کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
حدیث طاووس
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا أبو توبة، حدثنا الهيثم يعني ابن حميد، عن ثور، عن سليمان بن موسى، عن طاوس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم «يضع يده اليمنى على يده اليسرى، ثم يشد بينهما على صدره وهو في الصلاة»
طاؤوس بن کیسان سے مروی ہے کہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہا تھ بائیں کے اوپر رکھتے اورانہیں اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے۔[سنن أبي داود 1/ 201]
حوالے :
سنن ابوداؤد:ـکتاب الصلوٰة:باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر759۔
سنن ابوداؤد(ترجمہ مجلس علمی دار الدعوة):ـ ج1ص363 حدیث نمبر759۔
سنن ابوداؤد(مع تحقیق زبیرعلی زئی):ـ ج1ص570 حدیث نمبر759۔
ابوداؤد مع عون المعبود:ـسیٹ نمبر1جلدنمبر2ص327حدیث نمبر775۔
اس حدیث میں نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی مکمل صراحت ہے اور یہ روایت مرسلا بالکل صحیح ہے جیساکہ اس کے رجال پر پوری تفصیل آگے آرہی ہے۔
رہا اس روایت کا مرسل ہونا تو عرض ہے احناف کے یہاں مرسل روایت حجت ہوتی ہے جیساکہ ان کی بہت کتب میں اس کی صراحت ہے ۔
علامہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
حنفی مذہب کے امام سرخسي کتاب الاصول ج1 ص360 میں لکھتے ہیں کہ :فَاَمَّا مَرَاسِیْلُ الْقَرْنِ الثَّانِیْ وَ الثَّالِثِ حُجَّۃٌ فِیْ قَوْلِ عُلَمَائِنَا ۔
کہ دوسرے اور تیسرے قرن(یعنی تابعین )کی مرسل روایت ہمارے (احناف ) علماء کے قول کے مطابق حجت اور دلیل ہے ۔
اسی طرح نور الانوار ص 150میں لکھا ہے اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رسالہ کشف الدین ص 17میں لکھتے ہیں کہ''والمرسل مقبول عندا الحنفیۃ'' یعنی مرسل روایت ہم احناف کے ہاں دلیل اورقابل قبول روایت ہے۔اسی طرح علامہ ابن الھمام بھی فتح القدیر شرح ھدایہ ج1ص239 میں لکھتے ہیں اور محدثین کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری احادیث کے موجودگی میں مقبول ہیں چونکہ یہاں دوسری متصل احادیث وارد ہیں اس لئے یہ روایت بھی دلیل بن سکتی ہے اور اسکی سند کے سب راوی معتبر اور ثقہ ہیں جیسے اما م بیہقی نے معرفۃ السنن والاٰثار میں اور علامہ محمد حیات سندھی نے فتح الغفور میں اور صاحب خلافت نے درج الدردمیں اور علامہ مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی ج1 ص 216 میں لکھا ہے۔[نماز میں خشوع اورعاجزی ص 11-12]
چونکہ اس مرسل روایت کے بہت سارے شواہد موجود ہیں جیساکہ اس کتاب کے باب اول کی پہلی فصل میں مذکور ہے اس لئے یہ حدیث بالکل صحیح ہے کیونکہ مرسلا اس کی سند صحیح ہے ،اس کے راویوں کی تفصیل ملاحظہ ہو: