• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک دن کے وقفے سے تین طلاقیں دینا

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
طلاق سیکشن میں ایک سوال موجود تھا ایک حنفی بھائی کا جس میں انہوں نے طلاق دینے کے وقت کی چند صورتوں پر سوال کیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
اس موضوع پر ایک حنفی بھائی نے یہ سوال کے ہیں

مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے تین طلاق کے ایک طلاق کے جواز پر اپنا موقف پیش کیا۔
میں نے آپ کی پوسٹ کا مطالعہ کرلیا ہے اور انشا اللہ بہت جلد آپ کی اپنے موقف میں پیش کردہ دلیل کے ضمن میں جمہور کی طرف سے دئے گئے دلائل کو بڑی ذمہ داری سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔
اس کے بعد ہی قارئین کرام خود دوطرفہ دلائل کی روشنی میں اپنے ضمیر کو مطمئن کرسکیں گے ۔ انشا اللہ
فی الوقت مین سفر پر ہوں جیسے ہی اپنے مقام پر واپسی ہوگی میں جواب ترتیب دوں گا۔ فی الحال آپ کے موقف کو سمجھنے کے لئے مجھے آپ سے چند سوالوں کا جواب چاہئے۔
۱ آپ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں سوال یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقین الگ الگ مجلسوں میں دی یعنی ایک صبح دوسری دوپہر تیسری رات کو آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۲ ایک شخص اپنی بیوی کو بروز منگل ایک طلاق دیتا ہے دوسری بروز بدھ اور تیسری بروز جمعرات آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۳ ایک شخص آج ایک طلاق دیتا ہے دوسری طلاق ایک ہفتہ بعد اور تیسری پھر ایک ہفتہ بعد آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۴ایک شخص اپنی بیوی کو ہر الگ الگ مجلس میں تین تین طلاق دیتا ہے یعنی نو طلاق تین مجلسوں میں دیتا ہے آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
میرے بھائی ان سوالوں کا جواب مختصا عنایت فرمادیں اگر سب کا جواب ایک ہے تو ایک ہی جواب دے دیں۔ تاکہ اسی کی روشنی میں میں آپ کی پوسٹ پر دلائل پیش کرسکوں۔
آپ کا بہت بہت شکریہ۔

اس طرح کے سوالوں کا کیا جواب ہے؟
اس کے جواب مولانا ابو الحسن علوی صاحب نے جو دیا ملاحظہ فرمائیں
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم اور اہل الحدیث اہل علم کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ طلاق بدعی واقع ہی نہیں ہوتی ہے۔ راقم کا ذاتی میلان اور رجحان بھی اسی قول کی طرف ہے۔ اس قول کے مطابق:

حالت حیض اور نفاس میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

ایک مجلس میں اگر تین طلاقیں دی ہیں تو پہلی سنت ہے لہذا واقع ہو جائے گی اور دوسری اور تیسری بدعت ہے لہذا واقع نہیں ہو گی۔

اسی طرح اگر ایک طہر میں تین طلاقیں دی ہیں تو پہلی واقع ہو جائے گی کیونکہ ایک طہر میں ایک طلاق دینا طلاق سنی ہے جبکہ دوسری اور تیسری بدعت ہیں لہذا واقع نہیں ہوں گی۔

اگر ایسے طہر میں طلاق دی ہے کہ جس میں بیوی سے مباشرت کر چکا ہو تو ایسی طلاق بھی بدعت ہے لہذا واقع نہیں ہو گی یعنی صرف اسی طہر میں ایک طلاق واقع ہو گی کہ جس طہر میں مباشرت نہ کی ہو۔ اورجس میں مباشرت کی ہو تو اس میں ایک بھی واقع نہ ہو گی۔

اسی طرح اگر ایک طہر میں مباشرت نہیں کی اور طلاق دی تو یہ طلاق سنی ہے اور ایک طلاق ہے۔ اب اگلے طہر میں دوبارہ طلاق دے دی لیکن درمیان میں رجوع نہیں کیا تو یہ دوسری طلاق، طلاق بدعی ہے کیونکہ دوسری طلاق کے سنت ہونے کے لیے پہلی سے رجوع لازم ہے لہذا دوسری واقع نہیں ہو گی۔

ان تمام فتاوی کی اصل یہ ہے کہ طلاق سنت واقع ہوتی ہے اور طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی ہے۔ یعنی اصول یہ ہے کہ طلاق کا جو طریقہ مشروع ہے، اس کے مطابق طلاق دی ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر اس کے علاوہ کسی طریقہ سے طلاق دی ہے تو طلاق واقع نہ ہو گی۔

جزاکم اللہ خیرا
یعنی مولانا ابو الحسن علوی صاحب فرماتے ہیں کہ ایسی تمام صورتوں میں ایک طلاق " طلاق سنی" واقع ہوگی۔
لیکن محدث فتوی میں مجھے ایک فتوی نظر آیا جس میں ایک دن کے وقفے سے دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کیا ہے اور ان کے درمیان علیحدگی کو ثابت کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔


ایک دن کے وقفے سے تین طلاقیں دینا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 04 September 2012 10:29 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
«الاول : زَيْدٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ بِطَلاَقٍ وَاحِدٍ فِیْ يَوْمِ الْاَحَد ثُمَّ طَلَّقَ بِطَلاَقٍ ثَانٍ فِیْ يَوْمِ الْاِثْنَيْنِ ثُمَّ طَلَّقَهَا بِطَلاَقٍ ثَالِثٍ فِیْ يَوْمِ الثُّلاَثَاءِ اَعْنِیْ اَوْقَعَ طَلَقَاتٍ ثَلاَثَةً فِیْ ثَلاَثَةِ اَيَّامٍ مُتَوَالِيَاتٍ هَلْ تُعَدُّ تِلْکَ الطَّلَقَاتُ طَلاَقًا وَاحِدًا رَجْعِيًّا اَوْ تُعَدُّ طَلاَقًا ثَلاَثًا »
«اَلْمَسْأَلَةُ الثَّانِيَةُ:زَيْدٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ بِثَلاَثِ تَطْلِيْقَاتٍ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ بِاَنْ يَقُوْلَ اَنْتِ طَالِقُ ثَلاَثًا اَوْ بِاَلْفَاظٍ مُخْتَلِفَةٍ بِاَنْ يَقُوْلَ اَنْتِ طَالِقٌ وَطَالِقٌ وَطَالِقٌ هَلْ تُعَدُّ تِلْکَ التَّطْلِيْقَاتُ طَلاَقًا ثَلاَثًا اَمْ تُعَدُّ طَلاَقًا وَاحِدًا رَجْعِيًّا »

الاول: زید نے اپنی بیوی کو ایک طلاق اتوار کے دن دی دوسری طلاق سوموار کو اور تیسری منگل کو میری مراد یہ ہے کہ اس نے تین طلاقیں پے در پے تین دنوں میں دے دیں کیا یہ طلاقیں ایک رجعی طلاق ہو گی یا تین طلاقیں ہو جائیں گی؟

