• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلادِ شام اور دَورِ فتن: احادیث نبویہ کی روشنی میں

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بلادِ شام اور دَورِ فتن
احادیث نبویہ کی روشنی میں

تحریر:حافظ محمد زبیر​

بلادِ شام The Levant جسے احادیث ِنبویہ میں ’شام‘ کہا گیا ہے‘ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ایک بابرکت اور مقدس سرزمین ہے۔ احادیث مبارکہ میں جس خطہ ارضی کو ’شام‘ کہا گیا ہے‘ اس کی جغرافیائی حدود اس مملکت سے بہت وسیع ہیں جسے معاصر دنیا ’شام‘ Syriaکے نام جانتی ہے۔ معاصر شام 1946 میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہونے کے بعد دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ اس سے پہلے شام The Levant کے نام سے موجود خطہ ارضی میں فلسطین‘ اسرائیل‘ موجودہ شام‘ اردن‘ لبنان‘ سائپرس اور ترکی کا ایک صوبہ شامل تھا۔

اہل ِعلم اور جغرافیہ دان حضرات کی ایک جماعت ابو اسحاق اصطخری (متوفی ۶۳۴ھ)‘ یاقوت الحموی (متوفی ۶۲۶ھ)‘ ابن شداد (متوفی ۴۸۶ھ)‘ زکریا القزوینی(متوفی ۲۸۶ھ)‘ شمس الدین اسیوطی (متوفی ۰۸۸ھ) اور ڈاکٹر شوقی ابو خلیل نے شام کی حدود کم وبیش ایک ہی جیسی بیان کی ہیں اور وہ طولاً (یعنی شمالاً جنوباً) فرات سے عریش مصر اور عرضاً (یعنی شرقاً غرباً) جبل طے سے بحیرۂ روم تک ہیں۔ حالیہ جغرافیائی تقسیم کے تناظر میں شام سے مراد فلسطین‘ موجودہ شام‘ اردن اور لبنان کا علاقہ بنتا ہے۔(۱)

اگرچہ احادیث میں ’شام‘ سے مراد بلادِ شام ہے کہ جس میں موجودہ شام کے علاوہ فلسطین‘ اردن اور لبنان بھی شامل ہے لیکن اس پورے خطہ میں فلسطین میں ’بیت المقدس‘ اور موجودہ شام میں ’دمشق‘ کی اہمیت وفضیلت نصوص میں بطور خاص منقول ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بلادِشام کے فضائل وبرکات
قرآن مجید میں کئی ایک ایسے مقامات ہیں جو بلادِشام کی فضیلت پر دلالت کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَنَجَّیْنٰاہُ وَلُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰلَمِیْنَ) (الانبیاء)
”اور ہم نے ابراہیم اورلوط علیہما السلام کو اسی سر زمین میں پناہ دی کہ جسے ہم نے اہل دنیا کے لیے بابرکت بنایا ہے۔“
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے مراد سرزمین شام ہے‘ کیونکہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت ابراہیم اور لوط علیہما السلام کی ہجرت عراق سے شام کی طرف تھی۔(۲)

اسی طرح بلادِشام کے بارے میں احادیث ِنبویہ میں بھی کئی ایک فضائل وبرکات منقول ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے یہ دعا فرمائی:
((اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَامِنَا وَفِیْ یَمَنِنَا)) قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَفیِ نَجْدِنَا؟ قَالَ: ((اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ شَامِنَا وَفِیْ یَمَنِنَا)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَفِیْ نَجْدِنَا؟ فَاَظُنَّ ہٗ قَالَ فِی الثَّالِثَۃِ: ((ھُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ)) (۳)
”اے اللہ تعالیٰ! ہمارے لیے ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکت فرما“۔ اس پر صحابہؓ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! اور ہمارے نجد میں بھی؟ (یعنی نجد میں بھی برکت کی دعا فرمائیں)۔ اللہ کے رسول ﷺ نے دوبارہ دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے شام اور یمن کو ہمارے لیے بابرکت بنا“۔ راوی کہتے ہیں کہ غالباً تیسری مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے (نجد میں برکت کی دعا کی درخواست پر) فرمایا: ”وہاں زلزلے اور فتنے برپا ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ برآمد ہو گا۔“

