محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن
فضیلۃ الشیخ علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 17 صفر 1435 کا خطبہ جمعہ بعنوان "بلندی کیلئے بندگی کرو" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے جلدی سے نیکیاں کما کر، اور برائیوں سے بچ کر اللہ کی رضا حاصل کرنے کی ترغیب دلائی، اور بتلایا کہ دنیا اور آخرت میں بندے کیلئے حقیقی عزت بھی اسی میں پوشیدہ ہے، پھر انہوں نے کہا کہ شریعت میں مختلف عبادات نماز، روزہ،والدین کیساتھ اچھا سلوک، صلہ رحمی وغیرہ اسی لئے مقرر کی گئی ہیں تا کہ لوگوں کو ان پر عمل کرنے میں آسانی رہے، یہ اللہ تعالی کا بندو پر فضل ہے، اور انہوں نے دین میں بدعات ایجاد کرنے سے خبردار کیا، اور آخر میں مسلمانوں کو آپس میں پیار محبت اور نصیحت کرنے کے بارے میں کچھ پندو نصائح بھی کیں۔پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو کہ تمام جہان والوسے غنی ہے، اطاعت گزاروں کی اطاعت اسے کچھ فائدہ نہیں دیتی، اِسی طرح نافرمانوں کی نافرمانی اُسے کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا سکتی، لیکن جو نیکیاں کرےگا وہی محسن لوگوں والا اجر پا سکے گا، اور جس نے نافرمانی کی وہی خسارے میں ہوگا، اور وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ پائےگا، جبکہ اللہ تعالی شکر کرنے والوں کو بدلہ دیگا،میں اپنے رب کی ان گنت، اور لاتعداد نعمتوں پر تعریف اور شکر ادا کرتا ہوں،اور میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا ہے ، وہی ساری مخلوقات کا معبود ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت اور دین ِ حق دیکر بھیجا، اور انہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بھی بنایاِ، یا اللہ! اپنے بندے ، رسول ، اور خلیل محمد ، آپکی اولاد اور تمام متقی صحابہ کرام پر اپنی ڈھیروں رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد!
مسلمانو!
اللہ کے پسندیدہ اعمال کرتے ہوئے اللہ تعالی ڈرو ، اور اسکی نافرمانی نہ کرو۔
یہ بات ذہن نشین رکھو! بندے کیلئے باعزت مقام اللہ کی بندگی میں ہے، اور ایک مسلمان کی اصل طاقت اپنے مولا پر توکل ہے، اور اسکی تونگری اپنی ضروریات اللہ کے سامنے رکھنے سے آشکار ہوتی ہے، اسکی کامیابی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز میں ، اور بہترین انجام رب العالمین کے ڈر میں ، اسکی شرح صدر اور خوشی والدین اور رشتہ داروں اور دیگر افراد کے ساتھ اچھے سلوک میں ہے،اور اسکے دل کو اطمینان کثرت سے ذکرِ الہی میں ملتا ہے۔
انسان کے حالات و معاملات جائز وسائل کو اپنانے اور ممنوعہ ذرائع سے بچنے کے بعد اسکے نتائج اللہ تعالی کو سپرد کرنے کی وجہ سے ٹھیک ہوسکتے ہیں۔
جبکہ انسان اگر آخرت کو بھلا کر دنیا کے پیچھے پڑ جائے ، اور اللہ کی بندگی سے اعراض کر لے تو انسان ہمیشہ کیلئے خسارے میں چلا جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ (7) أُولَئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ جو لوگ ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری قدرت کی نشانیوں سے غافل ہیں[7] ان سب کا ٹھکانا جہنم ہے یہ ان کاموں کا بدلہ ہے جو وہ کرتے رہے [يونس: 7، 8]اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جسے اس کے پروردگار کی آیات سے نصیحت کی جائے پھر وہ اس سے منہ موڑ لے۔ ہم یقینا ایسے مجرموں سے انتقام لے کر رہیں گے [السجدة: 22]
اللہ تعالی نے تمہارے لئے سابقہ امتوں میں عبرتناک سبق رکھے ہیں، چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں لمبی عمریں دیں، بہت زیادہ خوشحالیا ں عنائت فرمائیں، انہوں نے محلات تعمیر کئے، بڑے بڑے شہر آباد کئے، اللہ تعالی نے اُنہیں پور جسمانی، سمعی، بصری طاقتوں سے نوازا، انہیں زمین کا کنٹرول دیا، اور اسکے سارے اسباب بھی مہیا فرمائے۔