الثانی: زید اپنی بیوی کو ایک ہی لفظ سے تین طلاقیں دیتا ہے« أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً» کہتا ہے یا مختلف الفاظ «أَنْتِ طَالِقٌ وَطَالِقٌ وَطَالِقٌ»کہتا ہے کیا یہ طلاقیں تین ہوں گی یا ایک طلاق رجعی ہو گی؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) «فِیْ هٰذِهِ الصُّوْرَةِ تَقَعُ الطَّلَقَاتُ الثَّلاَثُ ، فَلاَ تَحِلُّ الْمَرْأَةُ لِزَوْجِهَا حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ نِکَاحًا صَحِيْحًا لَمْ يَلْعَنْ صَاحِبَهُ الشَّرْعُ ۔ وَذٰلِکَ لِأَنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَتَعالٰی قَالَ: ﴿اَلطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِيْحٌ بِإِحْسَانٍ ۔ الآية﴾ وَقَدْ فَسَّرَ النَّبِیُّ ﷺقَوْلَهُ تَعَالٰی : ﴿تَسْرِيْحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ بالطلاق الثَّالِثِ کَمَا فِیْ تَفْسِيْرِ الْحَافِظِ ابْنِ کَثِيْرٍ وَغَيْرِهِ ، فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ الْوَقْتَ الَّذِیْ يَصِحُّ فِيْهِ الْإِمْسَاکُ بِالْمَعْرُوْفِ يَصِحُّ فِيْهِ التَّسْرِيْحُ بِالْإِحْسَانِ الَّذِیْ هُوَ طَلاَقٌ ، وَقَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی :﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِکُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ الآية ۔ وهٰذَا أَيْضًا يَدُلُّ أَنَّ الطَّلاَقَ بِدُوْنِ رُجُوْعٍ يَصِحُّ لِأَنَّ التَّسْرِيْحَ الَّذِیْ هُوَ طَلاَقٌ قَدْ جُعِلَ فِيْهِ مُقَابِلاً لِلْإِمْسَاکِ الَّذِیْ هُوَ رُجُوْعٌ بِکَلِمَةِ أَوْ ۔ وَکَذَا فِیْ قَوْلِهِ تَعَالٰی ۔﴿فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِيْحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
(2) «إِنَّ طَلاَقَ الثَّلاَثِ فِیْ هٰذِهِ الصُّوْرَةِ يُجْعَلُ طَلاَقًا وَاحِدًا لِحَدِيْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اﷲُ عَنْهُمَا اَلَّذِیْ أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ فِیْ صَحِيْحِهِ»



(2) ’’اس صورت میں تین طلاقیں ہوں گی بیوی اپنے خاوند کے لیے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح صحیح کرے ایسا نکاح جس کے کرنے والے پر شرع نے لعنت نہ کی ہو۔‘‘

اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : رجعی طلاقیں دو ہیں اس کے بعد یا تو بیوی کو آباد رکھنا ہے یا پھر شائستگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور نبیﷺنے تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ کی تفسیر تیسری طلاق کی ہے جس طرح کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر اور دوسری تفاسیر میں ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ جس وقت میں اِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ درست ہے اس وقت میں تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ بھی درست ہے جو کہ طلاق ہے۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور جو تم طلاق دو عورتوں کو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں پس روکو ان کو اچھے طریقے سے یا چھوڑ دو ان کو اچھے طریقے سے۔

یہ فرمان الٰہی بھی دلالت کرتا ہے کہ طلاق بغیر رجوع کے درست ہے کیونکہ تسریح جو کہ طلاق ہے اس کو امساک کے مقابل بنایا گیا ہے جو کہ رجوع ہے أو کے کلمہ کے ساتھ۔

اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول میں ہے﴿فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ﴾




(2) ’’اس صورت میں تین طلاقیں ایک ہی طلاق ہو گی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی وجہ سے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا ہے‘‘
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
طلاق کے مسائل ج1ص 338

محدث فتویٰ
ایک دن کے وقفے سے تین طلاقیں دینا

یقینا اس مسئلے میں علماء اہل حدیث کا اختلاف مترشح ہے۔
کیا کوئی اہل حدیث بھائی یا عالم اس اختلاف کی وجہ بیان کرسکتا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

یہ نہایت اہم سوال ہے۔ بہت عرصہ قبل اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لئے اردومجلس پر ایک تھریڈ قائم کیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں: مسئلہ طلاق میں ایک مجلس کا دورانیہ کتنا ہے؟

اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ طلاق کا جزوی مسئلہ ہے بعض اوقات مسائل کی جزئیات سے متعلق قرآن و سنت میں بالکل واضح اور دوٹوک دلیل موجود نہیں ہوتی بلکہ اس مسئلہ میں موجود دیگر نصوص سے اہل علم مسئلہ کا حل پیش کرتے ہیں جس میں علماء کے فہم کے مختلف ہونے کی بنا پر اختلاف ہوجانا ایک طبعی امر ہے۔ اسی لئے آپکو محترم ابوالحسن علوی اور محدث فتویٰ کمیٹی کے جواب میں فرق نظر آرہا ہے۔
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
یقینا اس مسئلے میں علماء اہل حدیث کا اختلاف مترشح ہے۔
کیا کوئی اہل حدیث بھائی یا عالم اس اختلاف کی وجہ بیان کرسکتا ہے۔
؟؟؟
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

