• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک شخص نے سورج غروب سمجھ کر روزہ کھول لیا اس کے بعد سورج نکل آیا!

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
حدیث نمبر: 1959
حدثني عبد الله بن أبي شيبة،‏‏‏‏ حدثنا أبو أسامة،‏‏‏‏ عن هشام بن عروة،‏‏‏‏ عن فاطمة،‏‏‏‏ عن أسماء بنت أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ قالت أفطرنا على عهد النبي صلى الله عليه وسلم يوم غيم،‏‏‏‏ ثم طلعت الشمس‏.‏ قيل لهشام فأمروا بالقضاء قال بد من قضاء‏.‏ وقال معمر سمعت هشاما لا أدري أقضوا أم لا‏.‏

ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بادل تھا۔ ہم نے جب افطار کر لیا تو سورج نکل آیا۔ اس پر ہشام (راوی حدیث) سے کہا گیا کہ پھر انہیں اس روزے کی قضاء کا حکم ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتلایا کہ قضاء کے سوا اور چارہ کار ہی کیا تھا؟ اور معمر نے کہا کہ میں نے ہشام سے یوں سنا ”مجھے معلوم نہیں کہ ان لوگوں نے قضاء کی تھی یا نہیں۔“

صحیح بخاری
کتاب الصیام
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
تشریح : اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں قضا لازم ہوگی اور کفارہ نہ ہوگا اور اس کے سوا یہ بھی ضروری ہے کہ جب تک غروب نہ ہو امساک کرے یعنی کچھ کھائے پیے نہیں۔

قسطلانی نے بعض حنابلہ سے یہ نقل کیا کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھ کر کہ رات ہو گئی افطار کرلے پھر معلوم ہوا کہ دن تھا تو اس پر قضا نہیں ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں۔ میں کہتا ہوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ منقول ہے کہ ایسی صورت میں قضا بھی نہیں ہے، اور مجاہد اور حسن سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ حافظ نے کہا کہ ایک روایت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایسی ہی ہے اور ابن خزیمہ نے اسی کو اختیار کیا ہے اور معمر کی تعلیق کو عبد بن حمید نے وصل کیا۔ یہ روایت پہلی روایت کے خلاف ہے اور شاید پہلے ہشام کو اس میں شک رہا ہو پھر یقین ہو گیا ہو کہ انہوں نے قضا کی۔ اور ابواسامہ نے ان کو قضا کا یقین ہوجانے کے بعد روایت کی ہو، اس صورت میں تعارض نہ رہے گا۔ ابن خزیمہ نے کہا ہشام نے جو قضا کرنا بیان کیا اس کی سند ذکر نہیں کی، اس لیے میرے نزدیک قضا نہ ہونے کی ترجیح ہے اور ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ہم قضا نہیں کرنے کے نہ ہم کو گناہ ہوا اور عبدالرزاق اور سعید بن منصور نے ان سے یہ نقل کیا ہے کہ قضا کرنا چاہئے۔ حافظ نے کہا کہ حاصل کلام یہ ہوا کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ ( وحیدی ) ظاہر حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ قضا لازم ہے واللہ اعلم
 
Top