے قول کے مطابق حجت اور دلیل ہے ۔
اسی طرح نور الانوار ص 150میں لکھا ہے اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رسالہ کشف الدین ص 17میں لکھتے ہیں کہ''والمرسل مقبول عندا الحنفیۃ'' یعنی مرسل روایت ہم احناف کے ہاں دلیل اورقابل قبول روایت ہے۔اسی طرح علامہ ابن الھمام بھی فتح القدیر شرح ھدایہ ج1ص239 میں لکھتے ہیں اور محدثین کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری احادیث کے موجودگی میں مقبول ہیں چونکہ یہاں دوسری متصل احادیث وارد ہیں اس لئے یہ روایت بھی دلیل بن سکتی ہے اور اسکی سند کے سب راوی معتبر اور ثقہ ہیں جیسے اما م بیہقی نے معرفۃ السنن والاٰثار میں اور علامہ محمد حیات سندھی نے فتح الغفور میں اور صاحب خلافت نے درج الدردمیں اور علامہ مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی ج1 ص 216 میں لکھا ہے۔[نماز میں خشوع اورعاجزی ص 11-12]

چونکہ اس مرسل روایت کے بہت سارے شواہد موجود ہیں جیساکہ اس کتاب کے باب اول کی پہلی فصل میں مذکور ہے اس لئے یہ حدیث بالکل صحیح ہے کیونکہ مرسلا اس کی سند صحیح ہے ،اس کے راویوں کی تفصیل ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
طاوس بن كيسان اليماني کا تعارف:
آپ بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں ۔بہت سارے میں محدثین نے آپ کی توثیق کی ہے بلکہ آپ بالاتفاق ثقہ ہیں۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 500 واسنادہ صحیح ]

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 500]

امام نووي رحمه الله (المتوفى676)نے کہا:
اتفقوا على جلالته وفضيلته، ووفور علمه، وصلاحه، وحفظه، وتثبته
آپ کی جلالت وفضیلت ، وافر علم ، دینداری اور حفظ و ضبط پر سب کا اتفاق ہے[تهذيب الأسماء واللغات للنووى: 1/ 251]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة فقيه فاضل
آپ ثقہ ، فقیہ اور فاضل ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم3009]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سليمان بن موسى القرشي کا تعارف:
آپ مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
كان ثقة
آپ ثقہ تھے[الطبقات الكبرى ط دار صادر 7/ 457]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ تھے[تاريخ ابن معين، رواية الدارمي: ص: 46]

امام عبد الرحمن بن إبراهيم ،دحيم رحمه الله (المتوفى245)نے کہا:
أوثق أصحاب مكحول سليمان بن موسى
مکحول کے شاگردوں میں سب سے بڑے ثقہ موسی بن اسماعیل ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 141 واسنادہ صحیح]

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
لا بأس به ثقة
آپ میں کوئی حرج نہیں آپ ثقہ ہیں[سؤالات الآجری : 5 / الورقة 18بحوالہ حاشیہ تهذيب الكمال للمزي: 12/ 98]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
محله الصدق وفى حديثه بعض الاضطراب
آپ سچے ہیں اور آپ کی بعض احادیث میں اضطراب ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 4/ 141]

عرض کہ ابوحاتم نے صرف ان کی بعض احادیث میں اضطراب بتلایا ہے یعنی ان کی اکثراحادیث صحیح وسالم ہے اور اصول حدیث کا بنیادی قانون ہے کہ غالب حالت ہی کا اعتبار ہوتا ہے۔اس لئے غالب حالت کے اعتبار ان کی احادیث صحیح وسالم ہیں۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے آپ کو ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
كان فقيها ورعا
آپ فقیہ اور پرہیز گار تھے[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 6/ 380]

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
ثبت صدوق
آپ ثبت اور صدوق ہیں[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 262]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
من الثقات الحفاظ
آپ حفاظ ثقات میں سے ہیں[علل الدارقطني: 15/ 14]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الإمام الكبير، مفتي دمشق
آپ بہت بڑے امام اور دمشق کے مفتی تھے[سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 433]