اس روایت میں اللہ کے رسول ﷺ نے بلادِ شام کے لیے برکت کی دعا فرمائی ہے جو اس خطہ ارضی کی فضیلت کی دلیل ہے۔ اس حدیث میں نجد سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ معروف جغرافیہ دان یا قوت الحموی (۴۷۵۔۶۲۶ھ) نے اپنی کتاب ’معجم البلدان‘ میں اہل عرب کے نزدیک کئی ایک نجد کے علاقوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں نجد ِیمامہ‘ نجد ِ یمن‘ نجد ِ حجاز‘ نجد ِ عراق‘ نجد ِ خال‘ نجد ِ عقاب اور نجد ِ اجاء وغیرہ اہم ہیں۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ (۸۶۳۔۳۶۴ھ) وغیرہ کا اپنی کتاب ’التمہید‘ میں یہ قول منقول ہے کہ اس حدیث میں نجد سے مراد نجد ِعراق ہے۔ امام خطابی (۹۱۳۔۸۸۳ھ) اور امام ابن حجر رحمہما اللہ (۳۷۷۔۲۵۸ھ) کا بھی یہی قول ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ (۴۱۹۱۔۹۹۹۱ء) کا کہنا ہے کہ اس روایت کے متعدد طرق’عراق‘ ہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کیونکہ بعض روایات میں ’نجد‘ کی بجائے’مشرق‘ کے الفاظ ہیں (صحیح بخاری‘ کتاب المناقب) اور مدینہ کا مشرق عراق ہے۔ امام بخاری نے بھی اس حدیث پر ’الفتنۃ من قبل المشرق‘ کا باب باندھ کر یہ واضح کیا ہے کہ نجد سے مراد مدینہ کے مشرق کی سمت ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد نجد ِ حجاز ہے‘ لیکن اس قول کی صورت میں شیطان کے سینگ کے طلوع ہونے سے شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ (۳۰۷۱۔۱۹۷۱ء) کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں ہے‘ جیسا کہ علامہ البانی نے ’السلسلۃ الصحیحۃ‘ میں لکھا ہے کہ اشخاص کا مقام ورتبہ ان کے افکار واعمال کے تناظر میں طے ہوتا ہے نہ کہ جگہ کے تقدس وتشاؤم کے پہلو سے‘ ورنہ تو مقدس سرزمین فلسطین پر اسرائیل کی ریاست قائم ہے۔

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
((طُوْبٰی لِلشَّامِ)) فَقُلْنَا: لِأَیِّ ذٰلِکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لِأَنَّ مَلَاءِکَۃَ الرَّحْمٰنِ بَاسِطَۃٌ اَجْنِحَتَھَا عَلَیْھَا)) (۴)
”شام کے لیے خوشخبری ہو“۔ ہم نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! کس وجہ سے خوشخبری؟ تو آپ نے فرمایا: ”رحمان کے فرشتوں نے اپنے پر شام پر پھیلائے ہوئے ہیں۔“
یہ روایت بھی شام کی سرزمین کے بابرکت ہونے کی واضح دلیل ہے۔ علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیا ہے۔(۵)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دورِ فتن میں شام میں قیام کی تاکید
احادیث نبویہ میں کئی ایک روایات ایسی ملتی ہیں کہ جن میں دورِ فتن میں سرزمین بلادِ شام میں قیام کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت ابوردراء رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
((بَیْنَا اَنَا نَاءِمٌ إِذَا رَأَیْتُ عُمُوْدَ الْکِتَابِ احْتَمِلَ مِنْ تَحْتِ رَأْسِیْ فَظَنَنْتُ أَنَّہٗ مَذْھُوْبٌ بِہٖ فَاَتْبَعْتُہٗ بَصَرِیْ فَعُمِدَ بِہٖ إِلَی الشَّامِ أَلاَ وَإِنَّ الْاِیْمَانَ حِیْنَ تَقَعُ الْفِتَنُ بِالشَّامِ)) (۶)
”اس دوران کہ میں سویا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ کتاب کا عمود میرے سر کے نیچے سے کھینچ لیا گیا‘ پس مجھے یہ یقین ہو گیا کہ اب یہ جانے والا ہے تو میری نگاہ نے اس کا پیچھا کیا اور وہ شام تک پہنچ گئی۔ خبردار! فتنوں کے وقت ایمان شام کی سرزمین میں ہو گا۔“

کتاب کے عمود سے کیا مراد ہے؟ اس کے بارے میں اہل ِعلم کا اختلاف ہے۔ اہل ِتعبیر یہ کہتے ہیں کہ خواب میں عمود سے مراد ’دین‘ یا وہ شخص ہو تا ہے کہ جس پر دین کا انحصار ہو۔ اس لیے خواب میں عمود کی دو معروف تعبیرات میں سے ایک ’دین‘ اور دوسرا ’سلطان‘ کی گئی ہے۔(۷) بہرحال دونوں تعبیرات کی روشنی میں شام کی فضیلت و اہمیت مسلم ہے‘ جیسا کہ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں۔ حضرت معاویہ بن قرۃ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
((إِذَا فَسَدَ أَھْلُ الشَّامِ فَلَا خَیْرَ فِیْکُمْ،لَا تَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِیْ مَنْصُوْرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ)) (۸)
”جب اہل شام بگڑ جائیں گے تو پھر اس اُمت میں کوئی خیر باقی نہیں رہے گا۔ اور میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ ایسا رہے گا کہ جسے قیامت تک خدائی نصرت شامل حال رہے گی۔ جو انہیں ذلیل کرنا چاہے وہ ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا۔“

پس بلادِشام میں اصحاب علم وفضل اور اہل حل وعقد کی ایک جماعت قیامت تک ایسی رہے گی کہ جسے خدائی نصرت شامل حال رہے گی۔ امام ابن تیمیہؒ نے ایک لطیف نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ خلق وامر میں مبدا و معاد مکہ اور شام ہیں‘ ارادہ کونیہ ہو یا ارادہ شرعیہ۔ دنیا و دین کی ابتدا مکہ سے ہوئی اور دنیا و دین کی انتہا شام میں ہو گی۔ اللہ کے رسول ﷺ کے دین کی ابتدا اور ظہور مکہ سے ہوا اور اس کا کمال و عروج شام میں مہدی کے ظہور سے حاصل ہو گا (۹)۔ جیسا کہ بعض روایات میں حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نزول کے بارے میں یہی بشارت منقول ہے کہ دمشق کی مشرقی جانب موجود سفید منارہ پر دو فرشتوں کے پَروں پرہاتھ رکھے ان کا نزول ہو گا (10)۔ حضرت عبد اللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
((سَیَصِیْرُ الْاَمْرُ إِلٰی أَنْ تَ کُوْنُوْا جُنُوْدًا مُجَنَّدَۃً جُنْدٌ بِالشَّامِ وَجُنْدٌ بِالْیَمَنِ وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ)) قَالَ ابْنُ حَوَالَۃَ خِرْ لِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنْ أَدْرَکْتُ ذٰلِکَ، فَقَالَ: ((عَلَیْکَ بِالشَّامِ فَإِنَّھَا خِیَرَۃُ اللّٰہِ مِنْ أَرْضِہٖ یَجْتَبِیْ إِلَیْھَا خِیَرَتَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ، فَاِمَّا إِنْ أَبَیْتُمْ فَعَلَیْکُمْ بِیَمَنِکُمْ، وَاسْقُوْا مِنْ غُدْرِکُمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ تَوَکَّلَ لِیْ بِالشَّامِ وَأَھْلِہٖ)) (۱۱)
”تمہارے دین اسلام کا معاملہ یہ ہو گا کہ تم لشکروں کی صورت میں بٹ جاؤ گے۔ ایک لشکر شام میں‘ ایک عراق میں اور ایک یمن میں ہو گا“۔ ابن حوالہ نے کہا: اے اللہ کیرسول ﷺ! اگر میں اس زمانے کو پا لوں تو مجھے اس بارے میں کوئی وصیت فرما دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: شام کو پکڑ لے کیونکہ وہ اللہ کی زمینوں میں سے بہتر سرزمین ہے۔ اللہ کے بہترین بندے اس کی طرف کھنچے چلے جائیں گے۔ پس اگر تمہارا ذہن شامی لشکر کا ساتھ دینے پر مطمئن نہ ہو تو یمن کی طرف چلے جانا اور صرف اپنے گھاٹ سے پانی پینا۔ اللہ تعالیٰ نے میرا اکرام کرتے ہوئے شام اور اہل شام کی ذمہ داری لے لی ہے۔“

علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیاہے(۲۱)۔ اپنے گھاٹ سے پانے پینے سے مراد یہ ہے کہ اپنے آبی وسائل تک محدود ہو جاؤ‘ کیونکہ دورِ فتن ہے‘ لہٰذا دوسروں کے گھاٹ سے استفادہ کی کوشش فتنوں اور لڑائیوں میں مزید اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک اعتبارسے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں میں باہمی افتراق و فتن کے ایسے دور میں اللہ کے رسول ﷺ پہلے سے موجود وسائل وذرائع پر قناعت کی تلقین فرما رہے ہیں اور مزید کی حرص وتلاش سے منع فرما رہے ہیں تا کہ یہ عمل امت میں مزید افتراق و انتشار کا باعث نہ بن جائے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((سَتَکُوْنُ ھِجْرَۃٌ بَعْدَ ھِجْرَۃٍ فَخِیَارُ أَھْلِ الْاَرْضِ اَلْزَمُھُمْ مُھَاجَرَ إِبْرَاھِیْمَ وَیَبْقٰی فِی الْاَرْضِ شِرَارُ اَھْلِھَا)) (۳۱)
”ہجرت(مدینہ) کے بعد ایک اور ہجرت ہو گی اور زمین پر موجود بہترین لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت کی جگہ کی طرف ہجرت کریں گے اور بقیہ زمین پر صرف شریر لوگ باقی رہ جائیں گے۔“
علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ قرار دیا ہے۔(۴۱) یہ دورِ فتن کی ہجرت ہے اوراسے ہجرتِ مدینہ کی ہجرت کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ پس اسلام میں پہلی ہجرت‘ ہجرت مدینہ تھی جو اہل مکہ کے فتن و آزمائشوں کے سبب ہوئی اور مدینہ منورہ اس ہجرت کے سبب عظیم سلطنت اسلامیہ کے قیام کی نہ صرف بنیاد بنا بلکہ خلافت اسلامیہ کا مرکز اول بھی قرار پایا۔ اسلام میں آخری ہجرت کفار کی آزمائش کے سبب بلادِ شام کی طرف ہو گی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور مہدی کے ظہور کی سرزمین ہے اور اسی سرزمین میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو قتل کرنے کے بعد دوسری بار خلافت اسلامیہ علیٰ منہاج النبوۃ کی بنیاد رکھیں گے۔ پس اسلام کے ابتدائی عروج کا مرکز مدینہ تھا تو انتہائی عروج کا مرکز ارضِ مقدس ہے۔

بعض روایات میں اس طرف اشارہ ہے کہ اہل ِروم کی طرف سے اہل ِشام پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ حضرت ابو نضرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ انہوں نے فرمایا:
یُوْشِکُ أَھْلُ الْعِرَاقِ أَنْ لَا یُجْبٰی إِلَیْھِمْ قَفِیْزٌ وَلَا دِرْھَمٌ، قُلْنَا مِنْ أَیْنَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: مِنْ قِبَلِ الْعَجَمِ یَمْنَعُوْنَ ذٰلِکَ، ثُمَّ قَالَ: یُوْشِکُ أَھْلُ الشَّامِ أَنْ لاَ یُجْبٰی إِلَیْھِمْ دِیْنَارٌ وَلَامُدْیٌ‘ قُلْنَا مِنْ أَیْنَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: مِنْ قِبَلِ الرُّوْمِ(۵۱)
”قریب ہے کہ اہل عراق کو ان کا قفیز (ماپ تول کا ایک پیمانہ) اور درہم (چاندی کی کرنسی) کچھ فائدہ نہ دے۔ ہم نے کہا: ایسا کہاں سے ہو گا؟ تو انہوں نے کہا: عجم (غیر عرب) سے ہو گا‘ وہ اسے روک دیں گے۔ پھرحضرت جابر ؓنے کہا: قریب ہے کہ ِاہل شام کو ان کا دینار (سونے کی کرنسی) اور مدی (ماپ تول کا ایک پیمانہ) کچھ فائدہ نہ دے۔ تو ہم نے کہا: یہ کیسے ہو گا؟ تو حضرت جابر ؓنے کہا: یہ ا ہل روم کی طرف سے ہو گا۔“

اس روایت کے مفہوم سے اہل فلسطین بھی مراد لیے جا سکتے ہیں کہ جنہیں اسرائیل کی طرف سے متعدد پابندیوں کا سامنا ہے اور موجودہ شام بھی مراد ہو سکتا ہے کہ جسے حالیہ شورشوں کے سبب کئی اعتبارات سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔

ایک اور روایت میں دورِ فتن میں سر زمین شام کو مسلمانوں کا وطن قرار دیا گیا ہے۔ حضرت سلمہ بن نفیل کندی سے روایت ہے‘ انہوں نے کہا کہ میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے کہا:
یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَذَالَ النَّاسُ الْخَیْلَ وَوَضَعُوا السِّلَاحَ وَقَالُوْا لَا جِھَادَ قَدْ وَضَعَتِ الْحَرْبُ أَوْزَارَھَا‘ فَأَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ بِوَجْھِہٖ وَقاَلَ: ((کَذَبُوا الْآنَ الْآنَ جَاءَ الْقِتَالُ وَلَا یَزَالُ مِنْ اُمَّتِی اُمَّۃٌ یُقَاتِلُوْنَ عَلَی الْحَقِّ وَیُزِیْغُ اللّٰہُ لَھُمْ قُلُوْبَ اَقْوَامٍ وَیَرْزُقُھُمْ مِنْھُمْ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ وَحَتّٰی یَاْئتِیَ وَعْدُ اللّٰہِ‘ وَالْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ فِیْ نَوَاصِیْھَا الْخَیْرُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَھُوَ یُوْحٰی إِلَیَّ أَنِّیْ مَقْبُوْضٌ غَیْرَ مُلَبَّثٍ وَأَنْتُمْ تَتَّبِعُوْنِیْ أَفْنَادًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ وَعُقْرُ دَارِ الْمُؤْمِنِیْنَ الشَّامُ)) (۶۱)
اے اللہ کے رسولﷺ!لوگوں نے گھوڑوں کو حقیر سمجھ لیا ہے اور ہتھیار رکھ دیے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اب کوئی جہاد نہیں ہے‘جنگ ختم ہو چکی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے اورکہا: یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جنگ تواب شروعہوئی ہے۔ اور میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر لڑتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ اقوام کے دلوں کو ان کے تابع کر دے گا اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے رزق دے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے اور اللہ کا وعدہ آ جائے۔ گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے دن کے لیے خیر باندھ دی گئی ہے۔ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ مجھے اٹھا لیا جائے گا اور تم مختلف فرقوں کی صورت میں میری اتباع کرو گے۔ اور ایک دوسرے کی گردنیں مارو گے۔ ان حالات میں شام اہل ایمان کا گھرہو گا۔“

علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔ (۷۱) مختلف فرقوں سے مراد مذہبی اور جغرافیائی بنیادوں پر اُمت ِمسلمہ کی تقسیم ہے۔ دورِ فتن میں مختلف مکاتب فکر کے پیروکار اور ممالک اسلامیہ کے باشندے اپنے اپنے طور اللہ کے رسول ﷺکی اتباع کریں گے۔ ایسے حالات میں بلادِ شام کو اہل ایمان کا وطن قرار دیا گیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
قرب قیامت اور بلادِ شام
قرب قیامت کے حالات وواقعات میں بھی سرزمین شام کی اہمیت کئی ایک روایات میں منقول ہے۔ ایک روایت میں علامات قیامت کے ظہور کے بعد شام میں قیام کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر اپنے والد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:
((سَتَخْرُجُ نَارٌ مِنْ حَضْرَ مَوْتَ أَوْ مِنْ نَحْوِ حَضْرَ مَوْتَ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ تَحْشُرُ النَّاسُ)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: ((عَلَیْکُمْ بِالشَّامِ)) (۸۱)
”قیامت کے دن سے پہلے حضرموت یا حضر موت کے قریب سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ایک جگہ جمع کرے گی“۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ایسے حالات میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”شام کی سرزمین کو پکڑ لو!“
علامہ البانی نے اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔(۹۱) اس روایت میں قرب قیامت میں سرزمین شام میں قیام کی ترغیب دلائی گئی ہے۔

