• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
وقوله تعالى ‏ {‏ لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم‏}‏
اسی طرح بےفائدہ سختی اٹھانا اور وہ باتیں بنانا جن میں کوئی فائدہ نہیں اور اللہ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا مسلمانو! ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر بیان کی جائیں تو تم کو بری لگیں۔


حدیث نمبر: 7289
حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ،‏‏‏‏ حدثنا سعيد،‏‏‏‏ حدثني عقيل،‏‏‏‏ عن ابن شهاب،‏‏‏‏ عن عامر بن سعد بن أبي وقاص،‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن أعظم المسلمين جرما من سأل عن شىء لم يحرم،‏‏‏‏ فحرم من أجل مسألته ‏"‏‏.‏

ہم سے عبداللہ بن یزید المقری نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا ‘ کہا مجھ سے عقیل بن خالد نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے ‘ ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متلعق پوچھا جو حرام نہیں تھی اور اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام کر دی گئی۔


حدیث نمبر: 7290
حدثنا إسحاق،‏‏‏‏ أخبرنا عفان،‏‏‏‏ حدثنا وهيب،‏‏‏‏ حدثنا موسى بن عقبة،‏‏‏‏ سمعت أبا النضر،‏‏‏‏ يحدث عن بسر بن سعيد،‏‏‏‏ عن زيد بن ثابت،‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير،‏‏‏‏ فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ليالي،‏‏‏‏ حتى اجتمع إليه ناس،‏‏‏‏ ثم فقدوا صوته ليلة فظنوا أنه قد نام،‏‏‏‏ فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم فقال ‏"‏ ما زال بكم الذي رأيت من صنيعكم،‏‏‏‏ حتى خشيت أن يكتب عليكم،‏‏‏‏ ولو كتب عليكم ما قمتم به فصلوا أيها الناس في بيوتكم،‏‏‏‏ فإن أفضل صلاة المرء في بيته،‏‏‏‏ إلا الصلاة المكتوبة ‏"‏‏.

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے موسیٰ ابن عقبہ نے بیان کیا ‘ کہا میں نے ابو النضر سے سنا ‘ انہوں نے بسر بن سعید سے بیان کیا ‘ ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو ایک رات آنحضرت کی آواز نہیں آئی۔ لوگوں نے سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے ہیں۔ اس لیے ان میں سے بعض کھنگار نے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لائے ‘ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے کام سے واقف ہوں ‘ یہاں تک کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر یہ نماز تراویح فرض نہ کر دی جائے اور اگر فرض کر دی جائے تو تم اسے قائم نہیں رکھ سکو گے۔ پس اے لوگو! اپنے گھروں میں یہ نماز پڑھو کیونکہ فرض نماز کے سوا انسان کی سب سے افضل نماز اس کے گھر میں ہے۔


حدیث نمبر: 7291
حدثنا يوسف بن موسى،‏‏‏‏ حدثنا أبو أسامة،‏‏‏‏ عن بريد بن أبي بردة،‏‏‏‏ عن أبي بردة،‏‏‏‏ عن أبي موسى الأشعري،‏‏‏‏ قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أشياء كرهها،‏‏‏‏ فلما أكثروا عليه المسألة غضب وقال ‏"‏ سلوني ‏"‏‏.‏ فقام رجل فقال يا رسول الله من أبي قال ‏"‏ أبوك حذافة ‏"‏‏.‏ ثم قام آخر فقال يا رسول الله من أبي فقال ‏"‏ أبوك سالم مولى شيبة ‏"‏‏.‏ فلما رأى عمر ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغضب قال إنا نتوب إلى الله عز وجل‏.‏

ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید بن ابی بردہ نے ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھا گیا جنہیں آپ نے ناپسند کیا جب لوگوں نے بہت زیادہ پوچھنا شروع کر دیا تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا پوچھو! اس پر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا یا رسول اللہ! میرے والد کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر دوسرا صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا میرے والد کون ہیں؟ فرمایا کہ تمہارے والد شیبہ کے مولیٰ سالم ہیں۔ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس کئے تو عرض کیا ہم اللہ عزوجل کی بار گاہ میں آپ کو غصہ دلانے سے توبہ کرتے ہیں۔


