- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرجسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 26-ربیع الثانی- 1434کا خطبہ جمعہ " اہم پیغام مسلم حکمران اور عوام کے نام" کے عنوان پر دیا،جس میں انہوں نے حکمران اور عوام الناس کیلئے قرآن و حدیث کے مطابق انتہائی اہم نصیحتیں پیش کیں۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اس کی اطاعت کی جائے تو ہمہ قسم کی خیر و برکات حاصل ہوتی ہیں، اور اگر اسکی نافرمانی کی جائے تو تباہی اور بربادی ہی مقدر بنتی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، وہی آسمان و زمین کا پرودگار ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ، انبیاء کے سربراہ اور تمام مخلوقات سے افضل ہیں، اللہ تعالی ان پر ، انکی آل ، انکے صحابہ کرام پردرود ، سلام بھیجے۔
حمد و ثنااور درود و سلام کے بعد!
مسلمانو!میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں نعمتِ تقوی خیر و برکات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، اسی سے تنگی آسانی میں بدل جاتی ہے، اور تکلیف کے بعد فراوانی میسر ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
اور جو شخص اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کےلئے اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے [الطلاق: 4]۔
مسلمانوں کو بہت ہی سنگین فتنوں کا سامنا ہے اسی بارے میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (قیامت کے قریب عمل کم ہو جائیں گے، لالچ بڑھ جائے گی، اور فتنے بپا ہونگے)
ذرا توجہ کریں! آپس میں اختلاف و انتشار، دنیا داری میں پڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والا حسد و بغض یہ خطرناک ، نقصان دہ اور سب سے بڑے فتنے ہیں جو آج اکثر مسلم معاشروں میں پھیل رہے ہیں ، ان معنوی بیماریوں کی وجہ سے نا قابل تلافی نقصان امتِ مسلمہ کو اٹھانا پڑا ہے، انہی کی وجہ سے امن و امان کی دگر گوں صورتِ حال پیدا ہوئی ، انہیں کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، عزت و احترام کو تار تار کیا گیا اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا، اور معاملہ یہاں تک جاپہنچا کہ مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرے خلاف اسلحہ تان لیا، اور اپنے ہی مسلمان بھائی کی عزت آبرو کو خاک میں ملادیا یہ ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان صادق آتا ہے:
يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ
وہ خود ہی اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے [الحشر: 2]
اور اسی بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (ایک دوسرے کے قتل و غارت میں مشغول ہو کر میرے بعد کفر میں مت لوٹ جانا )
سنو! اگر ان فتنوں سے بچنا چاہتے ہو تو اسلامی اصول و ضوابط کا پابند ہونا پڑے گا، انکی پاسداری کرنا ہوگی، یہ ہی یکتا اور فرید راستہ ہے جس پر چل کر ہم فتنوں سے بچ سکتے ہیں اور ان سنگین بحرانوں سے نکل سکتے ہیں۔
ان اصول و ضوابط میں سے:
1) سب سے پہلے ہم یقین کریں کہ فساد کی جڑ اسلامی منہج سے دوری ہے، اللہ کی اطاعت میں سستی کرنا ہے، اسلامی احکام کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے یہ سب کچھ مسلمانوں پر آن پڑا ہے۔
کیا ہمارے رب نے فرمایا نہیں؟!
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائیں یا انھیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے؟! [النور: 63]
اللہ عز و جل سے ڈرنا ، اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا، اور قرآن کریم کو اپنا دستور بنانا ہی نجات کا راستہ ہے اسی کشتی میں سوار ہوکر ہم بچ سکتے ہیں فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا۔[2] اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے [الطلاق: 2، 3]
توحید خالص کے تقاضوں کو پورا کرنا، رب العالمین کی شریعت نافذ کرناہی امن و امان کی بنیادی کلید ہے، اسی بارے میں اللہ نے فرمایا:
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ
جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا، انہی کے لیے امن و سلامتی ہے اور یہی لوگ راہ راست پر ہیں [الأنعام: 82]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو وصیت کی تھی اور وہ ہر وقت اور جگہ پرمسلمانوں کیلئے موزوں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (اللہ کے حقوق کی تم حفاظت کرو ؛اللہ تمہارے حقوق کی حفاظت کرےگا)، اے مسلمان! اللہ کو ہمیشہ یاد رکھ، امتِ مسلمہ!! اسلام کی حفاظت کرو، احکامِ قرآن کی حفاظت کرو، آل عدنان کے سربراہ -صلی اللہ علیہ وسلم-کے طریقے کی حفاظت کرو، رحمن کی جانب سے آپکا بھی خیال کیا جائے گا، عنائتیں بھی ہونگی اور حقوق کی حفاظت بھی کی جائے گی۔
آج پوری امتِ اسلامیہ کیلئے بڑی ہی شرمندگی والی ہے بات ، کہ امت نے سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کو چھوڑ دیا ہے، اسی لئے تو پوری دنیا مسلمانوں کی بد حالی دیکھ کر مزے لے رہی ہے ، پیارے پیغمبر نے فرمایا تھا، (میں تمہارے لئے قرآن و سنت چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم انہیں مضبوطی سے تھام لو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے) روایت کی سند صحیح ہے۔
کتنی کانفرنسیں بلائی جاتی ہیں، مسلم عوام اور انکے حکمرانوں کی کتنی بارملاقاتیں ہوتی ہیں، لیکن جس سے اس امت کی اصلاح ہو انکی آنکھوں کو کوئی اسلامی راہنمائی نظر ہی نہیں آتی!!!
ابھی وقت ہے -حکمرانوں اور عوام الناس سب سن لو- اگر ہم اپنا بھلا چاہتے ہیں، امن و امان قائم کرنا چاہتے ہیں، اپنے معاملات درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پوری مضبوطی ، اخلاص اور سچے دل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو پکڑنا ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ سے ہمیشہ ڈرتے رہو، حکمران کی بات سنو اور اس پر عمل بھی کرو، چاہے کسی حبشی غلام کو ہی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے، میرے بعد تمہیں بہت سے اختلافات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ ایسی حالت میں میرے طرزِ زندگی اور خلفائے راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام کر رکھنا، -ہاتھوں سے نکلنے لگے تو- اپنی داڑھوں سے پکڑ لینا، دھیان سے اپنے آپ کو نئے طریقوں سے بچانا، اس لئے کہ ہر نیا طریقہ گمراہی ہے) اہل علم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔
مسلمانو!
2) فتنہ بپا ہونے کے وقت جن بنیادی قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا ضروری ہے ان میں یہ بھی ہے کہ : ہم آپس میں ایمانی اخوت اور بھائی چارے والا تعلق مزید مضبوط کریں ، ہمیں یہ یقین ہو کہ ایمان کا مضبوط ترین کڑا اللہ کیلئے محبت کرنا ہے، -اصل مسئلہ اسی بات کا ہےکہ - اس کو اب قائم کیسے کیا جائے؟ اکثریت تو دنیا داری میں ڈوب چکی ہے!!