یہ نہایت اہم سوال ہے۔ بہت عرصہ قبل اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لئے اردومجلس پر ایک تھریڈ قائم کیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں: مسئلہ طلاق میں ایک مجلس کا دورانیہ کتنا ہے؟
یقینا یہ سوال علماء اہل حدیث کے لئے بڑا اہم ہے اور تحقیق طلب بھی ہے۔
مفتی رفیق طاہر صاحب کی اس پوسٹ میں اس کا جواب موجود نہیں لیکن انہوں نے قرآن کی اس آیت سے استدلال کیا ہے
ياأيہا الذين اٰمنوا ليستئذنکم الذين ملکت أيمانکم والذين لم يبلغوا الحلم منکم ثلث مرات من قبل صلاۃ الفجر وحين تضعون ثيابکم من الظہيرۃ ومن بعد صلاۃ العشاء ثلث عورات لکم ۔(النور :85)
ترجمہ:اے اہل ايمان ! تمہارے غلام اور نابالغ بچے بھي تم سے تين دفعہ اجازت طلب کريں ۔ نمازفجر سے قبل ،جب تم ظہر کے
اپنا لباس اتارتے ہو، اور نمازعشاء کے بعد ۔ يہ تين اوقات تمہارے پردے کے ہيں۔
قرآن کی اس آیت سے صاف واضح معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایک دن میں بھی الگ الگ وقت میں کام کرتا ہے تو وہ الگ الگ ہی شمار ہوگا۔
اس سے ثابت ہوا کہ محدث فتوی کا موقف بالکل درست ہے اور آئمہ اربعہ کے موقف کو تسلیم کیا گیا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں جس سے مفتی رفیق ظاہر صاحب نے استدلال کیا ہے ایک دن کے تین اوقات کا ذکر کیا ہے۔ جب کہ مولانا ابو الحسن علوی صاحب نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن قیم رحمہ اللہ کے موقف سے بیان کیا ہے کہ ایک طہر میں صرف ایک طلاق واقع ہوگی اور باقی کا وہ محل ہی نہیں ، اس پر ایک دوسرے دھاگہ میں عمر معاویہ بھائی کے ساتھ مولانا ابو الحسن صاحب نے تفصیل سے اپنے اس موقف کو بیان کیا ہے۔
آگے مفتی رفیق طاہر صاحب نے ایک مجلس کی طلاق پر بات کی ہے ظاہر ہے تمام علماء اہل حدیث کا اس پر ایک ہی موقف ہے، یہ موضوع بحث نہیں۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں شروع ہی سے صرف ایک مجلس کی تین طلاق پر اختلاف چلا آرہا ہے، شاید ایسا سوال کبھی زیر بحث آیا ہی نہیں، (واللہ اعلم باالصواب)
میری ذاتی رائے ہے کہ علماء اہل حدیث کو اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ طلاق کا جزوی مسئلہ ہے بعض اوقات مسائل کی جزئیات سے متعلق قرآن و سنت میں بالکل واضح اور دوٹوک دلیل موجود نہیں ہوتی بلکہ اس مسئلہ میں موجود دیگر نصوص سے اہل علم مسئلہ کا حل پیش کرتے ہیں جس میں علماء کے فہم کے مختلف ہونے کی بنا پر اختلاف ہوجانا ایک طبعی امر ہے۔
میرے نزدیک یہ اختلاف جزوی مسئلہ پر نہیں ہے، جزئیات کا مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے جب قرآن و حدیث سے واضح رہنمائی حاصل نہ ہوپارہی ہو اور اہل فن حضرات شرعی قیاس یا اجتہاد سے ان مسائل کا حل تلاش کررہے ہوں۔
یہ مسئلہ حلال اور حرام کا ہے، اور دونوں فریق اپنے موقف کو واضح قرآن و حدیث سے بیان کررہے ہیں،
ایک موقف سے ایک طلاق سنی واقع ہوتی ہے اگر مرد دوران عدت رجوع کرلے تو وہ عورت اسی شوہر کی بیوی کہلائے گی۔ شوہر کی موجودگی میں دوسرا نکاح حرام ہے۔
جب کہ اسی سوال پر دوسرا موقف یہ ہے کہ عورت اپنے شوہر کے لئے حلال نہیں رہی یہاں تک کہ وہ دوسرا نکاح کرے۔
ایسے اختلاف کو جزئیات کی منطق کی نظر نہیں کیا جاسکتا بلکہ تحقیق سے کسی ایک موقف کی تصحیح ضروری ہے۔
مولانا ابوالحسن صاحب نے جو موقف بیان کیا ہے وہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، امام ابن قیم رحمہ اللہ جیسی قد آور علمی شخصیات کی بحث کی روشنی میں بیان کیا ہے،
جبکہ فتوی محدث علماء ٹیم نے قرآن کی آیات کی روشنی میں اپنا موقف پیش کیا ہے۔ یہاں جزئیات کا کوئی تعلق نہیں۔
اسی لئے آپکو محترم ابوالحسن علوی اور محدث فتویٰ کمیٹی کے جواب میں فرق نظر آرہا ہے۔
یہاں فرق نہیں اختلاف نظر آرہا ہے۔ دونوں موقف ایک دوسرے کا تضاد ہے۔

محترم شاہد نذیر صاحب !
مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے بڑے تحمل ، حوصلے اور اعتدال پسندی کے ساتھ مختصر جواب دیا۔
میں بڑے احترام کے ساتھ آپ سے سوال کرتا ہوں اگر ایسا ہی اختلاف حنفی علماء کے مابین ہوتا تو ہم آپ کے قلم کا انداز بیاں کیسا پاتے؟؟
اگر آپ اپنے مخالفین کے اختلاف پر اسی اعتدال پسندی اور اصلاحی ترغیبی انداز سے اپنے مضامین ترتیب دیں تو یقینا دشمن کم اور دوستوں میں اضافہ زیادہ دیکھتے۔ یہ میرا ذاتی مخلصانہ مشورہ ہے باقی آپ جیسا مناسب سمجھیں۔
میرا بھی دل کرتا تھا کہ میں اس اختلاف کو لے کر ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کردوں اور علمائ اہل حدیث پر نقد کروں،
لیکن جب بات کرنی ہی ہے تو منفی انداز اختیار کرنے سے بہتر یہی ہے مثبت انداز میں بات کی جائے۔

بہت شکریہ آپ کا۔
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
یقینا یہ سوال علماء اہل حدیث کے لئے بڑا اہم ہے اور تحقیق طلب بھی ہے۔
مفتی رفیق طاہر صاحب کی اس پوسٹ میں اس کا جواب موجود نہیں لیکن انہوں نے قرآن کی اس آیت سے استدلال کیا ہے
قرآن کی اس آیت سے صاف واضح معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایک دن میں بھی الگ الگ وقت میں کام کرتا ہے تو وہ الگ الگ ہی شمار ہوگا۔
رفیق طاہر صاحب کی پوسٹ میں اسی سوال کا ہی جواب موجود ہے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ موجود نہیں؟

اس سے ثابت ہوا کہ محدث فتوی کا موقف بالکل درست ہے اور آئمہ اربعہ کے موقف کو تسلیم کیا گیا ہے۔
شائد محدث فتویٰ کا یہ اس لئے درست ہے کہ آپ کے مطابق یہ آپ کے امام (اعظم) ابو حنیفہ﷫ کے موقف کے مطابق ہے؟

إنا لله وإنا إليه راجعون
کسی شے کے حق وباطل ہونے کا کیا اعلیٰ معیار مقرر کیا ہے آپ نے؟ اگر آپ کو یہ واضح کر دیا جائے کہ یہ فتویٰ امام ابو حنیفہ﷫ کے موقف کے مطابق نہیں تو مجھے علم الیقین چھوڑیں، عین الیقین ہے کہ آپ فوراً سے پہلے اسے ردّ کر دیں گے، کیونکہ آپ لوگوں کے ہاں دلیل کتاب وسنت نہیں بلکہ امام ابو حنیفہ﷫ کی رائے ہے، جس میں صحّت وضعف دونوں کا احتمال ہے۔
آپ کے ہی علماء کا فرمانا ہے:
فلعنة ربنا عدد رمل : على من ردّ قول أبي حنيفة

میں اپنی بات کا ثبوت ابھی دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ محدث فتویٰ کا یہ موقف بالکل درست ہے، ذرا غور کریں تو اس فتویٰ میں دو باتیں ہیں:
1۔ مختلف ایام یعنی مختلف مجالس میں دی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔
(علمائے اہل حدیث کا ائمہ اربعہ سے اختلاف ایک مجلس کی تین طلاق کا ہے نہ کہ مختلف مجالس کی تین طلاق کا! اور یہاں ايك مجلس کی نہیں بلکہ مختلف مجالس کی طلاق کی بات ہو رہی ہے۔)

2۔ فتویٰ کی دوسری شق ایک مجلس کی تین طلاق کی ہے، اس میں صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کے مطابق اہل حدیث کا معروف موقف ہی اختیار کیا گیا ہے کہ وہ تین نہیں بلکہ ایک شمار ہوں گی۔

اب آپ بتائیے کہ آپ کو اس فتویٰ سے اتفاق ہے یا اختلاف؟؟ کیونکہ آپ کے امام صاحب﷫ کا موقف ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں تین کا ہی ہے؟

میرا خیال ہے کہ میں یہ سوال پوچھ کر غلطی کی ہے کیونکہ جواب تو سورج کی طرح واضح ہے!