بعض اقوال جرح کا جائزہ:

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
وسليمان بن موسى منكر الحديث , أنا لا أروي عنه شيئا , روى سليمان بن موسى أحاديث عامتها مناكير
سلیمان بن موسی منکر الحدیث ہے ، میں اس سے کچھ روایت نہیں کرتا ، سلیمان بن موسی نے چند احادیث روایت کی ہیں جن میں سے اکثر منکرہیں[العلل الكبير للترمذي ص: 257]

عرض ہے اس جرح کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے خود صراحت کردی ہے کہ ’’سلیمان بن موسی نے چند روایات بیان کی ہیں جن میں سے اکثرمنکر ہیں‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کو اس راوی کی زیادہ روایات ملی ہی نہیں ، اوران کی روایات کا جوقلیل حصہ انہیں ملا ان میں سے بیشترروایات منکر تھیں اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان پر جرح کردی ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ سلیمان بن موسی کی اکثر روایات میں نکارت نہیں ہے ، چنانچہ ماقبل میں امام ابوحاتم رحمہ اللہ کی صراحت پیش کی جاچکی ہے کہ انہوں نے اس راوی کوسچا بتاتے ہوئے اس کی صرف چند روایات ہی میں اضطراب بتلایا ہے ۔اسی طرح امام نسائی رحمہ اللہ کی جرح اسی پر دال ہے کماسیاتی ۔
بلکہ یہ بھی ممکن ہے ان کی جن احادیث میں نکارت ہے اس کے ذمہ دار یہ نہ ہوں بلکہ ان سے اوپر کے رواۃ ہوں، اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
وهذه الغرائب التي تستنكر له يجوز أن يكون حفظها
سلیمان بن موسی کی جن غریب احادیث میں نکارت کی بات کی جاتی ہے ممکن ہے ان احادیث کو آپ نے یاد کررکھا ہو[ميزان الاعتدال للذهبي: 2/ 226]

علاوہ بریں کئی جلیل القدر محدثین نے انہیں بلاتردد پوری صراحت کے ساتھ ثقہ کہا ہے حتی کہ متشددین نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے کمامضی ۔لہٰذا دیگر ائمہ فن کا فیصلہ ہی راجح ہے۔

امام عقیلی نے اپنی سند کے ذریعہ امام ابن المدینی سے نقل کیا :
مطعون فيه
اس پر طعن کی گیا ہے[الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 140]
عرض ہے کہ ابن المدینی سے یہ جرح ثابت ہی نہیں ہے ، امام عقیلی نے جس سند سے یہ جرح نقل کی ہے اس کے رجال کے حالات ہم کو نہیں مل سکے۔اگرکسی کو مل جائیں تو ہمیں مطلع کرے۔نیز یہ جرح غیرمفسر ہے اور دیگر کبار محدثین کی توثیق کے خلاف ہے۔

ابن عقیلی نے اس قول اور امام بخاری کی جرح کی بنیاد پر ان کو ضعفاء میں نقل کیا ہے اس لئے اس کا بھی اعتبار نہیں بالخصوص جبکہ امام عقلیلی متشدد ہیں ۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ امام ابوزرعہ نے انہیں اپنی کتاب ’’ ضعفاء ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔
عرض ہے کہ امام ابوزرعہ کی اس کتاب کا پورا نام یہ ہے ’’أسامي الضعفاء ومن تكلم فيهم من المحدثين‘‘ (ضعفاء اور ان لوگوں کے نام جن پر محدثین نے کلام کیا ہے) [أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية: 2/ 593]
معلوم ہوا کہ اس کتاب میں ضعیف رواۃ کے ساتھ ساتھ ان رواۃ کا بھی ذکر ہے جن پر محدثین نے کلام کیا ہے اور محض کلام کرنے سے تضعیف لازم نہیں آتی ہے تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب: ’’یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ : ص۔
اس لئے اس کتاب کے حوالہ سے امام ابوزرعہ کی طرف کسی راوی کی تضعیف کی نسبت کے لئے صریح دلیل چاہئے۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
سليمان بن موسى الدمشقي أحد الفقهاء ليس بالقوي في الحديث
سلیمان بن موسی دمشقی ، فقہاء میں سے ایک ہیں اور یہ حدیث میں قوی نہیں ہیں[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 49]