صحیح مسلم میں ہے نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ امت ابتدائی ادوار میں کامیاب رہے گی، جبکہ آخری دور میں بہت سی آزمائشیں اور ایسے معاملات ہونگے جو تمہیں ناگوار ہو نگے، ایک سے بڑھ کر ایک فتنہ بپا ہوگا، مؤمن ایک فتنہ کو دیکھ کر کہے گا: "لگتا ہے اس سے میں نہیں بچ پاؤں گا" لیکن یہ چھٹ جائے گا اور نیا فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا، مؤمن پھر کہے گا: "اب کی بار نہیں بچ پاؤں گا" ایسے حالات میں جو جہنم کی آگ سے بچنا چاہے، اور جنت میں داخل ہونے کا خواہش مند ہوتو ، اسے چاہئے کہ اسے موت آئے تو وہ ایمان کی حالت میں ہو، اور -اخلاقی اقدار اتنی بلند ہوں کہ- لوگوں سے ایسے ہی پیش آئے جیسے وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے) صحیح مسلم
یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی علامت ہے، کیونکہ ایسے ہی ہوا جیسے آپ نے فرمایا، ہماری امت ایک فتنے سے نکلتی ہے تو دوسرا فتنہ سر پر آن پہنچتا ہے۔ -ولا حول ولا قوة إلا بالله-.
مسلمان بھائیو!
3) تمام مسلم حکمرانوں کیلئے ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی ملک کی رعایاہوں قرآن اور پیارے نبی -صلی اللہ علیہ وسلم- کے فرمان کو یاد رکھیں، اس امت اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے اسلام نے جو حاکم اور رعایا کے حقوق رکھے ہیں انہیں پہچانیں، سنو!تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی ان قوانین کی دو طرفہ پاسداری کی گئی تو تب ہی چہار سو امن و سکون پھیلا ، ملک و قوم نے ترقی کی منزلیں طے کیں، اور ہر جگہ خوشیاں بکھر گئیں، اور جب ان پر عمل کرتے ہوئے کسی ایک جانب سے بھی سستی ہوئی ، تو فتنے بپا ہوئے، امن و امان خطرے میں پڑ گیا۔
4) انہی قواعد و ضوابط میں یہ بھی شامل ہے کہ ہر حکمران چاہے اسکا تعلق کسی بھی ملک سے ہو، اس پر واجب ہے کہ اپنے کندھوں پر پڑنے والی امانت اور ذمہ داری کو پورے اخلاص اور اللہ تعالی کو نگہبان جان کر ادا کرے ، اللہ تعالی کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھے جو اللہ تعالی نے اپنے نبی داود علیہ السلام کو بھیجا تھا:
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ
(ہم نے ان سے کہا) اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں نائب بنایا ہے لہذا لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کرنا اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرنا ور نہ یہ بات تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔ [ص: 26]
ہر حاکم کی ذمہ داری ہے -چاہے کوئی بادشاہ ہے، یا امیر ہے ، یا لیڈر ہے- دل و جان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو یاد رکھے جو آپ نے امارت کے بارے میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (یہ امانت ہے، اور قیامت کے دن رسوائی اور ندامت کا باعث ہے، ہاں وہ بچ جائے گا جس نے اپنے آپ کو حقدار سمجھتے ہوئے لیا، اور پھر اس کے نتیجے میں آنیوالی تمام ذمہ داریوں کو اپنا فرض سمجھ کر ادا بھی کیا)اسے مسلم نے بیان کیاہے۔
حکمرانو! کیا سمجھتے ہو کہ دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے !!؟؟ یہ دنیا فانی ہے حکمران ہو ں یا رعایا سب نے یہاں سے جانا ہے۔
ہر حکمران کا شعار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہو: (کسی کو اللہ نے حکمران بنایا اور اس نے اپنی رعایا سے دھوکہ دہی کی اور وہ اسی حالت میں مر گیا، تو اللہ تعالی نے اسکے لئے جنت کی خوشبو بھی حرام کردی ہے) مسلم
مسلمان حاکم !! اختیار اب تمہارے پاس ہے، اپنی جگہ مقرر کر لیں جنت میں لینی ہے یا جہنم میں؟ آپ کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں صاف صاف بتلا دیا ہے۔
5) تمام حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہے،کہ وہ مسلم ممالک میں عدل و انصاف کو قائم کریں، ظلم سے بچیں چاہے وہ کسی بھی شکل و صورت میں ہو، کبھی یہ ظلم وہ خود تو نہیں کرتے لیکن انکے مشیر و وزیر اور حواری حضرات کرتے ہیں ، ایسی شکل میں بھی حاکم ہی سے پوچھا جائے گا، حدیثِ قدسی ہے (میں نے ظلم اپنے لئے حرام قرار دے دیا ہے، اور اسے تمہارے مابین بھی حرام بنایا ہے)
عدل و انصاف ہی کی صورت میں حاکم اور رعایا امن و سکون پا سکتے ہیں، جبکہ ظلم سے شر و فساد ہی پھیلتا ہے، دلوں میں حسد و کینہ پیدا ہوتا ہے، -اگر دل نہ مانے تو- اس وقت مسلم ممالک میں روز بروز ہونے والے مظاہرے اس بات کی واضح دلیل ہیں جس پر نبوی مہر ثبت ہے۔
6) حکمران کیلئے ضروری ہے کہ اپنی رعایا کے حالات کے بارے میں معلومات لے، اس امر کا خاص خیال بھی رکھے کہیں بعد میں پچھتانا پڑے، اپنے اور رعایا کے درمیان کو ئی رکاوٹ نہ کھڑی کرے، جب بھی ایسا ہوا تو حاکم اور رعایا کے درمیان فساد بپا ہو جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ نے کسی کو مسلمانوں کے معاملات کی ذمہ داری دی اور اُس نے اِنہیں اپنی ضرورت و حاجت پیش کرنے کا موقع نہیں دیا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اسکی ضرورت و حاجت پیش کرنے کا موقع نہیں دے گا)
7) حکمران پر یہ بھی لازم ہے کہ برائیوں اور تعصب سے بالکل کنارہ کش ہو جائے، متقی ،پرہیز گار ، اطاعت گزار، نیک صالح افراد کو مسلمانوں کے معاملات کی باگ ڈور تھمائے، جو لوگوں کیلئے خیر تلاش کرتے ہوں اور امین بھی ہوں،لوگوں کے دلوں کو ایک جگہ اکٹھے کرنے کی جن میں صلاحیت ہو، لوگوں میں انتشار نہ پھیلائیں، ملک و قوم کی ترقی کیلئے کام کریں اِسے ناکام ریاست نہ بنائیں، اسی لئے اگر وزیر و مشیر برے لوگ بن جائیں تو شربڑھ جاتا ہے، اور خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی ہے، اس بارے میں بھی تاریخ بہت بڑی گواہی ہے، ان واقعات سے نصیحت پکڑنی چاہئے، اگر اب بھی کوئی نصیحت نہ لے تو کب لے گا؟!
