• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بزرگوں کے ختم

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85

بزرگوں کے ختم۔
مرنے والے کےسوئم ، ساتے ، دسویں ، چالیسویں اور عرس و برسی کے علاوہ اکثر جاہل قسم کے سنی گھرانوں میں ہر جمعرات کو کھانوں پر ختم کروائے جاتے ہیں ۔اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جمعرات کی شام کھانے میں خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اقربا ء جمع ہو کر کھانے پر چاروں قل اور سورہ فاتحہ پڑ کر اپنے مرحومین کی فاتحہ پڑھتے ہیں اور پھر وہ کھانا کھاتے ہیں علاوہ ازیں اگر ویسے بھی گھر میں کوئی اچھا کھانا پکا تو اس پر بھی یہ طریقہ عام ہے کہ بزرگوں کی فاتحہ دےدی جائے۔
اس ختم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس طرح بزرگوں کی ارواح تک یہ کھانا پہنچ جائے گا یا پھر دعا کے سبب یا فاتحہ پڑھنے کے باعث انہیں اس کا اجر ضرور مل جائے گا۔
اس ختم سے متعلق ہمیں پہلے تو یہ جاننا چاہیئے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے جمعراتی ختم کا کوئی ثبوت کتب میں ملتا ہے ؟
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے مسلمان مرحومین و شہدا ء کے لیئے کھانوں پر فاتحہ دلائی اور اس کےلیئے مروجہ صورت اختیار فرمائی ؟
یاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں بھی کوئی اچھا کھانا پکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر برائے ایصال ثواب مرحومین کبھی فاتحہ پڑھی ؟
تمام کتب ا حادیث ان سوالوں کے جواب میں خاموش ہیں ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ کھانوں پر بزرگوں کے یہ ختم صرف اور صرف بدعت ہیں ۔ ان کا نہ صرف سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بلکہ آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ اب سوال یہ ہے کہ ختم کا کھانا جس میں بزرگوں کی فاتحہ دلائی جاتی ہے وہ کھانا چاہیئے یا نہیں ؟
یہ سوال کثر احباب نے مجھ سے کیا ہے اور میں نے اس کا جواب ہمیشہ یہی دیا ہے کہ ختم اور فاتحہ بدعت ہیں لہٰذا اس بدعت کاکھانا موحدین کے لیئے بالکل جائز نہیں ہے۔
ایک سوال میرے سامنے یہ بھی آیا ہے کہ جس کھانے پر صرف قرآن ہی پڑھا گیا ہو ہمارے پاس اس کھانے کو حرام کہنے کی کیا دلیل ہے ؟
میں چاہتا ہوں کہ اس مضمون کے ذریعے اس قسم کے شکوک و شبہات دور کردوں کہ قرآن کا پڑھنا ایک علیحدہ امر ہے اور ارتکاب بدعت ایک الگ امر ہے ۔ کھانا قرآن کےپڑھے جانے سے حرام نہیں ہوتا بلکہ اس ارادے سے کھانا حرام ہوتا ہے جس کے تحت قرآن پڑھا جاتا ہے ۔
وہ ارادہ کیا ہے ؟ وہ اردہ یہی ہے کہ میت کو اس کھانے کا ثواب پہنچ جائے جو نہ تو فی سبیل اللہ خیرات ہو رہا ہے اور نہ ہی مسنون طریقہ سے اسے کھایا اور کھلایا جارہا ہے۔ جمعراتی ختم کتب سنت سے ثابت نہیں ہورہے ہیں۔
تو ان کا بدعت ہونا ایک یقینی امر ہے پھر بدعت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ،، ہر بدعت گمراہی ہے ،، اس فرمان سے یہ وضاحت ہو رہی ہے کہ جمعراتی ختم بھی گمراہی ہے اور گمراہی کا کھانا کھلانے والا گمراہ ہی ہوگا چاہے اس پر لاکھوں مرتبہ قرآن مجید پڑھ لیا جائے ۔ کیونکہ حرام چیزیں قرآن پڑھ لیئے جانے سے حلال نہیں ہوجاتی ہیں اور اگر کوئی میری اس بات سے اتفاق نہیں کرتا تو میں اس سے یہ ضرور پوچھوں گا کہ پھر حدیث مبارک۔﴿ انما الاعمال بالنیات ﴾ ﴿ صحیح بخاری ﴾
کا کیامطلب ہے۔
برادران اسلام اس تھوڑے لکھے کو بہت جانیں اور ان معروضات پر غور فرمائیں۔ اسی راہ کو اپنایئے جو سنت کی راہ کہلاتی ہے باقی تمام راہوں کو چھوڑ دیجئے۔
 
Top