• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بیماری کے متعدی ہونے کے متعلق اسلامی موقف کیا ہے ؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
فقہی سوال و جواب کے سیکشن میں محترم بھائی محمد ارسلان ملک نے درج ذیل سوال کیا ہے ؛
@محمد ارسلان بھائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم @اسحاق سلفی بھائی! فیس بک پر ایک سوال آیا ہے ،
آپ اس سوال کا جواب دیجئے۔ جزاک اللہ خیرا
ایک بہن نے سوال پوچھا ہے کہ ایک حدیث میں ہیں کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور عام زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے بیماریاں ایک انسان سے دوسرے کو لگتی ہیں اس حدیث مبارکہ کے بارے میں اپ کے پاس کچھ معلومات ہیں کہ اس حدیث کا کیا مطلب ہے جزاکم اللہ خیرا ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ ۔
ـــــــــــــــــــــ
فتاویٰ جات
فتویٰ نمبر : 944

بیماری کا متعدی ہونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شیخ محترم! امید ہے آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وضاحت فرمائیں گے:

«لَا عَدْوَی، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَّةَ، وَلَا صَفَرَ»
صحیح البخاری، الطب، باب الجذام، ح:۵۷۰۷ وصحیح مسلم، السلام، باب لا عدوی ولا طیرة ولا ہامة، ح:۲۲۲۰۔

’’نہ کوئی بیماری متعدی ہے، نہ کوئی بدشگونی ہے، نہ الو کا بولنا ہے اور نہ ماہ صفر کی تبدیلی میں کوئی بدشگونی ہے۔

اس حدیث میں کس قسم کی نفی کی گئی ہے؟ اس میں اور اس حدیث میں کس طرح تطبیق ہوگی:

«فِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ فِرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِ»صحیح البخاری، الطب، باب الجذام، ح: ۵۷۰۷ ومسند احمد: ۲/۴۴۳ واللفظ له۔
’’جذام کے مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح تم شیر سے بھاگتے ہو۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

’’عدویٰ‘‘ مریض سے تندرست آدمی کی طرف مرض کے منتقل ہونے کو کہتے ہیں(مراد چھوت چھات ہے) یا جس طرح حسی امراض متعدی ہوتے ہیں اسی طرح روحانی اور اخلاقی بیماریاں بھی متعدی ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کریم نے فرمایا ہے کہ ’’برا ساتھی بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے کہ یا تو وہ تمہارے کپڑے جلا دے گا یا تم اس سے بدبو محسوس کرو گے۔‘‘2 یہاں پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لفظ عدویٰ استعمال فرمایا ہے وہ حسی اور اخلاقی دونوں بیماریوں کو شامل ہے۔

طِیَرَہُ کے معنی کسی دیکھی جانے والی یا سنی جانے والی یا معلوم ہونے والی چیز سے بدشگونی پکڑنا ہے۔

ہَامّہ کے درج ذیل دو معنی بیان کیے گئے ہیں:

۱۔ اس سے مراد ایسی بیماری ہے جو مریض کو لاحق ہوتی ہے اور اس سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اس تفسیر کے مطابق اس کا عدوی پر عطف، عَطْفُ الْخَاصِ عَلَی الْعَامِ کے قبیل سے ہوگا۔

۲۔ ہامّہ ایک مشہور پرندے (اُلو) کا نام ہے۔ عربوں کا گمان تھا کہ جب کسی شخص کا قتل ہو جاتاہے تو اس کا انتقام لینے تک یہ پرندہ اس کے گھر والوں کے پاس آکر ان کے سر پر ان کی گھرکی منڈیرپر بیٹھ کر بولتا رہتا ہے۔ اور بعض عربوں کا عقیدہ یہ تھا کہ الو کی صورت میں یہ د رحقیقت مقتول کی روح ہوتی ہے جو پرندہ کی شکل میں الو سے ملتے جلتے ہوتاہے یا الوہی ہوتاہے جب تک مقتول کے ورثاء قاتل کے خاندان والوں سے انتقام نہ لیں یہ پرندہ بول بول کر مقتول کے گھر والوں کو ایذا پہنچاتا رہتا ہے۔ عرب اس کے ساتھ بدشگونی پکڑتے تھے۔ اس لئے جب یہ پرندہ کسی کے گھر پر آکر بیٹھتا اور بولتا تو اس گھرکا مکین یہ کہتا کہ یہ اس لیے بول رہاہے کہ موت اس کے سرپر منڈلا رہی ہے، اس کے بولنے کو لوگ موت کے قریب آنے کی علامت سمجھتے تھے، حالانکہ یہ ایک بالکل باطل بات ہے۔

صفر کے بھی درج ذیل کئی مفہوم بیان کیے گئے ہیں:

٭ اس سے مراد صفر کا مشہور مہینہ ہے۔ عرب اس مہینے سے بدشگونی پکڑا کرتے تھے۔

٭ یہ پیٹ کی ایک بیماری ہے جو اونٹ کو لاحق ہوتی ہے اور ایک اونٹ سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے، لہٰذا عدوی پر اس کا عطف عطف الخاص علی العام کے قبیل سے ہے۔

٭ ’’صفر‘‘ ماہ صفر ہی ہے اور اس سے مراد امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا ہے، جس سے کافر گمراہی میں پڑے رہتے تھے۔ وہ ماہ محرم کی حرمت کو صفر تک مؤخر کر دیتے تھے اور ایک سال اسے حلال اور دوسرے سال حرام قرار دے دیا کرتے تھے۔

ان میں سب سے زیادہ راجح مفہوم یہی ہے کہ اس سے مراد ماہ صفر ہے کیونکہ لوگ زمانہ جاہلیت میں ماہ صفر سے بدشگونی لیا کرتے تھے، حالانکہ تاثیر میں زمانوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں صفر بھی دیگر مہینوں ہی کی طرح ایک مہینہ ہے کہ اس میں خیر بھی مقدر ہے اور شر بھی۔

بعض لوگوں کا معمول ہے کہ وہ جب کسی خاص عمل سے صفر کی پچیس تاریخ کو فارغ ہو جائیں تو وہ اس تاریخ کو اپنے پاس اس طرح لکھ لیتے ہیں: ’’یہ کام صفر خیر کی پچیس تاریخ کو مکمل ہوا تھا۔‘‘ اس کا شمار بدعت کے ساتھ بدعت اور جہالت کے ساتھ جہالت کے علاج کے باب میں ہوتا ہے، ورنہ صفر نہ خیر کا مہینہ ہے اور نہ شرکا۔ اسی لیے بعض سلف نے اس بات کی بھی نفی کی ہے کہ الو کی آواز سن کر یہ کہا جائے: خَیْرًا اِنْ شَائَ اللّٰہُ ’’اللہ تعالیٰ نے چاہا تو خیر ہوگی۔‘‘ یعنی اس موقع پر کسی خیر وشر کا اظہار نہ کیا جائے، کیونکہ الو بھی اسی طرح بولتا ہے جس طرح دیگر پرندے اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں۔

یہ چار چیزیں جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی فرمائی ہے دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر توکل اور صدق عزیمت کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور یہ تمام کی تمام چیزیں اس بات کی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ اس طرح کے امور کے سامنے مسلمان کو کمزوری کا ثبوت نہیں دینا چاہیے۔

اگر کوئی مسلمان اپنے دل میں ان باتوں کا خیال لائے، تو وہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہوگا:

۱۔ یا تووہ ان باتوں پر لبیک کہتے ہوئے کام کرے گا یا نہیں کرے گا اور اس صورت میں گویاکہ اس نے اپنے افعال کو ایک ایسی چیز کے ساتھ معلق کر دیا جس کی کوئی حقیقت نہیں۔

۲۔ یاوہ ان باتوں پر لبیک کہتے ہوئے کوئی اقدام کرے نہ ان کی پرو اکرے، البتہ اس کے دل میں ان کی وجہ سے کچھ غم و فکر کاداعیہ ضرورپیداہو، اگرچہ یہ صورت پہلی کی نسبت ہلکی ہے، لیکن مسلمان بندہ کو چاہیے کہ وہ ان امور کے کسی داعیہ پر مطلقاً کوئی توجہ نہ دے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہی پر اعتماد اور بھروسا رکھے۔

کچھ لوگ فال نکالنے کے لیے قرآن مجید کھولتے ہیں اور وہ یہ دیکھتے ہیں کہ نظر اگر جہنم کے لفظ پر پڑے تو کہتے ہیں یہ فال اچھی نہیں ہے اور اگر جنت کے لفظ پر نظر پڑے توکہتے ہیں کہ یہ فال اچھی ہے جب کہ حقیقت میں یہ عمل زمانہ ٔجاہلیت کے تیروں کے ذریعہ قسمت آزمائی کے عمل ہی کی طرح ہے۔ان چاروں امور کی نفی سے مراد ان کے وجود کی نفی نہیں ہے، کیونکہ یہ تو موجود ہیں، بلکہ اس سے مراد ان کی تاثیر کی نفی ہے، کیونکہ مؤثر تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ان میں سے جو سبب معلوم ہو وہ صحیح سبب ہے اور جو سبب موہوم ہو وہ باطل ہے اور تاثیر کی جو نفی ہے وہ اس کی ذات اور سببیت کی أثرپذیری کی نفی ہے، البتہ عدویٰ (مرض کا متعدی ہونا) موجود ہے اور اس کی موجودگی کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:

«لَا يُورِدُ مُمْرِضٌ عَلٰی مُصِحٍّ»صحیح البخاری، الطب، باب لا هامة، ح:۵۷۷۱، وصحیح مسلم، السلام، باب لا عدوی ولا طيرة… ح:۲۲۲۱ واللفظ له۔
’’یعنی بیمار اونٹوں والا اپنے اونٹوں کو تندرست اونٹوں والے کے پاس نہ لے جائے۔‘‘

تاکہ متعدی بیماری ایک سے دوسرے اونٹوں کی طرف منتقل نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے:

«فِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ فِرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِ»صحیح البخاری، الطب، باب الجذام، ح:۵۷۰۷ ومسند احمد: ۲/۴۴۳ واللفظ له۔
’’جذام کی بیماری میں مبتلا مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘

جذام ایک خبیث بیماری ہے جو تیزی سے پھیلتی ہے اور مریض کو ہلاک کر دیتی ہے حتیٰ کہ کہا گیا ہے

کہ یہ مرض بھی طاعون ہی ہے، لہٰذا فرار کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ بیماری آگے نہ پھیلے۔ اس حدیث میں بھی بیماری کے متعدی ہونے کا اثبات مؤثر ہونے کی وجہ سے ہے، لیکن اس کی تاثیر کوئی حتمی امر نہیں ہے۔ کہ یہی علت فاعلہ ہے۔ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجذوم سے بھاگنے اور بیمار اونٹوں کو تندرست اونٹوں کے پاس نہ لانے کا جو حکم دیا ہے، یہ اسباب سے اجتناب کے باب سے ہے، اسباب کی ذاتی تاثیر کی قبیل سے نہیں ، جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلَا تُلۡقُواْ بِأَيۡدِيكُمۡ إِلَى ٱلتَّهۡلُكَةِ﴾--البقرة:195
’’اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عدویٰ کی تاثیر کا انکار فرمایا ہے کیونکہ امر واقع اور دیگر احادیث سے یہ بات باطل قرار پاتی ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: لَا عَدْویٰ ’’کوئی بیماری متعدی نہیں ہے۔‘‘ تو ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! اونٹ ریگستان میں ہرنوں کی طرح ہوتے ہیں، لیکن جب ان کے پاس کوئی خارش زدہ اونٹ آتا ہے، تو انہیں بھی خارش لاحق ہو جاتی ہے۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«فَمَنْ اَعْدَی الْاَوَّلَ»صحیح البخاری، الطب، باب لا صفر، وهو داء یاخذ البطن، ح:۵۷۱۷۔
’’پہلے اونٹ کو خارش کس نے لگائی تھی؟‘‘

اس کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر: (فَمَنْ اَعْدَی الْاَوَّلَ) ’’پہلے اونٹ کوخارش کس نے لگائی تھی؟‘‘ اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مریض اونٹوں سے تندرست اونٹوں کی طرف مرض اللہ کی تدبیر کے ساتھ منتقل ہوا ہے۔ پہلے اونٹ پر بیماری متعدی صورت کے بغیر اللہ عزوجل کی طرف سے نازل ہوئی تھی ایک چیز کا کبھی کوئی سبب معلوم ہوتا ہے اور کبھی سبب معلوم نہیں ہوتا جیسا کہ پہلے اونٹ کی خارش کا سوائے تقدیر الٰہی کے اور کوئی سبب معلوم نہیں ہے، جب کہ اس کے بعد والے اونٹ کی خارش کا سبب معلوم ہے اب اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس (دوسرے اونٹ) کو خارش لاحق نہ ہوتی۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ اونٹوں کو خارش لاحق ہوتی ہے اور پھر وہ ختم بھی ہوجاتی ہے اور اس سے اونٹ مرتے

نہیں۔ اسی طرح طاعون اور ہیضے جیسے بعض متعدی امراض ہیں جو ایک گھر میں داخل ہو جاتے ہیں، بعض کو تو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور وہ فوت ہو جاتے ہیں اور بعض دیگر افراد ان سے محفوظ رہتے ہیں،انہیں کچھ نہیں ہوتا، چنانچہ انسان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسا رکھنا چاہیے۔ حدیث میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مجذوم شخص حاضر ہوا، آپ نے اس کے ہاتھ کو پکڑا اور فرمایا: ’’کھاؤ۔‘‘ 1 یعنی اس کھانے کو کھاؤ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تناول فرما رہے تھے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر توکل بہت قوی تھا اور یہ توکل متعدی سبب کا مقابلہ کرنے کے لئے انٹی بائٹک کا کرتا تھا۔

ان احادیث میں تطبیق کی سب سے بہتر صورت یہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ بعض نے اس سلسلہ میں نسخ کا بھی دعویٰ کیا ہے، لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے، کیونکہ نسخ کی شرائط میں سے ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ دونوں میں تطبیق مشکل ہو اور اگر تطبیق ممکن ہو تو پھر تطبیق دینا واجب ہے، اگر حقیقت میں دیکھا جائے اس طرح دونوں دلیلوں کے مطابق عمل ہو جاتا ہے جب کہ نسخ کی صورت میں ایک دلیل کا باطل ہونا لازم آتا ہے اور دونوں کے مطابق عمل ہو جانا ایک کو باطل قرار دینے سے زیادہ بہتر ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے دونوں دلیلوں کو قابل اعتبار اور لائق حجت قرار دیا ہے۔

وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام
عقائد کے مسائل
محدث فتویٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس مسئلہ پر دوسرا دیکھئے :
فتاویٰ جات
فتویٰ نمبر : 11843

بیماری متعدی ہونے کے خطرے سے شادی نہ کرنا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 18 May 2014 03:07 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میر ے بھا نجے کی شا دی میر ی بھتیجی کے ساتھ ہو نا طے پا ئی منگنی وغیرہ تین سا ل قبل ہو چکی ہے جبکہ نکا ح 22دسمبر2004ءکو متو قع ہے شو مئی قسمت سے میر ے بھا نجے نے ازراہ ہمدردی کسی کو اپنا خو ن دینے کا ارادہ کیا جب خو ن چیک کرا یا تو پتہ چلا کہ اسے ہیپا ٹا ئٹس سی کا مر ض ہے کچھ ڈا کٹر حضرات کی را ئے ہے کہ بھا نجے کی شا دی اس کی بھتیجی سے نہ کی جا ئے کیوں کہ شا دی کے بعد بیما ری کے جرا ثیم بھتیجی میں منتقل ہو سکتے ہیں اوراس کے لیے جا ن لیوا ثا بت ہو سکتے ہیں اس صورتحا ل کے پیش نظر بھتیجی کے وا لدین اس شا دی سے خو فزدہ ہیں کہ اس نکا ح سے ہما ری بیٹی زیا دہ متا ثر ہو گی شا دی نہ ہو نے سے یہ بھی اند یشہ ہے کہ دو قر یبی رشتہ داروں کے در میا ن جدا ئی اور قطع تعلقی پیدا ہو جا ئے برا ئے مہر با نی قرآن و سنت کی رو شنی میں دو نو ں خاندانوں کی صحیح را ہنما ئی فر ما ئیں آپ کے جوا ب کا شد ت سے انتظا ر ہے (حفیظ الرحمن اسلام آبا د :خریداری نمبر 5826)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دور جا ہلیت میں تو ہم پر ستی عا م تھی یعنی بیما ریوں کے متعلق ان کاعقیدہ تھا کہ وہ اللہ کے حکم سے با لا با لا ذا تی اور طبعی طو ر پر متعدی ہیں گو یا وہ اڑ کر دوسروں کو چمٹ جا تی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کا ابطا ل کر تے ہوئے فر ما یا :" کہ کو ئی بیما ری متعدی نہیں ہو تی ۔(صحیح بخا ری :5772)

