- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
بلادِ شام اور دَورِ فتن
احادیث نبویہ کی روشنی میں
احادیث نبویہ کی روشنی میں
تحریر:حافظ محمد زبیر
بلادِ شام The Levant جسے احادیث ِنبویہ میں ’شام‘ کہا گیا ہے‘ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ایک بابرکت اور مقدس سرزمین ہے۔ احادیث مبارکہ میں جس خطہ ارضی کو ’شام‘ کہا گیا ہے‘ اس کی جغرافیائی حدود اس مملکت سے بہت وسیع ہیں جسے معاصر دنیا ’شام‘ Syriaکے نام جانتی ہے۔ معاصر شام 1946 میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہونے کے بعد دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ اس سے پہلے شام The Levant کے نام سے موجود خطہ ارضی میں فلسطین‘ اسرائیل‘ موجودہ شام‘ اردن‘ لبنان‘ سائپرس اور ترکی کا ایک صوبہ شامل تھا۔
اہل ِعلم اور جغرافیہ دان حضرات کی ایک جماعت ابو اسحاق اصطخری (متوفی ۶۳۴ھ)‘ یاقوت الحموی (متوفی ۶۲۶ھ)‘ ابن شداد (متوفی ۴۸۶ھ)‘ زکریا القزوینی(متوفی ۲۸۶ھ)‘ شمس الدین اسیوطی (متوفی ۰۸۸ھ) اور ڈاکٹر شوقی ابو خلیل نے شام کی حدود کم وبیش ایک ہی جیسی بیان کی ہیں اور وہ طولاً (یعنی شمالاً جنوباً) فرات سے عریش مصر اور عرضاً (یعنی شرقاً غرباً) جبل طے سے بحیرۂ روم تک ہیں۔ حالیہ جغرافیائی تقسیم کے تناظر میں شام سے مراد فلسطین‘ موجودہ شام‘ اردن اور لبنان کا علاقہ بنتا ہے۔(۱)
اگرچہ احادیث میں ’شام‘ سے مراد بلادِ شام ہے کہ جس میں موجودہ شام کے علاوہ فلسطین‘ اردن اور لبنان بھی شامل ہے لیکن اس پورے خطہ میں فلسطین میں ’بیت المقدس‘ اور موجودہ شام میں ’دمشق‘ کی اہمیت وفضیلت نصوص میں بطور خاص منقول ہے۔