لیکن ان سب چیزوں نے انہیں کچھ فائدہ نہیں دیا، نہ انکا مال کام آیا اور نہ ہی اولاد، اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِنْ مَكَّنَّاكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُمْ مِنْ شَيْءٍ إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ہم نے انہیں اتنی قدرت دے رکھی تھی جتنی تمہیں نہیں دی۔ اور ہم نے انہیں کان، آنکھیں اور دل سب کچھ دے رکھا تھا۔ مگر یہ ان کے کان، آنکھیں اور دل ان کے اس وقت کچھ بھی کام نہ آئے جب انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کردیا اور انہیں اسی چیز نے آگھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے [الأحقاف: 26]
اس لئے عقلمند وہی ہے جو کسی دوسرے کو دیکھ نصیحت حاصل کرلے، اور بد بخت وہی ہے جسکو دیکھ کر لوگ عبرت پکڑیں، چنانچہ : فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکہ میں نہ ڈال دے اور نہ کوئی دغا بازتمہیں اللہ کے بارے دھوکہ میں ڈالے [لقمان: 33]
اللہ تعالی سے ملاقات کیلئے زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کرتے ہوئے تیاری کرو، کسی کو دنیاوی خواہشات اور امیدیں دھوکے میں نہ رکھیں، فرمانِ باری تعالی ہے: حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ یہاں تک کہ ان میں سے کسی کو جب موت آئے گی تو کہے گا: پروردگار! مجھے دنیا میں واپس بھیج دے[٩9] جو نیک کام میں چھوڑ آیا ہوں امید ہے کہ اب میں عمل کروں گا (اللہ تعالیٰ فرمائے گا) ''ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا'' یہ بس ایک بات ہوگی جسے اس سے کہہ دیا۔ اور ان (مرنے والوں) کے درمیان دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ایک آڑ حائل ہوگی [المؤمنون: 99، 100]
یہ جان لو! ساری خوشیوں کا شرچشمہ اللہ وحدہ لاشریک کی سنت کے مطابق اور اخلاص کے ساتھ عبادت ہے، جس میں اللہ اور اسکے رسول سے محبت کا بھی اظہار ہو، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شخص رضائے الہی ، جنت میں داخلہ ، دنیا وی اور اخروی زندگی میں سعادت اللہ تعالی کی بندگی کے بغیر نہیں پاسکتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عبادت ہی کیلئے تمام جن وانس کو پیدا کیا گیا ہے فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں [الذاريات: 56]
بندگی کی وجہ سے اللہ تعالی کی ذات خوش اور راضی ہوتی ہے، جسکا جن و انس کو بہت زیادہ فائدہ ہوتاہے، کیونکہ بندگی با برکت ہوتی ہے، اور دونوں جہانوں میں اسکی برکات ہونگی، اسی لئے اللہ تعالی نے دن اور رات میں فرض یا نفل، مقید یا مطلق طور پر عبادت کا حکم دیا ہے، تا کہ زیادہ عبادت کرنے والے کثرت سے نیکیاں کمائیں اور کمی بیشی کا شکار افراد بھی کثرت سے عبادت کرنے والے لوگوں کے قافلے میں شامل ہوجائیں۔
بندگی کا آخری درجہ اسوقت حاصل ہوگا جب اللہ تعالی کے ساتھ انتہا کی محبت اور اسکے سامنے آخری حد تک خضوع کیساتھ عبادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر کی جائے۔
یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر رحمت اور کرم نوازی ہے کہ سب لوگوں کو عبادت کرنے کا موقع دیا ، تا کہ اللہ کا قرب حاصل کریں اور وہ اِنہیں ثواب سے نوازے، پھر اللہ تعالی نے اِنہیں نمازوں کے اوقات جیسے افضل اوقات بھی بتلائےجن میں عبادات کا ثواب کئی گُنا بڑھ جاتاہے، اگر اللہ تعالی کی طرف سے بیان نہ کیا جاتا تو کسی کو انکے بارے میں علم نہ ہوتا، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ اللہ تعالی تمہیں وہ کچھ سکھلاتا ہے جو تم نہیں جانتے [البقرة: 151]پھر ایک جگہ کچھ یوں فرمایا: فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ جب امن میسر آ جائے تو اللہ کو اسی طریقے سے یاد کرو جو اس نے تمہیں سکھایا ہے جسے تم پہلے نہ جانتے تھے [البقرة: 239]
