ideal_man
رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 258
- ری ایکشن اسکور
- 498
- پوائنٹ
- 79
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
طلاق سیکشن میں ایک سوال موجود تھا ایک حنفی بھائی کا جس میں انہوں نے طلاق دینے کے وقت کی چند صورتوں پر سوال کیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
لیکن محدث فتوی میں مجھے ایک فتوی نظر آیا جس میں ایک دن کے وقفے سے دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کیا ہے اور ان کے درمیان علیحدگی کو ثابت کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
یقینا اس مسئلے میں علماء اہل حدیث کا اختلاف مترشح ہے۔
کیا کوئی اہل حدیث بھائی یا عالم اس اختلاف کی وجہ بیان کرسکتا ہے۔
طلاق سیکشن میں ایک سوال موجود تھا ایک حنفی بھائی کا جس میں انہوں نے طلاق دینے کے وقت کی چند صورتوں پر سوال کیا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
اس کے جواب مولانا ابو الحسن علوی صاحب نے جو دیا ملاحظہ فرمائیںاس موضوع پر ایک حنفی بھائی نے یہ سوال کے ہیں
مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے تین طلاق کے ایک طلاق کے جواز پر اپنا موقف پیش کیا۔
میں نے آپ کی پوسٹ کا مطالعہ کرلیا ہے اور انشا اللہ بہت جلد آپ کی اپنے موقف میں پیش کردہ دلیل کے ضمن میں جمہور کی طرف سے دئے گئے دلائل کو بڑی ذمہ داری سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔
اس کے بعد ہی قارئین کرام خود دوطرفہ دلائل کی روشنی میں اپنے ضمیر کو مطمئن کرسکیں گے ۔ انشا اللہ
فی الوقت مین سفر پر ہوں جیسے ہی اپنے مقام پر واپسی ہوگی میں جواب ترتیب دوں گا۔ فی الحال آپ کے موقف کو سمجھنے کے لئے مجھے آپ سے چند سوالوں کا جواب چاہئے۔
۱ آپ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں سوال یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقین الگ الگ مجلسوں میں دی یعنی ایک صبح دوسری دوپہر تیسری رات کو آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۲ ایک شخص اپنی بیوی کو بروز منگل ایک طلاق دیتا ہے دوسری بروز بدھ اور تیسری بروز جمعرات آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۳ ایک شخص آج ایک طلاق دیتا ہے دوسری طلاق ایک ہفتہ بعد اور تیسری پھر ایک ہفتہ بعد آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
۴ایک شخص اپنی بیوی کو ہر الگ الگ مجلس میں تین تین طلاق دیتا ہے یعنی نو طلاق تین مجلسوں میں دیتا ہے آپ کے نزدیک کتنی طلاقیں ہونگیں؟
میرے بھائی ان سوالوں کا جواب مختصا عنایت فرمادیں اگر سب کا جواب ایک ہے تو ایک ہی جواب دے دیں۔ تاکہ اسی کی روشنی میں میں آپ کی پوسٹ پر دلائل پیش کرسکوں۔
آپ کا بہت بہت شکریہ۔
اس طرح کے سوالوں کا کیا جواب ہے؟
یعنی مولانا ابو الحسن علوی صاحب فرماتے ہیں کہ ایسی تمام صورتوں میں ایک طلاق " طلاق سنی" واقع ہوگی۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم اور اہل الحدیث اہل علم کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ طلاق بدعی واقع ہی نہیں ہوتی ہے۔ راقم کا ذاتی میلان اور رجحان بھی اسی قول کی طرف ہے۔ اس قول کے مطابق:
حالت حیض اور نفاس میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔
ایک مجلس میں اگر تین طلاقیں دی ہیں تو پہلی سنت ہے لہذا واقع ہو جائے گی اور دوسری اور تیسری بدعت ہے لہذا واقع نہیں ہو گی۔
اسی طرح اگر ایک طہر میں تین طلاقیں دی ہیں تو پہلی واقع ہو جائے گی کیونکہ ایک طہر میں ایک طلاق دینا طلاق سنی ہے جبکہ دوسری اور تیسری بدعت ہیں لہذا واقع نہیں ہوں گی۔
اگر ایسے طہر میں طلاق دی ہے کہ جس میں بیوی سے مباشرت کر چکا ہو تو ایسی طلاق بھی بدعت ہے لہذا واقع نہیں ہو گی یعنی صرف اسی طہر میں ایک طلاق واقع ہو گی کہ جس طہر میں مباشرت نہ کی ہو۔ اورجس میں مباشرت کی ہو تو اس میں ایک بھی واقع نہ ہو گی۔
اسی طرح اگر ایک طہر میں مباشرت نہیں کی اور طلاق دی تو یہ طلاق سنی ہے اور ایک طلاق ہے۔ اب اگلے طہر میں دوبارہ طلاق دے دی لیکن درمیان میں رجوع نہیں کیا تو یہ دوسری طلاق، طلاق بدعی ہے کیونکہ دوسری طلاق کے سنت ہونے کے لیے پہلی سے رجوع لازم ہے لہذا دوسری واقع نہیں ہو گی۔
ان تمام فتاوی کی اصل یہ ہے کہ طلاق سنت واقع ہوتی ہے اور طلاق بدعی واقع نہیں ہوتی ہے۔ یعنی اصول یہ ہے کہ طلاق کا جو طریقہ مشروع ہے، اس کے مطابق طلاق دی ہے تو طلاق واقع ہو جائے گی اور اگر اس کے علاوہ کسی طریقہ سے طلاق دی ہے تو طلاق واقع نہ ہو گی۔
جزاکم اللہ خیرا
لیکن محدث فتوی میں مجھے ایک فتوی نظر آیا جس میں ایک دن کے وقفے سے دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کیا ہے اور ان کے درمیان علیحدگی کو ثابت کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
ایک دن کے وقفے سے تین طلاقیں دیناایک دن کے وقفے سے تین طلاقیں دینا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 04 September 2012 10:29 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
«الاول : زَيْدٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ بِطَلاَقٍ وَاحِدٍ فِیْ يَوْمِ الْاَحَد ثُمَّ طَلَّقَ بِطَلاَقٍ ثَانٍ فِیْ يَوْمِ الْاِثْنَيْنِ ثُمَّ طَلَّقَهَا بِطَلاَقٍ ثَالِثٍ فِیْ يَوْمِ الثُّلاَثَاءِ اَعْنِیْ اَوْقَعَ طَلَقَاتٍ ثَلاَثَةً فِیْ ثَلاَثَةِ اَيَّامٍ مُتَوَالِيَاتٍ هَلْ تُعَدُّ تِلْکَ الطَّلَقَاتُ طَلاَقًا وَاحِدًا رَجْعِيًّا اَوْ تُعَدُّ طَلاَقًا ثَلاَثًا »
«اَلْمَسْأَلَةُ الثَّانِيَةُ:زَيْدٌ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ بِثَلاَثِ تَطْلِيْقَاتٍ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ بِاَنْ يَقُوْلَ اَنْتِ طَالِقُ ثَلاَثًا اَوْ بِاَلْفَاظٍ مُخْتَلِفَةٍ بِاَنْ يَقُوْلَ اَنْتِ طَالِقٌ وَطَالِقٌ وَطَالِقٌ هَلْ تُعَدُّ تِلْکَ التَّطْلِيْقَاتُ طَلاَقًا ثَلاَثًا اَمْ تُعَدُّ طَلاَقًا وَاحِدًا رَجْعِيًّا »
الاول: زید نے اپنی بیوی کو ایک طلاق اتوار کے دن دی دوسری طلاق سوموار کو اور تیسری منگل کو میری مراد یہ ہے کہ اس نے تین طلاقیں پے در پے تین دنوں میں دے دیں کیا یہ طلاقیں ایک رجعی طلاق ہو گی یا تین طلاقیں ہو جائیں گی؟
الثانی: زید اپنی بیوی کو ایک ہی لفظ سے تین طلاقیں دیتا ہے« أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً» کہتا ہے یا مختلف الفاظ «أَنْتِ طَالِقٌ وَطَالِقٌ وَطَالِقٌ»کہتا ہے کیا یہ طلاقیں تین ہوں گی یا ایک طلاق رجعی ہو گی؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) «فِیْ هٰذِهِ الصُّوْرَةِ تَقَعُ الطَّلَقَاتُ الثَّلاَثُ ، فَلاَ تَحِلُّ الْمَرْأَةُ لِزَوْجِهَا حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ نِکَاحًا صَحِيْحًا لَمْ يَلْعَنْ صَاحِبَهُ الشَّرْعُ ۔ وَذٰلِکَ لِأَنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَتَعالٰی قَالَ: ﴿اَلطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِيْحٌ بِإِحْسَانٍ ۔ الآية﴾ وَقَدْ فَسَّرَ النَّبِیُّ ﷺقَوْلَهُ تَعَالٰی : ﴿تَسْرِيْحٌ بِإِحْسَانٍ﴾ بالطلاق الثَّالِثِ کَمَا فِیْ تَفْسِيْرِ الْحَافِظِ ابْنِ کَثِيْرٍ وَغَيْرِهِ ، فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ الْوَقْتَ الَّذِیْ يَصِحُّ فِيْهِ الْإِمْسَاکُ بِالْمَعْرُوْفِ يَصِحُّ فِيْهِ التَّسْرِيْحُ بِالْإِحْسَانِ الَّذِیْ هُوَ طَلاَقٌ ، وَقَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی :﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِکُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ الآية ۔ وهٰذَا أَيْضًا يَدُلُّ أَنَّ الطَّلاَقَ بِدُوْنِ رُجُوْعٍ يَصِحُّ لِأَنَّ التَّسْرِيْحَ الَّذِیْ هُوَ طَلاَقٌ قَدْ جُعِلَ فِيْهِ مُقَابِلاً لِلْإِمْسَاکِ الَّذِیْ هُوَ رُجُوْعٌ بِکَلِمَةِ أَوْ ۔ وَکَذَا فِیْ قَوْلِهِ تَعَالٰی ۔﴿فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِيْحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
(2) «إِنَّ طَلاَقَ الثَّلاَثِ فِیْ هٰذِهِ الصُّوْرَةِ يُجْعَلُ طَلاَقًا وَاحِدًا لِحَدِيْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اﷲُ عَنْهُمَا اَلَّذِیْ أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ فِیْ صَحِيْحِهِ»
(2) ’’اس صورت میں تین طلاقیں ہوں گی بیوی اپنے خاوند کے لیے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے خاوند سے نکاح صحیح کرے ایسا نکاح جس کے کرنے والے پر شرع نے لعنت نہ کی ہو۔‘‘
اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : رجعی طلاقیں دو ہیں اس کے بعد یا تو بیوی کو آباد رکھنا ہے یا پھر شائستگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور نبیﷺنے تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ کی تفسیر تیسری طلاق کی ہے جس طرح کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر اور دوسری تفاسیر میں ہے ۔ تو ثابت ہوا کہ جس وقت میں اِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ درست ہے اس وقت میں تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ بھی درست ہے جو کہ طلاق ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور جو تم طلاق دو عورتوں کو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں پس روکو ان کو اچھے طریقے سے یا چھوڑ دو ان کو اچھے طریقے سے۔
یہ فرمان الٰہی بھی دلالت کرتا ہے کہ طلاق بغیر رجوع کے درست ہے کیونکہ تسریح جو کہ طلاق ہے اس کو امساک کے مقابل بنایا گیا ہے جو کہ رجوع ہے أو کے کلمہ کے ساتھ۔
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول میں ہے﴿فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ﴾
(2) ’’اس صورت میں تین طلاقیں ایک ہی طلاق ہو گی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی وجہ سے جس کو مسلم نے اپنی صحیح میں نکالا ہے‘‘
وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
طلاق کے مسائل ج1ص 338
محدث فتویٰ
یقینا اس مسئلے میں علماء اہل حدیث کا اختلاف مترشح ہے۔
کیا کوئی اہل حدیث بھائی یا عالم اس اختلاف کی وجہ بیان کرسکتا ہے۔