محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن
فضیلۃ الشیخ علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 03 صفر 1435 کا خطبہ جمعہ بعنوان "بخل ۔۔۔معاشرتی ناسور" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے زہد، اور بخل کا مفہوم ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو دنیا سے امیدیں لگانے سے روکا اور بخیلی کے نتائج ذکر کئے، اس کیلئے انہوں نے متعدد احادیث بھی ذکر کیں۔پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو کہ غالب اور بخشنے والا ہے، وہی دلوں کے بھید جانتا ہے، جس نے ہم پر اور تمام لوگوں پر اپنی نعمتوں کے دریا بہا دئیے ہیں، اور گناہوں کے دلدادہ افراد کو عذاب سے بچایا، میں اپنے رب کی تعریف اور شکر ادا کرتا ہوں،اور اسی سے گناہوں کی توبہ اور استغفار کرتا ہوں، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ یکتا ہے ، وہی برد باد اور قدر کرنے والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ـصلی اللہ علیہ وسلم ـ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، یا اللہ اپنے بندے اور رسول محمد ، آپکی اولاد اور تمام صحابہ کرام پر اپنی ڈھیروں رحمتیں اور برکتیں نازل فرما، جنہوں نےاعمالِ صالحہ کرتے ہوئے تیری راہ میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔
حمد و صلاۃ کے بعد!
اللہ کے پسندیدہ اعمال کرتے ہوئے اللہ تعالی ڈرو ، اور اسکی نافرمانی نہ کرو، اس لئے کہاللہ ہی سے ڈرنا چاہئے کہ وہ گناہوں کو بخشنے والا ہے۔
اللہ کے بندو!
ایسا شخص مبارکبادی کا مستحق ہے جو ایمان و یقین کے ساتھ اللہ کی پسندیدہ صفات سے متصف ہے، اور تباہی و بربادی ایسے شخص کا مقدر ہے جو مذموم صفات اور بد اخلاق کا حامل ہے۔
ہر شخص پر واجب زہد یہ ہے کہ اپنے آپ کو حرام کاموں سے بچائے، لوگوں کے مال وجان سے اپنے ہاتھوں کو میلا نہ کرے، حلال روزی کی تلاش میں رہے، اور ہر قسم کے مشتبہ کاموں سے دور رہتے ہوئے تمام لوگوں کے حقوق ادا کرے۔
اس سے بڑھ کر جو کچھ بھی ہوگا وہ اضافی نیکیاں ہیں، جو کہ گناہوں کی معافی کاسبب بنے گیں، شریعت نے اسکی ترغیب دلائی ہے، ان اعمال پر اللہ تعالی کی جانب سے ڈھیروں اجرو ثواب عنائت کیا جائے گا، اور درجات بھی بلند ہونگے، دنیا میں اللہ تعالی اپنے بندے سے رسوائی اور خطرات کو ٹال دے گا، اور انجام بھی اچھا ہوگا، اسی بارے میں فرمایا: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنْفِقُوا خَيْرًا لِأَنْفُسِكُمْ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سنو اور اطاعت کرو اور (اپنے مال) خرچ کرو۔ یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔ [التغابن: 16]
آیت میں مذکور "فلاح" ایک مقام ہے جو اللہ کی رحمت سے ہی حاصل ہوسکتا ہے، اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اور صحابہ کرام کو یہ درجہ عنائت کرتے ہوئے فرمایا: لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأُولَئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ لیکن رسول نے اور ان لوگوں نے جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کیا۔ ساری بھلائیاں انہی لوگوں کے لیے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں [التوبة: 88]
سخی اور صاف دل، تنہائی میں نیکیاں ، اور اچھی عادات زہد کے مترادفات میں سے ہیں، اور اکثر اوقات یہ زہد کے ساتھ ساتھ ہی ہوتی ہیں، یہ سب خوبیاں، یا ان میں سے ایک ہی اگر صحیح عقیدہ کے ساتھ کسی شخص میں پائی جائیں تو اسے با آسانی جنت میں داخل کر سکتی ہیں، چنانچہ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا: (ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا) تو اتنے میں ایک انصاری صحابی آئے جنکی داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا، اور انہوں نے اپنے بائیں ہاتھ میں جوتے اٹھائے ہوئے تھے، آئندہ روز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات کہی، تو اس بار بھی وہی شخص اپنی پہلی حالت میں آیا، تیسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا، اس بار بھی وہی صحابی اپنی پہلی حالت میں رونما ہوئے۔
چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تو عبد اللہ بن عَمرو رضی اللہ عنہما نے انکا پیچھا کیا، اور اُن سے کہا:میرا والد سے جھگڑا ہوگیا ہے، اور میں نے قسم اٹھا لی ہے کہ تین دن تک ان کے پاس نہیں آؤں گا، چنانچہ اگر آپ مجھے تین دن تک اپنے پاس ٹھہرنے کی اجازت دے دیں تو میں تین دن آپکے پاس ٹھہر جاؤں؟ انہوں نےکہا: ہاں ٹھیک ہے۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : عبد اللہ بن عمرو نے ہمیں بتلایا کہ تین راتیں میں نے انکے ساتھ گزاریں، لیکن رات کو وہ کسی قسم کا قیام بھی نہیں کرتے تھے، ہاں جب بھی بستر پر کروٹ لیتے، اللہ کا ذکر کرتے اور اللہ اکبر کہتے، یہاں تک کہ صبح فجر کی نماز کا وقت ہوجاتا، اس کے علاوہ میں نے انہیں جب بھی بات کرتے ہوئے سنا، تو وہ کوئی نہ کوئی اچھی بات ہی کرتے تھے۔
تین راتیں گزرنے کے بعد، مجھے ان کے اعمال معمولی لگنے لگے، تو آخر کار میں نے انہیں کہہ ہی دیا: اللہ کے بندے! میری اپنے والد صاحب سے کوئی لڑائی نہیں ہے، اور نہ ہی ہم نے ایک دوسرے کو چھوڑا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین بار کہتے ہوئے سناتھا: (اب تمہارے پاس ایک جنتی شخص آئے گا) تو تینوں بار آپ ہی آئے تھے، تو میں کہا کہ کیوں نہ تمہارے پاس رہوں اور تمہارے اعمال دیکھوں تا کہ خود بھی یہی اعمال کروں، لیکن مجھے آپکے اعمال میں کوئی خاص بات نظر نہیں آئی، تو وہ کونسا عمل ہے جسکی وجہ سے آپکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا بڑا مرتبہ بتلایا؟!۔
وہ صحابی کہنے لگے: میرے شب و روز کے اعمال یہی ہیں جو آپ نے دیکھے۔
تو عبد اللہ کہتے ہیں کہ :میں یہ سن کر جانے لگا، تو انہوں نے مجھے بلایا، اور کہا: میرے اعمال تو یہی ہیں جو تم نے دیکھے لیکن میرے دل میں کسی مسلمان کے بارے کینہ نہیں ہے، اور نہ ہی میں اللہ کی طرف سے عنائت کردہ نعمت پر کسی سے حسد کرتا ہوں۔
عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں: "یہی وہ عمل ہے جسکی وجہ سے تمہیں اتنا بلند مرتبہ ملا ہے" اس واقعہ کو احمد اور نسائی نے بیان کیا ہے، اور اسکی سند بھی صحیح ہے۔
عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کونسے لوگ بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا: (ہر مخموم القلب ، اور سچی زبان والامؤمن ) ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یہ مخموم القلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: (متقی ، صاف ستھرا دل، جس میں کوئی کینہ اور ملاوٹ نہ ہو اور نہ ہی بغاوت وحسد) اسے ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
جبکہ حلال وحرام کی پرواہ کئے بغیر دنیا جمع کرنے میں لگے رہنا ؛ حقیقت میں یہی دل کی بیماری ہے، جو اسکی ہلاکت کا باعث بنتی ہے، جس سے رزق میں بے برکتی اور دنیا و آخرت دونوں جہانوں کا خسارہ ہے۔
اس بیماری کے مترادفات میں بخیلی اور کنجوسی شامل ہے، بخیلی مذموم صفت ہے، جسے اللہ تعالی ناپسند فرماتا ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (سخی آدمی اللہ کے قریب ہونے کیساتھ ساتھ لوگوں کے بھی قریب ہوتا ہے، اسی لئے وہ جنت کےقریب اور جہنم سے دور ہوتا ہے، جبکہ بخیل آدمی اللہ سے دور، لوگوں سے بھی دور ہوتا ہے، اسی لئے جنت سے دور اور جہنم کے قریب ہوتا ہے، اور ایک جاہل لیکن سخی انسان اللہ کو ایک عبادت گزار بخیل آدمی سے زیادہ محبوب ہوتا ہے) ترمذی
زکاۃ نہ دینا اور اہل وعیال پر خرچ نہ کرنا، فقیروں کو نہ دینا، مہمان کی مہمان نوازی سے کترانا، اور اضافی مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کا نام بخل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى (8) وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى (9) فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى (10) وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّى اور جس نے بخل کیا اور بے پروا بنا رہا [8]اور بھلائی کو جھٹلایا [9]تو ہم اسے تنگی کی راہ پر چلنے کی سہولت دیں گے[10] اور جب وہ (جہنم کے) گڑھے میں گرے گا تو اس کا مال اس کے کسی کام نہ آئے گا [الليل: 8- 11]،
اور منافقوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ منافق مرد ہوں یا عورتیں، ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، جو برے کام کا حکم دیتے اور بھلے کام سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (بھلائی صدقہ سے) کھینچ لیتے ہیں۔ [التوبة: 67]
"الشُحّ" بخیلی سے بھی بد تر ہے، کیونکہ "الشُحّ" لوگوں کے اموال اور حقوق پر ہاتھ صاف کرنےکا نام ہے، کہ انسان ظلم و زیادتی کا بازار گرم کر کےانکو حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کرے،ایسا شخص دنیا کے پیچھے لگ کر حسد کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے، اور اس راستے میں اتنا دور نکل پڑتا ہے کہ اُس نے اللہ کے عذاب کو معمولی چیز سمجھ لیا ہے، اسے اللہ کا ڈر اور خوف نامی کسی شی ء کا پتا ہی نہیں ہے، اور یہ اپنے انجام کو بھول چکا ہے ۔
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خبردار کیا چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ظلم کرنے سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہونگے، اور "شُح "-انتہائی گھٹیا قسم کا بخل-سے بچو کیونکہ "شُح "نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے، کیونکہ اسی کی وجہ سے انہوں نے لوگوں میں قتل وغارت پھیلائی اور انکی آبرو ریزی کی) مسلم
ایسے ہی عبداللہ بن عمر و رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بے حیائی ، اور جان بوجھ کر بے حیا بننے سے بچو، اس لئے کہ اللہ تعالی ان دونوں کو پسند نہیں کرتا، "شُح "سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی "شُح "کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئے ہیں "شُح "نے ان کو ظلم کا حکم دیا تو انہوں نے ظلم ڈھائے، اور "شُح "نے جب ان سے ناطہ توڑنے کا کہا تو رشتے ناطے توڑ بیٹھے اور جب "شُح "نے فسق و فجور پر ابھارا تو اس کے مرتکب ہوئے) احمد ، ابو داود نے اسے روایت کیا ہے۔
ابو الھیّاج الاسدی کہتے ہیں کہ میں بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا، تو میں نے ایک آدمی کو دیکھا وہ کہہ رہا تھا: "یا للہ! مجھے میرے نفس کے شُح سے بچا دے" اور اس سے زیادہ دعا نہ کرتا، میرے سوال کرنے پر اس نے کہا:اگر میں اپنے نفس کے شُح سے بچ گیا تو میں نہ چوری کرونگا، نہ زنا کرونگا، اور میں ہر گناہ سے بچ جاؤں گا، میں نے جب غور سے دیکھا تو وہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے" ابن جریر نے اس واقعہ کو روایت کیا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آدمی میں دو بد ترین صفات ہیں ان میں سے ایک انتہائی پرلے درجے کا بخل اور دوسری انتہا درجے کی بزدلی) احمد اور ابو داود نے اسے روایت کیا ہے۔
اور انتہا درجے کا بخل پایا جانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ۔
بخیلی کی وجہ سے ہی ظلم وزیادتی ، سرکشی، قطع تعلقی، اور فتنےبپا ہوتے ہیں، جنکی وجہ سے حلال و حرام میں فرق کئے بغیر ہی دنیا کمائی جاتی ہے، اور بسا اوقات قتل وغارت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