اس حد یث کا واضح مفہو م یہ ہے کہ کو ئی بیما ر ی طبع کے اعتبا ر سے دوسروں کو نہیں لگتی بلکہ اللہ کے حکم اور اس کی تقد یر سے دوسروں کو لگتی ہے جیسا کہ ایک دوسر ی روا یت میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ر جا ہلیت کے عقیدہ فا سد کی نفی کر تے ہو ئے فر ما یا کہ کو ئی بیما ی متعد ی نہیں ہو تی تو ایک اعرا بی کھڑا ہو کر عر ض کر نے لگا کہ ہما ر ے او نٹ ریتلے میدا ن میں ہر نو ں کی طرح ہو تے ہیں جب ان کے ہا ں کوئی خا ر شی اونٹ آجا تا ہے تو سب اونٹ خا ر ش زدہ ہو جا تے ہیں اس کے جوا ب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ پہلے اونٹ کو کا ر شی کس نے بنا یا تھا ؟"(صحیح بخا ری :الطب 5775)

آپ کا جوا ب انتہا ئی حکمت بھرا تھا کیوں کہ اگر وہ جوا ب دیتے کہ پہلے اونٹ کو بھی کسی دوسر ے سے خا ر ش کی بیما ر ی لگی تھی تو یہ سلسلہ لا تنا ہی ہو جا تا اور اگر یہ جوا ب دیتے کہ جس ہستی نے پہلے اونٹ کو خا رشی بنا یا اسی نے دوسرے میں خا ر ش پیدا کر دی تو یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے تما م اونٹوں میں یہ فعل جا ر ی کیا ہے کیوں کہ وہ ہر چیز پر قا در ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے بھی اس جا ہلا نا عقیدہ کی بیخ کئی کی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجذو م یعنی کو ڑ ھی کا ہا تھ پکڑ ا اور اسے اپنے سا تھ کھا نا کھلا نے کے لیے پیا لہ پر ہی بٹھا لیا اور فر ما یا :"کہ اللہ پر بھرو سہ کر تے ہو ئے اور اس کا نا م لے کر کھا ؤ ۔(تر مذی :1817)

صدیقہ کا ئنا ت حضرت عا ئشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سیر ت طیبہ سے بھی یہی معلو م ہو تا ہے چنا نچہ ان کا ایک غلام کو ڑ ھ کے مر ض میں مبتلا تھا وہ آپ کے برتنوں میں کھا تا اور آپ ہی کے پیا لہ سے پا نی پیتا اور بعض دفعہ آپ کے بستر پر لیٹ بھی جا تا تھا ۔(فتح البا ر ی :ص197ج10)

ان احا دیث وو اقعا ت سے معلو م ہو تا ہے شریعت نے امرا ض کے وبائی طو ر پرلگ جا نے کی نفی فر ما ئی ہے البتہ ان کے الاسباب متعد ی ہو نے کا اثبا ت فر ما یا ہے یعنی اصل مؤ ثر حقیقی تو اللہ کی ذا ت گرا می ہے اور اس نے بعض ایسے اسبا ب پیدا کیے ہیں جن کے پیش نظر امرا ض متعد ی ہو جا تے ہیں جیسا کہ ایک روا یت میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امرا ض کے ذا تی طو ر پر متعد ی ہو نے کی نفی فر ما ئی تو حدیث کے آخر میں فر ما یا کہ مجذو م یعنی کو ڑ ھی انسا ن سے اس طرح بھا گو جس طرح شیر سے بھا گتے ہو ۔ (صحیح بخا ری :الطب 5707)

نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضعیف الا عتقا د لو گو ں کی رعا یت کر تے ہو ئے ایسا فر ما یا تا کہ اللہ کی تقدیر کے سبب بیما ری لگ جا نے سے ان کے عقیدہ میں مز ید خرا بی نہ پیدا ہو کہ کہنے لگیں "ہمیں تو فلا ں مر یض سے بیماری لگی ہے حا لانکہ بیما ر ی لگا نے وا لا تو اللہ ہے اس مو قف کی تا ئید ایک روا یت سے ہو تی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امرا ض کے متعدی ہو نے کی نفی فر ما ئی تو آخر میں فر ما یا :" بیما ر اونٹو ں کو تند رست اونٹو ں کے پا س مت لے جاؤ۔(صحیح بخا ری :الطب 5771)

امرا ض کے با لا سبا ب متعد ی ہو نے اور ضعیف الا عتقا د لو گوں کے عقائد کی حفا ظت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا جس علا قہ میں طا عو ن کی وبا پھیلی ہو وہا ں مت جا ؤ اگر تم وہا ں رہا ئش رکھے ہو ئے ہو تو را ہ فرار اختیا ر کر تے ہو ئے وہاں سے مت نکلو ۔(صحیح بخا ر ی : الطب 5730)

امرا ض کے با لا سباب متعد ی ہو نے میں بھی اس با ت کا بطو ر خا ص خیال رکھنا چا ہیے کہ اصل مؤ ثر حقیقی اللہ تعا لیٰ کی ذا ت با بر کا ت ہے نہیں ہے کہ سبب کی مو جو دگی میں بیما ر ی بھی آمو جو د ہو کیوں کہ بسا اوقا ت ایسا ہو تا ہے کہ سبب مو جو د ہو تا ہے لیکن بیما ر ی نہیں آتی بیماری کا آنا یا نہ آنا اللہ تعا لیٰ کی مشیت پر مو قف ہے اگر وہ چا ہے تو مؤثر کر کے وہا ں بیما ر ی پیدا کر دے اگر چا ہے تو سب کو غیر مؤ ثر کر کے وہا ں بیما ر ی پیدا نہ کر ے ۔(فتح البا ر ی :ج 10ص198)