عرض ہے کہ جرح کا یہ صیغہ راوی کی تضعیف پر دلالت نہیں کرتا جیساکہ ہم نے اس کی پوری تفصیل اپنی کتاب ’’یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ‘‘ ص پر پیش کیا ہے۔قارئین اس کتاب کی طرف رجوع کریں۔

امام ابن المدینی سے جو یہ نقل کیا جاتا ہے کہ:
وكان خولط قبل موته بيسير
موت سے قبل آپ اختلاط کے شکار ہوگئے تھے[تهذيب التهذيب لابن حجر: 4/ 227]

تو یہ قول امام ابن المدینی سے بسند صحیح یا بنقل معتبر ثابت نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ امام سلیمان بن موسی ثقہ ہیں ان کے تعلق سے پیش کی جانی والی جروح یا تو ثابت ہی نہیں ہیں یا غیر مفسر ہیں یا کمزور بنیادوں پر مبنی ہیں اور اس کے برعکس محدثین کی ایک بڑی جماعت نے پوری صراحت کے ساتھ انہیں ثقہ قرار دیا ہے اس لئے ان کے ثقہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ثور بن يزيد الكلاعى کا تعارف:
آپ بخاری اور سنن اربعہ کے رجال میں سے ہیں ۔اوربالاتفاق ثقہ ہیں۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثور بن يزيد ثقة
ثور بن یزید ثقہ ہیں[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 192]

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
كان ثقة في الحديث
یہ حدیث میں ثقہ تھے[الطبقات الكبرى ط دار صادر 7/ 467]

امام عبد الرحمن بن إبراهيم،دحيم رحمه الله (المتوفى245)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ تھے[المعرفة والتاريخ 2/ 386 واسنادہ صحیح]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
حافظ متقن
آپ حافظ اور متقن ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي: 6/ 344]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة ثبت إلا أنه يرى القدر
آپ ثقہ وثبت تھے ، مگر قدر کا عقیدہ رکھتے تھے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 861]

عرض ہے کہ قدر کے عقیدہ سے ثقاہت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ، نیز ثور بن يزيد الكلاعى نے اس عقیدہ سے برات کا اظہار کیا چنانچہ:

امام أبو زرعة الدمشقي رحمه الله (المتوفى:281)نے کہا:
أخبرنا منبه بن عثمان قال: قال رجل لثور بن يزيد: يا قدري. قال ثور: لئن كنت كما قلت، إني لرجل سوء، ولئن كنت على خلاف ما قلت، إنك لفي حل.
ایک شخص نے ثور بن یزید سے کہا: اے قدری ! تو ثور نے کہا: اگر میں ویساہی ہوں جیساکہ تم نے کہا ہے تو میں بہت برا شخص ہوں اور گر میں ویسا نہیں ہوں جیسا تم نے کہا تو جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا۔[تاريخ أبي زرعة الدمشقي: ص: 360 واسنادہ صحیح]

اس صحیح روایت سے معلوم ہوا کہ ثوربن یزید قدری ہرگز نہیں تھے غالبا کچھ لوگوں نے غلط فہمی کی بناپر انہیں قدری سمجھ لیا تھا۔
بالفرض مان لیں کہ وہ قدری تھے تو اس روایت کی رو سے یہ ماننا لازم ہے کہ انہوں نے رجوع کرلیا تھا کیونکہ مذکورہ شخص نے پہلے انہیں قدری کہا جس پرانہوں نے انکار کیا ، اس میں اشارہ ہے کہ ان کی برات سے پہلے ان کا قدری ہونے کا چرچا ہوگیا تھا۔ پھر اس روایت میں ان کی طرف سے انکار ان کے رجوع کی دلیل ہے ، چنانچہ اسی روایت کی بناپر امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
قلت: كان ثور عابدا، ورعا، والظاهر أنه رجع.فقد روى: أبو زرعة۔۔۔
میں (امام ذہبی) کہتاہوں کہ: ثور عابد، پرہیز گارتھے ، اور ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے عقیدہ قدر سے رجوع کرلیا تھا چنانچہ ابوزرعہ نے روایت کیا۔۔۔۔۔[سير أعلام النبلاء للذهبي: 6/ 345]

