• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایمان اور عمل کا باہمی تعلق

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
ایمان اور عمل کا باہمی تعلق
ڈاکٹر ناصر بن سلیمان العمر

الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاہ والسلام علی اشرف الانبیاءو المرسلین امابعد: کیا اعمال ایمان کے لئے شرط کمال کی حیثیت رکھتے ہیں، یا شرط وجوب یا شرط لازمی جس کے بغیر ایمان کا وجود نہیں رہتا اور کیا کسی قول یا فعل کے اصرار سے کسی شخص کو کافر کہا جا سکتا ہے۔
جہاں تک ایمان کا تعلق ہے تو اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ ایمان زبان سے اقرار کرنا ہے جبکہ دل میں اس اقرار باللسان کا یقین کامل ہو۔ ز بان اور دل کے اس اقرار کو اصطلاح میں قول اللسان اور قول القلب کہتے ہیں۔ اسی طرح بدنی اعمال اور دل کی کیفیات جو دل کا عمل ہیں ایمان کا لازی حصہ ہیں۔ اہل سنت والجماعت اسے اختصار سے یوں بیان کرتے ہیں کہ ایمان قول وعمل کا نام ہے اور بسا اوقات اسے قول وعمل اور نیت کے نام سے بھی ذکر کرتے ہیں۔
گویا ایمان کے لئے چار اوصاف کا ہونا لازمی ہے اور اس مجموعے کو ایمان کہتے ہیں۔ وہ چار اوصاف یہ ہیں۔
١) دل کا اعتقاد جسے قول القلب کہتے ہیں اس سے مراد ہے تصدیق اور اقرار
٢) دل کا عمل، اس سے مراد ہے نیت اور اخلاص جس کے نتیجے میں بالارادہ فرماں برداری آتی ہے اور دل کے تمام اعمال یا کیفیات اِسی کا مظہر ہیں جیسے بھروسا، اُمید، ڈر اور محبت۔
٣) اقرار باللسان اس سے مراد ہے زبان سے وہ الفاظ ادا کرنا جو ایمان دار ہونے کا اعلان ہوں۔
٤) بدنی اعمال، ان اعمال میں وہ تمام افعال بھی شامل ہیں جن سے اجتناب کیا گیا ہو۔ خواہ یہ اعمال قولی ہوں یا بدنی، بالفعل کئے گئے یا ان سے اجتناب کیا گیا ہو، مثلاً بدکاری نہ کرنا بدنی اعمال میں شمار ہوگا۔
ایمان میں بدنی اعمال شامل ہیں اور اس کے دلائل قرآن وسنت میں بکثرت موجود ہیں۔ ان میں سے ہم چند دلائل پر اکتفا کرتے ہیں۔
صحیح مسلم میں باب الایمان کے تحت امام مسلم یہ حدیث لاتے ہیں۔
نبی علیہم السلام نے عبد قیس کے ایک وفد سے ارشاد فرمایا کہ وہ اکیلے اللہ پر ایمان لائیں اور پھر آپ نے پوچھا (اتدرون ما الایمان باللّٰہ وحدہ) کیا تمہیں معلوم ہے کہ اکیلے اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے۔ وفد نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا۔
”اس بات کی شہادت دینا کہ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ ، نماز قائم کرنا، زکوٰت دینا اور رمضان کے روزے رکھنا اور غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرنا“۔ ان اوامر مبارکہ کے بعد آپ نے انہیں چار چیزیں ترک کرنے کا حکم دیا۔ یہ چار چیزیں ایک نشہ آور سیال بنانے کے طریقے تھے جن سے آپ نے منع فرمایا اور وفد کو نصیحت کی کہ وہ باقی قبیلے کے افراد کو اس کا حکم دیں اور ان امو رکو لازمی پکڑیں۔
امام بخاری اس حدیث کو کتاب الایمان میں اس عنوان کے تحت لائے ہیں کہ غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرنا بھی ایمان ہے۔
قرآن مجید میں بھی اس سلسلے میں بے شمار آیات پائی جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد کرتا ہے:
انما المؤمنون الذین اذا ذکر اللّٰہ وجلت قلوبہم واذا تلیت علیھم آیاتہ زادتھم ایماناً وعلی ربھم یتوکلون O الذین یقیمون الصلاہ ومما رزقنھم ینفقون اولئک ھم المؤمنون حقاً (انفال:٢)
ایمان والے ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ ایسے لوگ ہیں کہ صرف اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ بس یہی ہیں سچے ایمان والے لوگ۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
انما المؤمنون الذین آمنوا باللّٰہ ورسولہ واِذا کانوا معہ علی امرٍ جامع لم یذھبوا حتی یستاذنوہ، اِن الذین یستاذنون اولئک الذین یؤمنون باللّٰہ ورسولہ (نور:٦٢)
ایمان والے بس وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر جب کبھی ایسے معاملے میں اکٹھے ہوتے ہیں جس میں لوگ جمع ہوتے ہیں وہ نبی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جب تک آپ سے اجازت نہ لیں کہیں نہیں جاتے۔
جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اجازت لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ پر اور اُس کے رسول پر ایمان لا چکے ہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
انما المؤمنون الذین امنوا باللّٰہ ورسولہ ثم لم یرتابوا وجاھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اللّٰہ اولئک ھم الصادقون (الحجرات: ١٥)
مؤمن تو وہ ہیں جو اللہ پر اس اور اس کے رسول پر اس طرح ایمان لائے کہ پھر اُس میں شک وشبہ نہیں کرتے اور اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ یہی سچے اور راست گو ہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
والذین آمنوا وھاجروا وجاھدوا فی سبیل اللّٰہ والذین اووا ونصروا اولئک ھم المؤمنون حقاً (انفال: ٧٤)
جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے انہیں پناہ دی اور مدد کی یہی ہیں پکے سچے مؤمن۔
اس موضوع پر بکثرت آیات قرآن میں جگہ جگہ موجود ہیں ہم نے اختصار کی غرض سے چند آیات یہاں بیان کی ہیں۔
احادیث کی کتب میں امام بخاری اورامام مسلم نے ایمان کے عنوان کے تحت کئی اعمال کو ایمان میں شمار کیا ہے۔
مثلاً امام بخاری نے الخیار من الایمان کا ایک باب باندھا ہے یعنی شرم وحیا بھی ایمان ہے۔
ایک عنوان یہ ہے۔ باب من قال ان الایمان ھو العمل، اُس شخص کی دلیل جو کہے کہ ایمان دراصل عمل کا دوسرا نام ہے۔
اسی طرح الجہاد من الایمان
رمضان میں شب بیداری (تراویح) بھی ایمان ہے، نماز بھی ایمان ہے، جنازے میں جانا بھی ایمان ہے غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرنا بھی ایمان ہے۔
مختصر صحیح مسلم میں بھی اسی طرح کے ملتے جلتے عناوین موجود ہیں۔ مثلاً
الحیا من الایمان
پڑوسی سے خوش اخلاقی سے پیش آنا اور ضیافت کرنا ایمان ہے۔
برائی کو بزور روکنا یا منع کرنا یا دل میں برا جاننا ایمان ہے۔
امام ابن تیمیہ اپنی کتاب عقیدہ واسطیہ میں لکھتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت کے اصولوں میں سے ایک نہایت عظیم اصول یہ ہے کہ:
دین اور ایمان قول وعمل کا نام ہے۔ دل کی تصدیق اور اقرار، زبان سے اظہار، دل کے افعال اور زبانی عبادات اور بدنی اعمال کا مجموعہ ایمان ہے۔
ان دلائل اور ائمہ کرام کے اقوال سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ:
اللہ اور رسول کے بتلائے ہوئے سب اعمال ایمان میں شامل ہیں اور اس میں کسی عمل سے اجتناب کرنا بھی شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکام مختلف نوعیت کے ہیں۔
بعض اصول دین میں شمار ہوتے ہیں۔ جن کا ہر مسلمان کے لئے جاننا ضروری ہے اور اس میں جہالت عذر نہیں ہوتی۔
بعض اعمال فرائض میں شمار ہوتے ہیں، بعض مستحبات اور فضائل اعمال میں شمار ہوتے ہیں اسی طرح حرام کاموں سے بچنا، مکروہات سے اجتناب کرنا، حلال چیزوں کو حلال کہنا اور حرام چیزوں کو حرام کہنا۔ حلال اور حرام میں بھی چند امور اصول دین میں شمار ہوتے ہیں اور ہر مسلمان کا اس سے بچنا ضروری ہوتا ہے اور کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوتا۔ جیسے شرک سے بچنا اور کفریہ اعمال نہ کرنا۔
کفر اور شرک کے علاوہ دوسرے گناہوں سے بچنا ایمان کے لئے شرط کمال ہے جسے ایمان واجب کہتے ہیں۔
دل کے افعال جیسے اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھنا۔ اللہ کا ڈر، توکل، امید جیسے امور ایمان کے درست ہونے کی شرط ہیں۔ اسی طرح زبان سے اظہار بھی ایمان کے درست ہونے کی شرط ہے۔
اس اصول پر اہل سنت والجماعت متفق ہیں کہ ارکان اسلام میں سے شہادتین (لا الہ اِلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ) کا اقرار اور اظہار ایمان کے معتبر ہونے کی شرط ہے البتہ باقی ارکان اسلام پر اہل سنت والجماعت متفق نہیں ہیں کہ وہ بھی صحت ایمان کی شرط ہیں یا نہیں۔ ارکان اربعہ کے تارک کا کیا حکم ہے آیا وہ کافر ہو جاتا ہے یا کافر نہیں ہوتا، اس امر میں اتفاق نہیں پایا جاتا۔ غور کریں کہ اہل سنت میں جو اختلاف ہے وہ تکفیر کرنے میں ہے جو برسبیل احتیاط چند شرائط پر مبنی ہے۔
ارکان خمسہ کے علاوہ دیگر تمام واجبات کی ادائیگی کمالِ ایمان کی شرط ہیں، اِس اصول پر بھی اہل سنت کا اتفاق ہے یعنی واجبات کے تارک کو بالاتفاق کافر نہیں کہا جائے گا بشرطیکہ وہ انکاری نہ ہو۔
ایمان کی شرط سے ہماری مراد محض علمی تقسیم ہے جو کسی چیز کے معتبر ہونے کے لئے ایک اصطلاح ہے۔ ورنہ اعمال سے ہی ایمان کا وجود ہوتا ہے۔
ایمان کے چار اجزاءمیں سے ایک جز عمل ہے۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ عمل، کمالِ ایمان کی شرط ہے یا عمل ایمان کا لازمی تقاضا ہے، کیونکہ یہ بات مرجئہ کہتے ہیں۔ پس ایمان کے اظہار سے جو شخص باز رہتا ہے وہ مومن نہیں کہلائے گا۔
بلا اظہار اور بلا عمل محض دل میں تصدیق کرنے سے کوئی شخص مومن نہیں ہوتا۔ ایسا ایمان ابلیس اور فرعون کے ایمان کی طرح ہے کیونکہ ابلیس نے کہا تھا (قال رب فانظرنی الی یوم یبعثون) حجر: ٣٦
ابلیس نے کہا: اے میرے رب مجھے اُس روز تک مہلت دیجئے جب لوگ دوبارہ اٹھا کھڑے کئے جائیں۔
فرعون اور اس کی رعایا کی بابت فرمایا:
وجحدوابھا واستیقنتہا انفسھم ظلما وعلواً (سورہ نمل : ١٤)
انہوں نے بربنا ناانصافی اور سرکشی کے اُس سے صاف انکار کر دیا۔ حالانکہ دل میں (اس حق) کا یقین بیٹھ گیا تھا۔
ایمان جب دل میں سما جائے تو زبان سے خودبخود اظہار ہو گا اور یقینا یہ ایمان اعمال کو وجود میں لائے گا۔ اور انہیں اعمال سے ہی اس کا وجود ہو گا۔دل کا عمل فرماں برداری ہے جب دل میں فرماں برداری ہوگی اعضاءسے اس کا برملا اظہار ہو گا۔ اعضاءسلامت ہوں، عمل ممکن ہو اور پھر نہ زبان سے اعلان کرے نہ بدن سے اظہار کرے اور ساتھ ساتھ ایمان کا دعویٰ بھی کرے، یہ دو متضاد باتیں ہیں۔
