محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,786
- پوائنٹ
- 1,069
ایک عیسائی طالبہ اسلام میں دی جانے والی سزائے قتل پر اعتراض کرتی ہے، اس کی بات پر ہمارا جواب
سوال: اسلامی تعلیمات کی رو سے قتل کی شرائط پائی جانے کے باوجود قتل کو اسلام نے کیوں روا رکھا ہے؟ کیا یہ روح صرف اللہ تعالی کی ملکیت نہیں ہے؟ میں قتل کے بارے میں قرآنی تعلیمات کو تسلیم نہیں کرتی، آپ مجھے صرف عقلی دلائل دیں ۔
Published Date: 2016-05-13
الحمد للہ:
1- یہ اچھی بات ہے کہ غیر مسلم افراد کی جانب سے اسلامی احکامات اور حکمتوں کے بارے میں سوال مسلمان اہل علم کے سامنے رکھے جائیں، یہ غیر مسلموں کے لیے بھی بہتر ہوگا کہ وہ اپنے سوالات کا جواب عام مسلمان کی بجائے اہل علم سے لیں کیونکہ عام لوگ بسا اوقات جذبات میں آ جاتے ہیں اور لا علمی پر مبنی گفتگو کر جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہم تمام متلاشیان حق سے بھی امید رکھتے ہیں کہ جب بھی انہیں حق بات ملے تو اسے فوری طور پر قبول کر لیں، سوال برائے سوال یا سوال برائے تنقید ان کا ہدف نہیں ہونا چاہیے۔
2- ہم اپنا جواب سائلہ کی بات سے ہی شروع کرتے ہیں کہ سائلہ نے کہا:
" کیا یہ روح صرف اللہ تعالی کی ملکیت نہیں ہے؟"
تو ہم کہتے ہیں: بالکل یہ صرف اللہ تعالی کی ملکیت ہے، اس لیے اس کے مالک یعنی اللہ تعالی کے حکم سے ہی قتل کیا جائے گا ، لہذا اگر آپ شریعت الہی کی تاریخ میں کوئی میں ایسا قتل دیکھیں جو کہ اللہ تعالی کے حکم سے نہیں ہوا تو یہ ہم مسلمانوں کے لئے واقعی مشکل و پریشانی ہو گی؛ کیونکہ اس طرح آپ ہمارے خلاف دلیل کھڑی کر سکتی ہیں!
یہی وجہ ہے کہ اگر ہم کسی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص قتل کا مستحق ہے، یا اس پر قتل کی سزا عملی طور پر قائم کی جائے اور یہ قتل شریعت میں موجود نہ ہو اور نہ ہی قرآن کریم میں اس کا حکم ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہ دیا ہو تو پھر یہ قتل ظلم و زیادتی ہو گا، اس وقت آپ مذکورہ موقف رکھنے والے پر اعتراض کر سکتی ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو، بلکہ آپ سمیت سب لوگوں کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے۔
اور اگر قتل کرنے کی اجازت یا حکم صرف اسی کے بارے میں دیا جائے جو شریعت کی رو سے واقعی قتل کا مستحق ہو چاہے قرآن مجید کے مطابق یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ کے مطابق تو پھر آپ کیلیے اعتراض کرنے کا موقع نہیں ؛ کیونکہ اس صورت میں اعتراض کا جواب بہت آسان ہے کہ جس روح کے بارے میں آپ کہہ رہی ہیں کہ یہ رب العالمین کی ملکیت ہے اسی نے اسے پیدا کیا تو وہی اس صورت میں اسے قتل کرنے کا حکم دے رہا ہے۔
پہلے سوال نمبر: (20824) کے جواب میں یہ گزر چکا ہے کہ شریعت مطہرہ میں کن اسباب کی بنا پر قتل کی سزا دی گئی ہے، آپ اس جواب کا مطالعہ کریں۔
3- اگر ایسے نظریات اور افکار پر حکم لگائیں جنہیں ہم تسلیم نہیں کرتے تو ان پر حکم لگاتے ہوئے انصاف اور اعتدال کی راہ اختیار کرنے کیلیے دو چیزوں کا ہونا از بس ضروری ہے:
پہلی بات:
دوسروں کے نظریہ کو بالکل اسی طرح کامل اور بغیر کسی کمی بیشی کے دیکھیں جیسے اس نظریے کے حامل افراد اپنے نظریے کو دیکھتے ہیں۔
دوسری بات:
وہ تمام باتیں جو ہم اپنے یا اپنے کسی چاہنے والے کے بارے میں جائز سمجھتے ہیں دوسروں سے بھی قبول کریں۔
چنانچہ اگر ہم اسلامی احکامات کے بارے میں انصاف کرنا چاہیں تو ہمیں ان حالات کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا جن میں اسلام نے قتل کو جائز قرار دیا ہے یا قتل کا حکم دیا ہے، پھر اس حکم کے متعلق حقیقی تصور کو تکمیل دینے کیلیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام نے بلا وجہ قتل کی روک تھام کیلیے کیا کیا اقدامات کیے ہیں اور معاشرے کو قتل کے سنگین نتائج سے کس طرح محفوظ کیا ہے۔
سوال: اسلامی تعلیمات کی رو سے قتل کی شرائط پائی جانے کے باوجود قتل کو اسلام نے کیوں روا رکھا ہے؟ کیا یہ روح صرف اللہ تعالی کی ملکیت نہیں ہے؟ میں قتل کے بارے میں قرآنی تعلیمات کو تسلیم نہیں کرتی، آپ مجھے صرف عقلی دلائل دیں ۔
Published Date: 2016-05-13
الحمد للہ:
1- یہ اچھی بات ہے کہ غیر مسلم افراد کی جانب سے اسلامی احکامات اور حکمتوں کے بارے میں سوال مسلمان اہل علم کے سامنے رکھے جائیں، یہ غیر مسلموں کے لیے بھی بہتر ہوگا کہ وہ اپنے سوالات کا جواب عام مسلمان کی بجائے اہل علم سے لیں کیونکہ عام لوگ بسا اوقات جذبات میں آ جاتے ہیں اور لا علمی پر مبنی گفتگو کر جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہم تمام متلاشیان حق سے بھی امید رکھتے ہیں کہ جب بھی انہیں حق بات ملے تو اسے فوری طور پر قبول کر لیں، سوال برائے سوال یا سوال برائے تنقید ان کا ہدف نہیں ہونا چاہیے۔
2- ہم اپنا جواب سائلہ کی بات سے ہی شروع کرتے ہیں کہ سائلہ نے کہا:
" کیا یہ روح صرف اللہ تعالی کی ملکیت نہیں ہے؟"
تو ہم کہتے ہیں: بالکل یہ صرف اللہ تعالی کی ملکیت ہے، اس لیے اس کے مالک یعنی اللہ تعالی کے حکم سے ہی قتل کیا جائے گا ، لہذا اگر آپ شریعت الہی کی تاریخ میں کوئی میں ایسا قتل دیکھیں جو کہ اللہ تعالی کے حکم سے نہیں ہوا تو یہ ہم مسلمانوں کے لئے واقعی مشکل و پریشانی ہو گی؛ کیونکہ اس طرح آپ ہمارے خلاف دلیل کھڑی کر سکتی ہیں!
یہی وجہ ہے کہ اگر ہم کسی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص قتل کا مستحق ہے، یا اس پر قتل کی سزا عملی طور پر قائم کی جائے اور یہ قتل شریعت میں موجود نہ ہو اور نہ ہی قرآن کریم میں اس کا حکم ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہ دیا ہو تو پھر یہ قتل ظلم و زیادتی ہو گا، اس وقت آپ مذکورہ موقف رکھنے والے پر اعتراض کر سکتی ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو، بلکہ آپ سمیت سب لوگوں کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے۔
اور اگر قتل کرنے کی اجازت یا حکم صرف اسی کے بارے میں دیا جائے جو شریعت کی رو سے واقعی قتل کا مستحق ہو چاہے قرآن مجید کے مطابق یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ کے مطابق تو پھر آپ کیلیے اعتراض کرنے کا موقع نہیں ؛ کیونکہ اس صورت میں اعتراض کا جواب بہت آسان ہے کہ جس روح کے بارے میں آپ کہہ رہی ہیں کہ یہ رب العالمین کی ملکیت ہے اسی نے اسے پیدا کیا تو وہی اس صورت میں اسے قتل کرنے کا حکم دے رہا ہے۔
پہلے سوال نمبر: (20824) کے جواب میں یہ گزر چکا ہے کہ شریعت مطہرہ میں کن اسباب کی بنا پر قتل کی سزا دی گئی ہے، آپ اس جواب کا مطالعہ کریں۔
3- اگر ایسے نظریات اور افکار پر حکم لگائیں جنہیں ہم تسلیم نہیں کرتے تو ان پر حکم لگاتے ہوئے انصاف اور اعتدال کی راہ اختیار کرنے کیلیے دو چیزوں کا ہونا از بس ضروری ہے:
پہلی بات:
دوسروں کے نظریہ کو بالکل اسی طرح کامل اور بغیر کسی کمی بیشی کے دیکھیں جیسے اس نظریے کے حامل افراد اپنے نظریے کو دیکھتے ہیں۔
دوسری بات:
وہ تمام باتیں جو ہم اپنے یا اپنے کسی چاہنے والے کے بارے میں جائز سمجھتے ہیں دوسروں سے بھی قبول کریں۔
چنانچہ اگر ہم اسلامی احکامات کے بارے میں انصاف کرنا چاہیں تو ہمیں ان حالات کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا جن میں اسلام نے قتل کو جائز قرار دیا ہے یا قتل کا حکم دیا ہے، پھر اس حکم کے متعلق حقیقی تصور کو تکمیل دینے کیلیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام نے بلا وجہ قتل کی روک تھام کیلیے کیا کیا اقدامات کیے ہیں اور معاشرے کو قتل کے سنگین نتائج سے کس طرح محفوظ کیا ہے۔