اس کے بعد میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے وہی روایت پیش کی جسے صحیح سند سے اوپر نقل کیا جاچکا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمه الله نے ان پرناصبیت کی تہمت بھی نقل کی ہے چنانچہ کہا:
وكان يرمي بالنصب أيضا وقال يحيى بن معين كان يجالس قوما ينالون من علي لكنه هو كان لا يسب
ان پر ناصبیت کا الزام لگایا جاتا تھا ، اور امام ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: یہ ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے جو علی رضی اللہ عنہ کو برا کہتے لیکن یہ علی رضی اللہ عنہ کو برا نہیں کہتے تھے[مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 394]

عرض ہے کہ میرے ناقص علم کی حدتک کسی نے بھی ان پر ناصبیت کی تہمت نہیں لگائی گئی ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے غالبا نواصب کے ساتھ ان کے اٹھنے بیٹھے کی وجہ سے یہ نتیجہ نکال لیا ہے حالانکہ ابن معین نے پوری صراحت کہا ہے کہ : یہ علی رضی اللہ عنہ کو برا نہیں کہتے تھے۔

بلکہ نواصب کے ساتھ ان کا بیٹھنا بھی ثابت نہیں ہے چنانچہ ابن معین کے اس قول کو ان کے شاگرد عباس دوری نے درج ذیل الفاظ میں نقل کرتے ہوئے کہا:
سمعت يحيى يقول أزهر الحرازي وأسد بن وداعة وجماعة كانوا يجلسون يشتمون علي بن أبي طالب وكان ثور بن يزيد في ناحية لا يسب عليا فإذا لم يسب جروا برجله
میں نے امام یحیی کو فرماتے ہوئے سناکہ: زہرحرازی،اسدبن وداعہ اور کچھ لوگ بیٹھ کرعلی رضی اللہ عنہ کو برابھلاکہتے اور ثور بن یزیدایک کنارے بیٹھے ہوتے یہ علی رضی اللہ عنہ کو برا نہیں کہتے تو جب یہ علی رضی اللہ عنہ کو برا نہ کہتے تو لوگ ان کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹتے [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 423]

سبحان اللہ ! ایک شخص کوپاؤں پکڑ کر گھسیٹا جاتا ہے پھر بھی وہ علی رضی اللہ عنہ کو برا نہیں کہتا اس کے باوجود بھی نامعلوم کیسے ان پر ناصبیت کی تہمت لگادی گئی !

خلاصہ کلام یہ کہ محدثین نے انہیں بالاتفاق ثقہ کہا ہے اور ان پرقدریہ اور ناصبیت کی تہمت ثابت نہیں ہے بلکہ اس سے برات ثابت ہے، والحمدللہ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
الهيثم بن حميد الغساني کا تعارف:
آپ سنن اربعہ کے رجال میں سے ہیں اور ثقہ راوی ہیں۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
ما علمت إلا خيرا
میں ان کے بارے صرف اچھائی ہی جانتاہوں[العلل ومعرفة الرجال لأحمد: 3/ 53]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[تهذيب الكمال للمزي: 30/ 372 نقلا عن تاریخ الدارمی]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
الهيثم بن حميد
یعنی ھیثم بن حمید ثقات میں سے ہیں[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 9/ 235]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[سنن الدارقطني: 1/ 319]

امام ابن شاهين رحمه الله (المتوفى385) انہیں ثقات میں ذکرکرتے ہوئے کہا:
الهيثم بن حميد ما علمت الا خيرا قاله أحمد
میں ان کے بارے صرف اچھائی ہی جانتاہوں ، یہ بات امام احمد رحمہ اللہ نے کہی ہے [الثقات لابن شاهين ص: 253]

ان جلیل القدر محدثین کے خلاف صرف اورصرف ابومسہر سے منقول ہے کہ انہوں نے اسے ضعیف کہا لیکن ان کے ایک قول سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سے رجوع کرلیا چنانچہ:

امام ابن أبي خيثمة رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
أخبرني أبو محمد التميمي ، قال : حَدَّثَنَا أبو مسهر ، قال : حَدَّثَنَا الهيثم بن حميد ، وكان صاحب كتب ولم يكن من الاثبات ولا من أهل الحفظ ، وقد كنت أمسكت عن الحديث عنه استضعفته
آپ کتاب والے تھے (یعنی لکھ کرروایت کرتے تھے) ، اور اثبات اور حافظہ والے نہیں تھے(یعنی حافظہ سے روایت نہیں کرتے) ۔ میں ان سے حدیث بیان کرنے سے رک گیا تھا کیونکہ میں نے انہیں ضعیف باور کرلیاتھا [تهذيب الكمال للمزي: 30/ 372 واسنادہ صحیح ، ابومحمدالتمیمی وثقہ ابن ابی خیثہ فی تاریخہ 2/ 871]

اس روایت سے معلوم ہواکہ ابومسہر نے ھیثم بن حمید کو اس لئے ضعیف کہا تھا کیونکہ وہ حافظہ پر اعتماد کرنے کے بجائے لکھ کرروایت کرتے تھے لیکن اس وجہ سے کسی کو ضعیف قرار دینا درست ہی نہیں ہے۔نیز اس قول سے یہ بھی معلوم ہواکہ ابومسہر شروع میں انہیں ضعیف مان کر ان سے روایت بیان نہیں کرتے تھے لیکن بعد میں انہوں نے ان سے روایت بیان کرنا شروع کردیا تھا یعنی انہوں نے اپنی تضعیف سے رجوع کرلیا تھا۔چنانچہ کتب احادیث میں کئی روایات ایسی ہیں جنہیں ابو مسہر نے ابوالھیثم ہی سے روایت کیا ہے ،مثلا دیکھئے: [السنن الكبرى للبيهقي: 1/ 207] وغیرہ۔

بالفرض اگر یہ تسلیم بھی کرلیں کہ ابومسہر نے انہیں ضعیف کہا تو بھی جلیل القدر محدثین کی صریح توثیق کے مقابلہ میں اس تضعیف کی کوئی حیثیت نہیں ہے بالخصوص جبکہ اس تضعیف کی بنیاد بھی درست نہیں ہے۔ان پرقدری ہونے کا الزام ہے لیکن اول تو اس کا کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے دوسرے اس طرح کے الزامات سے روای کی ثقاہت پر فرق نہیں پڑتا۔

خلاصہ کلام یہ کہ یہ راوی بلاشک وشبہہ ثقہ ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ابوتوبہ الربيع بن نافع الحلبي کا تعارف:
آپ بخاری ومسلم نیز ابوداؤد، نسائی ، اورابن ماجہ کے رجال میں سے ہیں اور بالاتفاق ثقہ ہیں۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
أبو توبة لم يكن به بأس
ابوتوبہ میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے[سؤالات أبي داود لأحمد ص: 285]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ثقة صدوق حجة
آپ ثقہ ، صدوق اورحجت ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 470]

امام يعقوب بن سفيان الفسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ثقة صدوق
آپ ثقہ اورصدوق ہیں [تاريخ دمشق لابن عساكر: 18/ 84 واسنادہ صحیح]

كمال الدين ابن العديم (المتوفى660)نے کہا:
أحد الثقات الأثبات
آپ ثقہ اور ثبت لوگوں میں ایک ہیں[بغية الطلب فى تاريخ حلب 8/ 3603]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الإمام، الثقة، الحافظ
آپ امام ، ثقہ اورحافظ ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي: 10/ 653]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ثقة حجة عابد
آپ ثقہ ،حجت اورعابد ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم1902]
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top