محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
برمنگھم یونیورسٹی کا مبینہ نسخہ قرآن ۔۔۔حقائق کیا ہیں؟
چیف ایڈیٹر ہفت روزہ جرار مولانا امیر حمزہ کا انکشاف انگیز انٹرویو
سوال: برمنگھم یونیورسٹی کے مبینہ قرآنی نسخے کے متعلق آپ کا کیا کہنا ہے؟
جواب:اس سے پہلے کہ میں برمنگھم یونیورسٹی میں مبینہ قرآنی نسخے پر اظہار خیال کروں اس سلسلے میں اہم بات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں، حالیہ دریافت ہونے والے نسخے کے متعلق بحث و مباحثہ کافی گرم ہے کہ آیا یہ اس دور سے تعلق رکھتا ہے جس کا دعویٰ کیا گیا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں میں اپنی بات کا استدلال قرآن پاک سے کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور کفار سے ان کے نظریات کی دلیل پوچھتے ہوئے فرمایا: آپ کہہ دیجئے: بھلا بتاؤتو سہی جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب لاؤ یا علم کا کوئی حصہ یا اثر دکھاؤ اگر تم سچے ہو۔‘‘ (الاحقاف: 4)
کسی بھی دعوے کو ثابت کرنے کے لئے دلیل، برہان اور ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے بھی مشرکین سے یہی تقاضا کیا، کسی نئی یا انوکھی چیز پر آج بھی ہم ایسی پختہ اور قابل بھروسہ بات یعنی علم کا سہارا لیتے ہیں۔ ہم برمنگھم یونیورسٹی کے ذمہ داران سے تقاضا کرتے ہیں کہ اپنے دعویٰ کیلئے پختہ علم پیش کریں ایسا علم جو علم یقین کا فائدہ دے۔ یہاں اثارۃ من العلم سے مراد سند ہے یعنی یقینی علم جو دینی معاملہ میں سند کے سوا حاصل نہیں ہوتا۔
صرف یہ کہہ دینا کہ ریڈیو کاربن لیبارٹری ٹیسٹ ہی ان کے علم اور دلیل کی بنیاد ہے، کافی نہیں ہے۔ اس دلیل سے علم الیقین حاصل نہیں ہوتا۔ دنیا کے متعلق کوئی بات یا سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوئی بات ہوتی تو ہم ان کی بات مان لیتے مگر یہ قرآن کی حفاظت کا مسئلہ ہے اس لئے جس قدر بھی احتیاط کریں کم ہے۔
سوال: اس مبینہ قرآنی نسخے پر بی بی سی نے تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے اس کے متعلق آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
جواب: جی میں نے بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ غور سے سنی ہے اس رپورٹ میں کئی ایک باتیں ہیں جو قابل غور ہیں اور ان پر میں ایک ایک کر کے اپنا نقطہ نظرپیش کرتا ہوں۔
سب سے پہلی بات جو اس رپورٹ میں ہے، وہ پیش کاروں اور برمنگھم یونیورسٹی کے ذمہ داروں کی باڈی لینگوئج ہے۔ وہ اس مبینہ قرآنی نسخے پر پرمسرت ہیں، حالانکہ دیکھا جائے تو اس معاملے پر مسلمانوں کا تو خوش ہونا قابل فہم بنتا ہے، مگر جنہوں نے ہمیشہ قرآن اور صاحب قرآن حضور اکرمﷺ کی توہین کرنے کی کوشش کی انہیں قرآن کی حقانیت پر اتنا خوش ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اسے پیش کرنے والے یہی مغربی میڈیا میرے نبی کی گستاخی اور قرآن کی بے ادبی کو اس لئے نشر کرتا ہے کہ یہ اظہار رائے کی آزادی ہے۔