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ خروجِ دجال کے دور میں مسلمانوں کی ہجرت کی سرزمین شام ہو گی۔ حضرت ثعلبہ سے مروی ہے‘ انہوں نے کہا کہ میں ایک دن حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے ایک خطبہ میں موجود تھا اور وہ یہ حدیث اللہ کے رسول ﷺ سے نقل کر رہے تھے:
((وَإِنَّہٗ یَحْصُرُ (أی الدجال) الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَیُزَلْزِلُوْنَ زِلْزَالًا شَدِیْدًا ثُمَّ یُھْلِکُہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَجُنُوْدَہٗ حَتّٰی إِنَّ جِذْمَ الْحَاءِطِ أَوْ قَالَ أَصْلَ الْحَاءِطِ وَقَالَ حَسَنٌ الْأَشْیَبُ وَأَصْلَ الشَّجَرَۃِ لَ یُنَادِیْ أَوْ قَالَ یَقُوْلُ یَا مُؤْمِنُ اَوْ قَالَ یَا مُسْلِمُ ھٰذَا یَھُوْدِیٌّ أَوْ قَالَ ھٰذَا کَافِرٌ تَعَالَ فَاقْتُلْہُ)) (۰۲)
”دجال اہل ایمان کو بیت المقدس میں محصور کر دے گا۔ پس اہل ایمان اچھی طرح آزمائشوں سے ہلا مارے جائیں گے۔ پھراللہ تعالیٰ دجال اور اس کے لشکروں کو ہلاک کر دے گا۔ یہاں تک کہ دیوار کی بنیاد اور حسن اشیب نے کہا ہے کہ درخت کی جڑ پکارے گی اور کہے گی:اے بندۂ مومن! یا اے بندۂ مسلم! یہ یہودی ہے‘ یا یہ کہے گی یہ کافر ہے‘ آؤ! اسے قتل کرو۔“

ایک روایت میں سرزمین شام سے چلنے والی ٹھنڈی ہواؤں کو اہل ایمان کے لیے رحمت وفضل الٰہی قرار دیا گیا ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
((یَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِیْ أُمَّتِیْ فَیَمْکُثُ أَرْبَعِیْنَ‘ لاَ أَدْرِیْ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا أَوْ أَرْبَعِیْنَ شَھْرًا أَوْ أَرْبَعِیْنَ عَامًا‘ فَیَبْعَثُ اللّٰہُ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ کَأَنَّہٗ عُرْوَۃُ بْنُ مَسْعُوْدٍ فَیَطْلُبُہٗ فَیُھْلِکُہٗ‘ ثُمَّ یَمْکُثُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِیْنَ لَ یْسَ بَیْنَ اثْنَیْنِ عَدَاوَۃٌ‘ ثُمَّ یُرْسِلُ اللّٰہُ رِیْحًا بَارِدَۃً مِنْ قِبَلِ الشَّامِ فَلاَ یَبْقٰی عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ اَحَدٌ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ خَیْرٍ أَوْ إِیْمَانٍ إِلاَّ قَبَضَتْہُ‘ حَتّٰی لَ وْ أَنَّ اَحَدَکُمْ دَخَلَ فِیْ کَبَدٍ جَبَلٍ لَدَخَلَتْہُ عَلَیْہِ حَتّٰی تَقْبِضَہٗ)) (۱۲)
”دجال میری امت میں چالیس تک رہے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ چالیس سے مراد چالیس دن‘ یا چالیس مہینے یا چالیس سال ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کو بھیجیں گے جو عروہ بن مسعود سے مشابہ ہوں گے۔ پس وہ دجال کو تلاش کریں گے اور اسے قتل کریں گے۔ پھر لوگ سات سال تک اس حال میں رہیں گے کہ دو آدمیوں کے مابین بھی دشمنی نہ ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجیں گے اور دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص باقی نہ رہے گا کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان یا خیر ہو‘ چاہے وہ پہاڑ کی کھوہ میں ہی داخل کیوں نہ ہو جائے‘ وہاں بھی وہ ہوا گھس کر اس کی روح قبض کر لے گی۔“

اس روایت میں اس طرف اشارہ ہے کہ قیامت اور اس دن کی سختیاں صرف شریر لوگوں کے لیے ہوں گی اور اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو اس سے پہلے ہی اٹھا لیں گے۔

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں‘ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
((لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَتَحَوَّلَ خِیَارُ أَھْلِ الْعِرَاقِ إِلَی الشَّامِ وَیَتَحَوَّلَ شِرَارُ أَھْلِ الشَّامِ إِلَی الْعِرَاقِ)) وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: ((عَلَیْکُمْ بِالشَّامِ)) (۲۲)
”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ عراق کے بہترین لوگ شام اور شام کے بدترین عراق میں نہ چلیں جائیں۔ اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ایسے حالات میں شام میں سکونت اختیار کرو۔“

