• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اکیسویں صدی اور تعلیم

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
اکیسویں صدی اور تعلیم​

[SUP]دی نیوز ٹرائب :Usman Kazmi Mar 15th, 2013 [/SUP]

میں حیران تھا کہ 87 سالہ یہ شخص اب بھی گھنٹوں کھڑے ہو کر لیکچر دے سکتا ہے — ڈاکٹر مہاتیر محمّد کو لائیو سننے کا یہ میرا دوسرا موقع تھا ۔ اسی سال 7 مارچ کو وہ یونیورسٹی ٹیکنالوجی پیٹروناس ملائیشیا میں لیکچر دینے آئے تھے —- ان کا موضوع تھا ” گریجوایٹس ان ٹوینٹی فرسٹ سنچری

انہوں نے دھیمے اور نرم لہجے سے گفتگو کا آغاز کیا اوراپنے بچپن کا تذکرہ کیا کہ اس دور میں لوگ ایک سادہ سی زندگی گزارتے تھے —– یونیورسٹی کی تعلیم کا تصور نہیں تھا بس پرائمری تک کی تعلیم کو کافی سمجھا جاتا تھا —- چونکہ اس وقت ترقی کا معیار اتنا بلند نہیں تھا اس لئے ضرورتیں بھی محدود تھیں اور لوگ چھوٹی موٹی نوکری کر کے گزارہ کر لیا کرتے تھے لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملائیشیا نے بھی حالات کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو بھانپا اور تعلیم کی طرف توجہ دینا شروع کی —– یونیورسٹیز بننا شروع ہوئیں، تعلیم عام ہو گئی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے پورا معاشرہ بدل گیا۔

ڈاکٹرمہاتیرنے اپنی بات کو سائنسی ترقی کی طرف موڑا کہ کس طرح سائنس نے دنیا کی خدمت کی اور کس طرح ایجادات کا سفرجاری وساری ہے- اگرچہ آج ہم اکیسویں صدی کے جدید ترین دورمیں جی رہے ہیں لیکن ممکن ہے کہ مستقبل میں ہمیں بھی بیک ورڈ اور سادہ زندگی گزارنے والوں کی فہرست میں شمار کیا جائے کیونکہ دن بدن ترقی ہو رہی ہے اور آج کا سائنسی سچ کل کا جھوٹ ہو سکتا ہے —- آج دنیا کوجو قابل قبول ہے ممکن ہے کل وہ رد کر دیا جائے۔

تھوڑے سے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوئے —- آپ تعلیم حاصل کرنے کو ایک لائف ٹائم پیشہ بنا لیں —- اگرآپ نےخود کو متعلقہ فیلڈ میں اپ گریڈ نہ رکھا توآپ معاشرے کے لئے بے سود ثابت ہوں گے —- جدید دورمیں رہنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کرتے رییں —– ڈگری کسی تعلیم کے اختتام کا نام نہیں بلکہ تعلیم کی پیاس تومرتے دم تک رہنی چاہیئے

انگلش زبان کی اہمیت کے بارے میں انہوں نے کہا —– اگرآپ اکیسویں صدی میں انگلش سے ناواقف ہیں تو آپ علم کے ایک بہت بڑے ذخیرے سے محروم ہیں— تمام نئی ایجادات اور ریسرچ پپرز انگلش میں ہی چھپتے ہیں — آج نالج کی زبان انگلش ہے اس لئے انگلش کو ہی ذریعہ تعلیم بنانا چاہیئے —– ایک وقت تھا جب نالج کی زبان عربی تھی تو لوگ عربی سیکھتے تھے —- یورپی دنیا نے بھی اس زبان کو سیکھا اور قرطبہ و بغداد کی لائبریریوں سے علم کے موتی چنے اورجدید یورپی سویلائزیشن کی بنیاد رکھی —- مسلم عرب نے تحقیق کے جس سفر کو چھوڑا یورپ نے اس سفر کو جاری رکھا اور آج یورپ دنیا کی ہر فیلڈ میں بہت آگے کھڑا نظر آتا ہے —–