اور جب اللہ تعالی انسانوں کیلئے کسی عبادت کو مقرر کردے تو اس پر عمل کیلئے ترغیب بھی دلائی ہے، اور اگر پھر بھی کسی سے عبادت چُوک جائے تو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلئے نیکی کے دیگر دروازے بھی کھول رکھے ہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ جو عبادت چُوک گئی اُسی طرح کی کوئی اور عبادات کا بھی موقعہ دیا، صرف اس لئے کہ بندے اللہ کی بندگی اور اطاعت کرلیں۔
مثال کے طور پر اگر کسی نے اپنے والدین کو دیکھا ہی نہیں، تو اللہ تعالی نے ان کیلئے دعا کا حکم دے دیا، انکی طرف سے صدقہ، اور حج کرنے کی اجازت دے دی، انکے رشتہ داروں اور دوستوں سے اچھا سلوک کرنے کی تعلیم دی،اور اگر کسی نے اپنے والدین کے ساتھ زندگی گزاری اور پھر وہ فوت ہوگئے تو ایسا شخص انکی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرسکتا ہے۔
چنانچہ ابو اُسید الساعدی رضی اللہ عنہ کہتے کہ ایک شخص آیا اور کہا:یا رسول اللہ! کیا میرے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی صورت باقی ہے؟ کہ میں ان کی موت کے بعد ان کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا:(ہاں! ان کے لیے دعا کرو، استغفار کرو، اور ان کی وفات کے بعد ان کے وعدے پورے کرو، اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو اور ان کے دوست احباب کی عزت کرو) ابو داود
اور خالہ کا مقام ماں کے برابر ہے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کی:یا رسول اللہ! مجھ سے بہت بڑا گناہ ہو گیا ہے؛ کیا میرے لیے توبہ ہے؟ آپ نے فرمایا: (تمہاری والدہ ہے؟) عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: (کیا تمہاری خالہ ہے؟) عرض کیا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: (پھر اس کے ساتھ حسن سلوک کرو) ترمذی
اور جس شخص کے پاس صدقہ کرنے کیلئے مال نہ ہو، وہ اپنے ہاتھ سے مزدوری کرے، اور اپنے آپ کو فائدہ پہنچاتے ہوئے صدقہ کرے ، چنانچہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے) عرض کیا گیا: اگر صدقہ کی طاقت نہ ہو تو کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: (اپنے ہاتھوں سے کمائے اور اپنے آپ کو نفع پہنچائے اور صدقہ کرے) عرض کیا: اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: (ضرورت مند اور مصیبت زدہ کی مدد کرے) آپ سے عرض کیا گیا: اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو؟ آپ نے فرمایا: (برائی سے رک جائے اس کے لئے یہ بھی صدقہ ہے)مسلم
اور ایک حدیث میں ہے کہ : (جو شخص فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کے بعد اپنی نماز والی جگہ پر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج نکل آئے پھر دو رکعتیں پڑھے اس کے لئے پورے پورے ایک حج اور عمرے کا ثواب ہے)
اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر کتنی نعمتیں ہیں، کہ نیکیوں کے بے شمار دروازے ہیں اور پھر انکا ثواب بھی بہت عظیم ہے۔
اس لئے اے مسلم! اخلاص اور سنتِ نبوی کے مطابق عمل کر، اور کسی بھی نیک کام کو چھوٹا مت سمجھ لینا، چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، ایسے ہی کسی گناہ کو حقیر مت سمجھ لینا چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ ان سب کا حساب کتاب ہوگا۔
اے مسلم!