کیا خیال ہے؟؟!
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
مفتی رفیق طاہر صاحب کی اس پوسٹ میں اس کا جواب موجود نہیں لیکن انہوں نے قرآن کی اس آیت سے استدلال کیا ہے
شاید آپ نے فتویٰ کو اطمینان سے نہیں پڑھا فتوے کے آخر میں سوال کا جواب یوں درج ہے:
مذکورہ بالا نصوص کی رو سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ
ثلاث مرات یعنی تین مجالس ایک ہی دن میں بھی قائم ہوسکتی ہیں ۔
ایک مجلس کا شرعی دورانیہ عرفا دوسری مجلس کے آغاز تک ہے ۔
اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ تین مجلس کی تین طلاق اہل حدیث کے نزدیک بھی تین ہی ہیں اور کوئی اہل حدیث اس کا منکر اور انکاری نہیں ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ محدث فتوی کا موقف بالکل درست ہے اور آئمہ اربعہ کے موقف کو تسلیم کیا گیا ہے۔
محدث فتویٰ کمیٹی نے ائمہ اربعہ کے موقف کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ ائمہ اربعہ شریعت میں نہ تو اتھارٹی ہیں اور نہ انکے موقف کی دین میں کوئی حیثیت ہے۔ جب انکا موقف شریعت کے مطابق ہوگا تو قبول کیا جائے گا وگرنہ بلا جھجک رد کردیا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ محدث فتویٰ کمیٹی کی رائے ائمہ اربعہ کی رائے سے مل گئی ہے۔

جہاں تک میں سمجھتا ہوں شروع ہی سے صرف ایک مجلس کی تین طلاق پر اختلاف چلا آرہا ہے، شاید ایسا سوال کبھی زیر بحث آیا ہی نہیں، (واللہ اعلم باالصواب)
ایسا سوال اس لئے زیر بحث نہیں آیا کہ یہ احناف اور اہل حدیث کے درمیان متفق علیہ مسئلہ ہے کہ تین مجلس کی تین طلاق تین ہوتی ہیں۔ اختلاف چونکہ ایک مجلس کی تین طلاق پر ہے اسی لئے یہی مسئلہ زیر بحث آتا رہا ہے۔
میرے نزدیک یہ اختلاف جزوی مسئلہ پر نہیں ہے، جزئیات کا مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے جب قرآن و حدیث سے واضح رہنمائی حاصل نہ ہوپارہی ہو اور اہل فن حضرات شرعی قیاس یا اجتہاد سے ان مسائل کا حل تلاش کررہے ہوں۔
یہ مسئلہ خالص اجتہادی ہے کیونکہ اس پر قرآن و حدیث سے واضح رہنمائی موجود نہیں۔ احادیث میں یہ تو موجود ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہوتی ہیں اور یہ بھی موجود ہے کہ تین مختلف مجالس کی تین طلاق تین ہوتی ہیں۔ لیکن یہ کہیں موجود نہیں کہ مسئلہ طلاق میں ایک مجلس کا دورانیہ کتنا ہے؟ کیا ایک طہر یا پھر عرفاً مجلس میں تبدیلی جس سے چند منٹ کے وقفے میں تین مجالس قائم ہوسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے محدث فتویٰ کی کمیٹی ہو یا ابوالحسن علوی یا پھر رفیق طاہر سب ہی قرآن کی آیات اور احادیث کی نصوص سے استدلال کر رہے ہیں واضح اور صریح نص کسی کے پاس بھی موجود نہیں۔ بس یہی اس مسئلہ کے اجتہادی ہونے کی دلیل ہے۔ اور جب اجتہاد ہو تو فتوے اور موقف میں فرق یا اختلاف آہی جاتا ہے کیونکہ ہر ایک کا فہم دوسرے کے فہم سے مختلف ہوتا ہے۔

محترم شاہد نذیر صاحب !
مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے بڑے تحمل ، حوصلے اور اعتدال پسندی کے ساتھ مختصر جواب دیا۔
الحمدللہ! ہم ہمیشہ ہی اعتدال پسندی، حوصلے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ کو اس کے خلاف نظر آتا ہے تو وہ بطور علاج ہوتا ہے کیونکہ ڈھیٹ مقلدین پیار بھری باتوں کو نہیں مانتے ان کے ساتھ سختی برتنی پڑتی ہے ورنہ وہ سر پر چڑھ جاتے ہیں۔

میں بڑے احترام کے ساتھ آپ سے سوال کرتا ہوں اگر ایسا ہی اختلاف حنفی علماء کے مابین ہوتا تو ہم آپ کے قلم کا انداز بیاں کیسا پاتے؟؟
آپ ہمارے انداز بیان کو بالکل نرم پاتے کیونکہ جہاں کہیں مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرا موقف درست نہیں تو میں فوراً اس سے رجوع کرلیتا ہوں کئی مرتبہ جب میں مقلدین سے بحث کررہا تھا تو ان کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ میں غلطی پر ہوں تو میں نے فوری طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کرکے بحث کو ترک کردیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہم مقلدین کی طرح نہیں ہیں جو حق کو جان لینے کے باوجود بھی تمام زندگی باطل پر ڈٹے رہتے ہیں۔

میرا بھی دل کرتا تھا کہ میں اس اختلاف کو لے کر ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کردوں اور علمائ اہل حدیث پر نقد کروں،
لیکن جب بات کرنی ہی ہے تو منفی انداز اختیار کرنے سے بہتر یہی ہے مثبت انداز میں بات کی جائے۔
بہت شکریہ آپ کا۔
محترم آپ طوفان بدتمیزی برپا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لئے کہ آپ کا جو موقف ہے کہ تین مجلس کی الگ الگ تین طلاق تین ہوتی ہیں اہل حدیث کا بھی یہی موقف ہے۔ اگر آپ کے پاس طلاق میں ایک مجلس کا شرعاً دورانیہ کتنا ہے کے متعلق قرآن و حدیث سے کوئی واضح نص ہے تو پیش کردیں۔ شکریہ
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
محترم ابو مالک صاحب!
مجھے یہی محسوس ہوا ہے کہ شاید آپ میرے سوال اور اس سوال پر قائم بنیادی نکات کو سمجھے نہیں یا سمجھنا چاہتے نہیں۔
آپ کی پوسٹ میں غیرمناسب رویہ پر بھی مجھے افسو س ہے۔ اگر آئندہ آپ کی پوسٹ میں انداز بیاں اسی طرح کا ہوا تو بھائی مجھے اس دھاگہ میں آپ کی پوسٹ کا جواب دینے سے معذور سمجھا جائے۔
پہلے تو میں اس سوال پر قائم دھاگہ کی وضاحت اور مقصد بیان کردوں۔
یہ دھاگہ تعصب سے پاک ہے۔
میں نے علماء اہل حدیث کا احترام اور ادب کو ملحوظ رکھا ہے، غیر مقلد یا فرقہ اہل حدیث جیسے الفاظ کا ستعمال بھی نہیں ہوا۔
داستان امیر حمزہ بیان کرنے اور اس اختلاف پر شور مچانے کے بجائے مختصر انداز میں اس اختلاف پراہل علم کو متوجہ کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ذاتی طور پر اہل حدیث سے تعلق رکھنے والے چند دوستوں کو میسیج بھی کیا تھا، شاھد نزیر صاحب کے انداز قلم سے ہر میمبر واقف ہے وہ بھی میری پوسٹ میں تشریف لائے اور جس شائستگی سے بات کی یقینا وہ قابل تعریف ہے۔
آپ ان سے بھی معلوم کرسکتے ہیں کہ میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو مولانا زبیر علی زئی صاحب یا مفتی رفیق طاہر صاحب سے اس کا صحیح موقف حاصل کیا جائے، رفیق طاہر صا حب کا یہ فتوی بھی اسی کاوش کا نتیجہ ہے۔
خدارا میرے دل میں قطعی طور پر اس اختلاف پر کوئی تعصب موجود نہیں۔ اگر تعصب ہوتا تو وہ نظر آتا، اور میں اس اختلاف کو لے کر طوفان بدتمیزی پیدا کردیتا آپ سرچ کرلیں میں نے اس فورم کے علاوہ کسی دوسری جگہ یہ پوسٹ نہیں لگائی۔ اللہ تعالی عصبیت، کینہ اور بغض کی جملہ بیماریوں سے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
دھاگہ کا مقصدنہ انتشار پھیلانا ہے اور نہ ہی اہل حدیث مکتبہ فکر کے اختلاف کو لےکر نیچا دکھانا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ جب دوفریقین کے مابین بحث یا مناظرہ ہو تو اصول یہ ہے کہ دونوں فریقین کا اس مسئلے میں موقف یا دعوی صاف اور واضح ہو تاکہ ترتیب سے دلائل پر بات ہو، اگر کسی ایک مکتبہ فکر کا ایک ہی مسئلے میں موقف واضح نہ ہو تو پھر پوری بحث ادھر ادھر آئیں بائیں سائیں کی نظر ہوجاتی ہے۔ جب میرے سامنے ایک مسئلے میں ایک ہی مکتبہ فکر کے علماء میں اختلاف نظر آیا تو ضروری تھا دونوں میں سے کسی ایک کی تحقیق کے ذریعے تصحیح کرلی جائے، تاکہ مخالف فریق سے جب بحث ہو تو ایک موقف واضح ہو۔​
رفیق طاہر صاحب کی پوسٹ میں اسی سوال کا ہی جواب موجود ہے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ موجود نہیں؟