امام حاکم رحمہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کیا ہے فرمایا: (جس نے بھی کسی نالائق پارٹی پر ذمہ داری ڈالی اوروہ اُن سے بہتر پارٹی کے بارے میں جانتا تھا ، یقینا اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیانت کی اور مؤمنوں کی بھی خیانت کی)
حکمرانو! اللہ سے ڈرو، ایسی غلطی کر کے کسی کی دنیا کو بناتے ہوئے اپنے دین کو تباہ و برباد نہ کر لینا۔
8) حکمران کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ اس دنیا کی گرفت ہر زمانے میں دلوں پر بڑی مضبوط رہی ہے، اوراسی لئے معاشرے میں بگاڑ اسی وقت آتا ہے جب دنیاوی حرص و ہوس بڑھ جائے اور کرسی کے حصول کیلئے ہاتھ پاؤں مارے جائیں۔
لہذا جسے اللہ نے اس دنیا میں حکمرانی دی ہے وہ دنیا بنانے اور جمع کرنے میں نہ لگا رہے، اور نہ ہی اپنی رعایا کو بھولے، صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو کوئی بھی اللہ کے مال سے ناحق لے گا اس کیلئے قیامت کی دن آگ تیار ہے) اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر اس فرمان کو نافذ کرتے ہوئے فرمایا: (اللہ کی قسم! میں کسی کو مال و دولت سے نوازوں یا محروم رکھوں یہ سب میرے اختیار میں نہیں میں تو صرف وہاں تقسیم کرتا ہوں جہاں مجھے حکم دیا جاتاہے)
اسی لئے آپکی ان عملی اور قولی تعلیمات کے باعث ابو بکر اور عمر فاروق جیسے صحابہ کرام پیدا ہوئے، عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت اٹھا کر دیکھو، ان سے عرض کی گئی: امیر المؤمنین! آپ اللہ کے مال سے اپنی ذات کیلئے کچھ زیادہ لے لیا کریں، -یہ ہیں وہ عمر جنہوں نے اپنے لئے تنگی برداشت کر لی اور اپنی رعایا کو اپنی جان سے مقدم سمجھا- جواب میں کہا: "میری اور انکی مثال کیسی ہے جانتے ہو؟! ہماری مثال ان مسافروں جیسی ہے جنہوں نے سفر میں اپنے پیسے اکٹھے کئے اور ایک شخص کو تھما دئے کہ انکی ضروریات کو پورا کرے، تو کیا اس شخص کیلئے جائز ہے کہ بقیہ لوگوں سے زیادہ اپنے آپ پر خرچ کرے؟"
9) حکمران پر ضروری ہے کہ، پانچ چیزوں کی حفاظت کرنے کیلئے تمام تر توانائی صرف کردے:
1- دین، 2-جان، 3- عقل، 4- عزت آبرو، 5- مال،
اور سب سے اہم دین کی حفاظت ہے؛ اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کیلئے پوری کوشش کرے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کرے، اور تمام معاملات کے حل کیلئے اللہ کی عنائت کردہ شریعت کو سُپریم جانے، اور اللہ کی شریعت کے منافی تمام کے تمام قوانین کو چھوڑدے، فسادیوں اور بدعتیوں کو ہتھکڑیاں لگائی جائیں، اور کسی کو مسلمانوں کے دین و دنیا خراب کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا
اور زمین میں (حالات کی) درستی کے بعد ان میں بگاڑ پیدا نہ کرو [الأعراف: 56]
اللہ کے بندو!
پورے معاشرے اور قوم کی ذمہ داری ہے کہ حکمرانوں کے حقوق بھی ادا کریں:
1) جس میں سب سے پہلے شرعی کاموں میں انکی اطاعت کرنا ہے ، اور اس وقت تک اس بات پر کار بند رہنا ہے جب تک اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے۔
2) شرعی اصولوں کے مطابق حکمران کو مخفی طور پر نصیحت بھی کریں ، اعلانیہ کرنے کی ضرورت نہیں اور اپنے انداز میں نرمی، دھیمہ لہجہ اور سوز پیدا کریں۔
3) اپنے حاکم کیلئے کامیابی ، بھلائی اور صحیح راستے پر چلنے کی دعا بھی کریں۔
4) سلطان اور حکمران کی عزت ، احترام، اور اسکی تکریم کرنا بھی رعایا کی ذمہ داری ہے، مسند احمد میں صحیح سند سے آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو اللہ کی طرف سے بنائے گئے حکمران کی عزت دنیا میں کرے اللہ تعالی قیامت کےد ن اسکی عزت افزائی فرمائے گا، اور جو اللہ کی طرف سے بنائے گئے حکمران کی اہانت دنیا میں کرے اللہ تعالی قیامت کےد ن اسکو رسوا فرمائے گا)
5) رعایا پر یہ بھی لازمی ہے کہ حاکم کے ظلم پر بھی صبر کرے، صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میرے بعد دیکھو گے کہ حکمران اپنے آپ کو ترجیح دیں گے، اور اسکے علاوہ بہت سے ناگوار امور پیش آئیں گے)انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں کیا حکم کرتے ہیں اس بارے میں؟ آپ نے فرمایا: (انہیں انکا حق دو اور اپنا حق اللہ سے مانگو)
6) اسی طرح رعایا پر یہ بھی لازم ہے کہ اس وقت تک حکمران کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے سے حتی الوسع بچنے کی کوشش کریں جب تک وہ صریح کفر کا ارتکاب نہ کر لے، اور اگر بغاوت کی ضرورت بھی پڑے تو ان تمام قوانین اور قواعد کو مد نظر رکھا جائے جنہیں علمائے کرام مقرر کریں، اس بارے میں کسی جاہل اور بے علم شخص کی بات پر کان نہ دھرا جائے، بخاری مسلم میں ہے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ہر حالت اور ہر وقت آپکی اطاعت کرنے کی بیعت کی، چاہے تنگی ہو یا فراخی، چاہے ہمیں نظر انداز کیا جائے ، اور اس بات پر بھی بیعت کی کہ کرسی کے حصول کیلئے جھگڑا نہیں کرینگے، آپ نے فرمایا: (ہاں اگر صریح کفر دیکھو جسے تم کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش کر سکو-تب انکی اطاعت نہیں کرنی-)
ایک اور بہت بڑا فتنہ جو مسلمانوں کو لاحق ہو گیا اور وہ ہے کفار کی مشابہت اختیار کرنا، اور خاص طور پر ان معاملات میں جو اسلام کے مخالف ہیں، اور اسلامی تعلیمات کے بالکل بر عکس ہیں، اس کے باعث مسلمانوں میں خطرناک بیماریاں پھیلی ، اسی وجہ سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا: اور کہا: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)
7) پُر فتن دور میں قابل ملاحظہ ضوابط میں یہ بھی شامل ہے کہ پورے معاشرے کے افراد ایسا اقدام کریں جس سے اتحاد اور اتفاق کی فضا پیدا ہو، لوگوں میں محبت کا درس پھیلائیں نفرتیں پیدا نہ کریں، اسی طرح پوری معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ صبر و تحمل کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے ہر اس کام کے اقدام سے دور رہیں جس کے نتائج بُرے نکل سکتے ہوں، اگر ایسا نہیں ہوا تو فتنے پھوٹ پڑیں گے، اور شر و فساد کو ہوا ملے گی۔
علماء کے مطابق فتنہ کی پیداوار دو طرح ہوتی ہے، یا تو حق پسِ پشت ڈالا جائے یا صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے،
وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
زمانے کی قسم[١] بلاشبہ انسان گھاٹے میں ہے[٢] سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔[العصر: 1- 3]
8) حاکم اور رعایا دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حِلم ، برد باری کو اپنا شعار بنائیں اور جلد بازی سے کام نہ لیں، اس انداز کے اپنانے سے معاملے کی حقیقت پہچاننا آسان ہو جاتی ہے، اور اسکا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جلد بازی کے کئے ہوئے فیصلے عموما ناگوار نتائج کا باعث بنتے ہیں۔
9) تمام لوگوں پر لازمی ہے کہ نرمی سے اپنے معاملات کو نمٹائیں، قواعدِ سنتِ محمدیہ میں ہے کہ: (جو بھی نرمی سے متصف ہوگا خوب رو بن جائے گا، اور جہاں سے نرمی غائب ہو جائے وہ بد صورت ہی رہ جاتا ہے، اسی لئے تو نرمی سر تا پا خیر ہی خیر ہے)
10) آخر میں مسلمانو! ان عظیم الشان نظام ِ زندگی کی حفاظت کرو اسی میں تمہاری دین و دنیا کی ترقی کے راز پنہاں ہیں، اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
احسانات کے باعث تمام تعریفیں اُسی اللہ کیلئے ہیں، شکر بھی اسی کا بجا لاتا ہوں جس نے ہمیں توفیق دی اور ہم پر اپنا احسان بھی کیا، میں اسکی عظمتِ شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ہیں ، انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے سب کو دعوت دی، یا اللہ ان پر انکی آل پر ، اور ان کے اصحاب پر درود و سلام بھیج۔
حمد و درودو سلام کے بعد!
اللہ عز وجل کاڈر اپنے دلوں میں پیدا کرلو دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جاؤ گے۔
اللہ کے بندو!
مسلمانوں نے جب توحید الہی کو قائم کردیا، ایمان کو تمام لوازمات اور تقاضوں کے مطابق مکمل قائم کردیا، اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہوگئے، اور اپنی زندگیوں میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو نافذ العمل کردیا، تو اللہ تعالی انکے لئے ہر غم کو ان سے چھٹ دے گا، اور ہر تکلیف سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا، اور انہیں ایسی جگہ سے رزق عنائت فرمائے گاجہاں سے انہیں گمان بھی نہ ہو، اور انہیں ہر قسم کے شر و گناہ سے بچا دے گا، اسی بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا
جو لوگ ایمان لائے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے انکا دفاع کرتا ہے [الحج: 38]
اللہ کے بندو!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بہترین عمل ہے، یا اللہ درود و سلامتی اور برکت نازل فرما ہمارے پیارے نبی محمد پر ، اور اللہ خلفائے راشدین اور ہدایت یافتہ ائمہ ابو بکر ، عمر ، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، تمام اہل بیت ، اور صحابہ کرام سے بھی راضی ہوجا، اور جو انکے راستے پر چل نکلیں ان سے بھی راضی ہو جا۔
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش ، یا اللہ! تمام مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ تمام مسلمانوں کی فتنوں سے حفاظت فرما، یا اللہ ان میں اتحاد پیدا کر دے، یا اللہ انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ ان پر سے غموں کے بادل چھٹ دے، یا اللہ انکی تکالیف کو دور فرما، یا اللہ انکی تیرے اور اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، ، یا اللہ انکی تیرے اور اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، یا اللہ انکی تیرے اور اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما۔
یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما، یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما، یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما، یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما۔
یا اللہ!یا حیی! یا قیوم! ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما، ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما، ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما۔
یا اللہ ہم مہنگائی ، بیماری ، زلزلے، تکالیف، ظاہری اور پوشیدہ فتنوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، جو زندہ ہیں انہیں بھی اور جو فوت ہو چکے ہیں انہیں بھی معاف فرما۔
یا اللہ ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی نصیب فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یااللہ اسے نیکی اور تقوی کے کاموں کا راستہ دکھا، یا اللہ اسکے نائب کو ہر اچھا کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ اسکا ہر عمل اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی رعایا کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔
یا اللہ مسلمانوں پر اس پُر فتن دور میں رحم فرما، یا اللہ مسلمانوں پر اس پُر فتن دور میں رحم فرما، یا اللہ ! انکے لئے ان فتنوں سے نکلنے کا راستہ بھی بنا، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما۔
یا اللہ ! یا حیی ! یا قیوم، یا ذا الجلال و الاکرام، ملکِ شام میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ مصر میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ تیونس میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، لیبیامیں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ یمن میں مسلمانوں کی حفاظت فرما،یا اللہ! انہیں شریعتِ اسلامیہ نافذ کرنے کی توفیق دے، یا اللہ ان میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ انکی صفوں میں اتحاد پیدا رفرما، یا اللہ انہیں جس چیز کی ضرورت ہے انہیں عنائت فرما۔
اللہ کے بندو!
اللہ کا ذکر صبح و شام کثرت سے کیا کرو۔
مترجم: شفقت الرحمن مبارک علی
مصدر :Khutba Of Masjid Nabvi In Urdu مسجد نبوی کا خطبہ جمعہ | Facebook
عربی خطبہ (نصائح للراعي والرعیۃ) سننے یا پڑھنے کے لیے یہاں تشریف لائیں
جزى الله كل من ساهم في هذا الخير خيرا ۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اس کی اطاعت کی جائے تو ہمہ قسم کی خیر و برکات حاصل ہوتی ہیں، اور اگر اسکی نافرمانی کی جائے تو تباہی اور بربادی ہی مقدر بنتی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، وہی آسمان و زمین کا پرودگار ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ، انبیاء کے سربراہ اور تمام مخلوقات سے افضل ہیں، اللہ تعالی ان پر ، انکی آل ، انکے صحابہ کرام پردرود ، سلام بھیجے۔
حمد و ثنااور درود و سلام کے بعد!