بدعات سے بچو؛ کہ انکی وجہ سے تمہارا دین برباد ہوجائے گا، اور نیکیاں ضائع ہوجائیں گیں، یا نیکیوں کا ثواب کم ہو جائے گا،فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے عملوں کو ضائع نہ کر لو [محمد: 33]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین میں بدعات ایجادکرنے والے کیلئے کہیں گے ، جنہیں فرشتے بھی حوض سے دھتکار دیں گے: (ہلاکت ہو، ہلاکت ہو ان لوگوں کیلئے جنہوں نے میرے بعد دین میں تبدیلیاں کردیں) بخاری
اے مسلمان! اسی طرح تجھ پر یہ بھی ضروری ہے کہ حرام کاموں سے بچ جائے، اور ان سے نفرت کرے، کیونکہ انکی وجہ سے دل سخت ہوجاتا ہے، اور دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے، اور اگر بندہ اللہ تعالی سے منہ موڑ لے تواسکے مقدر میں بد بختی بھی لکھ دی جاتی ہے،یہی حرام کام برے انجام کا بھی باعث بنتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (59) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا پھر ان کے بعد ان کی نالائق اولاد ان کی جانشین بنی جنہوں نے نماز کو ضائع کیا اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے۔ وہ عنقریب گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں گے[59] البتہ ان میں سے جس نے توبہ کر لی، ایمان لایا اور اچھے عمل کئے تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ بھر بھی حق تلفی نہ ہوگی [مريم: 59، 60]
اے مسلمانوں! نیکیاں کرنے میں سبقت کرو، تا کہ تمہیں بلند درجات کا وعدہ پانے والوں میں جگہ مل سکے، اور دیکھنا ! نیک کاموں سے پیچھے مت ہٹنا، وگرنہ بلند درجات پانے والوں سے پیچھے رہ جاؤ گے، اور شاید کہ آگ میں بھی جانا پڑے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ایک قوم نیکیوں سے پیچھے ہٹے گی حتی کہ اللہ تعالی انہیں درجات میں پیچھے کردےگا) ایک روایت میں ہے کہ (ایک قوم نیکیوں سے پیچھے ہٹے گی حتی کہ اللہ تعالی انہیں جہنم میں بھی لیٹ ہی ڈالے گا)
فرمانِ باری تعالی ہے: وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ (10) أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ (11) فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ (12) ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ (13) وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَ اور سبقت کرنے والے تو بہرحال سبقت کرنے والے ہیں [10] یہی لوگ مقرب ہیں[11] جو نعمتوں والے باغوں میں ہوں گے[12] گذشتہ لوگوں میں سے بہت ہوں گے[13] اور پچھلوں میں سے کم [الواقعة: 10- 14]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کواسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو، وہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفات اللہ کیلئے ہیں جو عظیم سلطان ہے، اسکے دلائل قوی ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، وہی بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اسکے بندے اور ایسے رسول ہیں ،جنہیں قرآن کا معجزہ دیا گیا، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد پر اور تمام صحابہ کرام پر اپنی رحمت نازل فرماجو کہ ایمان اور احسان والے ہیں۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ کی محبت اور اطاعت سے سرشار ہوکر اُسی سے ڈرو ، اور اُسکی نافرمانی کرتے ہوئے اسکے غضب کو نہ للکارو۔
اللہ کے بندو!
حق بات پر ایک دوسرے کی مدد کرو، اور اسلامی اخوت میں رنگ کر ایک دوسرے کے بھائی بن جاؤ، اسی کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا: وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں جو نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں یہی لوگ ہیں، جن پر اللہ رحم فرمائے گا بلاشبہ اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے [التوبة: 71]
اے مسلمان! نصیحت لازمی کیا کرو، کسی کیلئے ہر اچھی چیز کو پسند کرنے کا نام نصیحت ہے، نصیحت کی وجہ سے مخاطب کی مدد ہوتی ہے، اوریہ اُسکے لئے نیک تمناؤں کی علامت ہے، نصیحت کا شریعت میں بہت ہی بلند مقام ہے، چنانچہ ابو تمیم الداری رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: (دین، نصیحت کا نام ہے) صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! کس کیلئے نصیحت؟ آپ نے فرمایا: (اللہ کیلئے ، اسکے قرآن کیلئے، اسکے رسول کیلئے، مسلم حکمرانوں کیلئے، اور تمام عوام الناس کیلئے) مسلم
اور مسلمانوں پر مسلمانوں کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ : انکے معاملات کا خیال کیا جائے، انکے حقوق ادا کئے جائیں، انہیں دعاؤں میں یاد رکھیں، اور ہمیشہ انکو فائدہ دینے کی کوشش کریں، اور جن سے نقصان کا اندیشہ ہو اس سے بچائیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (وہ وہم میں سے نہیں جو کسی بڑے کا احترام نہ کرے، اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، نیکی کا حکم نہ دے، اور برائی سے نہ روکے) ایک حدیث کے الفاظ ہیں: (ایک مؤمن دوسرے مؤمن کیلئے ایک عمارت کی طرح ہے، جسکا ہر حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے)
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]
جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں فرمائے گا)
اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد, كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم, إنك حميد مجيد, اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد, كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم , إنك حميد مجيد.
