T.K.H
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 05، 2013
- پیغامات
- 1,123
- ری ایکشن اسکور
- 330
- پوائنٹ
- 156
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہمارے مسلک پرست علماء کی عقابی نگاہیں کتبِ رجال کی ضخیم کتابوں سے قدیم شخصیات کی تاریخ ڈھونڈ نکالنے کا فن تو خوب جانتی ہیں اور جرح وتعدیل کی کتابوں سے ائمہ کے اقوال بڑی خوبی سے نقل کرنے سے بھی انجان نہیں، مگر پھر نہ جانے کیوں ان کی تیرِ نظر قرآن و سُنت کے اصل جواہرات سے پھسل کیوں جاتی ہے؟بعثتِ نبویﷺکا حقیقی مقصد!
محض فروعی اختلافات کی بناء پر آج طبقہء اہلِ حدیث بھی اور احناف بھی ایک دوسرے کو ڈھکے چھپے الفاظ میں قرآنی آیات کے ذریعے سبیل المؤمنین سے ہٹا ہوا قرار دیتے ہیں اور کچھ تو دوزخ کی بھی وعید سنا دیتے ہیں اس بات کی شہادت ان کی لائبریریوں میں پڑیں تقابلِ مسلک کی کتابیں دیتی ہیں جن میں آئے دن نئے نئے تحقیقاتی مقالات اور اسکے جواب میں دوسری طرف سے ان کا رد نظروں سے گزرتے رہتے ہیں۔
اس ضمن میں یہ بات بھی میں کہتا چلوں کہ مسلک پرستوں اور اپنی اپنی فقہ پر اصرار کرنے والوں کو آپ چاہے کتنا ہی اسلام کے اصل احکامات اور نجات دلانے والے اعمال کی طرف ترغیب دلائیں مگر ان کا ذہن اسلام کےاس اصلی جوہر کو نظر انداز کر کے گھوم پھر کر پھر اُنہی چھوٹے چھوٹے مسائل پر اٹک جائے گا اور انہی کی تحقیق انکے پیشِ نظر رہے گی اور انہی کو وہ اصولوں کا درجہ دیکر عوام میں مناظروں اور مجادلوں کا بازار گرم کرینگے۔
ایک عام یا نَو مسلم بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہو گاکہ کیا اللہ کا دین اتنا مبہم اور غیر واضح تھا کہ ان میں آج بھی محض فروعی مسائل کو اصول بنا کرتحقیقاتی مقالات پیش کرنے کی گنجائش باقی ہے اور پھر انکے رَد کی بھی ؟
کبھی آپ نے سوچا کہ نبیﷺ کی بعثت کا اصل مقصد کیا تھا ؟
کیا فروعی و فقہی موشگافیوں کو حل کرنے کےلیے آپ ﷺ کی بعثت ہوئی تھی ؟ کیا رفع الیدین کرنے یا نہ کرنے کو ثابت کرنالازم تھا،آمین اونچی یا آہستہ کہنے کا فیصلہ ضروری تھا، آٹھ یا بیس رکعات تراویح کی تحقیق مقصود تھی، فاتحہ خلف الامام کا تصفیہ چکانادرپیش تھا، ایک یا دونوں ہاتھوں سے سلام کا تعین کرنا مقصد تھا؟ بارہ یا آٹھ تکبیراتِ عیدین کا جھگڑا ختم کرانا پیش ِ نظر تھا یا نماز میں ہاتھ ناف یا سینے پر باندھنے کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا تھا اسی لیے آپﷺکی آمد ہوئی وغیرہ وغیرہ۔۔۔
آیا یہی وہ چیزیں تھی جن کی اصلاح کرنا مقصودتھیں ؟ کیا یہی وہ مسائل تھے جن کی بناء پر جنت و جہنم کا اُخروی فیصلہ ہونے والا تھا ؟