بخیلی بڑھتی ہی چلی جائے گی حتی کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب یہ زمین اپنے اندر چھپے سونے چاندی کے سارے خزانوں کو باہر نکال دے گی ، ان خزانوں کے روئے زمین پر ڈھیر لگ جائیں گے، ہر علاقے کے لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ انکے ہاں ہو رہا ہے حالانکہ یہ معاملہ ساری زمین پر ہوگا۔
اس وقت کے بعد کوئی بھی سونے چاندی سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا، ایک قاتل آکر کہے گا، اسی کی وجہ سے میں نے قتل کیا تھا، ایک قطع تعلقی کرنے والا آکر کہے گا: اسی کی وجہ سے میں نے رشتے ناطے توڑے تھے، اور ایک چور آکر کہے گا: اسی کی وجہ سے میرا ہاتھ کاٹا گیا تھا، اور یہ قیامت کی نشانی ہوگی۔
اس دنیا کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا یہ مال اور بیٹے تو محض دنیا کی زندگی کی زینت ہیں ورنہ آپ کے پروردگار کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ہی ثواب کے لحاظ سے بھی بہتر ہیں اور اچھی امیدیں لگانے کے لحاظ سے بھی [الكهف: 46]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کواسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو، وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفات صاحبِ ملک و ملکوت اللہ کیلئے ہیں جو صاحبِ عزت و جبروت ہے،وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہیں آئے گی، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، اسی کی بادشاہت ہے اور وہی تعریف کے لائق ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے رسول اور بندے ہیں ،جنہیں واضح نشانیاں اور ہدایت دیکر بھیجا گیا، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد پر اور تمام صحابہ کرام پر اپنی رحمت نازل فرماجو کہ اندھیری رات میں چمکتے تارے، اور راہنمائی کیلئے روشن مینار ہیں۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے، اور اسلام کو مضبوط کڑے سے تھام لو۔
اللہ کے بندو!
دنیا وی امیدوں سے اعمال میں کمی پیدا ہوتی ہے، اور انسان آخرت کو بھلا دیتا ہے، ایسے ہی خواہشات حق سے انسان کو دور کرتی ہیں، اس لئے پیٹ اور شرمگاہ کے معاملے میں سرکشی کا شکار مت ہوجانا۔
اللہ تعالی کی جانب سے حرام کردہ اشیاء کے قریب بھی مت جاؤ، اور اسکی حدّوں سے تجاوز مت کرو، مسلمانوں اور پڑوسیوں کے حقوق کیلئے کھڑے ہوجاؤ، اس لئے کہ آج محنت کے ساتھ کچھ کروگے تو کل حساب کتاب اور بدلہ پاؤ گے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ نیز ان سے کہئے کہ عمل کرتے جاؤ۔ اللہ، اس کا رسول اور سب مومن تمہارے طرز عمل کو دیکھ لیں گے اور عنقریب تم کھلی اور چھپی چیزوں کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے [التوبة: 105]
ایک حدیث میں ہے: (قیامت والے دن کسی بھی شخص کے قدم چار سوالوں سے پہلے حرکت نہیں کر سکیں گے، عمر کے بارے میں کہاں گزاری؟ جوانی کے بارے میں کہاں صرف کی؟ مال کے بارے میں کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور علم کے بارے میں اس پر کتنا عمل کیا؟)
چنانچہ حسبِ استطاعت اپنے لئے اچھے اعمال کا ذخیرہ کرو، کہیں دنیا کی رنگ رنگیلیاں تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دیں جیسے تم سے پہلے برباد ہونے والے لوگو ں کو ڈال دیا تھا۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 'جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں فرمائے گا۔
اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد, كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم, إنك حميد مجيد, اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد, كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم , إنك حميد مجيد.