اس روایت کے مطابق قیامت سے پہلے تمام اہل ایمان شام میں جمع ہو جائیں گے۔ مذکورہ بالا روایات اور اس جیسی روایات سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ خیروشر کے آخری معرکہ میں اصل کردار جس خطہ ارضی نے ادا کرنا ہے وہ سرزمین بلادِ شام ہے۔ بلادِشام کی فضیلت واہمیت‘ اہل ایمان کو دورِ فتن میں سر زمین مقدس کی طرف ہجرت کی ترغیب وتشویق‘ تا قیامت بلادِ شام کو اللہ کی نصرت پر مبنی مسلمانوں کی علمی و سیاسی قیادت و سیادت کا مرکز قرار دینا‘ دورِ فتن میں بلادِ شام کو مسلمانوں کا وطن قرار دینا‘ ارضِ شام میں نزولِ عیسیٰ اور ظہورِ مہدی کی خبریں وغیرہ ایسی تعلیمات ہیں جو اُمت ِمسلمہ کے عروجِ ثانی میں سرزمین شام کے فیصلہ کن کردار کا فیصلہ سنا رہی ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حواشی
(۱) بسام بن خلیل الصفدی‘ الفتن والملاحم وأشراط الساعۃ فی بلاد الشام‘ الجامعۃ الإسلامیۃ‘ غزۃ‘ 2008ء‘ ص۵۱۔۸۱۔
(۲) جامع البیان عن تأویل آی القرآن: الأنبیاء: ۱۷۔
(۳) صحیحح البخاری‘ کتاب الفتن‘باب قول النبیﷺ الفتنۃ من قبل المشرق۔
(۴) سنن الترمذی‘ أبواب المناقب‘ باب فی مناقب الشام والیمن۔
(۵) السلسلۃ الصحیحۃ: ۲/۱۲‘ مکتبۃ المعارف‘ الریاض‘ الطبعۃ الأولی‘ 1995ء۔
(۶) مسند احمد۔
(۷) فتح الباری: ۲۱/۳۰۴‘ دارالمعرفۃ‘ بیروت‘ ۹۷۳۱ء۔
(۸) سنن الترمذی‘ ابواب الفتن‘ باب ما جاء فی الشام۔
(۹) مجموع الفتاوی: ۷۲/۷۰۵‘ مجمع الملک فھد‘ المملکۃ العربیۃ السعودیۃ‘ 1995ء۔
(۰۱) سنن أبی داؤد‘ کتاب الملاحم‘ باب خروج الدجال۔
(۱۱) سنن أبی داؤد‘ کتاب الجھاد‘ باب فی سکنی الشام۔
(۲۱) صحیح أبی داؤد: ۴۴۲۲‘ مؤسسۃ غراس‘ الکویت‘ الطبعۃ الأولی‘ 2002ء۔
(۳۱) سنن أبی داؤد‘ کتاب الجھاد‘باب فی سکنی الشام۔
(۴۱) السلسلۃ الصحیحۃ: ۷/۱۱۴۔۴۱۴۔
(۵۱) صحیح مسلم‘ کتاب الفتن واشراط الساعۃ‘ باب لا تقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل……
(۶۱) سنن النسائی‘ کتاب الخیل۔
(۷۱) السلسلۃ الصحیحۃ: ۴/۳۰۶۔
(۸۱) سنن الترمذی‘ ابواب الفتن‘ باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی تخرج نار من قبل الحجاز۔
(۹۱) السلسۃ الصحیحۃ:۶/۶۳۶۔
(۰۲) مسند احمد: ۳۳/۹۴۳‘ مؤسسۃ الرسالۃ‘ بیروت‘ الطبعۃ الاولی‘ 2001ء۔
(۱۲) صحیح مسلم‘ کتاب الفتن‘ باب واشراط الساعۃ‘ باب فی خروج الدجال ومکثہ فی الارض۔
(۲۲) مسند احمد: ۶۳/۱۶۳۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا
بہت اچھا مضمون ہے، لیکن اگر حالیہ دور میں عراق اور شام کی صورتحال اور وہاں عسکری تنظیموں کے مقاصد پر بھی روشنی ڈال دیں تو ہمیں زیادہ کچھ سیکھنے کو مل جائے گا۔ ان شاءاللہ
 
Top