جب وہ قرآن اور صاحب قرآن کی توہین سے مقصد حاصل نہ کر سکے تو ہمدرد بن کر یہ کام کرنا شروع کر دیا۔ قرآن میں ان کی خصلت اللہ نے بیان فرمائی کہ ’’اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کہا تم دن کے شروع میں اس چیز پر ایمان لے آؤ جوان لوگوں پر نازل کی گئی ہے جو ایمان لائے ہیں اور اس کے آخر میں انکار کر دو، تاکہ وہ واپس لوٹ آئیں‘‘۔ (آل عمران: 72)
اور یہی حال ہندو مشرک کا ہے جس کا بغل میں چھری منہ میں رام رام والا وتیرہ ہے۔
اسلام کی اس کامیابی پر ان کی خوشی اور مسرت سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کا یہ رویہ شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ برمنگھم یونیورسٹی کی اس دریافت پر خود یونیورسٹی اہلکاروں، پیش کرنے والے میڈیا اور اہل مغرب کو تو پھر اسلام کی حقانیت مانتے ہوئے اسلام قبول کر لینا چاہئے، جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور کسی متعلقہ ذمہ دار اور اہلکار کے مسلمان ہونے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔
بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں سرخی قائم کی ہے ’’کیا نئی بحثیں شروع ہوں گی؟‘‘ ان نئی بحثوں سے مراد کیا ہو سکتی ہے؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
سوال: جی کیا مراد ہو سکتی ہے اس سرخی سے؟
جواب: اس سے مراد وہ اختلاف اور تشکیک ہے جس کوقرآن کے اندر پیدا کرنا مغربی سکالرز اورمستشرقین کی دیرینہ خواہش ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں قرآن پاک کے کئی مقامات کو مختلف فیہ کرنے کی ناکام کوشش بھی کی ہے، مصنوعی اختلافات پیدا کئے ہیں اور تشکیک کا عمل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جسے قرآن و سنت کا علم رکھنے والے جید علماء و مفکرین نے ناکام بنایا ہے۔
رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ یہ نسخہ قدیم ترین نسخہ ہے اور اصل قرآن کے قریب تر ہے۔ اس کا 95فیصد حصہ موجودہ قرآن کے موافق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 5فیصد اختلاف بھی ہے۔ یاد رہے! قریب تر کا لفظ انتہائی زہریلا ہے۔
مزید برآں اگر اس مبینہ نسخے کے متعلق یہ مان لیا جائے کہ یہ1370سال قبل کا ہے اور اس کے کاتب نے نبی کریمﷺ کا زمانہ پایا ہے تو یہ بات ثابت کرنے کی دیرینہ خواہش پوری ہو جاتی ہے کہ نبی کریمﷺ سے ثابت قرآنی نسخہ ایک نہیں، اور بھی ہیں جبکہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ قرآن صرف ایک ہے اس میں ایک حرف کی بھی تبدیلی یا اختلاف نہیں ہے۔ یوں مسلمہ اور متفق علیہ آسمانی کتاب کو بھی اختلاف سے دوچار کرنے کی بھی سازش ہو سکتی ہے۔
سوال: اس سلسلے میں کئی مسلم علماء اور مفکرین سے بھی عالمی میڈیا والوں نے رائے لی اور وہ اس کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جواب: جہاں تک اس کے بیشتر حصوں کی موافقت کی بات ہے تو اس کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن اگر کوئی کہے کہ ایک فیصد یا ہزارواں حصہ بھی اختلاف شدہ ہے تو اس کو ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ درحقیقت کافروں کی اس سازش کوبھانپنے اورمحسوس کرنے کی ضرورت ہے جو اس سارے معاملے کے پیچھے کارفرما ہے اور جس کا دبے لفظوں میں مغربی میڈیا والوں نے اشارہ بھی کیا ہے۔
سوال: فرمایئے وہ سازش کیا ہو سکتی ہے جس کو آپ نے بھانپا ہے؟
جواب: وہ سازش قرآن کو بائبل کی طرح مختلف ایڈیشن میں بدلنا اور باہمی اختلاف کو مسلمانوں کے ہاں تسلیم کروانا ہے۔ جب اس نسخے کی استنادی حیثیت مسلمانوں کے ہاں تسلیم شدہ ہو جائے گی تو مختلف قرآنوں کا نظریہ پیدا ہو جائے گا جیسا کہ اناجیل اربعہ کا معاملہ ہے اور بائبل کے کئی ورژن ہیں، جیسا کہ کیتھولک بائبل اور پروٹسٹنٹ بائبل ہے۔ قرآن پاک ہر قسم کی تحریف اور تبدیلی سے پاک ہے، جس طرح نبی کریمﷺ پر نازل ہوا، حرف بہ حرف من و عن موجود ہے، اس بات کو اغیار بھی مانتے ہیں اور بسیار کوشش کے بعد بھی وہ تحریف ثابت نہیں کر سکے، جبکہ بائبل جس میں یہود و نصاریٰ دونوں کی کتابیں شامل ہیں تحریف اور تبدیلی سے بھری پڑی ہے اس میں ایک ایک جگہ پر سینکڑوں اور ہزاروں دفعہ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔
اس بات کو یہود و نصاریٰ متفقہ طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اب اگرہم اس معمولی تبدیلی کو مانتے ہوئے برمنگھم یونیورسٹی کے مبینہ مصحف کو دور نبوی یا دور خلافت راشدہ کا تسلیم کر لیں تو ثابت ہو جائے گا کہ قرآن پاک کے اندر بھی اختلاف ہے اور اس کے ایڈیشن میں بھی فرق ہے جیسا کہ بائبل کے اندر ہے اور اس کے کئی ایڈیشن ہیں پھر قرآن کی حفاظت کے متعلق جو ہمارا ایمان ہے اس کی نفی ہوتی ہے اور قرآن میں اللہ نے خود فرمایا: ’’ہم نے اس ذکر کونازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ (الحجر: 9) جو بات اختلاف کی پیش کی جاتی ہے وہ صرف قرأت یعنی لہجے کی ہے اس سے معنی اور مفہوم کے اندر ذرہ بھر تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ریڈیو کاربن ٹیسٹ کی حقیقت اور مستند ہونا ایک سائنسی امر ہے، ہم اس کی تردید نہیں کرتے البتہ ایک بات بہت اہم ہے کہ اس طرح کا ٹیسٹ کسی اور جگہ سے بھی ہوا؟ یہ یونیورسٹی والوں کا اپنا دعویٰ ہے کہ ٹیسٹ کے مطابق یہ نسخہ1370 سال قبل کا ہے جبکہ اتنی دیر پہلے اس طرح قرآن پاک کا کتابی شکل میں ہونا محال نظر آتا ہے۔
اس نسخے کی لکھائی (خط) اگرچہ حجازی ہے اور ماہرین کے مطابق اس وقت یہی خط مروج تھا۔ جب خاتون اہلکار اس نسخے کے صفحات اپنے ہاتھ سے پلٹتی ہے تو وہ نسخہ بہت نفیس نظر آتاہے، صفحات بوسیدہ نہیں ہیں، لکھائی بھی رنگین ہے یعنی سرخ رنگ کی ہے اور اتنا لمبا عرصہ یعنی صدیاں بیت جانے کے بعد اس قدر نفاست؟ یہ سب امور محل نظر ہیں اور تشویشناک ہیں۔
یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نسخہ یونیورسٹی میں سو سال سے موجود ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اس کی اب تحقیق کرنے کا خیال کیوں آیا اور اس طرح کی دیگر کتب پر ایسی تحقیق کیوں نہیں ہوئی؟
سوال: آپ نے اپنے دورۂ وسطی ایشیا و ترکی میں عثمانی مصحف کے نسخوں کا مشاہدہ کیا ہے وہاں موجود نسخوں اور اس میں کیا فرق محسوس کیا؟
جواب: جی ہاں! میں نے اپنے دورہ کے دوران تاشقند اور استنبول میں موجود عثمانی مصحف دونوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ان میں اور برمنگھم یونیورسٹی کے موجودہ نسخے میں کافی فرق ہے ان نسخوں میں زیر زبر اور نقطے نہیں ہیں جبکہ اس نسخے میں کئی مقامات پر نقطے ہیں۔ یہ بہت اہم فرق ہے اس وقت تو نقطوں کا لکھا جانا مروج نہیں تھا۔ اگر یہ دور عثمانی کا مخطوطہ ہے تو اس میں نقطوں کی موجودگی چہ معنی دارد؟
سوال: فرض کریں اگر یہ سوفیصد موجودہ قرآن سے موافق ہو تو کیا سائنسی طور پر ثابت ہونے والا یہ نسخہ قرآن کی حقانیت کے لئے معاون نہیں ہو سکتا جو مسلمانوں کے نظریے کے حق میں ہے؟
جواب: دین اسلام میں بنیادی بات جو علم الیقین کے لئے ضروری ہے وہ سند ہے۔ حدیث میں اس سند کے سلسلے کو محدثین نے یقینی بنایا اور جہاں معمولی سا شائبہ بھی نظر آیا، سند میں جھول محسوس ہوئی یا راوی کے حفظ و اتقان میں کمی واقع ہوئی، اس کے دین اور عمل میں خرابی اور نقص واقع ہوا، محدثین نے سند کے وہ کڑے قواعد بنا دیئے اور ہم تک ایک مستند (Authentic) علم پہنچایا جو تواتر کے ساتھ ہے اور علم یقینی کا فائدہ دیتا ہے۔ اسلام صرف سند کا متقاضی ہے۔ ہاں اگر کوئی سائنسی تحقیق اس متفقہ بات کی سو فیصد تصدیق کرتی ہے تو ہم اسے ثانوی حیثیت سے بطور معاون تسلیم کریں گے اس کو اولین درجہ تب بھی نہیں ملے گا۔
عظیم محدث عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’الاسناد من الدین ولو لا الاسناد لقال من شاء ما شاء‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم، ج 1 ص 15) سند دین کا حصہ ہے اور اگر سند نہ ہوتی توہر کوئی (بغیر تحقیق) جو کچھ مرضی کہہ دیتا۔
دین کے معاملے میں سند کا اعتبار ترجیحاً ہو گا، سائنسی تحقیقات ثانوی درجہ رکھتی ہیں وہ بھی اگر اس کے موافق ہوں اگر معمولی ردوبدل بھی ہے تویہ تحقیقات مردود اور ناقابل بھروسہ ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
چیف ایڈیٹر ہفت روزہ جرار مولانا امیر حمزہ کا انکشاف انگیز انٹرویو
سوال: برمنگھم یونیورسٹی کے مبینہ قرآنی نسخے کے متعلق آپ کا کیا کہنا ہے؟
جواب:اس سے پہلے کہ میں برمنگھم یونیورسٹی میں مبینہ قرآنی نسخے پر اظہار خیال کروں اس سلسلے میں اہم بات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں، حالیہ دریافت ہونے والے نسخے کے متعلق بحث و مباحثہ کافی گرم ہے کہ آیا یہ اس دور سے تعلق رکھتا ہے جس کا دعویٰ کیا گیا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں میں اپنی بات کا استدلال قرآن پاک سے کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور کفار سے ان کے نظریات کی دلیل پوچھتے ہوئے فرمایا: آپ کہہ دیجئے: بھلا بتاؤتو سہی جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب لاؤ یا علم کا کوئی حصہ یا اثر دکھاؤ اگر تم سچے ہو۔‘‘ (الاحقاف: 4)
کسی بھی دعوے کو ثابت کرنے کے لئے دلیل، برہان اور ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے بھی مشرکین سے یہی تقاضا کیا، کسی نئی یا انوکھی چیز پر آج بھی ہم ایسی پختہ اور قابل بھروسہ بات یعنی علم کا سہارا لیتے ہیں۔ ہم برمنگھم یونیورسٹی کے ذمہ داران سے تقاضا کرتے ہیں کہ اپنے دعویٰ کیلئے پختہ علم پیش کریں ایسا علم جو علم یقین کا فائدہ دے۔ یہاں اثارۃ من العلم سے مراد سند ہے یعنی یقینی علم جو دینی معاملہ میں سند کے سوا حاصل نہیں ہوتا۔