ابو مالک صاحب!
اگر لکھنے کے بجائے میرے بنیادی سوال کا جواب ہی نقل کردیتے تو کتنی اچھی بات تھی۔ لیکن آپ غلط فہمی کا شکار ہوئے۔
شاہد نذیر نے جو مفتی صاحب کا فتوی کا لنک دیا ہے وہ میری درخواست پر دیا ہے لیکن میرا سوال طلاق کے واقع ہونے نہ ہونے پر ہے۔ شاہد نذیر کو اس سوال کا کوئی فتوی یا تحقیقی مضمون نہ ملا تو اس کے قریب تر مفتی صاحب کا فتوی کا لنک دے دیا جس میں طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونا کا ذکر نہیں بلکہ ایک مجلس سے دوسری مجلس کے دورانیہ کا ذکر ہے۔ مفتی صاحب نے جو بات کی ہے وہ اس سوال کی بنیاد پر کی ہے جس سے کوئی اختلاف نہیں اور نہ اختلاف کیا جاسکتا ہے، مجھے اگر طالب علموں میں جگہ مل جائے تو یہ میرے لئے سعادت کی بات ہے۔ میں نے مفتی صاحب کی بات سے نہ اختلاف کیا ہے اور نہ ہی یہ لنک ہمارا موضوع بحث ہے۔
مفتی رفیق طاہر صاحب کے فتوی کے دو حصے ہیں۔
پہلا حصہ
اللہ رب العالمين نے قرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا ہے : الطلاق مرتان :(البقرۃ:229)طلاق دو مرتبہ ہے ۔ لغت عربي ميں لفظ مرۃکا معني دفعۃ بعد دفعۃ ہے ۔يعني ايک کام کو کرنے کے بعد وقفہ کرکے پھر اس کام کو دوبارہ سر انجام دينا ۔ يہي مفہوم قرآن حکيم کي اس آيت سے بھي واضح ہوتا ہے :ياأيہا الذين اٰمنوا ليستئذنکم الذين ملکت أيمانکم والذين لم يبلغوا الحلم منکم ثلث مرات من قبل صلاۃ الفجر وحين تضعون ثيابکم من الظہيرۃ ومن بعد صلاۃ العشاء ثلث عورات لکم ۔(النور :85)
ترجمہ:اے اہل ايمان ! تمہارے غلام اور نابالغ بچے بھي تم سے تين دفعہ اجازت طلب کريں ۔ نمازفجر سے قبل ،جب تم ظہر کے وقت اپنا لباس اتارتے ہو، اور نمازعشاء کے بعد ۔ يہ تين اوقات تمہارے پردے کے ہيں۔
اس آيت مبارکہ ميں اللہ تعالي نے لفظ مرات استعمال کيا ہے جوکہ مرۃ کي جمع ہے ۔ اور پھر اللہ تعالي نے خود ہي اس کي تفسير بيان کرتے ہوئے تين مختلف اوقات بيان کيے ہيںجوکہ ايک دوسرے سے کافي دور ہيں ۔ اور الطلاق مرتان ميں لفظ مرتان استعمال ہوا ہے جوکہ مرۃ کي تثنيہ ہے جس سے يہ بات واضح ہو جاتي ہے کہ طلاق دومرتبہ وقفہ وقفہ کے ساتھ ہے جس کے بعد مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے۔ پھر اگر تيسري دفعہ طلاق دےدے تو عورت اس مرد پر حرام ہو جائے گي ۔ ہاں ايک صورت ہے کہ اس عورت کا نکاح کسي دوسرے شخص کے ساتھ معروف طريقے سے ہوجائے پھر آپس کي ناچاکي کيوجہ سے وہ دوسرا مرد بھي اس کو طلاق دے ديتا ہے يا وہ فوت ہو جاتا ہے تو يہ عورت عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کروا سکتي ہے ۔(البقرۃ:230

مفتی صاحب نے اس حصہ میں قرآن کی روشنی میں وقفہ وقفہ سے قائم مجلس کو الگ الگ مجلس ثابت کیا ہے۔سوال کا تعلق یہاں تک تھا۔
اب اس حصہ میں یہ جواب نہیں کہ الگ الگ مجالس میں دی گئی تین طلاق ایک ہوگی یا تین ، کیونکہ اس سوال میں یہ نہیں پوچھا گیا۔
سوال میں اس کا دورانیہ پوچھا گیا ہے۔
میرے دھاگہ میں سوال الگ الگ مجلس میں دی گئی تین طلاق کے وقوع پر ہے کہ یہ ایک ہوگی یا تین پر قائم ہے۔
دوسرا حصہ
اسی بناء پر نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور سدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک جب تین طلاقیں اکٹھی دی جاتی تھیں تو انہیں ایک ہی شمار کیا جاتا تھا ۔
جيساکہ عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروي ہے کہ:(کان الطلاق علي عہد رسول اللہ ؐ وأبي بکر ؓ وسنتين من خلافت عمر ؓ طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر بن الخطاب ؓ إن الناس قد استعجلوا في أمر کانت لہم فيہ أناۃ فلو أمضيناہ عليہم فأمضاہ عليہم [مسلم کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث (1472)]
رسول اللہ ؐ ،ابوبکر ؓ اور عمرفاروقؓ کي خلافت کے ابتدئي دوسالوں ميں اکٹھي تين طلاقوں کو ايک ہي شمار کيا جاتا تھا پھر سيدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمايا جس کام ميں لوگوں کے ليے سوچ بيچار کا موقع تھا اس ميں انہوں نے جلدي شروع کردي ہے تو ہم ان پر تينوں ہي لازم کرديتے ہيں لہذا انہوںنے تينوں ہي لازم کرديں۔

