• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیس رکعات تراویح

شمولیت
مارچ 06، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
42
تراویح ترویحة کی جمع ہے۔ یعنی اطمینان سے پڑھی جانے والی نماز، ہر چار رکعات کو ایک ترویحہ کہتے ہیں۔ پانچ ترویحہ یعنی بیس (۲۰) رکعات تراویح دس سلاموں کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وامام ابوحنیفہ رحمة الله عليه، امام مالک رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه، وجمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک سنت موکدہ ہے۔

(۱) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے، اس لئے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یاامیرالمومنین! یہ ایسی چیز کا حکم ہے جس پر عمل نہیں ہے (یعنی باجماعت تراویح) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن یہی بہتر ہے، تو انھوں نے (حضرت ابی بن کعب رضى الله عنه نے) بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی۔ (اسنادہ حسن، المختارہ للضیاء المقدسی ۱۱۶۱)

(۲) حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھتے تھے اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے اورامیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے۔ (الصیام للفریابی مخرج ۱۷۶، وسنن بیہقی ۴۸۰۱، اس حدیث کے صحیح ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے)

(۳) علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه امام مالک کی روایت نقل کرتے ہیں۔ اور امام مالک رحمة الله عليه نے یزید بن خصیفہ رحمة الله عليه کے طریق سے حضرت سائب بن یزید رضى الله عنه سے بیس (۲۰) رکعات نقل کی ہے۔ (فتح الباری)

(۴) علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه تلخیص الحبیر میں حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رمضان المبارک کی ایک رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی، دوسری رات بھی صحابہ جب جمع ہوئے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو بیس رکعات تراویح پڑھائی اور جب تیسری رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد مسجد میں جمع ہوئی تو آپ صلى الله عليه وسلم تشریف نہیں لائے پھر صبح میں ارشاد فرمایا: مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز (تراویح) تم پر فرض کردی جائے اور تم کرنہ سکو۔

بیس (۲۰) رکعات تراویح پر صحابہ وعلماء امت کا اجماع ہے۔

(۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں لوگوں کو تراویح باجماعت پڑھنے کا فیصلہ فرمایا۔ یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد تراویح کی پہلی عام جماعت تھی۔ (صحیح ابن حبان)

(۲) حضرت یزید بن رومان رحمة الله عليه (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ تیئس (۲۳) رکعات (بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر) پڑھا کرتے تھے۔ (موطا امام مالک ۲۵۲، اسنادہ مرسل قوی، آثار السنن ۶/۵۵)

(۳) امام شافعی رحمة الله عليه (تبع تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں بیس (۲۰) ہی رکعات تراویح پڑھتے دیکھا ہے۔ (الاُم وسنن ترمذی)


(۴) امام ترمذی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (۲۰) رکعات ہے۔ (سنن ترمذی)

(۵) علامہ علاء الدین کاسانی حنفی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ صحیح قول جمہور علماء کا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انھوں نے بیس رکعات تراویح پڑھائی۔ تو یہ صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔ (بدائع الصنائع)

(۶) علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله عليه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات تراویح سنت ہے۔ (بدایة المجتہد)

(۷)علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ تراویح کی بیس (۲۰) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ادا فرمایا۔ (المغنی)

(۸) علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں۔ تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات کا ہے، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (۲۰) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (۴) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اورامام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله عليه نے بیس (۲۰) رکعات تراویح کو جمہو رعلماء سے نقل کیا ہے۔ (المجموع)


(۹) علامہ ابن تیمیہ حنبلی رحمة الله عليه لکھتے ہیں: حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (صحابی) نے لوگوں کو بیس (۲۰) رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھائی، اسلئے جمہور علماء کے نزدیک یہی سنت ہے۔ کیونکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اور انصار کی موجودگی میں بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ)