انہوں نے اس بات پر خوب زور دیا کہ سویلائزیشن صرف اور صرف تعلیم کے ذریعے آ سکتی ہے— انہوں نے کوریا اور جاپان کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ آج سے تیس سال پہلے کوریا کہاں تھا اور آج کہاں کھڑا ہے —- آج سام سنگ کی پراڈکٹس ایپل کا مقابلہ کر رہی ہیں —– اسی طرح جاپان کی ترقی بھی سب کے سامنے ہے اوریہ سب ایجوکیشن کے ذریعے ممکن ہوا۔

اکیسویں صدی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اب وہ دورنہیں رہا جب لوگ چاول اورسبزیاں کاشت کر کے مطمئن ہو جایا کرتے تھے —- آج ایسا ہر گز نہیں —- اب یہ دنیا ہرکسی کے لئے ایک چیلنج بن گئی ہے اوراگر آپ محدود دائرے کے اندر رہ کر سوچیں گے تو کبھی اس چیلنج کا سامنا نہیں کر پائیں گے —- آپ کو اپنی سوچ کا دائرہ بڑھانے کے لئے نالج بڑھانا ہو گا اور وہ نالج حاصل کرنا ہو گا جو ترقی کی طرف گامزن کرے نہ کہ وہ نالج جو راتوں رات امیر بنانے کے طریقے سکھائے —– اگر آپ اپنی تعلیم کو مثبت سمت دے دیں —- محنت سے جی نہ چرائیں اور اپنا نالج اپ ٹو ڈیٹ رکھیں تو آپ اکیسویں صدی کے تقاضے بحسن خوبی نبھا سکتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تعلیم سے فراغت کے بعد اپنی زندگی میں ڈسپلن لانے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کچھ عرصہ جاب کریں پھر بیشک بزنس وغیرہ کا سوچیں —– ایک اور سوال جوان سے پوچھا گیا وہ موضوع سے ذرا ہٹ کے تھا —- اس سوال میں ایک پہلو دہشت گردی کا بھی تھا —- اور دہشت گردی کا نام سنتے ہی ہال میں موجود تمام پاکستانی اسٹوڈنٹس کے کان کھڑے ہو گئے —- انہوں نے بڑے تحمل سے جواب دیا کہ اگر کوئی بھی چاہے وہ مسلم ہو یا نان مسلم ، مشرق سے ہو یا مغرب سے — جو بھی معصوم لوگوں کی جان لے وہ دہشت گرد ہے اور انہوں نے برملا کہا کہ جو ایٹم بم ، میزائل اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے بڑے پیمانے پر بے گناہ لوگوں کو مار رہے ہیں وہ زیادہ بد تر دہشت گرد ہیں —– پھر انہوں نے پاکستانی معاشرے میں ضبط و تحمل کی کمی کا افسوس کرتے ہوئے شعیہ سنی فساد کا تذکرہ کیا —- اورکہا کہ ہمیں دیکھیں ملائیشیا میں تین قومیں آباد ہیں — تینوں کا مذہب مختلف —– تینوں کا لباس مختلف —– اور تینوں کی زبان مختلف — لیکن پھر بھی متحد ہیں اور جس دن یہ اتحاد ٹوٹا ملائیشیا بھی غیرمستحکم ہو جائے گا —– انہوں نے کہا کہ اگرآپ بھی ایک دوسرے کے نقطہ نظر کواحترام کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیں تو آپ بھی پرامن زندگی گزارسکتے ہیں۔

لیکچر کے اختتام پہ میں سوچ رہا تھا کہ ہمیشہ اچھی تعلیم کے نتیجے میں ہی اچھے لیڈر پیدا ہوتے ہیں —- اکیسویں صدی میں اگر ہم بھی پاکستان کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ایجوکیشن ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے—– ہمیں ان لیڈرز کو سپورٹ کرنا ہو گا جو قوم کو ایجوکیٹ کرنا چاہتے ہیں اور جو تعلیم کے ذریعے معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں —- اگرہم ایسے لیڈر چننے میں کامیاب ہو گئے توایک نیا پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرسکتا ہے۔
 
Top