حدیث نمبر: 7292
حدثنا موسى،‏‏‏‏ حدثنا أبو عوانة،‏‏‏‏ حدثنا عبد الملك،‏‏‏‏ عن وراد،‏‏‏‏ كاتب المغيرة قال كتب معاوية إلى المغيرة اكتب إلى ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فكتب إليه إن نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة ‏"‏ لا إله إلا الله،‏‏‏‏ وحده لا شريك له،‏‏‏‏ له الملك وله الحمد،‏‏‏‏ وهو على كل شىء قدير،‏‏‏‏ اللهم لا مانع لما أعطيت،‏‏‏‏ ولا معطي لما منعت،‏‏‏‏ ولا ينفع ذا الجد منك الجد ‏"‏‏.‏ وكتب إليه إنه كان ينهى عن قيل وقال،‏‏‏‏ وكثرة السؤال،‏‏‏‏ وإضاعة المال،‏‏‏‏ وكان ينهى عن عقوق الأمهات ووأد البنات ومنع وهات‏.‏

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر کوفی نے بیان کیا ‘ ان سے مغیرہ رضی اللہ عنہ کے کاتب وراد نے بیان کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے وہ مجھے لکھئے تو انہوں نے انہیں لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد کہتے تھے ”تنہا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ اس کا کوئی شریک نہیں ‘ ملک اسی کا ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے! اے اللہ جو تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی نصیبہ تیرے مقابلہ میں اسے نفع نہیں پہنچا سکے گا اور انہیں یہ بھی لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بےفائدہ بہت سوال کرنے سے منع کرتے تھے اور مال ضائع کرنے سے اور آپ ماؤں کی نافرمانی کرنے سے منع کرتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے اور اپنا حق محفوظ رکھنے اور دوسروں کا حق۔


حدیث نمبر: 7293
حدثنا سليمان بن حرب،‏‏‏‏ حدثنا حماد بن زيد،‏‏‏‏ عن ثابت،‏‏‏‏ عن أنس،‏‏‏‏ قال كنا عند عمر فقال نهينا عن التكلف‏.‏

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔


حدیث نمبر: 7294
حدثنا أبو اليمان،‏‏‏‏ أخبرنا شعيب،‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ ‏.‏ وحدثني محمود،‏‏‏‏ حدثنا عبد الرزاق،‏‏‏‏ أخبرنا معمر،‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ أخبرني أنس بن مالك ـ رضى الله عنه‏.‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج حين زاغت الشمس فصلى الظهر فلما سلم قام على المنبر فذكر الساعة،‏‏‏‏ وذكر أن بين يديها أمورا عظاما ثم قال ‏"‏ من أحب أن يسأل عن شىء فليسأل عنه،‏‏‏‏ فوالله لا تسألوني عن شىء إلا أخبرتكم به،‏‏‏‏ ما دمت في مقامي هذا ‏"‏‏.‏ قال أنس فأكثر الناس البكاء،‏‏‏‏ وأكثر رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقول ‏"‏ سلوني ‏"‏‏.‏ فقال أنس فقام إليه رجل فقال أين مدخلي يا رسول الله قال ‏"‏ النار ‏"‏‏.‏ فقام عبد الله بن حذافة فقال من أبي يا رسول الله قال ‏"‏ أبوك حذافة ‏"‏‏.‏ قال ثم أكثر أن يقول ‏"‏ سلوني سلوني ‏"‏‏.‏ فبرك عمر على ركبتيه فقال رضينا بالله ربا،‏‏‏‏ وبالإسلام دينا،‏‏‏‏ وبمحمد صلى الله عليه وسلم رسولا‏.‏ قال فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قال عمر ذلك،‏‏‏‏ ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ والذي نفسي بيده لقد عرضت على الجنة والنار آنفا في عرض هذا الحائط وأنا أصلي،‏‏‏‏ فلم أر كاليوم في الخير والشر ‏"‏‏.‏

ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے محمود نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعد باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی ‘ پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی چیز کے متعلق سوال کرنا چاہے تو سوال کرے۔ آج مجھ سے جو سوال بھی کرو گے میں اس کا جواب دوں گا جب تک میں اپنی جگہ سے پر ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر لوگ بہت زیادہ رونے لگے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باربار وہی فرماتے تھے کہ مجھ سے پوچھو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا ‘ میری جگہ کہاں ہے۔ (جنت یا جہنم میں) یا رسول اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ جہنم میں۔ پھر عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا میرے والد کون ہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ بیان کیا کہ پھر آپ مسلسل کہتے رہے کہ مجھ سے پوچھو ‘ مجھ سے پوچھو ‘ آخر میں عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہا ‘ ہم اللہ سے رب کی حیثیت سے ‘ اسلام سے دین کی حیثیت سے ‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے رسول کی حیثیت سے راضی و خوش ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات کہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے ‘ پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے ‘ ابھی مجھ پر جنت اور دوزخ اس دیوار کی چوڑائی میں میرے سامنے کی گئی تھی (یعنی ان کی تصویریں) جب میں نماز پڑھ رہا تھا ‘ آج کی طرح میں نے خیرو شر کو نہیں دیکھا۔


حدیث نمبر: 7295
حدثنا محمد بن عبد الرحيم،‏‏‏‏ أخبرنا روح بن عبادة،‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ أخبرني موسى بن أنس،‏‏‏‏ قال سمعت أنس بن مالك،‏‏‏‏ قال قال رجل يا نبي الله من أبي قال ‏"‏ أبوك فلان ‏"‏‏.‏ ونزلت ‏ {‏ يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء‏}‏ الآية‏.‏

ہم سے محمد بن عبد الرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا مجھ کو موسیٰ بن انس نے خبر دی کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے کہا یا نبی اللہ! میرے والد کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تمہارے والد فلاں ہیں“۔ اور یہ آیت نازل ہوئی ”اے لوگو! ایسی چیزیں نہ پوچھو“ الآیہ۔


حدیث نمبر: 7296
حدثنا الحسن بن صباح،‏‏‏‏ حدثنا شبابة،‏‏‏‏ حدثنا ورقاء،‏‏‏‏ عن عبد الله بن عبد الرحمن،‏‏‏‏ سمعت أنس بن مالك،‏‏‏‏ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لن يبرح الناس يتساءلون حتى يقولوا هذا الله خالق كل شىء فمن خلق الله ‏"‏‏.‏

ہم سے حسن بن صباح نے بیان کیا ‘انہوں نے کہا ہم سے شبابہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے ورقاء نے بیان کیا ان سے عبداللہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان برابر سوال کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ سوال کرے گا کہ یہ تو اللہ ہے ‘ ہر چیز کا پیدا کرنے والا لیکن اللہ کو کس نے پیدا کیا۔


حدیث نمبر: 7297
حدثنا محمد بن عبيد بن ميمون،‏‏‏‏ حدثنا عيسى بن يونس،‏‏‏‏ عن الأعمش،‏‏‏‏ عن إبراهيم،‏‏‏‏ عن علقمة،‏‏‏‏ عن ابن مسعود ـ رضى الله عنه ـ قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرث بالمدينة،‏‏‏‏ وهو يتوكأ على عسيب،‏‏‏‏ فمر بنفر من اليهود فقال بعضهم سلوه عن الروح‏.‏ وقال بعضهم لا تسألوه لا يسمعكم ما تكرهون‏.‏ فقاموا إليه فقالوا يا أبا القاسم حدثنا عن الروح‏.‏ فقام ساعة ينظر فعرفت أنه يوحى إليه،‏‏‏‏ فتأخرت عنه حتى صعد الوحى،‏‏‏‏ ثم قال ‏ {‏ ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي‏}‏‏.‏

ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے ابراہیم نے ‘ ان سے علقمہ نے ‘ ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک شاخ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ یہودی ادھر سے گزرے تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ لیکن دوسروں نے کہا کہ ان سے نہ پوچھو۔ کہیں ایسی بات نہ سنا دیں جو تمہیں ناپسند ہے۔ آخر آپ کے پاس وہ لوگ آئے اور کہا ‘ ابوالقاسم! روح کے بارے میں ہمیں بتائیے؟ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا ‘ یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہو گیا ‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ”اور آپ روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہئے کہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے۔“


کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ صحیح بخاری
 
Top