آج بھی اگر کوئی سُنت کا نام لیتا ہے تو ہمارا ذہن سب سے پہلے اِنہی چیزوں کی طرف منتقل ہوتا ہےاور فقط اِنہی چیزوں کی تحقیق منظورِ نظرہوتی ہے ، اِسی کو ثابت کرنے کےلیے ہمارا سارا وقت صرف ہوتا ہےاور اِسی کےلیے احادیث و فقہ کی کتابوں کو چھانٹا جاتا ہے۔ہمارا قلب بھی اُس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک اپنے طریقے کو مسنون اور دوسرے کے طریقے کواپنے نقطہءنظر کے مطابق غیر مسنون ثابت نہ کر دے۔چاہے ہماری اپنی زندگی غیر مسنون طریقوں پر ہی کیوں نہ گزر رہی ہومگر ہمارا ذہن کبھی بھی اُن اعمال و احکام کی طرف نہیں جائے گا جن پر اللہ تعالٰی کی طرف سےتصدیقی مہر پہلے ہی سے لگی ہوئی ہے۔جو شروع دنیا سے لے کرتمام تر اُمتوں میں مسلمہ تھے اوراِس امت میں بھی آخر دنیا تک رہیں گے جن میں کبھی بھی تبدیلی کی گنجائش محسوس نہیں کی گئی۔
ُخدارا ایک نظر ذرا قرآن اور مجموعہ ہائےاَحادیث پر ڈالیے اور ایمان داری سے کہیں کہ کن باتوں کے کرنے کا ہمیں حکم دیا اور کن باتوں سے بچنے کا کہا گیا ہے۔
سچ بولنا، امانت کا پاس رکھنا ، وعدہ پورا کرنا ،دیانت کا مظاہرہ کرنا، لوگوں سے اچھا سلوک کرنا، صبر و شکر کا رویہ اپنانا، عاجزی و انکساری کو اپنا شعار بنانا، مظلوموں کی مدد کرنا، یتیموں کا خیال رکھنا، بڑوں کا ادب کرنا، ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، رواداری کا پیکر بننا ، ، مروت کی بنیاد ڈالنا،ایثار کا جذبہ پروان چڑھانا، عدل و انصاف کا بول بالا کرنا، قناعت کو فروغ دینا، توکل کو ہتھیار بنانا، تواضع سے آشنائی پیدا کرنا،حلم و درگزر کو اپنانا،حیا وعفت کو لازم پکڑنا، اکلِ حلال کو یاد رکھناوغیرہ وغیرہ ۔۔۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟رہروِ منزل ہی نہیں
کیا یہی اصل سُنت ِ نبویﷺنہیں جو تمام مسلمانوں میں تسلیم شدہ ہے جن کو ہم اعتقاداً مانتے تو ہیں مگر عملاً اِن سے کنارہ کش رہتے ہیں ؟ کیا اِنہی چیزوں کو دوبارہ زندہ کرنے اورمعاشرے میں رواج دینے کےلیے آپﷺتشریف نہیں لائے تھے؟ کیا لوگوں میں اِنہی اچھائیوں کا فقدان نہیں تھا؟راہ دکھلائیں کسے؟رہروِ منزل ہی نہیں
حسد کرنا، غرور تکبر کا اظہار کرنا، غیبت سے لگاؤ رکھنا، بہتان تراشی کا رویہ اپنانا، دھوکا دہی سے کام لینا، گالی گلوچ کو اختیار کرنا، بد اخلاقی کا پیکر بننا، بغض، کینہ، عداوت، ظلم و جبر،اورجھوٹ سےدامن کو داغدار کرنا، بخل کو شعار بنانا، یتیموں کو دھکے دینا، بیواؤں کو نظر انداز کرنا، مسکینوں کو محروم رکھنا، غریبوں سے نظریں چرانا، بے کسوں کو چھوڑ دیناوغیرہ وغیرہ۔۔۔
کیا یہی غیر سبیل المؤمنین نہیں ہے؟ کیا یہی سُنتِ نبویﷺسے منہ موڑنا نہیں ہے، کیا یہی منہجِ صحابہؓ سے ہٹنا نہیں ہے ؟ کیا یہی سلفِ صالحینؒ کے شعار سے بے وفائی نہیں ہے؟
کیا یہی اعمال معاشرے کے ناسور نہیں تھے جن کو ختم کرنا مقصود تھا ؟کیا یہی عناصر قہرِالہٰی کاموجب نہیں تھے جن کا خاتمہ ازحد ضروری تھا؟ کیا اِنہی اخلاقی و معاشرتی برائیوں کی بیخ کنی پیشِ نظر نہ تھی؟کیا یہی چیزیں انسانوں کو آپس میں بانٹے ہوئے نہ تھیں ؟کیا یہی رویے پاکیزہ ماحول بننے میں رکاوٹ نہ تھے ؟
اگرآپ کا دل مردہ نہ ہو گیا ہو تو وہ ضرور گواہی دے گا کہ یقیناً اِنہی اچھائیوں کو رواج دینے اور اِنہی برائیوں کو ختم کرنے کےلیے آپﷺ کی بعثت ہوئی تھی اور یہی اصل دین تھا اور یہی طریقہء نبویﷺتھا ، یہی منہجِ صحابہؓ و شعارِ سلفِ صالحینؒ تھا۔
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمدﷺکا تمہیں پاس نہیں!