اگر صدق دل سے اقرار کیا ہو تو عمل ضرور رونما ہو گا، اور عمل اس تصدیق کو ثابت کرے گا اور اس پر نصوص کی شہادت ہے۔
اسی طرح ارکان اربعہ کا ظہور بھی باطن میں تصدیق کا مرہون منت ہے۔ ورنہ ایسا شخص منافق کہلائے گا۔
ایمان کے درست ہونے کے لئے باطن میں ایسی تصدیق ہو جو عمل سے ظاہر ہو اور بدن کے اعمال ہوں جن کا سب یہ باطن کی تصدیق ہو۔
نماز تب چھوٹتی ہے جب یقین میں شک کی آمیزش ہو اور گناہ کا سبب شہوت ہوتی ہے۔ صحیح ایمان شک وشبہات سے پاک ہوتا ہے اور شہوات کو دبا دیتا ہے۔
محض دل کی تصدیق ایمان کے ثبوت کے لئے کافی ہے ایک ایسا دعوی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ وہ کون سا خارجی قرینہ ہے جو باطن میں ایمان کیلئے دلیل ہو۔ ایسا عقیدہ فرقہ جہمیہ کا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں۔ ایسی قلبی تصدیق جس سے کوئی عمل رونما نہ ہو جہمیہ کا عقیدہ ہے۔
اسحق بن راھویہ فرماتے ہیں کہ مرجئہ فرقہ کے متشدد افراد ہی یہ کہتے ہیں کہ تمام فرائض کی عدم ادئیگی والا شخص بھی اہل قبلہ میں شمار ہو گا۔ کتاب الفتح میں ابن رجب نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ مرجئہ اس حد تک غلو کرتے ہیں کہ ہم ایسے شخص کو کافر نہیں کہیں گے خواہ وہ نماز پنجگانہ کا تارک ہو زکوٰت بھی ادا نہ کرے، حج بھی نہ کرے اور روزے بھی نہ رکھے۔ اس کی تکفیر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اِن فرائض کا انکار نہیں کرتا بلکہ انہیں فرائض تسلیم کرتا ہے۔ مرجئہ کے اس قول کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ بلاشبہ یہی لوگ مرجئہ ہیں۔
مناسب ہے کہ اس حدیث کی وضاحت یہاں کر دی جائے جس کے مفہوم سے اکثر عوام نے غلط مطلب نکالا ہے وہ حدیث شفاعت کے متعلق ہے جس میں ایسے افراد کی شفاعت کا ذکر ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی خیر کا کوئی کام نہیں کیا تھا اور انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ ائمہ کرام نے اس حدیث کی شرح میں وضاحت کی ہے کہ خیر کے کام سے مراد ہے کہ ایمان اور توحید کے علاوہ کوئی اور نیکی کا کام نہیں کیا ہو گا۔ ائمہ کرام نے توحید اور ایمان کی شرط اپنی طرف سے عائد نہیں کی بلکہ دوسری نصوص سے توحید اور ایمان کا ہونا قطعی ثابت ہے اور اہل سنت کا یہ قاعدہ ہے کہ ایک موضوع سے متعلق تمام نصوص کو سامنے رکھ کر نتیجہ نکالا جاتا ہے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا (لایدخل الجنت الا نفس مومنہ) جنت میں مؤمن نفس کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ کتاب عزیز میں فرماتا ہے:
انہ من یشرک باللّٰہ فقد حرم اللّٰہ علیہ الجنت وما واہ النار وما للظالمین من انصار
یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گناہ گاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
یہ نصوص ایک محکم قاعدہ بیان کرتی ہیں اور محولہ بالا شفاعت والی حدیث کا معنی اس قاعدے کے مطابق ہو گا۔ یہ قاعدہ ہے کہ جس نص میں اشکال ہو اُسے محکم نص سے رفع کیا جائے گا۔
محکم نصوص کی طرف لوٹانے کی بجائے اپنی من پسند مراد اہل ضلال کا طریقہ ہے۔ قرآن مجید ایسے لوگوں کی نفسیات یوں بیان کرتا ہے۔
فاما الذین فی قلوبہم زیغ فیتبعون ما تشابہ منہ ابتغاءالفتنہ وابتغاءتاویلہ
جن کے دلوں میں کجی ہے وہ اس کی متشابہ آیات کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ فتنے کی طلب اور ان کی بے معنی مراد کے لئے۔