اس با ت کا ہم خو د بھی مشا ہدہ کر تے ہیں کہ جس علا قہ میں وبا ئی امراض پھو ٹ پڑ تی ہیں وہاں تما م لو گ ہی اس کا شکا ر نہیں ہو جا تے بلکہ اکثر و بیشتر ان کے اثرا ت سے محفو ظ رہتے ہیں طبی لحا ظ سے اس کی تعبیروں کی جا سکتی ہے کہ جن لو گوں میں قوت مدا فعت زیا دہ ہو تی ہے وہ بیما ر ی کا مقا بلہ کر کے اس سے مھفو ظ رہتے ہیں اور جن میں یہ قو ت کم ہو تی ہے وہ بیما ر ی کا لقمہ بن جا تے ہیں اس وضا حت کے بعد ہم مذکو رہ سوال کا جا ئز لیتے ہیں ۔ اس حقیقت سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا کہ مغربی تہذیب کے علمبردا ر (یہو دو نصا ریٰ ) یہ نہیں چا ہتے کہ مسلما ن اعتقا د ی عملی اور اخلا قی و ما لی اعتبا ر سے مضبو ط ہو ں وہ آئے دن انہیں کمزور کر نے کے لیے منصو بہ بند ی کر تے رہتے ہیں ہما ر ے خیا ل کے مطابق ہیپا ئٹس کے کے متعلق میڈیا پر شور غل اور چیخ و پکا ر بھی مسلمانوں کو اعتقا دی اور ما لی اور ما لی لحا ظ سے کمزو ر کر نے کا ایک مؤثر اور سو چا سمجھا منصو بہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے اس کے متعلق غیر فطر تی چر چہ شروع ہو ا ہے گھروں میں کو ئی نہ کو ئی اس مر ض کا شکا ر ہے ایک گھر میں رہتے ہو ئے بھا ئی بہن بیٹا با پ مان اور بیوی خا و ند اس چھوت میں مبتلا ہو گئے ہیں پہلے تو اس کے ٹیسٹ بہت مہنگے ہیں ہزاروں روپیہ ان کی نذر ہو جا تا ہے پھر اس کا علا ج اس قدر گرا ں ہے کہ عا م آد می کے بس کی با ت نہیں ہے جو گھر کے با شند ے اس مر ض سے محفوظ ہیں ہیں انہیں حفا ظتی تدا بیر کے چکر میں دا ل کر پھا نس کیا جا تا ہے حفا ظتی ٹیکے بہت مہنگے اور بڑی مشکل سے دستیا ب ہو تے ہیں عوا م کو خو فزدہ کر نے کے لیے یر قا ن کا نا م بد ل ہیپا ٹا ئس رکھ دیا گیا ہے یہ مرض پہلے بھی مو جو د تھی لیکن اس کے جرا ثیم دیکھے نہیں جا سکتے تھے اس لیے نفسیا تی طو ر پر لو گو ں آرا م اور سکو ن تھا جب سے خو رد بیٹی آلا ت ایجا د ہو ئے ہیں ہیپاٹائس اے بی سی در یا فت ہو ا ہما ر ی معلومات کے مطا بق ڈی بھی دریا فت ہو چکا ہے اس کے متعلق تحقیق و ریسر چ جا ر ی ہے ہما ر ے خیا ل کے مطا بق مسلما نوں کے عقا ئد اور ان کی ما لی حا لت کمزور کر نے کا یہ مغربی پرو پیگنڈہ ہے جس کی وجہ سے ہم تو ہم پر ستی کا شکا ر ہو گئے ہیں اور علا ج اس قدر منگا ہے کہ ہم قرض پکڑ کر اس کا علا ج کرا تے ہیں ان حا لا ت کے پیش نظر ہما را سا ئل کو مشورہ ہے

(1)اللہ پر اعتقا د اور یقین رکھتے ہوئے حس ب پرو گرا م شا دی کر دی جا ئے اس پرو پیگنڈے سے خو فزدہ ہو کر اسے معرض التوامیں ڈا لنے کی کو ئی ضرورت نہیں ۔

(2)اگر وا لدین اس پرو پیگنڈے سے متا ثر ہےں تو طے شدہ تا ر یخ پر نکا ح کر دیا جا ئے لیکن رخصتی کو ملتوی کر دیا جا ئے تا آن کہ بچے کا علا ج مکمل ہو جا ئے اور بچی کو بھی حفا ظتی ٹیکے لگا دئیے جا ئیں ۔

(3)اگر وا لد ین اس قد ر پر یشا ن ہیں کہ انہوں نے اس طے شدہ پرو گرا م کو ختم کر نے کا ارادہ کر لیا ہے تو ہما ر ے نز د یک یہ گنا ہ ہے کیوں کہ ایسا کر نا صلہ رحمی کے خلا ف ہے اور مغر بی اثرا ت سے متا ثر ہو نا بھی مسلما ن کی شا ن کے خلاف ہے ۔

(4)مو ت کا ایک وقت مقرر ہے اس کا وقت آنے پر ہر انسا ن دنیا سے رخصت ہو جا ئے گا جدید طب کے مطا بق متعد ی امرا ض سے وہی متا ثر ہو تا ہے جس کے اندر بیما ر ی قبو ل کر نے کی صلا حیت ہو تی ہے اگر بیما ر ی مقدر میں ہے تو وہ آکر رہے گی اس لیے ہم کہتے ہیں کہ بچے کا علا ج کرا یا جا ئے بچی کو حفا ظتی ادویا ت دی جا ئیں اور صلہ رحمی کے پیش نظر سنت نکا ح بر وقت ادا کر دی جا ئے اللہ تعا لیٰ ہما ر ے عقا ئد و اعما ل کو محفو ظ رکھے اور اچھے اخلا ق کا مظا ہرہ کر نے کی تو فیق دے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص490

محدث فتویٰ
 
Last edited:
Top