• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بلوچستان ۔۔ ایک اور بنگلہ دیش کی تیاری؟

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
پاکستان چین کے تعاون سے علاقائی قوتوں خصوصا روس اور ایران کے ساتھ اقتصادی اور معاشی تعاون کے امکانات تلاش کر رہا ہے ، پاکستان ایک بار پھر امریکی نشانے کی زد میں آتا دکھائی دے رہا ہے اور محسوس یہی ہو رہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف بلوچستان میں انسانی اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ایک مضبوط کیس کی تیاری میں مصروف ہے۔ امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی نے پاکستانی فورسز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات عائد کئے ہیں اور کہا ہے کہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے امریکی ہتھیاروں کے ذریعے لوگوں کو مارنے اور ٹھکانے لگانے کا آپریشن کیاجارہا ہے۔ ایک امریکی رکن کانگریس نے کہا کہ بلوچستان شورش زدہ علاقہ ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، لیکن اسٹر ٹیجک لحاظ سے بہت اہم علاقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ رکن کانگریس کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس پہلی کڑی ہے، اس قسم کے مزید اجلاس منعقد کیے جائیں گے۔
جہاں تک ہم پاکستانیوں کا تعلق ہے، ہم خود کو پاکستانی تو کہتے ہیں لیکن پاکستانی کہلوانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان اس لئے وجود میں آیا کہ ایک قوم ملکر ایک چھت کے نیچے رہ سکیں مگر پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کے نام پر ایک ملک تو بنا لیا لیکن ایک قوم نہیں بن سکے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں احساس ہوا کہ ہم مسلمان تو ہیں مگر پنجابی بھی ہیں ، بنگالی ، پٹھان،بلوچ اور سندھی بھی ہیں ، اس کے علاوہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مہاجر بھی ہیں ۔ ہمارے اپنے رسم و رواج ، روایات بھی ہیں ۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ہم میں سچ سننے ، بولنے اور سچ کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔ اب تو لوگ حکومت، فوج اور دوسری زبانوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی بھائیوں کے خلاف کھل کر نفرت کا اظہارکر رہے ہیں۔دوسری طرف حکومت بلوچستان کے مسائل کو چھپا رہی ہے، تاکہ دوسرے علا قوں میں رہنے والے لوگوں کو یہ نہ پتا چلے کہ بلوچستان میں آخر کیاہو رہا ہے، اور ان بلوچ بھائیوں کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا ؟ یہ تو تب ممکن ہوتا جب حکمران ان کے دکھوں کو اپنادکھ گردانتے۔
بلوچ خواب دیکھا کرتے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد برطانیہ سے ہونے والے معاہدوں کے تحت مکمل آزادی مل جائے گی اوروہ اپنے علیحدہ ملک میں آزادی کی زندگی گزار سکیں گے۔ خانیت آف قلات عظیم تر بلوچستان کا سرکاری نام تھا اس کے رہنے والے خان آف قلات کے نام سے مشہور تھے ۔اس کی سرحدیں میر نصیر خان کے عہد میں ایک طرف تو ایران اور افغانستان ، اور دوسری طرف ہندوستان اور بحیرہ عرب سے ملتی تھیں، جس میں ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازی خان، لیہ اور بھکر کے علاقے شامل تھے۔ انگریزوں نے خانیت آف قلات پر قبضے کے بعد اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے افغانستان اور ایران کو دے دئیے تھے۔ ڈیرہ بگتی اور مری قبائل کے سرداروں نے متفقہ طور پر منصوبہ بنایا کہ وہ قلات میں شامل ہو جائیں گے۔اس ریاست کی قوم پرست سیاسی پارٹیاں اور لیڈر بھی اسی نظرئیے کے حامی تھے، وہ مسلمانوں کو الگ قوم نہیں مانتے تھے۔پاکستانی قیادت نے میر احمد یار کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں، کیونکہ روس، امریکہ اور دوسری طاقتوں کی نظریں گوادر، پسنی اور جیوانی پر تھیں۔ چنانچہ یہ قبائل شروع ہی سے آزادی سے الگ رہنا چاہتے تھے، جس کی وجہ سے ان کا رہن سہن، رواج وغیرہ ایران، بھارت اور دوسرے ممالک سے بالکل مختلف ہے۔