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تمام خلفائے راشدین سے راضی ہوجا، ہدایت یافتہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تابعین کرام اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما ، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما ، یا اللہ! کفر اور تمام کفار کو ذلیل کردے ، یا اللہ رب العالمین! اپنے اور دشمنان دین کو نیست ونابود کردے۔
یا اللہ! ہم تیرے در کے سوالی ہیں، تجھ ہی سے امید لگائے بیٹھے ہیں، یا اللہ! اپنی کتاب، اور سنت نبوی کو غالب فرما، یا رب العالمین!، یا اللہ! اپنی کتاب، اور سنت نبوی کو غالب فرما،یا قوی! یا متین!
یا اللہ! تمام معاملات میں ہمیں اچھے نتائج نصیب فرما، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچا، یا اللہ! ہم اپنے نفس وبرے اعمال اور ہر بری چیز کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان مردود کے شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! شیطانی چیلوں، اور لشکروں سے ہمیں محفوظ فرما، یا اللہ! مسلمانوں اور انکی اولاد کو بھی شیطان مردود کے شر سے محفوظ فرما، بے شک توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! جن مسلمانوں کے پاس کپڑے نہیں انہیں لباس مہیا فرما، جو بھوکے ہیں انکے کھانے پینے کا بندو بست فرما، یا اللہ! بے گھر مسلمانوں کو مناسب پناہ گاہیں نصیب فرما، یا رب العالمین۔
یا اللہ! یا ذوالجلال والاکرام! ہم تجھ سے تمام معاملات کو آسان بنانے کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہر مسلمان مرد و خاتون کے معاملات آسان فرمادے، یا اللہ! ہر مؤمن مرد و خاتون کے معاملات آسان فرمادے،یا اللہ! ہمیں ایک لمحے یا اس سے بھی کم وقت کیلئے تنہا مت چھوڑ نا۔
یا اللہ! ہمارے ممالک کی ہر شر ومکر سے حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے ممالک کو ظلم زیادتی کرنے والوں سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! مہنگائی ، بیماریاں، سود، زنا، زلزلے، آزمائشیں، اور ظاہری و باطنی فتنوں کو ہم سے دور کردے، بے شک توں ہر چیز پر قادر ہے، یا رب العالمین!
یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما،یا اللہ! تمام مسلم مرد و زن کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مؤمن مر و خواتین کی حفاظت فرما، جو زندہ ہیں انکی بھی اور جو فوت ہوچکے ہیں انکی بھی مغفرت فرما۔
یا اللہ! ہم تجھ سے بارش طلب کرنے کیلئے دعا مانگتے ہیں، یااللہ! ہمیں رحمت کی بارش عنائت فرما، یا اللہ! یا رب العالمین ! ہمیں رحمت کی بارش عنائت فرما، برکت والی اور موسلادھار ہو، یا اللہ! جس سے ہمارے علاقوں میں ہریالی آجائے، اور انسانوں کیلئے پینے کا بندوبست بنے، جس سے شہری و دیہاتی تمام افراد کو فائدہ ہو، بے شک تو ں ہر چیز پر قادر ہے۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]
اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
لنک