کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
باغ فدک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کیوں نہ ملا
کامران طاہر
فدک مدینہ منورہ سے تین منزلوں پر واقع ایک بستی کا نام ہے۔ 7ہجری میں جب خیبر فتح ہوا تو آپﷺ مدینہ تشریف لارہے تھے تو آپﷺ نے حضرت محیصہ بن مسعود کو اہل فدک کی طرف بھیجا کہ انہیں اسلام قبول کرلینے کی دعوت دیں۔ اس کے سردار یوشع بن نون یہودی نے فدک کی آدھی آمدنی پر صلح کرلی اور اسی میں باغ فدک مسلمانوں کے قبضہ میں آیا چونکہ یہ مال لڑائی کے بغیر اور صلح کرنےکے عوض تھا اس لیےاسے مال فئی کہتے ہیں۔ او ریہ باغ آپﷺ کےحصہ میں آیا۔ آپﷺ اس باغ سے اپنے گھر والوں پر بھی خرچ کرتے اور غربا میں بھی۔ آپﷺ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے اس باغ کامطالبہ کیا تو آپؓ نے انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا کہ انبیاء کی وراثت نہیں ہوتی۔اس سے متعلقہ روایات اس طرح ہیں:
انبیاء کی وراثت ان کی وفات کے بعد ورثا میں تقسیم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اوپر حدیث میں گزر چکا ہے۔«عن عائشه۔ أن فاطمة والعباس علیهما السلام أتیا أبابکر یلتمسان میراثھا من رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم وھما یطلبان أرضیھما من فدک و سھمھما من خیبر فقال لھما ابوبکر سمعت رسو لاللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول لا نورث ماترکنا صدقة انما یأکل آل محمد من ھذا المال قال ابوبکر واللہ لا أدع أمرا رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم يصنعه فیه إلا صنعته» (صحیح بخاری کتاب الفرائض بابقول النبی لا نورث ماترکنا صدقه)
’’اُم المؤمنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ دونوں ( رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے آپﷺ کا ترکہ مانگتے تھے یعنی جو زمین آپﷺ کی فدک میں تھی او رجوحصہ خیبر کی اراضی میں تھا طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپﷺ نے فرمایا ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ بات یہ ہے کہ محمدﷺ کی آل اس میں سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکرؓ نے یہ فرمایاکہ اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کوجو کام کرتے دیکھا میں اسے ضرور کروں گا اسے کبھی چھوڑنے کا نہیں۔‘‘
یہی روایت حضرت ابوہریرہؓ سے بھی اس طرح مروی ہے کہ:
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتا جو کہ ان کی اولاد وغیرہ میں تقسیم ہوں۔ اس کی تائید معروف شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی کتاب اصول کافی میں بروایت ابوالبختری امام ابوعبداللہ جعفر صادق سے اس معنی کی روایت نقل کی ہے:«قال لا تقسم ورثتی دینارا ماترکت بعد نفقة نسائی و مؤنة عاملی فھو صدقة»(سنن ابی داؤد کتاب الخراج وإلا مارۃ والفئی باب فی صفا یارسول اللہ من الأموال 2974)
’’آپﷺ نے فرمایا: میرے وارث اگر میں ایک اشرفی چھوڑ جاؤں تو اس کو تقسیم نہیں کرسکتے بلکہ جو جائیداد میں چھوڑ جاؤں اس میں سے میری بیویوں اور عملہ کا خرچہ نکال کر جو بچے وہ سب اللہ کی راہ میں خیرات کیا جائے۔‘‘
اور یہ صرف انبیاء کی اولاد ہی کے لیے قانون نہیں بلکہ ان کی بیویوں اور دوسرے رشتہ داروں کے لیےبھی ہے کہ انبیاء کی وراثت سے انہیں کچھ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیؐ کی وفات کے بعد امہات المؤمنینؓ نے جب آپؐ کا ترکہ کے لیے ارادہ کیا تو حضرت عائشہؓ نے منع کردیا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:«عن ابی عبداللہ قال ان العلماء ورثة الأنبیاء و ذالک ان الانبیاء ................ دراھما ولا دینارا وانما ورثوا احادیث من احادیثھم فمن اخذ بیشئ منھا اخذ بحظ وافر» (اصول کافی:1؍32 باب صفة العلم وفضله)
حضرت جعفر صادق نے فرمایا: ہر گاہ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اس لیےکہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت درہم و دینار کی صورت میں نہیں ہوتی وہ اپنی حدیثیں وراثت میں چھوڑتے ہیں جو انہیں لے لیتا ہے اس نے پورا حصہ پالیا۔‘‘
مذکورہ بالا بحث سے پتہ چلا کہ انبیاء کی وراثت ان کی اولاد اور رشتہ داروں میں تقسیم نہیں ہوسکتی او ریہ انبیاء کے لیے ایک قانون تھا جس پر حضرت محمدﷺ کی ذات بھی شامل ہے۔ لہٰذا ان احادیث کی روشنی میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کو باغ فدک وراثت میں نہ دیا اور اس طرح اس حدیث کے تحت امہات المؤمنین بھی آپؐ کے ترکہ سے محروم رہیں۔«عن عائشه أن أزواج النبی صلی اللہ علیه وسلم حین توفی رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم أردن أن یبعثن عثمان إلی أبی بکر یسألنه مبراثھن فقالت عائشة ألیس قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا نورث ماترکنا صدقة»( صحیح بخاری کتاب الفرائض باب قول النبی لانورث ماترکنا صدقة)
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو آپ ؐ کی بیویوں نے یہ ارادہ کیاکہ حضرت عثمانؓ کو ابوبکر صدیقؓ کے پاس بھیجیں اور اپنے ورثہ کا مطالبہ کریں تو اس وقت میں (عائشہ) ان کو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ فرمایا ہے: ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