صرف یہ کہہ دینا کہ ریڈیو کاربن لیبارٹری ٹیسٹ ہی ان کے علم اور دلیل کی بنیاد ہے، کافی نہیں ہے۔ اس دلیل سے علم الیقین حاصل نہیں ہوتا۔ دنیا کے متعلق کوئی بات یا سائنس اور ٹیکنالوجی کی کوئی بات ہوتی تو ہم ان کی بات مان لیتے مگر یہ قرآن کی حفاظت کا مسئلہ ہے اس لئے جس قدر بھی احتیاط کریں کم ہے۔
سوال: اس مبینہ قرآنی نسخے پر بی بی سی نے تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے اس کے متعلق آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
جواب: جی میں نے بی بی سی کی مذکورہ رپورٹ غور سے سنی ہے اس رپورٹ میں کئی ایک باتیں ہیں جو قابل غور ہیں اور ان پر میں ایک ایک کر کے اپنا نقطہ نظرپیش کرتا ہوں۔
سب سے پہلی بات جو اس رپورٹ میں ہے، وہ پیش کاروں اور برمنگھم یونیورسٹی کے ذمہ داروں کی باڈی لینگوئج ہے۔ وہ اس مبینہ قرآنی نسخے پر پرمسرت ہیں، حالانکہ دیکھا جائے تو اس معاملے پر مسلمانوں کا تو خوش ہونا قابل فہم بنتا ہے، مگر جنہوں نے ہمیشہ قرآن اور صاحب قرآن حضور اکرمﷺ کی توہین کرنے کی کوشش کی انہیں قرآن کی حقانیت پر اتنا خوش ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اسے پیش کرنے والے یہی مغربی میڈیا میرے نبی کی گستاخی اور قرآن کی بے ادبی کو اس لئے نشر کرتا ہے کہ یہ اظہار رائے کی آزادی ہے۔
جب وہ قرآن اور صاحب قرآن کی توہین سے مقصد حاصل نہ کر سکے تو ہمدرد بن کر یہ کام کرنا شروع کر دیا۔ قرآن میں ان کی خصلت اللہ نے بیان فرمائی کہ ’’اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کہا تم دن کے شروع میں اس چیز پر ایمان لے آؤ جوان لوگوں پر نازل کی گئی ہے جو ایمان لائے ہیں اور اس کے آخر میں انکار کر دو، تاکہ وہ واپس لوٹ آئیں‘‘۔ (آل عمران: 72)
اور یہی حال ہندو مشرک کا ہے جس کا بغل میں چھری منہ میں رام رام والا وتیرہ ہے۔
اسلام کی اس کامیابی پر ان کی خوشی اور مسرت سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کا یہ رویہ شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ برمنگھم یونیورسٹی کی اس دریافت پر خود یونیورسٹی اہلکاروں، پیش کرنے والے میڈیا اور اہل مغرب کو تو پھر اسلام کی حقانیت مانتے ہوئے اسلام قبول کر لینا چاہئے، جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور کسی متعلقہ ذمہ دار اور اہلکار کے مسلمان ہونے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔
بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں سرخی قائم کی ہے ’’کیا نئی بحثیں شروع ہوں گی؟‘‘ ان نئی بحثوں سے مراد کیا ہو سکتی ہے؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
سوال: جی کیا مراد ہو سکتی ہے اس سرخی سے؟
جواب: اس سے مراد وہ اختلاف اور تشکیک ہے جس کوقرآن کے اندر پیدا کرنا مغربی سکالرز اورمستشرقین کی دیرینہ خواہش ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں قرآن پاک کے کئی مقامات کو مختلف فیہ کرنے کی ناکام کوشش بھی کی ہے، مصنوعی اختلافات پیدا کئے ہیں اور تشکیک کا عمل پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جسے قرآن و سنت کا علم رکھنے والے جید علماء و مفکرین نے ناکام بنایا ہے۔
رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ یہ نسخہ قدیم ترین نسخہ ہے اور اصل قرآن کے قریب تر ہے۔ اس کا 95فیصد حصہ موجودہ قرآن کے موافق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 5فیصد اختلاف بھی ہے۔ یاد رہے! قریب تر کا لفظ انتہائی زہریلا ہے۔
مزید برآں اگر اس مبینہ نسخے کے متعلق یہ مان لیا جائے کہ یہ1370سال قبل کا ہے اور اس کے کاتب نے نبی کریمﷺ کا زمانہ پایا ہے تو یہ بات ثابت کرنے کی دیرینہ خواہش پوری ہو جاتی ہے کہ نبی کریمﷺ سے ثابت قرآنی نسخہ ایک نہیں، اور بھی ہیں جبکہ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ قرآن صرف ایک ہے اس میں ایک حرف کی بھی تبدیلی یا اختلاف نہیں ہے۔ یوں مسلمہ اور متفق علیہ آسمانی کتاب کو بھی اختلاف سے دوچار کرنے کی بھی سازش ہو سکتی ہے۔
سوال: اس سلسلے میں کئی مسلم علماء اور مفکرین سے بھی عالمی میڈیا والوں نے رائے لی اور وہ اس کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جواب: جہاں تک اس کے بیشتر حصوں کی موافقت کی بات ہے تو اس کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن اگر کوئی کہے کہ ایک فیصد یا ہزارواں حصہ بھی اختلاف شدہ ہے تو اس کو ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ درحقیقت کافروں کی اس سازش کوبھانپنے اورمحسوس کرنے کی ضرورت ہے جو اس سارے معاملے کے پیچھے کارفرما ہے اور جس کا دبے لفظوں میں مغربی میڈیا والوں نے اشارہ بھی کیا ہے۔
سوال: فرمایئے وہ سازش کیا ہو سکتی ہے جس کو آپ نے بھانپا ہے؟
جواب: وہ سازش قرآن کو بائبل کی طرح مختلف ایڈیشن میں بدلنا اور باہمی اختلاف کو مسلمانوں کے ہاں تسلیم کروانا ہے۔ جب اس نسخے کی استنادی حیثیت مسلمانوں کے ہاں تسلیم شدہ ہو جائے گی تو مختلف قرآنوں کا نظریہ پیدا ہو جائے گا جیسا کہ اناجیل اربعہ کا معاملہ ہے اور بائبل کے کئی ورژن ہیں، جیسا کہ کیتھولک بائبل اور پروٹسٹنٹ بائبل ہے۔ قرآن پاک ہر قسم کی تحریف اور تبدیلی سے پاک ہے، جس طرح نبی کریمﷺ پر نازل ہوا، حرف بہ حرف من و عن موجود ہے، اس بات کو اغیار بھی مانتے ہیں اور بسیار کوشش کے بعد بھی وہ تحریف ثابت نہیں کر سکے، جبکہ بائبل جس میں یہود و نصاریٰ دونوں کی کتابیں شامل ہیں تحریف اور تبدیلی سے بھری پڑی ہے اس میں ایک ایک جگہ پر سینکڑوں اور ہزاروں دفعہ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔
اس بات کو یہود و نصاریٰ متفقہ طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اب اگرہم اس معمولی تبدیلی کو مانتے ہوئے برمنگھم یونیورسٹی کے مبینہ مصحف کو دور نبوی یا دور خلافت راشدہ کا تسلیم کر لیں تو ثابت ہو جائے گا کہ قرآن پاک کے اندر بھی اختلاف ہے اور اس کے ایڈیشن میں بھی فرق ہے جیسا کہ بائبل کے اندر ہے اور اس کے کئی ایڈیشن ہیں پھر قرآن کی حفاظت کے متعلق جو ہمارا ایمان ہے اس کی نفی ہوتی ہے اور قرآن میں اللہ نے خود فرمایا: ’’ہم نے اس ذکر کونازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ (الحجر: 9) جو بات اختلاف کی پیش کی جاتی ہے وہ صرف قرأت یعنی لہجے کی ہے اس سے معنی اور مفہوم کے اندر ذرہ بھر تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ریڈیو کاربن ٹیسٹ کی حقیقت اور مستند ہونا ایک سائنسی امر ہے، ہم اس کی تردید نہیں کرتے البتہ ایک بات بہت اہم ہے کہ اس طرح کا ٹیسٹ کسی اور جگہ سے بھی ہوا؟ یہ یونیورسٹی والوں کا اپنا دعویٰ ہے کہ ٹیسٹ کے مطابق یہ نسخہ1370 سال قبل کا ہے جبکہ اتنی دیر پہلے اس طرح قرآن پاک کا کتابی شکل میں ہونا محال نظر آتا ہے۔