اسی کو بزبانِ محمدﷺ:- سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ کہا گیاہے۔کچھ بھی پیغامِ محمدﷺکا تمہیں پاس نہیں!
اسی راہ کواختیار کرنے پر:- وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ﴿٦٩﴾ کی خوشخبری دی گئی۔
اسی طریقِ محمدیﷺ کو:- هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٥٣﴾ سیدھا کہا گیا ہے۔
اور اگر اسی کی مخالفت کی جائے تو
یہی:- وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿١١٥﴾ کا صحیح مصداق ہے۔
یہی:- وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا ﴿٢٧﴾ يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا ﴿٢٨﴾ لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ﴿٢٩﴾ آخرت کی حقیقی تصویر ہے۔
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
یہ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ جس کو جاننے کے لیے کتابیں کنکھالنی پڑیں، آپ کو اِن باتوں کا تذکرہ قرآن و سُنت میں جگہ جگہ ملے گا۔ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
اگر ایک انسان بلا امتیازِ مسلک اُن تمام احکامات پر عمل کرتااور اُن تمام اعمال سے اجتناب کرتا ہے جن کا ذکر قرآن و سُنت میں آیا ہے تو کیا ایسا شخص صرف اس لیے جہنم میں جھونک دیا جائے گا کہ وہ نماز میں رفع الیدین کرتا یا نہیں کرتا تھا، کیا اسی لیے وہ دوزخ کا ایندھن بنے گاکہ وہ آمین جہراً یا سراً کا قائل تھا، کیا اسی لیے وہ جہنم کا مستحق ٹھہرے گاکہ وہ فاتحہ خلف الامام میں مختلف رائے رکھتا تھا، کیا اسی لیے وہ دوزخ کے لائق ہے کہ وہ آٹھ یا بیس رکعات میں متردد تھا، کیا اسی لیے اسے جہنم میں جانا لازم ہے کہ وہ ایک یا دو ہاتھ سے سلام کا قائل تھا، کیا اسی لیے جہنم اس پر واجب ہے کہ وہ نماز میں ہاتھ ناف یا سینے پر رکھتا تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین ِ غزالیؒ نہ رہی
اِس کے مقابلے میں دوسرے شخص کا تصور ذہن میں لائیں جواُن محرمات کا ارتکاب کرتا اور اُن فرائض سے جی چراتا ہے جن کا ذکر قرآن و سُنت میں آیا ہے تو کیا وہ اسی لیے جنت الفردوس کی حور و قصور کا مستحق قرار پائے گا کہ وہ مناظروں میں اِن چھوٹے چھوٹے مسائل میں اپنے فریق کو پچھاڑ دیا کرتا تھا، کیا جنت کے دروازوں پر اس کا استقبال اس لیے ہو گا کہ اس نے رفع الیدین کا محاکمہ کرا دیا تھا، کیا جنت کے میوں کا وہ اس لیے حقدار ہوگاکہ اسے آمین کے دلائل سے واقفیت حاصل ہوگئی تھی، کیا اسی لیے جنت کے غلمان اس کی خدمت کرینگے کہ وہ آٹھ یا بیس رکعات میں تطبیق دینےمیں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا، کیا اسی لیے وہ جنت کے درجات چڑھے گا کہ اس نے ناف یا سینے پر ہاتھ باندھنے کی تحقیق کا حق ادا کر دیا تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔فلسفہ رہ گیا تلقین ِ غزالیؒ نہ رہی
اپنے ضمیر سے پوچھیں کیا جنت میں داخلے کا سبب اور جہنم سے چھٹکارے کا انحصار فقط انہی مسائل کی تحقیق و تنقید پر ہے؟
کیا یہی وہ منہجِ صحابہ ؓو سلفِ صالحینؒ ہےکہ جن پر اگر ایک انسان عامل ہو تو جنت العدن کا وارث اگر نہ ہو تو ھاویہ(جہنم کا سب سے نچلا طبقہ)کاسزاوار ؟
کیا ایک سلیم العقل شخص اِس بات کو مان سکتاہے کہ اِن مختلف آراؤں پر مبنی فروعی مسائل ہی دین کا اصل جوہر ہیں اورایک فریق کی جانب سے ان پر تحقیقاتی مقالات اور پھر دوسرے فریق کی طرف سے ان کا رَد اسلام میں مقصود ہے؟
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے
یہ سوالات آپ اپنے مسلک پرست علماء سے ضرور پوچھیں۔یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے
مجھے تو ہرگروہ کی اپنی اپنی کتابیں پڑھ کر لگتا ہے کہ اب عالم وہی ہے جو اختلافی مسائل پر بحث و مباحثے کا فن جانتا ہو، اب فقیہ اسی کو کہا جائے گا جو قرآن و سُنت سے بعید از عقل قیاس کے جادو سے مسائل کا استنباط کر سکے، اب عابد کہلانے کا حقداد وہی ہے جو کسی مخصوص مسلک کے مطابق نماز پڑھنا جانتا ہو،اب علامہ وہی ہو گا جو جرح تعدیل میں مہارت رکھتا ہو، اب شیخ الاسلام کا مرتبہ اسے حاصل ہو گا جوفصاحت و بلاغت و خطابت کا ملکہ رکھتا ہو، اب محدث کا خطاب اسی کولائق ہے جو احادیث سے اپنے من پسند مؤقف کو تقویت پہنچا سکے، اب مفسر کا سہرا اسی کو سجے گا جو قرآن کی تاویل کرنا بخوبی جانتا ہو، اب امام اسے مانا جائے گا جو راویو ں کی تضعیف و تصحیح کا علم رکھتا ہو، اب خطیب کا لقب اس کے لیے خاص ہے جو عوام میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا بیج بو سکے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ہم اپنی زندگیوں میں اصل سُنت ِ نبویﷺ سے چاہے کتنا ہی کوسوں دور ہوں مگر محض مسلکی بنیاد پر مبنی فروعی مسائل کی تحقیق بطورِ سُنت ہی اب ہمارا حقیقی مقصد نظر آتا ہے۔
تربیت عام تو ہے، جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
اگر ان فریقوں نے فروعی مسائل کو اصول کا درجہ دینا نہ چھوڑا تو مجھے یقین ہے کہ یہ مسلکی جنگ اپنی تمام تر شدت کے ساتھ تا قیامت جاری و ساری رہے گی۔جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
ہمارا ہر عالم فاضل،قرآن مجید کی نظر میں، یہی کہتا نظر آتا ہے کہ:-
مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ ﴿٢٩﴾
میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دے رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے اور میں اُسی راستے کی طرف تمہاری رہنمائی کرتا ہوں جو ٹھیک ہے۔
قرآن، سورت غافر، آیت نمبر 29
اور جب ایک شخص ان علماء کی مختلف آراؤں پر ایک نظر ڈالتا ہے تو بے اختیار سوال اٹھاتا ہے کہ :-فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ ﴿١١﴾
کیا اب یہاں سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟
قرآن، سورت غافر، آیت نمبر 11
آخر کار جب ایسا شخص ان کا کوئی حل نہیں پاتا تو تھک ہار کر اپنا حتمی فیصلہ سنا دیتا ہے کہ:-كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿٥٣﴾ فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ حَتَّىٰ حِينٍ ﴿٥٤﴾
ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہےاچھا، تو چھوڑو انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقت خاص تک۔
قرآن، سورت المؤمنون، آیت نمبر 54-53
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں!
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
صاحبو!یہ مضمون میں نے اس لیے لکھا ہے کہ ہم یہ بتا سکیں کہ قرآن و سُنت ہم سےکس طرزِ عمل کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہم ان سے کیا اَخذ کر رہے ہیں ؟کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آخر میں میں تو مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر بقول حضرت مسیح علیہ السلام اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم مچھر چھان رہے ہیں اور بڑے بڑے اونٹ بڑی بے تکلفی سے نگل رہےہیں۔
یوں تو سید بھی ہو،مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
اگرروزِ قیامت اللہ تعالٰی نےنبیﷺسے ان کی اُمت کی گمراہی کا سبب پوچھ لیاتو زبانِ محمدﷺبھی یہ کہہ کر بری ہوجائے گی:-تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿٣٠﴾
اے پروردگار میری قوم نے اِس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
اے پروردگار میری قوم نے اِس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
قرآن ،سورت الفرقان، آیت نمبر 30
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر