محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ۰ۭ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْيِ۰ۚ وَلَا تَحْلِقُوْا رُءُوْسَكُمْ حَتّٰى يَبْلُغَ الْہَدْيُ مَحِلَّہٗ۰ۭ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًى مِّنْ رَّاْسِہٖ فَفِدْيَۃٌ مِّنْ صِيَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُكٍ۰ۚ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ۰۪ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْہَدْيِ۰ۚ فَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلٰثَۃِ اَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ۰ۭ تِلْكَ عَشَرَۃٌ كَامِلَۃٌ۰ۭ ذٰلِكَ لِمَنْ لَّمْ يَكُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۱۹۶ۧ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ عشرہ کہہ دینے کے بعد کاملہ کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ؟کیا کوئی عشرہ ناقصہ بھی ہوتا ہے ؟ جب اعداد میں تعیین یقینی وقطعی ہے توپھر اس زیادت کا فائدہ؟ جواب یہ ہے کہ عشرہ کی صورت میںہوسکتا تھا کہ کوئی تخیر کا مفہوم لے لے۔ یعنی یہ سمجھ لے کہ تین یاسات میں جس صورت کو چاہے، اختیار کرلے۔ حالانکہ مطلب یہ نہیں۔ مبرد کا خیال ہے۔ یہ تاکید ہے جو عربی اصول کے بالکل مطابق ہے ۔ عرب کہتے ہیں۔ کَتَبْتُ بِیَدِیْ حالانکہ ہمیشہ ہاتھ سے ہی لکھا جاتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ مقصدیہ ہو کہ اس میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ یہ روزے قربانی کی پوری نیابت کریں گے۔ ذٰلک کا مشار الیہ یا تو نفس تمتع ہے اور یا حکم۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مقامی لوگوں کو تمتع کی اجازت نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے ۔ دوسری صورت میں مقصد یہ ہوگا کہ مقامی آدمی کے لیے تمتع کی صورت میں قربانی ضروری نہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے تلامذہ اسی طرف گیے ہیں۔ اس کے بعد تقویٰ کی طرف سب کو دعوت دی ہے اورفرمایا ہے کہ عدم تقویٰ شعائر اللہ کی توہین ناقابل برداشت ہے اور موجب غضب الٰہی ہے۔
اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو۔پھراگر تم روکے جاؤ تو جو کچھ میسر ہو، قربانی بھیج دو اوراپنے سر نہ منڈاؤ۔ جب تک قربانی اپنی جگہ میں نہ پہنچے۔۱؎ پھرجوکوئی تم میں سے بیمار ہو یا اس کے سرمیں کوئی دکھ ہو تو چاہیے کہ وہ فدیہ دے۔ روزہ یا صدقہ یا ذبیحہ۔ پھر جب تم امن پاؤ تو جس نے حج کے ساتھ عمرہ ملاکر فائدہ اٹھایا ہے ۔۲؎ اس کو چاہیے کہ جو کچھ میسر ہو، قربانی دے۔پھرجس کو قربانی میسر نہ ہو وہ حج کے دنوں میں تین روزے رکھے اور سات روزے اس وقت رکھے جب تم اپنے گھر وں کو لوٹو۔ یہ پورے دس دن ہوگیے۔یہ حکم اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ ہوں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جانو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔(۱۹۶)
۱؎ حج فرض ہے اور عمرہ محض تطوع، عمرہ دراصل آداب زیارت کا نام ہے ۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ حج وعمرہ جب شروع کیاجائے تو پھر اس میں شروط ولوازم کا خیال رکھا جائے اور کوئی بات ایسی نہ اختیار کی جائے جس سے نقص لازم آئے اور اجر وثواب میں کمی ہو۔اگرراستے میں کسی سبب سے زائر یا حاجی رک جائے اور آگے نہ جاسکے تو وہیںاحرام کھول دے اور میسر قربانی کردے۔ احصار میں چونکہ لغۃً اختلاف ہے ۔ اس لیے قضا میں بھی اختلاف ہے بعض کے نزدیک احصار عام ہے ۔ مرض اور دشمن دونوں اس میں داخل ہیں اور بعض کے نزدیک صرف دشمن۔ بہرحال جب لغوی معنوں میں وسعت موجود ہے تو پھر اس کو قائم رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد ایک عام حکم ہے کہ جب تک قربانی کا جانور حرم میں نہ پہنچ جائے تم احرام باندھے رہو، البتہ اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے یا اس کے سرمیں تکلیف ہو اور وہ سرمنڈانا چاہے تو پھر وہ بطور فدیہ کے تین روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور یا ایک بکری ذبح کرے۔ جیسا کہ کعب رضی اللہ عنہ بن عجرہ کے واقعہ سے ظاہر ہے کہ جب اس کے سرمیں جو ئیں پڑگئیں تو حضور اکرم ﷺ نے سرمنڈانے کی ان شرائط کے ماتحت اجازت دے دی جو اوپر مذکور ہیں۔آداب حج
۲؎ حج کی تین قسمیں ہیں:افراد، تمتع اور قران۔افراد وہ حج ہے جس میں قران وتمتع نہ ہو۔تمتع کی صورت یہ ہے کہ اشہر حج میں کوئی عمرہ کے آداب سے فارغ ہوجائے ۔پھرانہیں مہینوں میں حج کا احرام باندھے۔قران یہ ہے کہ نسکین کو اکٹھا ادا کرے۔فقہاء کا اختلاف ہے اس امر میں کہ تینوں صورتوں میں افضل کون ہے۔ بعض کے نزدیک افراد افضل ہے ، بعض کے نزدیک تمتع اور بعض کے نزدیک قران۔ ان آیات میں تمتع کا ذکر ہے اور یہ اس لیے کہ قریش تمتع کو درست نہیں جانتے تھے۔ تمتع میں چونکہ ترتیب حج پر اثر پڑتا ہے اس لیے ہدی ضروری قراردی ہے۔ جو شخص معذور ہویعنی وہ ہدی نہ لاسکے۔ وہ دس روزے رکھے۔ تین ایام حج میں اور سات لوٹ کر یا لوٹتے ہوئے۔ اس میں اختلاف ہے ۔حج کی تین قسمیں
تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ عشرہ کہہ دینے کے بعد کاملہ کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ؟کیا کوئی عشرہ ناقصہ بھی ہوتا ہے ؟ جب اعداد میں تعیین یقینی وقطعی ہے توپھر اس زیادت کا فائدہ؟ جواب یہ ہے کہ عشرہ کی صورت میںہوسکتا تھا کہ کوئی تخیر کا مفہوم لے لے۔ یعنی یہ سمجھ لے کہ تین یاسات میں جس صورت کو چاہے، اختیار کرلے۔ حالانکہ مطلب یہ نہیں۔ مبرد کا خیال ہے۔ یہ تاکید ہے جو عربی اصول کے بالکل مطابق ہے ۔ عرب کہتے ہیں۔ کَتَبْتُ بِیَدِیْ حالانکہ ہمیشہ ہاتھ سے ہی لکھا جاتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ مقصدیہ ہو کہ اس میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ یہ روزے قربانی کی پوری نیابت کریں گے۔ ذٰلک کا مشار الیہ یا تو نفس تمتع ہے اور یا حکم۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مقامی لوگوں کو تمتع کی اجازت نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے ۔ دوسری صورت میں مقصد یہ ہوگا کہ مقامی آدمی کے لیے تمتع کی صورت میں قربانی ضروری نہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے تلامذہ اسی طرف گیے ہیں۔ اس کے بعد تقویٰ کی طرف سب کو دعوت دی ہے اورفرمایا ہے کہ عدم تقویٰ شعائر اللہ کی توہین ناقابل برداشت ہے اور موجب غضب الٰہی ہے۔