(متشابہ وہ آیات ہوتی ہیں جن کا معنی دوسری آیات سے پورا ہوتا ہے۔ مترجم)
دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ کیا کسی شخص کو قول یا عمل کی بنا پر کافر کہا جا سکتا ہے۔
ہمن اس سلسلے میں اصولی موقف بیان کریں گے، جہاں تک کسی شخص کو متعین کرکے کفر کا حکم لگانے کا سوال ہے تو وہ ہمارے موضوع سے باہر ہے، کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی قول یا عمل کفریہ ہوتا ہے لیکن صاحب قول یا صاحب عمل کی تکفیر کچھ دوسرے اصولوں کی بنا پر نہیں کی جاتی۔ اہل سنت عمل کے لئے الگ قاعدہ بناتے ہیں اور صاحب عمل کے لئے دوسری شرائط کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ جب تک وہ تمام شرائط اور موانع ختم نہ پا جائیں وہ صاحب عمل کی تکفیر نہیں کرتے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہر قسم کے قول وفعل پر محولہ بالا قاعدہ لاگو ہو گا بلکہ عین ممکن ہے کہ ایک کلمہ گو کی کسی بات یا عمل کی بنا پر تکفیر کی جائے جبکہ وہ فعل اس طرح کا ہو کہ اُس فعل کے ارتکاب سے تکفیر کی جاتی ہو اور نصوص میں اس کی صراحت موجود ہو۔ مثال کے طور پر:
غیر اللہ سے حاجت روائی کا طالب ہونا، اللہ یا اس کے رسول پر دشنام طرازی کرنا، انبیاءکرام کو قتل کرنا، قرآن مجید (بصورت کتاب) کی اہانت کرنا اور اس طرح کے دوسرے شرکیہ اور کفریہ اعمال کا مرتکب کافر ہوتا ہے۔
یہ کہنا کہ کفر صرف اعتقادی ہوتا ہے مرجئہ کا مذہب ہے وہ کہتے ہیں کہ اعمال اور اقوال دل میں موجود اعتقاد کی دلیل ہوتے ہیں اس لئے اس اعتقاد کی وجہ سے حکم لگتا ہے۔
یہ ایک گم راہ کن قاعدہ ہے۔ کفریہ اقوال بذات خود کفر ہے اسی طرح کفریہ اعمال بذات خود کفر ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قل اباللّٰہ وآیاتہ ورسولہ کنتم تستھزؤن O لا تعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم۔
اللہ تعالیٰ نے کلمہ گو مسلمان کے لئے کفر کا حکم لگایا ہے حالانکہ ان کے ایمان کا خود قرآن اقرار کرتا ہے اور اس کفر کا سبب مجرد کفریہ اقوال ہیں۔ کتاب عزیز میں یہ نہیں کہا گیا کہ تم یہ اعتقاد رکھتے ہو کہ استہزاءکرنا جائز ہے یا انہیں جہالت کا عذر دیا ہو۔
بنا بریں اقوال اور اعمال کی بنا پر ایک کلمہ گو مسلمان کافر ہو جاتا ہے۔ اہل سنت والجماعت مرجئہ کے برخلاف اسی اصول پر متفق ہیں۔
جس گناہ کے کفر ہونے پر شرعی دلیل نہیں ہے، اُس گناہ کے مرتکب کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑنا چاہئے، خواہ یہ گناہ کبائر میں سے کیوں نہ ہوں۔
ہم نے اس موضوع کو نہایت اختصار سے بیان کیا ہے تفصیلات کے لئے مندرجہ ذیل کتب سے رہنمائی حاصل کریں۔
جواب فی الایمان ونواقضہ عبدالرحمن براک
اسئلہ واجوبہ فی الایمان والکفر عبدالعزیز راجحی
رسالہ سقاف ابن باز
نواقض الایمان القولیہ والفعلیہ عبدالعزیز عبدالطیف

آخر میں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ کسی کی تکفیر بلکہ کسی کو فاسق کہنا بھی اسلامی شریعت میں ایک نازک ترین مسئلہ ہے اور بے احتیاطی سے کہنے والے پر وہ حکم لوٹتا ہے۔ ایسے تمام نازک معاملات کو علماءکرام کی طرف لوٹانا چاہئے جو اپنے علم میں راسخ اور پرہیز گاری میں مشہور ومعروف ہوں۔

٭ ............ ٭ ............ ٭
مضمون کا لنک
 
Top