اس نسخے کی لکھائی (خط) اگرچہ حجازی ہے اور ماہرین کے مطابق اس وقت یہی خط مروج تھا۔ جب خاتون اہلکار اس نسخے کے صفحات اپنے ہاتھ سے پلٹتی ہے تو وہ نسخہ بہت نفیس نظر آتاہے، صفحات بوسیدہ نہیں ہیں، لکھائی بھی رنگین ہے یعنی سرخ رنگ کی ہے اور اتنا لمبا عرصہ یعنی صدیاں بیت جانے کے بعد اس قدر نفاست؟ یہ سب امور محل نظر ہیں اور تشویشناک ہیں۔
یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نسخہ یونیورسٹی میں سو سال سے موجود ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اس کی اب تحقیق کرنے کا خیال کیوں آیا اور اس طرح کی دیگر کتب پر ایسی تحقیق کیوں نہیں ہوئی؟
سوال: آپ نے اپنے دورۂ وسطی ایشیا و ترکی میں عثمانی مصحف کے نسخوں کا مشاہدہ کیا ہے وہاں موجود نسخوں اور اس میں کیا فرق محسوس کیا؟
جواب: جی ہاں! میں نے اپنے دورہ کے دوران تاشقند اور استنبول میں موجود عثمانی مصحف دونوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ان میں اور برمنگھم یونیورسٹی کے موجودہ نسخے میں کافی فرق ہے ان نسخوں میں زیر زبر اور نقطے نہیں ہیں جبکہ اس نسخے میں کئی مقامات پر نقطے ہیں۔ یہ بہت اہم فرق ہے اس وقت تو نقطوں کا لکھا جانا مروج نہیں تھا۔ اگر یہ دور عثمانی کا مخطوطہ ہے تو اس میں نقطوں کی موجودگی چہ معنی دارد؟
سوال: فرض کریں اگر یہ سوفیصد موجودہ قرآن سے موافق ہو تو کیا سائنسی طور پر ثابت ہونے والا یہ نسخہ قرآن کی حقانیت کے لئے معاون نہیں ہو سکتا جو مسلمانوں کے نظریے کے حق میں ہے؟
جواب: دین اسلام میں بنیادی بات جو علم الیقین کے لئے ضروری ہے وہ سند ہے۔ حدیث میں اس سند کے سلسلے کو محدثین نے یقینی بنایا اور جہاں معمولی سا شائبہ بھی نظر آیا، سند میں جھول محسوس ہوئی یا راوی کے حفظ و اتقان میں کمی واقع ہوئی، اس کے دین اور عمل میں خرابی اور نقص واقع ہوا، محدثین نے سند کے وہ کڑے قواعد بنا دیئے اور ہم تک ایک مستند (Authentic) علم پہنچایا جو تواتر کے ساتھ ہے اور علم یقینی کا فائدہ دیتا ہے۔ اسلام صرف سند کا متقاضی ہے۔ ہاں اگر کوئی سائنسی تحقیق اس متفقہ بات کی سو فیصد تصدیق کرتی ہے تو ہم اسے ثانوی حیثیت سے بطور معاون تسلیم کریں گے اس کو اولین درجہ تب بھی نہیں ملے گا۔
عظیم محدث عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’الاسناد من الدین ولو لا الاسناد لقال من شاء ما شاء‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم، ج 1 ص 15) سند دین کا حصہ ہے اور اگر سند نہ ہوتی توہر کوئی (بغیر تحقیق) جو کچھ مرضی کہہ دیتا۔
دین کے معاملے میں سند کا اعتبار ترجیحاً ہو گا، سائنسی تحقیقات ثانوی درجہ رکھتی ہیں وہ بھی اگر اس کے موافق ہوں اگر معمولی ردوبدل بھی ہے تویہ تحقیقات مردود اور ناقابل بھروسہ ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
لنک