يادرہے کہ سيدنا عمر فاروق ؓ کا يہ فيصلہ سياسي اور تہديدي تھا جيساکہ فقہ حنفي کي مشہور کتاب حاشيۃ الطحطاوي 6/511،جامع الرموز1/506،مجمع الأنہر شرح ملتقي الأبحر ميں بھي لکھا ہے کہ:واعلم أنَّ في الصدر الأول إذا أرسل الثلاث جملۃ لم يحکم إلا بوقوع واحدۃ إلي زمن عمر ؓ ثم حکم بوقوع الثلاث لکثرتہ بين الناس تہديدًا
ترجمہ:اسلام کے ابتدائي دور سے ليکر عمر ؓ دور خلافت تک جب اکٹھي تين طلاقيں بھيجي جاتيں تو ان پر ايک طلاق کا حکم لگايا جاتا پھر جب يہ عادت لوگوں ميں زيادہ ہوگئي تو پھر تہديدي طور پر تين طلاقوں کا حکم لگا ديا گيا ۔
فقہ حنفي کي محولہ کتب کي اس صراحت سے يہ بات ظاہر ہو گئي ہے کہ سيدنا عمر ؓ کا فيصلہ سياسي اور تہديدي تھا ۔جبکہ رسول اللہ ؐ کا فيصلہ شرعي اور حتمي ہے ۔

اس کے بعد آخر میں مفتی صاحب نے خود نتیجہ بیان کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔​
مذکورہ بالا نصوص کی رو سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ
ثلاث مرات یعنی تین مجالس ایک ہی دن میں بھی قائم ہوسکتی ہیں ۔

ابو مالک صاحب! کیا یہاں میرے سوال کا جواب موجود ہے؟؟؟
اس پیراگراف میں مجالس کے قائم ہونے کا ذکر ہے۔ سوال کی روشنی میں​
یک مشت دی گئی تین طلاقیں ایک ہی ہیں ۔

ابو مالک صاحب! یہ ایک مجلس کی تین طلا ق کا ذکر ہے اس زیر بحث موضوع سے کیا تعلق ہے؟؟؟
ایک مجلس کا شرعی دورانیہ عرفا دوسری مجلس کے آغاز تک ہے ۔
تنبیہ : یاد رہے کہ ایک ہی طلاق کا بار بار اقرار کرنے سے دوسری طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

ابو مالک صاحب! سوال کے مطابق یہاں مجلس کے دورانیہ کا ذکر ہے، کیا اس میں میرے سوال کا جواب ہے؟؟؟؟
میرے بھائی ! مفتی صاحب کا یہ فتوی میرے سوال پر قائم ہی نہیں اور نہ ہی اس میں زیر بحث سوال کیا گیا ہے۔ شاہد نذیر بھائی نے سرچ کیا ہوگا تو انہیں میرے سوال کے قریب تر یہ فتوی نظر آیا انہوں نے شئیر کردیا ، اچھی بات ہے، لیکن میں نے اسے پسند کیا اور کوئی اختلاف نہیں کیا صرف وضاحت کردی کہ اس میں میرے سوال کا جواب نہیں ہے،
آخر میں نے ایسی کونسی بات کردی کہ میرے دھاگہ کو آپ نے اپنے تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا؟؟؟
یہ بات تو میں پہلے ہی واضح کرچکا ہوں کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق ایک شمار ہو گی یا تین یہ خارج از موضوع ہے۔ اور یہ بھی واضح کرچکا ہوں کہ اہل حدیث مکتبہ فکر میں ایک مجلس میں دی گئی طلاق پر کوئی اختلاف نہیں۔ اور حنفی بھائی نے جو سوال منتخب کئے ہیں اس پوسٹ میں بھی وہ لکھ چکے ہیں​
۱ آپ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں سوال یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔

محترم ابو مالک صاحب ! یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ ایک مجلس میں دی گئی طلاق کا کوئی سوال اس دھاگہ میں زیر بحث نہیں اور نہ ہی کو ئی تعلق ہے۔ لیکن آپ زبر دستی اسے گھسیٹ کر اس دھاگہ میں لے آئے، میں اسے آپ کی نادانی سمجھوں یا کوئی سوچی سمجھی پلاننگ؟؟؟؟
کیونکہ کاپی پیسٹ کرنے والے انتظار میں ہے کہ موضوع ایک مجلس کی تین طلاق کی طرف نکل جائے تو پھر خوب سجے محفل۔
شائد محدث فتویٰ کا یہ اس لئے درست ہے کہ آپ کے مطابق یہ آپ کے امام (اعظم) ابو حنیفہ﷫ کے موقف کے مطابق ہے؟

معذرت ابو مالک صاحب ! اس فقرہ میں مجھے شدیدتعصب اور نفرت کی بو محسوس ہورہی ہے۔
میں نے لفظ آئمہ اربعہ کے موقف کو تسلیم لکھا ہے لیکن متعصب انسان اپنی عادت سے مجبور ہوتا ہے۔
اللہ تعالی آپ کے حال پر رحم فرمائے۔​
إنا لله وإنا إليه راجعون
کسی شے کے حق وباطل ہونے کا کیا اعلیٰ معیار مقرر کیا ہے آپ نے؟ اگر آپ کو یہ واضح کر دیا جائے کہ یہ فتویٰ امام ابو حنیفہ﷫ کے موقف کے مطابق نہیں تو مجھے علم الیقین چھوڑیں، عین الیقین ہے کہ آپ فوراً سے پہلے اسے ردّ کر دیں گے، کیونکہ آپ لوگوں کے ہاں دلیل کتاب وسنت نہیں بلکہ امام ابو حنیفہ﷫ کی رائے ہے، جس میں صحّت وضعف دونوں کا احتمال ہے۔
إنا لله وإنا إليه راجعون
میرے بھائی جان! ایسا شرعی مسئلہ جہاں علمی اختلاف ہو اور دونوں فریقین کا دعوی قرآن و سنت کے دلائل پر ہوں، ایسے میں ایک فریق کی ہی جماعت میں اختلاف ہوجائے تو اس میں جو صحیح موقف ہوگا وہ یقینا فریق ثانی کے موقف کی طرف اشارۃ کہے گا کے فلاں کا موقف صحیح ہے۔
ایک مناظرہ ہوتا ہے وہاں دوفریق قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں اپنا موقف رکھتے ہیں تیسرا فریق ان کے دلائل سے ایک کے موقف کو قبول کرتا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ میں اس فریق کے موقف کو قبول کرتا ہوں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کا ذاتی موقف قبول کررہا ہےبلکہ وہاپنے فہم کے مطابق قرآن و سنت ہی کے موقف کو قبول کررہا ہے۔
عامر بھائی اللہ ان کو ہر حال میں خوش رکھے وہ خدا حافظ کہہ گئے میں ان کے بلاگ کا مطالعہ کرہا تھا دیوبندی سیکشن میں ایک مناظرہ موجود ہے، وہاں لکھا ہے ثالث کا مسلک اہل حدیث قبول کرنے کا اعلان
اگر اسی جگہ یہ ہوتا ثالث کا مسلک حنفی قبول کرنے کا اعلان تو آپ نے اپنی عادت کے مطابق یہی لکھنا تھا جو میرے محتاط الفاظ میں لکھا ہے۔
ہاں میں شاہد نذیر کی اس بات سے متفق ہوں ،​
محدث فتویٰ کمیٹی کی رائے ائمہ اربعہ کی رائے سے مل گئی ہے۔
میں اپنی بات کا ثبوت ابھی دیتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ محدث فتویٰ کا یہ موقف بالکل درست ہے، ذرا غور کریں تو اس فتویٰ میں دو باتیں ہیں:
1۔ مختلف ایام یعنی مختلف مجالس میں دی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔
(علمائے اہل حدیث کا ائمہ اربعہ سے اختلاف ایک مجلس کی تین طلاق کا ہے نہ کہ مختلف مجالس کی تین طلاق کا! اور یہاں ايك مجلس کی نہیں بلکہ مختلف مجالس کی طلاق کی بات ہو رہی ہے۔