مسلمانو!میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں نعمتِ تقوی خیر و برکات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، اسی سے تنگی آسانی میں بدل جاتی ہے، اور تکلیف کے بعد فراوانی میسر ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
اور جو شخص اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کےلئے اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے [الطلاق: 4]۔
مسلمانوں کو بہت ہی سنگین فتنوں کا سامنا ہے اسی بارے میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (قیامت کے قریب عمل کم ہو جائیں گے، لالچ بڑھ جائے گی، اور فتنے بپا ہونگے)
ذرا توجہ کریں! آپس میں اختلاف و انتشار، دنیا داری میں پڑنے کی وجہ سے پیدا ہونے والا حسد و بغض یہ خطرناک ، نقصان دہ اور سب سے بڑے فتنے ہیں جو آج اکثر مسلم معاشروں میں پھیل رہے ہیں ، ان معنوی بیماریوں کی وجہ سے نا قابل تلافی نقصان امتِ مسلمہ کو اٹھانا پڑا ہے، انہی کی وجہ سے امن و امان کی دگر گوں صورتِ حال پیدا ہوئی ، انہیں کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، عزت و احترام کو تار تار کیا گیا اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا، اور معاملہ یہاں تک جاپہنچا کہ مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرے خلاف اسلحہ تان لیا، اور اپنے ہی مسلمان بھائی کی عزت آبرو کو خاک میں ملادیا یہ ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان صادق آتا ہے:
يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ
وہ خود ہی اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے [الحشر: 2]
اور اسی بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (ایک دوسرے کے قتل و غارت میں مشغول ہو کر میرے بعد کفر میں مت لوٹ جانا )
سنو! اگر ان فتنوں سے بچنا چاہتے ہو تو اسلامی اصول و ضوابط کا پابند ہونا پڑے گا، انکی پاسداری کرنا ہوگی، یہ ہی یکتا اور فرید راستہ ہے جس پر چل کر ہم فتنوں سے بچ سکتے ہیں اور ان سنگین بحرانوں سے نکل سکتے ہیں۔
ان اصول و ضوابط میں سے:
1) سب سے پہلے ہم یقین کریں کہ فساد کی جڑ اسلامی منہج سے دوری ہے، اللہ کی اطاعت میں سستی کرنا ہے، اسلامی احکام کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے یہ سب کچھ مسلمانوں پر آن پڑا ہے۔
کیا ہمارے رب نے فرمایا نہیں؟!
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائیں یا انھیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے؟! [النور: 63]
اللہ عز و جل سے ڈرنا ، اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا، اور قرآن کریم کو اپنا دستور بنانا ہی نجات کا راستہ ہے اسی کشتی میں سوار ہوکر ہم بچ سکتے ہیں فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا۔[2] اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں اسے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے [الطلاق: 2، 3]
توحید خالص کے تقاضوں کو پورا کرنا، رب العالمین کی شریعت نافذ کرناہی امن و امان کی بنیادی کلید ہے، اسی بارے میں اللہ نے فرمایا:
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ
جو لوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا، انہی کے لیے امن و سلامتی ہے اور یہی لوگ راہ راست پر ہیں [الأنعام: 82]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو وصیت کی تھی اور وہ ہر وقت اور جگہ پرمسلمانوں کیلئے موزوں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (اللہ کے حقوق کی تم حفاظت کرو ؛اللہ تمہارے حقوق کی حفاظت کرےگا)، اے مسلمان! اللہ کو ہمیشہ یاد رکھ، امتِ مسلمہ!! اسلام کی حفاظت کرو، احکامِ قرآن کی حفاظت کرو، آل عدنان کے سربراہ -صلی اللہ علیہ وسلم-کے طریقے کی حفاظت کرو، رحمن کی جانب سے آپکا بھی خیال کیا جائے گا، عنائتیں بھی ہونگی اور حقوق کی حفاظت بھی کی جائے گی۔
آج پوری امتِ اسلامیہ کیلئے بڑی ہی شرمندگی والی ہے بات ، کہ امت نے سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کو چھوڑ دیا ہے، اسی لئے تو پوری دنیا مسلمانوں کی بد حالی دیکھ کر مزے لے رہی ہے ، پیارے پیغمبر نے فرمایا تھا، (میں تمہارے لئے قرآن و سنت چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم انہیں مضبوطی سے تھام لو گے کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے) روایت کی سند صحیح ہے۔
کتنی کانفرنسیں بلائی جاتی ہیں، مسلم عوام اور انکے حکمرانوں کی کتنی بارملاقاتیں ہوتی ہیں، لیکن جس سے اس امت کی اصلاح ہو انکی آنکھوں کو کوئی اسلامی راہنمائی نظر ہی نہیں آتی!!!
ابھی وقت ہے -حکمرانوں اور عوام الناس سب سن لو- اگر ہم اپنا بھلا چاہتے ہیں، امن و امان قائم کرنا چاہتے ہیں، اپنے معاملات درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پوری مضبوطی ، اخلاص اور سچے دل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو پکڑنا ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ سے ہمیشہ ڈرتے رہو، حکمران کی بات سنو اور اس پر عمل بھی کرو، چاہے کسی حبشی غلام کو ہی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے، میرے بعد تمہیں بہت سے اختلافات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ ایسی حالت میں میرے طرزِ زندگی اور خلفائے راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام کر رکھنا، -ہاتھوں سے نکلنے لگے تو- اپنی داڑھوں سے پکڑ لینا، دھیان سے اپنے آپ کو نئے طریقوں سے بچانا، اس لئے کہ ہر نیا طریقہ گمراہی ہے) اہل علم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔
مسلمانو!
2) فتنہ بپا ہونے کے وقت جن بنیادی قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا ضروری ہے ان میں یہ بھی ہے کہ : ہم آپس میں ایمانی اخوت اور بھائی چارے والا تعلق مزید مضبوط کریں ، ہمیں یہ یقین ہو کہ ایمان کا مضبوط ترین کڑا اللہ کیلئے محبت کرنا ہے، -اصل مسئلہ اسی بات کا ہےکہ - اس کو اب قائم کیسے کیا جائے؟ اکثریت تو دنیا داری میں ڈوب چکی ہے!!