بلوچستان کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں اور یہ صوبہ تیل ، گیس اور قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال ہے۔حالانکہ بلوچ باغیوں کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کو وہاں سے حاصل ہونے والے قدرتی و سائل کے ذریعے آمدنی کا زیادہ بڑا حصہ ملنا چاہیے ڈر تو اس بات کا ہے کہ یہ بنگلہ دیشی ما ڈل بھی ہمارے ہاتھ سے نہ نکل جائے امریکہ بنا مفاد کے احسان نہیں کرتا اس کے پیچھے اس کا بہت بڑا مقصد کا ر فرما ہوتا ہے وہ تجوریان بھرنے کی دعوت کے ساتھ ساتھ ایسا زہر بھی چھوڑتا ہے جس کا اثر برائے راست عوام پر پڑتا ہے اور اسکے آخری زہر کا اثر ان بے ضمیروں پر ضرور پڑے گا جب ملک دشمن عناصر اس پر قبضہ کر لیں گے اور ان کے ہاتھوں سے یہ پتنگ بھی نکل جا ئے گی اور پھر یہی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔ 2005 کے زلزلے کے بعد امریکہ نے امداد کے احسان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اپنی جڑیں بھی مضبوط کر لی ہیں۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم خود کما کے کھا نا نہیں چاہتے ، کیونکہ اگرہم میں یہ صلاحیت ہو تی تو آج امریکہ کے غلام نہ ہوتے ۔ہمارا نحصار زیادہ تر دوسروں پر ہوتا ہے۔ قدرت نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کوقدرتی ذخائر سے اس قدر مالا مال کیا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ان سے مستفید ہو سکتی ہیں۔انہی ذخائر کی بدولت ہم امریکی قرضوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اس صوبے کے غریب عوام تعلیم ، صحت اور بنیادی ضروریات کو ترس رہے ہیں ۔
بلوچستان 1947 میں جہاں تھا وہیں کھڑا ہے۔ عوام اسی طرح جوہڑوں کا گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ اس کے مقابلے میںبلوچ سرداروں کے بچے امریکہ اور یورپ کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہر ایم پی اے کوحکومت کی طرف سے کروڑوں روپے کے فنڈزجاری کئے گئے، لیکن ان فنڈز کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی بجائے اسلحے کے گوداموںکو بھرا جا رہا ہے۔دوسری طرف حکومت نے کبھی بھی بلوچستان میں تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے دلجمعی سے پلاننگ نہیں کی بلکہ اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے صرف سرداروں کو خوش کرتے رہے۔
بلوچستان کے سیاسی محرکات کے تناظر میں امریکیمحکمہ خارجہ کی ترجمان نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ بلوچستان کے معاملے پر امریکا کا موقف تبدیل نہیں ہوا۔ ا مریکا نے آزاد بلوچستان کے مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام فریق پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنے اختلافات پرامن طریقے سے دور کریں۔ خارجہ امور سے متعلق مختلف معاملات کانگریس کی کمیٹیوں میں زیر بحث آتے رہتے ہیں لیکن یہ تاثر نہیں لیا جانا چاہئے کہ ان سے امریکی حکومت بھی متفق ہو۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچستان کے معاملے پر خارجہ امور کمیٹی کا جو اجلاس ہوا وہ اس سے آگاہ ہیں لیکن محکمہ خارجہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس میں محکمہ خارجہ کی طرف سے کسی نے شرکت کی۔
ہم پاکستان کے پالیسی سازوں اور ارباب اختیار سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان کے معاملے کو جتنی جلدی ہو پر امن طریقے سے حل کیا جائے اوربلوچستان کے عوام کی محرومیوں پر چاہے وہ سیاسی ہوں یا معاشی فوری توجہ دی جائے۔ امریکی خارجی امور کمیٹی کی سرگرمیوں کو خطرے کی گھنٹی سمجھا جائے اورکم سے کم وقت میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے اصلاح و احوال کی کوششیں کی جائیں اور پاکستانی عوام کو ان تمام معاملات سے آگاہ رکھا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچ بھائیوں کو جتنی جلدی ممکن ہوسکے مذاکرات کی میز پر بٹھا کر ان کی محرومیاں دور کی جائیں اور انہیں برابر کے حقوق دیے جائیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو خدانخواستہ ہم اپنے ملک کا ایک اور حصہ گنوا بیٹھیں گے۔
 
Top