ہمارا دعوی بالکل واضح ہے کہ تین طلاق جس وقت دی گئی ہوں ، جس صورت دی گئی ہوں وہ تین ہی شمار ہونگیں۔
چاہے وہ ایک مجلس میں ہو، الگ الگ مجالس میں ہو، ایک ایک دن کے وقفہ سے ہو، ایک طہر میں ہو، دو طہروں میں ہوں یا تین طہروں میں ہو، ہمارا موقف ایک ہی ہے۔
ہاں اہل حدیث مکتبہ فکر کے ہاں الگ الگ صورتیں ہیں ۔ ایک مجلس کی تین ایک شمار ہوگی۔ تین ظہروں میں دی گئی تین شمار ہونگیں اور ان کے درمیان میں تین طلاق دی گئی ہو تو اختلاف ہے جس پر یہ دھاگہ ترتیب دیا گیا ہے۔
2​
۔ فتویٰ کی دوسری شق ایک مجلس کی تین طلاق کی ہے، اس میں صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کے مطابق اہل حدیث کا معروف موقف ہی اختیار کیا گیا ہے کہ وہ تین نہیں بلکہ ایک شمار ہوں گی۔

محترم ابو مالک صاحب!
اس فتوی میں دو الگ الگ سوال ہے۔ اور محدث فتوی کی ٹیم نے دونوں سوالوں پر الگ الگ جواب دیا ہے، یہاں پہلی اور دوسی شق کہاں سے پیدا کردی آپ نے۔​
دوسرا سوال ایک مجلس کی تین طلاق پر ہے ، یہ سوال اور اس کا جواب زیر بحث ہی نہیں، اور نہ ہی اس سوال پر اہل حدیث میں اختلاف ہے۔

اس دھاگہ میں فتوی کا پہلا سوال اور اس کا جواب زیر بحث ہے جس پر اہل حدیث کا آپس میں اختلاف ہوا ہے۔
اس فتوی میں ایک سوال کے جواب میں مختلف شقوں پر بیان نہیں دو الگ الگ سوال اور دونوں کا الگ الگ جواب ہے۔​
اب آپ بتائیے کہ آپ کو اس فتویٰ سے اتفاق ہے یا اختلاف؟؟ کیونکہ آپ کے امام صاحب﷫ کا موقف ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں تین کا ہی ہے؟

میں نے تو اہل حدیث کا اختلاف بیاں کیا ہے، اس کی وضاحت آپ کے ذمہ ہے کہ آپ کس کے موقف کو مانتے ہیں اور کس کے موقف کو رد کرتے ہیں؟؟ مولانا ابو الحسن صاحب جنہوں نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ کے دلائل کی روشنی میں ایک موقف بیان کیا۔ جبکہ دوسری طرف اس کے تضاد محدث ٹیم کا فتوی ہے۔
ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاق کو آپ بار بار اس موضوع میں گھسیٹ رہے ہیں۔ جو خارج از موضوع ہے۔
میرا خیال ہے کہ میں یہ سوال پوچھ کر غلطی کی ہے

اس میں میرا قصور نہیں اپنی غلطی پر انسان کو نادم ہونا چاہئے​
کیونکہ جواب تو سورج کی طرح واضح ہے
!
واہ واہ آپ کے فہم کا جواب نہیں ،
ایک موقف ہے بیوی شوہر کے لئے حلال نہیں رہی جبتک کہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے۔
دوسرا موقف اسی سوال پر کہ ایک طلاق واقع ہوئی شوہر اگر رجوع کرلے تو وہ اسی کی بیوی ہے۔
سورج کی موجودگی میں بھی انسان اندھیرے میں ہوتا ہے، لکھتے وقت یقینا سورج روشن ہوگا لیکن آپ چاردیوری کے اندھیرے میں بیٹھے ہونگے۔ یہ جواب بھی سورج کی روشنی کی موجودگی کے باوجود کسی اندھیرے کا خواب لگ رہا ہے۔​
کیا خیال ہے؟؟!

محترم یہ اختلاف اہل حدیث علماء کے مابین ہوا ہے۔ خیال اور فکر آپ نے کرنی ہے مجھے نہیں۔
ایسی پوسٹ کا جواب دینے کا ارادہ نہیں تھا لیکن چند باتوں اور اس دھاگہ کے مقصد کے پیش نظر آپ کو جواب دیا ہے۔
شکریہ
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
دیکھئے محترم آئیڈیل مین آپ نے ہماری معروضات پر غور نہیں فرمایا جس میں آپکے ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ مختصرا دوبارہ عرض کرتا ہوں اگر آپ کو اختلاف ہو تو بحث و تنقید کرسکتے ہیں۔

ہم نے عرض کی تھی کہ تین مجالس کی الگ الگ تین طلاق کو اہل حدیث بھی تین ہی شمار کرتے ہیں اس میں اہل حدیث کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور اختلاف اس لئے نہیں کہ یہ مسئلہ قرآن و حدیث کی صحیح نصوص سے ثابت ہے۔

اب آپ نے جو سوال کیا تھا دیکھئے:
۲ ایک شخص اپنی بیوی کو بروز منگل ایک طلاق دیتا ہے دوسری بروز بدھ اور تیسری بروز جمعرات آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر منگل، بدھ اور جمعرات کو دی گئی تین طلاق ایک مجلس کی ہیں تو صحیح احادیث کے مطابق یہ ایک طلاق ہوگی اور اگر منگل، بدھ اور جمعرات کو دی گئی طلاقیں تین مجلس کی ہیں تو یہ تین طلاق ہونگیں۔

اب سوال یہ ہے کہ منگل اور بدھ سے لے کر جمعرات تک کا پورا وقت ایک مجلس ہے یا تین مجالس؟ اس بات کو جاننے کے لئے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن و حدیث کے مطابق طلاق میں ایک مجلس کا دورانیہ کتنا ہے؟ چونکہ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی واضح نص موجود نہیں جو اس سوال کا جواب دیتی ہو اس لئے علمائے کرام دیگر نصوص سے استنباط اور استدلال کرتے ہوئے اس کا جواب دیتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ یہ مسئلہ خالص اجتہادی ہے اور جب اجتہاد کی بات ہوتی ہے تو علمائے کرم کے مابین اختلاف کا رونما ہونا طبعی ہے۔ اور یہ اختلاف مذموم اس لئے نہیں کہ کوئی بھی مجتہد کسی واضح نص کی مخالفت نہیں کر رہا ہوتا۔اس لئے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ علمائے اہل حدیث کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف واقع ہوا ہے۔

