اس موضوع پر فارم کی چند بہنوں سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے درج ذیل خیالات کا اظہار کیا
1)لڑکی کے لئے سب سے بڑا مسئلہ پردہ اور حیا کا تحفظ ہے دور جدید نے پردہ کو ایک فرسودہ شے بنا کر پیش کیا ہے آج کے جدید ذرائع ابلاغ جس طرح عورت کے دامن عصمت و عفت کو تار تار کرنے میں مصروف ہیں پوری کافر اقوام نے عالم اسلام کے خلاف ایک سازش کے تحت بے حیائی اور فحاشی کا زہر پھیلانا شروع کیا ہے انھیں دیکھتے ہوئے کوئی بھی باشعور مسلمان اندازہ کر سکتا ہے کہ پردہ کے خاتمے کے بعد کون کون سی قباحتیں بن بلائے خود ہی چلی آئیں گی اھل مغرب نے میڈیا کے زریعے بے حیائی اور فحاشی کے زہر کو ہر گھر کے لوگوں کی رگوں میں اتار دیا ہے اور موجودہ میڈیا کا مقصد صرف عورت کی تشہیر ہی نہیں بلکہ عورت کو ساتر اور باپردہ لباس پہننے سے بچانے کے لئے عریاں اور فحش اشتہارات کو مسلم ممالک میں پھیلایا گیا افسوس اور تعجب تو خود طبقہ نسواں پر ہوتا ہے کہ وہ ایسے کاموں کے لئے خود کو کیسے پیش کر دیتی ہیں وجہ صرف میڈیا ہی ہے جس کی تقلید کے شوق میں اسکی برائیاں فیشن بنا کر نو جواں لڑ کیوں نے اپنا لیں ،
کسی بھی باضمیر لڑکی یا خاتون سے پوچھیں کیا یہ جائزہے کہ وہ پردہ کئے بغیر گھر سے نکلے اپنے زیورات اور اپنی زیب و زینت نامحرموں کے سامنے ظاہر کر کہ دعوت نظارہ دے ؟؟
کیا پردہ کے متعلق قرآن و حدیث کے دلائل جاننے کے بعد کسی سر پرست یا والدین کے لئے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی بیوی ،بہن یا بیٹی کو پردہ کئے بغیر گھر سے جانے کی اجازت دیں میری تمام بہنوں اور بیٹیوں سے سے یہی اپیل ہے کہ وہ گمراہ کن میڈیا کے افکار کا مقابلہ کریں اور شرم و حیا وپاکدامنی کے تاج کو سر پہ محفوظ رکھیں وہ یہود و ہنود کی تہذیب کو باعث فخر سمجھنے کی بجائے اپنی اسلامی تہذیب پہ فخر کا عملی مظاہرہ کریں ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو مکمل پردہ کی توفیق عطا فرمائے۔
2)ہمارے معاشرے میں جسمانی طوائفیت کو تو برا سمجھا جاتا ہے اور کرنے والی کو ملعون و مطعون کیا جاتا ہے لیکن ذہنی طوائفیت کے حوالے سے ہمارے ہاں کوئی شعور نہیں ہے اور بسا اوقات ہم بھی لاشعوری طور پر اس میں ملوث ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ذہنی طوائفیت کیا ہے ؟؟؟اگر ایک عورت بغیر کسی شرعی رشتے کے کسی مرد سے جسمانی طور پر ملوث ہوتی ہے تو ہم اس کو طوائف کہتے ہیں ۔۔۔۔اس کو لعن طعن کرتے ہیں ۔۔معاشرے میں ایسی عورت کا کوئی مقام نہیں ہوتا۔۔۔وہ استعمال ہونے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دی جاتی ہیں۔۔۔لیکن اگر ایک شریف زادی شرعی پردہ کرنے والی خاتون بغیر کسی شرعی رشتے کے کسی غیر مرد کو سوچتی ہے۔۔ذہنی طور پر اس کے ساتھ ملوث ہوتی ہےتو اس کو ہم کیا کہیں گے۔۔۔؟؟؟؟؟؟