(۱۰) استاذ الاساتذہ مجاہد آزادی شیخ محمود حسن قاسمی دیوبندی رحمة الله عليه فرزند اوّل و سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں کہ جب کبار صحابہ اور خلفاء راشدین بیس (۲۰) رکعات تراویح پر متفق ہوگئے، تو اس سے بڑھ کر کونسی قوی ترین دلیل ہوسکتی ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اقوال وافعال کو سب سے زیادہ جاننے والے وہی حضرا ت تھے۔ جب انھوں نے بیس (۲۰) رکعات کے علاوہ کے قول وعمل کو ترک کیاتو معلوم ہوا کہ بیس (۲۰) رکعات کے سلسلہ میں ان کے پاس قوی ترین ثبوت موجود تھا اور اہل حدیث حضرات جو آٹھ (۸) رکعات تراویح کہتے ہیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تہجد اور تراویح میں فرق نہیں کرتے، حالانکہ تہجد اور تراویح میں بہت بڑا فرق ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تہجد پوری رات پڑھنے کی نفی کرتی ہیں جب کہ تراویح سحری تک پڑھی گئی ہے

***
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز تراویح کی رکعات

میں نے اس سے قبل بھی یہ سوال کیا تھا اب پھرمیری گزارش ہے کہ ایسا جواب دیں جس سے مجھے کوئي فائدہ ہو پہلا جواب کچھ اچھا نہیں تھا ۔

سوال یہ ہے کہ آیا تروایح گیارہ رکعات ہیں یا بیس ؟ کیونکہ سنت تو گیارہ رکعت ہی ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی بھی اپنی کتاب " القیام والتراویح " میں اسے گیارہ رکعت ہی قرار دیتے ہیں ۔

کچھ لوگ تو ان مساجد میں نماز تراویح ادا کرنے جاتے ہیں جہاں گیارہ رکعت ادا کی جاتی ہیں ، اورکچھ ان مساجد میں جاتے ہیں جہاں بیس رکعت ادا کی جاتی ہیں ، یہاں امریکہ میں یہ مسئلہ حساس بن چکا ہے کیونکہ گیارہ رکعت ادا کرنے والے بیس رکعت والوں کو ملامت کرتے ہیں ، اوراس کےبرعکس بیس رکعت پڑھنےوالے دوسروں کو ملامت کرتے ہیں اورفتنہ کی صورت بن چکی ہے ، اورپھر یہ بھی ہے کہ مسجد حرام میں بھی بیس رکعت ادا کی جاتی ہیں ۔

مسجد حرام اورمسجد نبوی میں نماز سنت کے خلاف کیوں ادا کی جاتی ہے ؟ مسجد حرام اورمسجدنبوی میں بیس رکعت کیوں ادا کی جاتی ہیں ؟



الحمد للہ:

ہمارے خیال میں مسلمان کو اجتھادی مسائل میں اس طرح کا معاملہ نہيں کرنا چاہیے کہ وہ اہل علم کے مابین اجتھادی مسائل کو ایک حساس مسئلہ بنا کراسے آپس میں تفرقہ اورمسلمانوں کے مابین فتنہ کا باعث بناتا پھرے ۔
شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی دس رکعت ادا کرنے کےبعد بیٹھ کروترکا انتظار کرنے اورامام کے ساتھ نماز تراویح مکمل نہ والے شخص کے بارہ میں کہتے ہیں کہ :

ہمیں بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں لوگ ایسے مسائل میں اختلاف کرنے لگے ہیں جن میں اختلاف جائز ہے ، بلکہ اس اختلاف کو وہ دلوں میں نفرت اوراختلاف کا سبب بنانے لگے ہیں ، حالانکہ امت میں اختلاف تو صحابہ کرام کے دور سے موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ ان سب کے دل متفق تھے ۔

اس لیے خاص کرنوجوانوں اورہرملتزم شخص پر واجب ہے کہ وہ یکمشت ہوں اورسب ایک دوسرے کی مدد کریں کیونکہ ان کے دشمن بہت زيادہ ہیں جوان کے خلاف تدبیروں میں مصروف ہیں ۔

دیکھیں : الشرح الممتع ( 4 / 225 ) ۔

اس مسئلہ میں دونوں گروہ ہی غلو کا شکار ہیں ، پہلے گروہ نے گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے کومنکر اوربدعت قرار دیا ہے اوردوسرا گروہ صرف گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کو اجماع کا مخالف قرار دیتے ہیں ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ شيخ الافاضل ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی اس کی کیا توجیہ کرتے ہیں :

ان کا کہنا ہے کہ :

ہم کہیں گے گہ : ہمیں افراط وتفریط اورغلو زيب نہيں دیتا ، کیونکہ بعض لوگ تراویح کی تعداد میں سنت پر التزام کرنے میں غلو سے کام لیتے اورکہتےہیں : سنت میں موجود عدد سے زيادہ پڑھنی جائز نہيں ، اوروہ گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے والوں کوگنہگار اورنافرمان قرار دیتے اور ان کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔

بلاشک وشبہ یہ غلط ہے ، اسے گنہگار اورنافرمان کیسے قرار دیا جاسکتا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز کے بارہ میں سوال کيا گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( دو دو ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر تعداد کی تحدید نہیں کی ، اوریہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھااسے تعداد کا علم نہیں تھا ، کیونکہ جسے نماز کی کیفیت کا ہی علم نہ ہواس کاعدد سے جاہل ہونا زيادہ اولی ہے ، اورپھر وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کہیں کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہونے والے ہرکام کا علم ہو ۔

لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تعداد کی تحدید کیے بغیر نماز کی کیفیت بیان کی ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں وسعت ہے ، اورانسان کے لیے جائزہے کہ وہ سو رکعت پڑھنے کے بعد وتر ادا کرے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ :

( نمازاس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ) ۔

یہ حدیث عموم پر محمول نہيں حتی کہ ان کے ہاں بھی یہ عموم پر نہیں ہے ، اسی لیے وہ بھی انسان پر یہ واجب قرار نہیں دیتے کہ وہ کبھی پانچ اورکبھی سات اورکبھی نو وتر ادا کریں ، اگر ہم اس حدیث کے عموم کو لیں تو ہم یہ کہيں گے کہ :

کبھی پانچ کبھی سات اور کبھی نو وتر ادا کرنے واجب ہیں ، لیکن ایسا نہیں بلکہ اس حدیث " نماز اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے" کا معنی اورمراد یہ ہے کہ نماز کی کیفیت وہی رکھو لیکن تعداد کے بارہ میں نہیں لیکن جہاں پر تعداد کی تحدید بالنص موجود ہو ۔

بہر حال انسان کو چاہیے کہ وہ کسی وسعت والے معاملے میں لوگوں پر تشدد سے کام نہ لے ، حتی کہ ہم نے اس مسئلہ میں تشدد کرنے والے بھائیوں کو دیکھا ہے کہ وہ گیارہ رکعت سے زيادہ آئمہ کو بدعتی قرار دیتے اورمسجد نے نکل جاتے ہیں جس کے باعث وہ اس اجر سے محروم ہوجاتے ہیں جس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ :

( جو بھی امام کے ساتھ اس کے جانے تک قیام کرے اسے رات بھر قیام کا اجروثواب حاصل ہوتا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 806 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 646 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

کچھ لوگ دس رکعت ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتے ہیں جس کی بنا پر صفوں میں خلا پیدا ہوتا اورصفیں ٹوٹ جاتی ہیں ، اوربعض اوقات تو یہ لوگ باتیں بھی کرتے ہیں جس کی بنا پر نمازی تنگ ہوتے ہیں ۔

ہمیں اس میں شک نہيں کہ ہمارے یہ بھائي خیر اوربھلائي ہی چاہتے ہيں اوروہ مجتھد ہیں لیکن ہر مجتھد کا اجتھاد صحیح ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات وہ اجتھاد میں غلطی بھی کربیٹھتا ہے ۔

اوردوسرا گروہ : سنت کا التزام کرنے والوں کے برعکس یہ گروہ گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کوغلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اجماع کی مخالفت کررہے ہیں ، اوردلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہيں :

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ جوشخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اورتمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے ، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اوردوزخ میں ڈال دیں گے ، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے } النساء ( 115 )

آپ سے پہلے جتنے بھی تھے انہيں تئيس رکعت کے علاوہ کسی کا علم نہیں تھا ، اوروہ انہیں بہت زیادہ منکر قرار دیتے ہیں ، لھذا یہ گروہ بھی خطاء اورغلطی پر ہے ۔

دیکھیں الشرح الممتع ( 4 / 73 - 75 ) ۔

نماز تراویح میں آٹھ رکعت سے زيادہ کے عدم جواز کے قائلین کے پاس مندرجہ ذيل حدیث دلیل ہے :

ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ کی رمضان میں نماز کیسی تھی ؟

توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زيادہ ادا نہيں کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعت ادا کرتے تھے آپ ان کی طول اورحسن کےبارہ میں کچھ نہ پوچھیں ، پھر چار رکعت ادا کرتے آپ ان کے حسن اورطول کے متعلق نہ پوچھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت ادا کرتے ، تومیں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وترادا کرنے سے قبل سوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہيں سوتا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1909 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 )


ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث رمضان اورغیررمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہے ۔

علماء کرام نے اس حدیث کے استدلال کورد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ۔

رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749 ) ۔

اس مسئلہ میں علماء کرام کے اقوال پر نظر دوڑانے سے آپ کو یہ علم ہوگا کہ اس میں وسعت ہے اورگیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے میں کوئي حرج نہيں ، ذیل میں ہم معتبرعلماء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں :

آئمہ احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔

دیکھیں : المبسوط ( 2 / 145 ) ۔

اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد ) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہيں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 1 / 457 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام م کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائيگي باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔

دیکھیں : المجموع للنووی ( 4 / 31 ) ۔

نماز تراویح کی رکعات میں مذاہب اربعہ یہی ہے اورسب کا یہی کہنا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت سے زيادہ ہے ،اورگيارہ رکعت سے زيادہ کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں :

1 - ان کے خیال میں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اس تعداد کی تحدید کی متقاضی نہيں ہے ۔

2 - بہت سے سلف رحمہ اللہ تعالی سے گیارہ رکعات سے زيادہ ثابت ہیں

دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 2 / 604 ) اورالمجموع ( 4 / 32 )

3 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے اوریہ رکعات بہت لمبی لمبی ہوتی جو کہ رات کے اکثر حصہ میں پڑھی جاتی تھیں ، بلکہ جن راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز تراویح کی جماعت کروائي تھی اتنی لمبی کردیں کہ صحابہ کرام طلوع فجر سے صرف اتنا پہلے فارغ ہوئے کہ انہيں خدشہ پیدا ہوگيا کہ ان کی سحری ہی نہ رہ جائے ۔

صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے اوراسے لمبا نہيں کرتے تھے ، توعلماء کرام نے کا خیال کیا کہ جب امام مقتدیوں کو اس حدتک نماز لمبی پڑھائے تو انہيں مشقت ہوگی ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اس سے نفرت ہی کرنے لگیں ، لھذا علماء کرام نے یہ کہا کہ امام کو رکعات زيادہ کرلینی چاہیے اور قرآت کم کرے ۔

حاصل یہ ہوا کہ :

جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔

دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔

امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔

ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "

یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔

دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔


اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
تراویح ترویحة کی جمع ہے۔ یعنی اطمینان سے پڑھی جانے والی نماز، ہر چار رکعات کو ایک ترویحہ کہتے ہیں۔ پانچ ترویحہ یعنی بیس (۲۰) رکعات تراویح دس سلاموں کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وامام ابوحنیفہ رحمة الله عليه، امام مالک رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه، وجمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک سنت موکدہ ہے۔
اولاً: آپ لفظ تراویح سے قیام اللیل کی رکعات ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کی اس کاوش کی کچھ اہمیت تب ہو سکتی ہے جب لفظ ’تراویح‘ قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔ آپ اسے قرآن وحدیث سے ثابت کردیں پھر طے ہوجائے گا کہ ترویحہ کسے کہتے ہیں؟ اور کتنی تراویح سنت ہیں؟؟؟

ثانیاً: نبی کریمﷺ کے عمل کو سنّت یا سنّت مؤکدہ کہا جاتا ہے۔ قیام اللیل کی مسنون تعداد ثابت کرنے کیلئے نبی کریمﷺ کی سنّت مبارکہ سے بڑھ کر کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ اور تراویح سے متعلق نبی کریمﷺ کی سنتِ مبارکہ کیا ہے؟ آپ کی تنہائیوں کی ساتھی، آپ کی رات کی عبادت سے سب سے زیادہ واقف ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث مبارکہ جو صحیح بخاری ومسلم میں ہے، ملاحظہ فرمائیں:
ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي أربعًا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعًا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا
. ، متفق عليه

کہ ’’نبی کریمﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زائد نہیں پڑھتے تھے، آپ چار رکعتیں (دو دو کرکے) پڑھتے، ان کے حسن اور طوالت کا کچھ نہ پوچھو، پھر چار رکعتیں ادا فرماتے، ان کے حسن اور طوالت کا کچھ نہ پوچھو ، پھر تین رکعتیں (وتر) اَدا فرماتے۔‘‘
 
Top