جنہوں نے یہ کہا کہ یہ تین طلاق ہیں وہ بھی درست ہیں کیونکہ وہ قرآن و حدیث کے دلائل پیش کررہے ہیں اور جنہوں نے کہا کہ یہ ایک طلاق ہے تو انکی بنیاد بھی قرآن و حدیث کی نصوص ہیں۔ اب سائل کو جو صورت راجح محسوس ہوتی ہے علماء پر تنقید کئے بغیر وہ اسے اختیار کرسکتا ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اسلام و علیکم -
بھائیوں سے مداخلت کی معذرت -میرے ناقص علم کے مطابق یہ نظریہ قرآن و حدیث کی رو سے صحیح نہیں کہ اگر ایک وقت یا مجلس میں تین طلاق دی جائیں یا وقفے سے تین طلاق دی جائیں تو وہ موثر ہو جائیں گی -وجہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے مطابق دین احکمات کے کچھ ضابطے ہیں - اگر ان ضابطوں کے خلاف چلا جائے تو وہ احکامات انسان پر لاگو نہیں ہوتے -
مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہے کہ میں کل اور پرسوں کی آ نے والی ظہر کی نماز آج ہی پڑھ لیتا ہوں تو کیا وہ نماز قبولیت کے درجے کو پھنچے گی ؟؟؟ ظاہر ہے آپ کا جواب نفی میں ہوگا - کیوں کہ اصول کے تحت ہر دن کی نماز اگر اسی دن پڑھی جائے جس پر اس کا وقت مقرر ہےتب ہی وہ قبول ہو گی -چاہے آپ اس ظہرکے وقت آ نے والے دنوں کی جتنی مرضی ظہر کی نمازیں پڑھ لیں صرف اس دن صرف ایک ظہر کی نماز ہی موثر ہو گی اور اسی کا آپ کو ثواب ملے گا - آ نے والے دن کی نماز پہلے نہیں پڑھی جا سکتی -
قرون اولیٰ میں کچھ لوگوں نے یہی کیا کہ قرآن و سنّت کے مطابق طلاق دینے کے بجاے یعنی ہر طھر میں ایک طلاق دینے کا بجاے ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینی شرو ع کر دیں -یعنی بعد میں آنے والی طلاقیں پہلے ہی دے دی جاتیں تا کہ دو مہینے تک مزید انتظار نہ کرنا پڑے -جیسا کہ رسول اللہ ؐ ،ابوبکر ؓ اور عمرفاروقؓ کي خلافت کے ابتدئي دوسالوں ميں اکٹھي تين طلاقوں کو ايک ہي شمار کيا جاتا تھا پھر سيدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمايا جس کام ميں لوگوں کے ليے سوچ بيچار کا موقع تھا اس ميں انہوں نے جلدي شروع کردي ہے- یہ الگ بات ہے کہ پھر حضرت عمر رضی الله عنہ نے تہديدي طور پر تين طلاقوں کا حکم لگا ديا گيا ۔( اور وہ اپنے اس فیصلے پر نادام بھی ہوے )-
.لیکن دین کے ضابطے کے تحت ایسی طلاق موثر ہوتی ہی نہیں - بلکل ایسے جسے آ نے والے دن کی ظہر کی نماز ہم آج کے دن پڑھ لیں تو وہ قبول نہیں ہو سکتی-
اگر میرے نظریے سے کسی کو اختلاف ہو تو براہ مہربانی اپنی آراء پیش کریں اور میری رہنمائی فرمائیں -
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
جزاک اللہ شاہد نذیر بھائی!
آپ کی پچھلی پوسٹ کافی و شافی تھی، جس میں آپ نے اہل حدیث مکتبہ فکر کا موقف بیان کردیا تھا۔ مجھے نہ اس سے اختلاف ہے اور نہ ہی بحث، میں نے اس اختلاف کی طرف آپ دوستوں کو متوجہ کیا تھا، تاکہ تحقیق پر نظر ثانی ہو اور صحیح موقف واضح ہو،
شکریہ
جنہوں نے یہ کہا کہ یہ تین طلاق ہیں وہ بھی درست ہیں کیونکہ وہ قرآن و حدیث کے دلائل پیش کررہے ہیں اور جنہوں نے کہا کہ یہ ایک طلاق ہے تو انکی بنیاد بھی قرآن و حدیث کی نصوص ہیں۔ اب سائل کو جو صورت راجح محسوس ہوتی ہے علماء پر تنقید کئے بغیر وہ اسے اختیار کرسکتا ہے۔
میرے موقف سے آپ کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن میں اپنا موقف بیان کردوں۔
وہ تمام شرعی مسائل جس کا تعلق کسی درجہ میں بھی قرآن و سنت کی دلیل سے ہو اور اس میں اہل علم کے درمیان علمی اختلاف ہوجائے تو قطعی طور پر یہ نہ سمجھا جائے کہ قرآنی آیات، یا احادیث مبارکہ کے درمیان کوئی تعارض ہے، بلکہ حسن ظن یہی ہونا چاہئے کہ یہ اختلاف اہل علم اور اہل فن کے فہم میں ہے۔ جیسا کہ آپ نے بھی یہی لکھا ہے۔ تو ایسے اختلاف میں شدت اور تعصب کسی طور جائز نہیں۔
جب ان مسائل میں بحث ہو تو اختلاف کی حد اہل علم اور اہل فن کے فہم کی حد تک رکھا جائے، عموما ایسا ہوتا کہ کہ فریقین شدت جذبات یا تعصب میں آکر ایک دوسرے پر فتوی لگا دیتے ہیں یا ایک فریق کہتا ہے تیرے دلائل قرآن و سنت کے خلاف ہیں، دوسرا فریق کہتا ہے تیرے دلائل قرآن سنت کے خلاف ہیں اور یہ بدعت ہے۔ ایسی صورت میں عام قاری کے ذہن میں قرآن و سنت کے حوالے سے ایک منفی سوچ پیدا ہوتی ہے اور وہ متنفر ہوتا ہے۔
لہذا ایسے مسائل میں اختلاف اور رد صرف اہل علم کے فہم اور موقف تک ہونا چاہئے۔ اور حسن ظن یہی ہونا چاہئے فریق مخالف کا موقف قرآن وسنت کے خلاف نہیں بلکہ اسے سمجھنے، یا اس کی علمی تحقیق میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
مولانا ابو الحسن صاحب ایک اعتدال پسند انسان ہیں ان کے مضامین میں اعتدال اور تعصب سے پاک ہیں میں ان کے مضامین کو پسند کرتا ہوں میرے دل میں ان کی بڑی عزت اور احترام ہے۔ حسن طن یہی ہے کہ ان کے زیر مطالعہ تحقیق میں غلطی ممکن ہے۔ اور تحقیقی غلطیوں کو اللہ تعالی معاف فرماتا ہے۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں کرتا۔
اللہ تعالی تمام مسلمانوں آپس کے نظریاتی اختلافات ، تعصب سے محفوظ رکھے ، اور ہمیں کامل ہدایت نصیب فرمائے۔
شکریہ
 
Top