پردے کے حوالے سے بہت کچھ کہا سنا جا چکا ہے۔۔خاص طور پر ہمارے اس فورم کے حلقے میں ۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ذہنی پاکیزگی کو عام کیا جائے۔۔ہم میں سے ہر ایک اگر اپنے دل کو ٹٹولے تو کسی نہ کسی مقام پر ہم اس میں ملوث ہوتے ہیں ۔۔آج نہیں تو پانچ چھ سال پہلے خصوصاً ٹین ایج میں یہ بیماری بہت عام ہوتی ہے۔۔۔اور اس عمر میں ایسے خواب دیکھنا لڑکیوں کا پیدائشی حق سمجھا جاتا ہے ۔۔سولہ سال کی عمر کو اسی لیے سوئیٹ سکسٹین کہا جاتا ہے۔۔۔بلوغت کے بعد مائیں بچیوں کو ظاہری پردہ کرنا سکھاتی ہیں ۔۔۔انھیں برقع اوڑھنے کی تلقین کرتی ہیں لیکن اس حوالے سے انھیں بالکل گائیڈ نہیں کیا جاتا۔۔ایسے خیالات کا آنا فطری امر ہے ۔۔ماؤں کو سہیلیوں کی طرح ان سے یہ مسئلہ ڈسکس کرنا چاہیے ۔۔۔ناکہ انھیں کسی بیرونی دوست کی ضرورت محسوس ہی نہ ہو جو انھیں غلط سمت لگا دے۔۔۔۔
قرآن میں اس کو دل کی بیماری سے تعبیر کیا گیا ہے۔۔۔
ـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ ۚ إِنِ اتَّقَيتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذى فى قَلبِهِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعروفًا ﴿٣٢﴾
ترجمہ:اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو (32)
غور کیجیے ! دل کی بیماری اور برا خیال کیا ہے۔۔۔؟؟؟یہاں ظاہری پردے کی بات نہیں ہو رہی بلکہ باطنی صفائی و پاکیزگی کا بیان ہے۔۔
اسی ذہنی پاکیزگی کو شرعی اصطلاح میں تقوی کہا جاتا ہے۔۔۔ہمارے ہر شرعی عمل کی بنیاد اسی پر رکھنی جانی چاہیے
یأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَدخُلوا بُيوتَ النَّبِىِّ إِلّا أَن يُؤذَنَ لَكُم إِلىٰ طَعامٍ غَيرَ نـٰظِرينَ إِنىٰهُ وَلـٰكِن إِذا دُعيتُم فَادخُلوا فَإِذا طَعِمتُم فَانتَشِروا وَلا مُستَـٔنِسينَ لِحَديثٍ ۚ إِنَّ ذٰلِكُم كانَ يُؤذِى النَّبِىَّ فَيَستَحي۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذٰلِكُم أَطهَرُ لِقُلوبِكُم وَقُلوبِهِنَّ۔۔۔۔۔۔لا جُناحَ عَلَيهِنَّ فى ءابائِهِنَّ وَلا أَبنائِهِنَّ وَلا إِخوٰنِهِنَّ وَلا أَبناءِ إِخوٰنِهِنَّ وَلا أَبناءِ أَخَوٰتِهِنَّ وَلا نِسائِهِنَّ وَلا ما مَلَكَت أَيمانُهُنَّ ۗ وَاتَّقينَ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ شَهيدًا ﴿٥٥﴾
اس آیت پر بھی غور کیجیے پردے کا اولین حکم نازل ہوا ۔۔اور اس کے بعد پردے کا مقصد کیا بیان کیا گیا۔۔۔؟؟؟
دل کی طہارت۔۔باطنی پاکیزگی۔۔۔اور پھر آخرمیں اللہ تعالی نے محرم مردوں کا ذکر کیا تو تتمہ کے طور پر تقوی کا حکم بھی ساتھ دے دیا۔۔۔
گویا پردے کا مقصود ومنتہاء باطنی صفائی ہے۔۔۔اور اگر بہت اچھا پردہ کر لینے کے باوجود ہم اس کے حصول میں ناکام ہیں تو ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی اشد ضرورت ہے
میری بڑی بہن کے رشتے کی بات چلی تو منگنی پر فریقین کا اتفاق ہوا۔۔۔آپا نے امّی سے کہا اگر آپ بات پکی کرنا چاہتی ہیں تو بجائے منگنی کے نکاح کر دیحیئے ورنہ اس بات کو یہیں ختم کر دیں۔۔امی کے استفسار پر انھوں نے کہا کہ منگنی کی صورت میں ذہن لاشعوری طور پر فریقِ ثانی کی طرف لگا رہے گا اور بغیر کسی شرعی رشتے کے میں اس کو درست نہیں سمجھتی۔۔۔اور یوں ان کا نکاح ہو گیا
میری بہن اتنی حیا دار تھیں کہ رشتے کے آغاز سے انھوں نے مکمل اختیار امی ابو کو دے رکھا تھا اور کسی معاملے میں زبان نہیں کھولی تھی لیکن اس مرحلے پر انھوں نے مداخلت کی تھی۔۔۔
یہ نکتہ اٹھایا ہے وہ بہت اہم ہے لیکن اس مسئلے پر بھی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔۔۔میں سمجھتی ہوں ماؤں کو اپنی نو عمر بیٹیوں کی بہترین دوست بن جانا چاہیے۔۔۔اور ایک سہیلی کی طرح ہی ان سے ڈسکشن کرنی چاہیے۔۔۔ان کی تربیت اس نہج پر کرنی چاہیے کہ وقت آنے پر وہ بن کہے پردے کی ذمہ داری اٹھانے کے ساتھ ساتھ ذہنی پاکیزگی کا شعور بھی رکھتی ہوں
آخر میں نوعمر بچیوں کی ماؤں کے لیے ایک مشورہ ہے کہ آج کل لڑکیاں بہت جلدی بالغ ہو رہی ہیں ۔۔۔ان سے اپنا آپ سنبھالا نہیں جا رہا ہوتا کہ پردے کی ذمہ داری سر پر آن پڑتی ہے۔۔کوشش کیجئے کہ بلوغت کی عمر کا آغاز جلدی نہ ہو ۔۔۔اس کے لیے ایک تو گھر کا ماحول صاف ستھرا رکھیں ۔۔۔ٹی وی ہو تو اسے نکال دیں ۔۔مزید یہ کہ بچیوں کو گرم چیزیں مثلاً انڈے وغیرہ نہ دیں ٹھنڈی تاثیر والی اشیاء دیں۔۔
اپنی سوچوں کا دھیان رکھو،یہ الفاظ بن جاتی ہیں
اپنے الفاظ کا دھیان رکھو،یہ افعال بن جاتے ہیں
اپنے افعال کا دھیان رکھو،یہ عادت بن جاتے ہیں
اپنی عادت کا دھیان رکھو،یہ کردار بن جاتی ہیں
اپنے کردار کا دھیان رکھو،یہی کردار تمہارا نتیجہ بناتا ہے!!
3)
(خواتین کی جہالت کی حد کہ ٹوہ میں لگی رہتی ہیں"اچھا تمہیں پتا چلا۔۔اچھا!پھر بھی چھپا رہی ہے۔۔۔لو بھلا ہم کیا اندھے ہیں۔۔اچھا خیر ہمیں کیا؟"کیا یہ بچی کی خرابی ہے کہ اس پر طنز،رونا دھونا،ہائے پکار مچا دیتے ہیں؟نعوذ باللہ)اگرگھر میں والد یا بھائی وغیرہ بات کرنے کی کوشش کریں تو ڈپٹ کر چپ کروا دیتے ہیں کہ مجھے بہتر معلوم ہے۔۔آپ کو کیا علم؟فُلاں کی بچی کو نہیں دیکھا تھا،پندرہ سال کی عمر میں بھی گلیوں میں بھاگی پھرتی تھی۔آپ کی بہن کی بیٹی۔۔آپ کے بھائی کی بیٹی۔۔۔۔"وہ ان کےمکلف تو نہیں۔۔ان کی پہلی ذمہ داری گھر ہے !
جہالت کی انتہا ہوتی ہے کیا ان کی بیٹیوں کے ساتھ یہ معاملہ پیش نہیں آتا ۔اس کے ساتھ کوئی انوکھا معاملہ پیش آتا ہے کیا؟؟۔۔اس وقت جب بچی اپنی پریشانی میں ہوتی ہے ایسی حرکات و گفتگو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے ۔۔میں یہ سب باتیں اس لئے کہہ رہی ہوں کہ کل ہمارے ساتھ یہ سب پیش آیا تو جب ہم عملی زندگی میں داخل ہوں تو ایسے کام نہ کرتے پھریں ۔۔خواتین کی تربیت کی اشد ضرورت ہے ۔۔ان پڑھ تو ان پڑھ پڑھے لکھے ۔۔۔دینی ماحول کے لوگ ایسے کام کریں تو افسوس ہوتا ہے۔۔شاید خواتین کی مٹی ایک سی ہوتی ہے دینی ہوں یا دنیاوی۔۔الا ماشاء اللہ
حل بہت بہترین ہے جو چیز بچوں کو ابتداء سے سکھائی جائے گی ،اسی پر عمل ہو گا۔۔