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تمام خلفائے راشدین سے راضی ہوجا، ہدایت یافتہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تابعین کرام اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما ، یا اللہ! کفر اور تمام کفار کو ذلیل کردے ، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما ، یا اللہ! شرک اور مشرکین کو ذلیل کردے ، یا رب العالمین!
یا اللہ! اپنے دین، اور قرآن کو غالب فرما، یا اللہ! یا اللہ! اپنے دین، قرآن اور سنت نبوی کو غالب فرما، یا اللہ! اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ہر جگہ اور ہر مقام پر غالب فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! بدعات کو مٹا دے، یا اللہ بدعات کو مٹا دے، یا اللہ! ہمارے سربراہ اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے متصادم بدعات کو ذلیل و رسوا کردے، بے شک توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے سیرتِ نبوی، اور سنتِ نبوی کی اتباع کا سوال کرتے ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمیں حق اپنی اصلی حالت میں دیکھا دے اور پھر اسکی اتباع کرنے کی توفیق عنائت فرما، اور ہمیں باطل بھی بتلا دے اور پھر اس سے بچنے کی توفیق بھی عنائت فرما، یا اللہ! ہمارے لئے حق کو دھندلا مت کرنا کہیں ہم گمراہ نہ ہوجائیں۔
یا اللہ! ہمیں اپنے نفس اور ہمارے گناہوں کے شر سے بچا لے، یا اللہ! ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما، یا رب العالمین، یااللہ! ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما، بے شک توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمارے اگلے پچھلے ، خلوت و جلوت کے اور جنہیں توں ہم سے بہتر جانتا ہے سارے کے سارے گناہ معاف فرما دے،یا اللہ توں ہی آگے کرنے والا ہے، اورتو ں ہی مؤخر کرنے والا ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔
ہم تجھ سے جنت اور اسکے قریب کرنے والے تمام اقوال و افعال کی توفیق مانگتے ہیں، اور جہنم و اسکے قریب کرنے والے تمام اقوال و افعال سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہمارے وطنوں کو امن وامان والا بنادے، اور ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرمادے، یا اللہ! خادم الحرمین الشریفین کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! اُسکی اپنی مرضی کے مطابق راہنمائی فرما، اور اسکے تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا رب العالمین! ہر خیر کے کام میں اسکی مدد فرما، بے شک توں ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! اسکے ولی عہد کو بھی اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور اسکی اپنی مرضی کے مطابق راہنمائی فرما، اور اسکے بھی تمام اعمال اپنی رضا کیلئے قبول فرما، یا رب العالمین۔
یا اللہ! ہمارے ملک کو ہر شراور برائی سے محفوظ فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہمارے معاملات آسان فرمادے، یا اللہ! ہم تجھ سے ہر جگہ اور ہر وقت اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کا سوال کرتے ہیں، یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمانوں کی مدد فرما، بے شک توں ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! جو بھوکے ہیں انکے کھانے کا بندوبست فرما، جن کے پاس کپڑے نہیں انہیں کپڑ ے مہیا فرما، یا اللہ! جلاوطنوں کو پر امن رہائش عطا فرما، یاا للہ! انکی گھبراہٹ کو دور فرما، انکے عیوب کی پردہ پوشی فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! انکے رزق میں آسانی پیدا فرما، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! مظلوم مسلمانوں کی ظالموں کیخلاف مدد فرما۔
یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ان پر ظلم اور زیادتی کرنے والوں کو ظلم و زیادتی سے روک دے، یا اللہ! ہم تجھ ہی سے سوال کرتے ہیں کہ جنہوں نے اِنہیں جلا وطن کیا، ان پر ظلم ڈھایا، انکے دلوں پر دہشت طاری کی، اُن سے توں انتقام لے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! مسلمانوں پر اپنا رحم فرما، یا رب العالمین ، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی نصیب فرما اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما [البقرة: 201]
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]
اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
لنک