صحیح مسلم میں ہے نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ امت ابتدائی ادوار میں کامیاب رہے گی، جبکہ آخری دور میں بہت سی آزمائشیں اور ایسے معاملات ہونگے جو تمہیں ناگوار ہو نگے، ایک سے بڑھ کر ایک فتنہ بپا ہوگا، مؤمن ایک فتنہ کو دیکھ کر کہے گا: "لگتا ہے اس سے میں نہیں بچ پاؤں گا" لیکن یہ چھٹ جائے گا اور نیا فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا، مؤمن پھر کہے گا: "اب کی بار نہیں بچ پاؤں گا" ایسے حالات میں جو جہنم کی آگ سے بچنا چاہے، اور جنت میں داخل ہونے کا خواہش مند ہوتو ، اسے چاہئے کہ اسے موت آئے تو وہ ایمان کی حالت میں ہو، اور -اخلاقی اقدار اتنی بلند ہوں کہ- لوگوں سے ایسے ہی پیش آئے جیسے وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے) صحیح مسلم
یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی علامت ہے، کیونکہ ایسے ہی ہوا جیسے آپ نے فرمایا، ہماری امت ایک فتنے سے نکلتی ہے تو دوسرا فتنہ سر پر آن پہنچتا ہے۔ -ولا حول ولا قوة إلا بالله-.
مسلمان بھائیو!
3) تمام مسلم حکمرانوں کیلئے ضروری ہے چاہے وہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی ملک کی رعایاہوں قرآن اور پیارے نبی -صلی اللہ علیہ وسلم- کے فرمان کو یاد رکھیں، اس امت اور ملک و قوم کی بہتری کیلئے اسلام نے جو حاکم اور رعایا کے حقوق رکھے ہیں انہیں پہچانیں، سنو!تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی ان قوانین کی دو طرفہ پاسداری کی گئی تو تب ہی چہار سو امن و سکون پھیلا ، ملک و قوم نے ترقی کی منزلیں طے کیں، اور ہر جگہ خوشیاں بکھر گئیں، اور جب ان پر عمل کرتے ہوئے کسی ایک جانب سے بھی سستی ہوئی ، تو فتنے بپا ہوئے، امن و امان خطرے میں پڑ گیا۔
4) انہی قواعد و ضوابط میں یہ بھی شامل ہے کہ ہر حکمران چاہے اسکا تعلق کسی بھی ملک سے ہو، اس پر واجب ہے کہ اپنے کندھوں پر پڑنے والی امانت اور ذمہ داری کو پورے اخلاص اور اللہ تعالی کو نگہبان جان کر ادا کرے ، اللہ تعالی کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھے جو اللہ تعالی نے اپنے نبی داود علیہ السلام کو بھیجا تھا:
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ
(ہم نے ان سے کہا) اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں نائب بنایا ہے لہذا لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کرنا اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرنا ور نہ یہ بات تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔ [ص: 26]
ہر حاکم کی ذمہ داری ہے -چاہے کوئی بادشاہ ہے، یا امیر ہے ، یا لیڈر ہے- دل و جان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو یاد رکھے جو آپ نے امارت کے بارے میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (یہ امانت ہے، اور قیامت کے دن رسوائی اور ندامت کا باعث ہے، ہاں وہ بچ جائے گا جس نے اپنے آپ کو حقدار سمجھتے ہوئے لیا، اور پھر اس کے نتیجے میں آنیوالی تمام ذمہ داریوں کو اپنا فرض سمجھ کر ادا بھی کیا)اسے مسلم نے بیان کیاہے۔
حکمرانو! کیا سمجھتے ہو کہ دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے !!؟؟ یہ دنیا فانی ہے حکمران ہو ں یا رعایا سب نے یہاں سے جانا ہے۔
ہر حکمران کا شعار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہو: (کسی کو اللہ نے حکمران بنایا اور اس نے اپنی رعایا سے دھوکہ دہی کی اور وہ اسی حالت میں مر گیا، تو اللہ تعالی نے اسکے لئے جنت کی خوشبو بھی حرام کردی ہے) مسلم
مسلمان حاکم !! اختیار اب تمہارے پاس ہے، اپنی جگہ مقرر کر لیں جنت میں لینی ہے یا جہنم میں؟ آپ کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں صاف صاف بتلا دیا ہے۔
5) تمام حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہے،کہ وہ مسلم ممالک میں عدل و انصاف کو قائم کریں، ظلم سے بچیں چاہے وہ کسی بھی شکل و صورت میں ہو، کبھی یہ ظلم وہ خود تو نہیں کرتے لیکن انکے مشیر و وزیر اور حواری حضرات کرتے ہیں ، ایسی شکل میں بھی حاکم ہی سے پوچھا جائے گا، حدیثِ قدسی ہے (میں نے ظلم اپنے لئے حرام قرار دے دیا ہے، اور اسے تمہارے مابین بھی حرام بنایا ہے)
عدل و انصاف ہی کی صورت میں حاکم اور رعایا امن و سکون پا سکتے ہیں، جبکہ ظلم سے شر و فساد ہی پھیلتا ہے، دلوں میں حسد و کینہ پیدا ہوتا ہے، -اگر دل نہ مانے تو- اس وقت مسلم ممالک میں روز بروز ہونے والے مظاہرے اس بات کی واضح دلیل ہیں جس پر نبوی مہر ثبت ہے۔
6) حکمران کیلئے ضروری ہے کہ اپنی رعایا کے حالات کے بارے میں معلومات لے، اس امر کا خاص خیال بھی رکھے کہیں بعد میں پچھتانا پڑے، اپنے اور رعایا کے درمیان کو ئی رکاوٹ نہ کھڑی کرے، جب بھی ایسا ہوا تو حاکم اور رعایا کے درمیان فساد بپا ہو جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ نے کسی کو مسلمانوں کے معاملات کی ذمہ داری دی اور اُس نے اِنہیں اپنی ضرورت و حاجت پیش کرنے کا موقع نہیں دیا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اسکی ضرورت و حاجت پیش کرنے کا موقع نہیں دے گا)
7) حکمران پر یہ بھی لازم ہے کہ برائیوں اور تعصب سے بالکل کنارہ کش ہو جائے، متقی ،پرہیز گار ، اطاعت گزار، نیک صالح افراد کو مسلمانوں کے معاملات کی باگ ڈور تھمائے، جو لوگوں کیلئے خیر تلاش کرتے ہوں اور امین بھی ہوں،لوگوں کے دلوں کو ایک جگہ اکٹھے کرنے کی جن میں صلاحیت ہو، لوگوں میں انتشار نہ پھیلائیں، ملک و قوم کی ترقی کیلئے کام کریں اِسے ناکام ریاست نہ بنائیں، اسی لئے اگر وزیر و مشیر برے لوگ بن جائیں تو شربڑھ جاتا ہے، اور خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی ہے، اس بارے میں بھی تاریخ بہت بڑی گواہی ہے، ان واقعات سے نصیحت پکڑنی چاہئے، اگر اب بھی کوئی نصیحت نہ لے تو کب لے گا؟!
امام حاکم رحمہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کیا ہے فرمایا: (جس نے بھی کسی نالائق پارٹی پر ذمہ داری ڈالی اوروہ اُن سے بہتر پارٹی کے بارے میں جانتا تھا ، یقینا اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیانت کی اور مؤمنوں کی بھی خیانت کی)
حکمرانو! اللہ سے ڈرو، ایسی غلطی کر کے کسی کی دنیا کو بناتے ہوئے اپنے دین کو تباہ و برباد نہ کر لینا۔
8) حکمران کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ اس دنیا کی گرفت ہر زمانے میں دلوں پر بڑی مضبوط رہی ہے، اوراسی لئے معاشرے میں بگاڑ اسی وقت آتا ہے جب دنیاوی حرص و ہوس بڑھ جائے اور کرسی کے حصول کیلئے ہاتھ پاؤں مارے جائیں۔
لہذا جسے اللہ نے اس دنیا میں حکمرانی دی ہے وہ دنیا بنانے اور جمع کرنے میں نہ لگا رہے، اور نہ ہی اپنی رعایا کو بھولے، صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو کوئی بھی اللہ کے مال سے ناحق لے گا اس کیلئے قیامت کی دن آگ تیار ہے) اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر اس فرمان کو نافذ کرتے ہوئے فرمایا: (اللہ کی قسم! میں کسی کو مال و دولت سے نوازوں یا محروم رکھوں یہ سب میرے اختیار میں نہیں میں تو صرف وہاں تقسیم کرتا ہوں جہاں مجھے حکم دیا جاتاہے)
اسی لئے آپکی ان عملی اور قولی تعلیمات کے باعث ابو بکر اور عمر فاروق جیسے صحابہ کرام پیدا ہوئے، عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت اٹھا کر دیکھو، ان سے عرض کی گئی: امیر المؤمنین! آپ اللہ کے مال سے اپنی ذات کیلئے کچھ زیادہ لے لیا کریں، -یہ ہیں وہ عمر جنہوں نے اپنے لئے تنگی برداشت کر لی اور اپنی رعایا کو اپنی جان سے مقدم سمجھا- جواب میں کہا: "میری اور انکی مثال کیسی ہے جانتے ہو؟! ہماری مثال ان مسافروں جیسی ہے جنہوں نے سفر میں اپنے پیسے اکٹھے کئے اور ایک شخص کو تھما دئے کہ انکی ضروریات کو پورا کرے، تو کیا اس شخص کیلئے جائز ہے کہ بقیہ لوگوں سے زیادہ اپنے آپ پر خرچ کرے؟"
9) حکمران پر ضروری ہے کہ، پانچ چیزوں کی حفاظت کرنے کیلئے تمام تر توانائی صرف کردے:
1- دین، 2-جان، 3- عقل، 4- عزت آبرو، 5- مال،
اور سب سے اہم دین کی حفاظت ہے؛ اور اسکا طریقہ یہ ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کی طرف لوگوں کو دعوت دینے کیلئے پوری کوشش کرے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کرے، اور تمام معاملات کے حل کیلئے اللہ کی عنائت کردہ شریعت کو سُپریم جانے، اور اللہ کی شریعت کے منافی تمام کے تمام قوانین کو چھوڑدے، فسادیوں اور بدعتیوں کو ہتھکڑیاں لگائی جائیں، اور کسی کو مسلمانوں کے دین و دنیا خراب کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا
اور زمین میں (حالات کی) درستی کے بعد ان میں بگاڑ پیدا نہ کرو [الأعراف: 56]
اللہ کے بندو!
پورے معاشرے اور قوم کی ذمہ داری ہے کہ حکمرانوں کے حقوق بھی ادا کریں:
1) جس میں سب سے پہلے شرعی کاموں میں انکی اطاعت کرنا ہے ، اور اس وقت تک اس بات پر کار بند رہنا ہے جب تک اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے۔
2) شرعی اصولوں کے مطابق حکمران کو مخفی طور پر نصیحت بھی کریں ، اعلانیہ کرنے کی ضرورت نہیں اور اپنے انداز میں نرمی، دھیمہ لہجہ اور سوز پیدا کریں۔
3) اپنے حاکم کیلئے کامیابی ، بھلائی اور صحیح راستے پر چلنے کی دعا بھی کریں۔
4) سلطان اور حکمران کی عزت ، احترام، اور اسکی تکریم کرنا بھی رعایا کی ذمہ داری ہے، مسند احمد میں صحیح سند سے آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو اللہ کی طرف سے بنائے گئے حکمران کی عزت دنیا میں کرے اللہ تعالی قیامت کےد ن اسکی عزت افزائی فرمائے گا، اور جو اللہ کی طرف سے بنائے گئے حکمران کی اہانت دنیا میں کرے اللہ تعالی قیامت کےد ن اسکو رسوا فرمائے گا)
5) رعایا پر یہ بھی لازمی ہے کہ حاکم کے ظلم پر بھی صبر کرے، صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میرے بعد دیکھو گے کہ حکمران اپنے آپ کو ترجیح دیں گے، اور اسکے علاوہ بہت سے ناگوار امور پیش آئیں گے)انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں کیا حکم کرتے ہیں اس بارے میں؟ آپ نے فرمایا: (انہیں انکا حق دو اور اپنا حق اللہ سے مانگو)
6) اسی طرح رعایا پر یہ بھی لازم ہے کہ اس وقت تک حکمران کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے سے حتی الوسع بچنے کی کوشش کریں جب تک وہ صریح کفر کا ارتکاب نہ کر لے، اور اگر بغاوت کی ضرورت بھی پڑے تو ان تمام قوانین اور قواعد کو مد نظر رکھا جائے جنہیں علمائے کرام مقرر کریں، اس بارے میں کسی جاہل اور بے علم شخص کی بات پر کان نہ دھرا جائے، بخاری مسلم میں ہے کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ہر حالت اور ہر وقت آپکی اطاعت کرنے کی بیعت کی، چاہے تنگی ہو یا فراخی، چاہے ہمیں نظر انداز کیا جائے ، اور اس بات پر بھی بیعت کی کہ کرسی کے حصول کیلئے جھگڑا نہیں کرینگے، آپ نے فرمایا: (ہاں اگر صریح کفر دیکھو جسے تم کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش کر سکو-تب انکی اطاعت نہیں کرنی-)
ایک اور بہت بڑا فتنہ جو مسلمانوں کو لاحق ہو گیا اور وہ ہے کفار کی مشابہت اختیار کرنا، اور خاص طور پر ان معاملات میں جو اسلام کے مخالف ہیں، اور اسلامی تعلیمات کے بالکل بر عکس ہیں، اس کے باعث مسلمانوں میں خطرناک بیماریاں پھیلی ، اسی وجہ سے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا: اور کہا: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)
7) پُر فتن دور میں قابل ملاحظہ ضوابط میں یہ بھی شامل ہے کہ پورے معاشرے کے افراد ایسا اقدام کریں جس سے اتحاد اور اتفاق کی فضا پیدا ہو، لوگوں میں محبت کا درس پھیلائیں نفرتیں پیدا نہ کریں، اسی طرح پوری معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ صبر و تحمل کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے ہر اس کام کے اقدام سے دور رہیں جس کے نتائج بُرے نکل سکتے ہوں، اگر ایسا نہیں ہوا تو فتنے پھوٹ پڑیں گے، اور شر و فساد کو ہوا ملے گی۔
