جمعہ اور عید ایک دن پڑے تو کیا کرنا چاہئے؟
’’ عن إياس بن ابي رملة الشامي قال: شهدت معاوية بن ابي سفيان وهو يسال زيد بن ارقم قال: اشهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عيدين اجتمعا في يوم؟ قال: نعم قال: فكيف صنع؟ قال: صلى العيد ثم رخص في الجمعة فقال: " من شاء ان يصلي فليصل ".(سنن ابی داود ، باب إذا وافق يوم الجمعة يوم عيد
باب: جمعہ اور عید ایک دن پڑے تو کیا کرنا چاہئے؟۔۔۔۔حدیث نمبر: 1070
ایاس بن ابی رملۃ شامی کہتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، معاویہ نے پوچھا: پھر آپ نے کس طرح کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: ”جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے ۱؎“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/العیدین ۳۱ (۱۵۹۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۶۶ (۱۳۱۰)، (تحفة الأشراف: ۳۶۵۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۷۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۲۵ (۱۶۵۳) (صحیح) وضاحت: ۱؎ : اس سلسلے میں وارد تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ذاتی طور پر مسلمان کو اختیار ہے کہ عید کی نماز کے بعد چاہے تو جمعہ نہ پڑھ کر صرف ظہر پڑھ لے اسی طرح جس مسجد میں جمعہ نہیں قائم ہوتا اس میں لوگ ظہر پڑہ لیں، لیکن جس مسجد میں جمعہ قائم ہوتا ہو وہاں جمعہ قائم ہو گا، کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیز عثمان رضی اللہ عنہ نے عام لوگوں کو جمعہ کی چھوٹ دے کر فرمایا: ’’ہم تو جمعہ پڑھیں گے‘‘۔
...................................
سنن ابی داود ، حدیث نمبر: 1071
’’ حدثنا محمد بن طريف البجلي حدثنا اسباط عن الاعمش عن عطاء بن ابي رباح قال: صلى بنا ابن الزبير في يوم عيد في يوم جمعة اول النهار ثم رحنا إلى الجمعة " فلم يخرج إلينا فصلينا وحدانا " وكان ابن عباس بالطائف فلما قدم ذكرنا ذلك له فقال: اصاب السنة.
(سنن ابی داود ،)
عطاء بن ابورباح کہتے ہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ہمیں جمعہ کے دن صبح سویرے عید کی نماز پڑھائی، پھر جب ہم نماز جمعہ کے لیے چلے تو وہ ہماری طرف نکلے ہی نہیں، بالآخر ہم نے تنہا تنہا نماز پڑھی ۱؎ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت طائف میں تھے، جب وہ آئے تو ہم نے ان سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے کہا: انہوں (ابن زبیر رضی اللہ عنہ) نے سنت پر عمل کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/صلاة العیدین (۸۸۶)، (تحفة الأشراف: ۵۸۹۶) (صحیح) وضاحت: ۱؎ : یعنی ظہر پڑھی کیونکہ جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے اس کے بغیر جمعہ صحیح نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابی داود، حدیث نمبر: 1073
عن ابي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: " قد اجتمع في يومكم هذا عيدان فمن شاء اجزاه من الجمعة وإنا مجمعون ". قال عمر: عن شعبة.(سنن ابی داود ،)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے آج کے اس دن میں دو عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں، لہٰذا رخصت ہے، جو چاہے عید اسے جمعہ سے کافی ہو گی اور ہم تو جمعہ پڑھیں گے“۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۶۶ (۱۳۱۱)، (تحفة الأشراف: ۱۲۸۲۷) (صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر: 1311
عن ابي صالح عن ابن عباس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال:"اجتمع عيدان في يومكم هذا فمن شاء اجزاه من الجمعة وإنا مجمعون إن شاء الله".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے آج کے دن میں دو عیدیں جمع ہوئی ہیں، لہٰذا جو جمعہ نہ پڑھنا چاہے اس کے لیے عید کی نماز ہی کافی ہے، اور ہم تو ان شاءاللہ جمعہ پڑھنے والے ہیں“۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ۵۴۱۹، ومصباح الزجاجة : ۴۶۱) (صحیح) (ابوداود : ۱۰۷۳)