علماء کے مطابق فتنہ کی پیداوار دو طرح ہوتی ہے، یا تو حق پسِ پشت ڈالا جائے یا صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے،
وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
زمانے کی قسم[١] بلاشبہ انسان گھاٹے میں ہے[٢] سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔[العصر: 1- 3]
8) حاکم اور رعایا دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حِلم ، برد باری کو اپنا شعار بنائیں اور جلد بازی سے کام نہ لیں، اس انداز کے اپنانے سے معاملے کی حقیقت پہچاننا آسان ہو جاتی ہے، اور اسکا صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جلد بازی کے کئے ہوئے فیصلے عموما ناگوار نتائج کا باعث بنتے ہیں۔
9) تمام لوگوں پر لازمی ہے کہ نرمی سے اپنے معاملات کو نمٹائیں، قواعدِ سنتِ محمدیہ میں ہے کہ: (جو بھی نرمی سے متصف ہوگا خوب رو بن جائے گا، اور جہاں سے نرمی غائب ہو جائے وہ بد صورت ہی رہ جاتا ہے، اسی لئے تو نرمی سر تا پا خیر ہی خیر ہے)
10) آخر میں مسلمانو! ان عظیم الشان نظام ِ زندگی کی حفاظت کرو اسی میں تمہاری دین و دنیا کی ترقی کے راز پنہاں ہیں، اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
احسانات کے باعث تمام تعریفیں اُسی اللہ کیلئے ہیں، شکر بھی اسی کا بجا لاتا ہوں جس نے ہمیں توفیق دی اور ہم پر اپنا احسان بھی کیا، میں اسکی عظمتِ شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اسکے رسول ہیں ، انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے سب کو دعوت دی، یا اللہ ان پر انکی آل پر ، اور ان کے اصحاب پر درود و سلام بھیج۔
حمد و درودو سلام کے بعد!
اللہ عز وجل کاڈر اپنے دلوں میں پیدا کرلو دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جاؤ گے۔
اللہ کے بندو!
مسلمانوں نے جب توحید الہی کو قائم کردیا، ایمان کو تمام لوازمات اور تقاضوں کے مطابق مکمل قائم کردیا، اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہوگئے، اور اپنی زندگیوں میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو نافذ العمل کردیا، تو اللہ تعالی انکے لئے ہر غم کو ان سے چھٹ دے گا، اور ہر تکلیف سے نکلنے کا راستہ بنا دے گا، اور انہیں ایسی جگہ سے رزق عنائت فرمائے گاجہاں سے انہیں گمان بھی نہ ہو، اور انہیں ہر قسم کے شر و گناہ سے بچا دے گا، اسی بارے میں ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا
جو لوگ ایمان لائے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے انکا دفاع کرتا ہے [الحج: 38]
اللہ کے بندو!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا بہترین عمل ہے، یا اللہ درود و سلامتی اور برکت نازل فرما ہمارے پیارے نبی محمد پر ، اور اللہ خلفائے راشدین اور ہدایت یافتہ ائمہ ابو بکر ، عمر ، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، تمام اہل بیت ، اور صحابہ کرام سے بھی راضی ہوجا، اور جو انکے راستے پر چل نکلیں ان سے بھی راضی ہو جا۔
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش ، یا اللہ! تمام مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ تمام مسلمانوں کی فتنوں سے حفاظت فرما، یا اللہ ان میں اتحاد پیدا کر دے، یا اللہ انکی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ ان پر سے غموں کے بادل چھٹ دے، یا اللہ انکی تکالیف کو دور فرما، یا اللہ انکی تیرے اور اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، ، یا اللہ انکی تیرے اور اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، یا اللہ انکی تیرے اور اپنے دشمنوں کے خلاف مدد فرما۔
یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے اور بہترین حکمران نصیب فرما، یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما، یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما، یا اللہ! متقی اوراہل ایمان حکمران نصیب فرما۔
یا اللہ!یا حیی! یا قیوم! ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما، ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما، ہمارے اور مسلمانوں کے امن و امان کی حفاظت فرما۔
یا اللہ ہم مہنگائی ، بیماری ، زلزلے، تکالیف، ظاہری اور پوشیدہ فتنوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، یا اللہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کو بخش دے، جو زندہ ہیں انہیں بھی اور جو فوت ہو چکے ہیں انہیں بھی معاف فرما۔
یا اللہ ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی نصیب فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یااللہ اسے نیکی اور تقوی کے کاموں کا راستہ دکھا، یا اللہ اسکے نائب کو ہر اچھا کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ اسکا ہر عمل اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی رعایا کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔
یا اللہ مسلمانوں پر اس پُر فتن دور میں رحم فرما، یا اللہ مسلمانوں پر اس پُر فتن دور میں رحم فرما، یا اللہ ! انکے لئے ان فتنوں سے نکلنے کا راستہ بھی بنا، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما، یا اللہ ان کیلئے اچھا فیصلہ فرما۔
یا اللہ ! یا حیی ! یا قیوم، یا ذا الجلال و الاکرام، ملکِ شام میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ مصر میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ تیونس میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، لیبیامیں مسلمانوں کی حفاظت فرما، ملکِ یمن میں مسلمانوں کی حفاظت فرما،یا اللہ! انہیں شریعتِ اسلامیہ نافذ کرنے کی توفیق دے، یا اللہ ان میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ انکی صفوں میں اتحاد پیدا رفرما، یا اللہ انہیں جس چیز کی ضرورت ہے انہیں عنائت فرما۔
اللہ کے بندو!
اللہ کا ذکر صبح و شام کثرت سے کیا کرو۔
مترجم: شفقت الرحمن مبارک علی
مصدر :Khutba Of Masjid Nabvi In Urdu مسجد نبوی کا خطبہ جمعہ | Facebook
عربی خطبہ (نصائح للراعي والرعیۃ) سننے یا پڑھنے کے لیے یہاں تشریف لائیں
جزى الله كل من ساهم في هذا الخير خيرا ۔