محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
ان سب کا بھی ایک حکم نہیں ہے ۔تاویل کرتے ہوئے بدعت میں واقع ہونے والے شخص پر حکم لگانے کا دارومدار دو باتوں پر ہے۔تاویل کے سبب کفر یابدعت میں واقع ہونے والے
۱۔ تاویل کی نوعیت ۔
تاویل سائغ:۔امام ابن حجر فرماتے ہیں :
((قال العلماء :کل متأول معذور بتأویلہ لیس بآثم اذا کان تأویلہ سائغًا في لسان العرب ،وکان لہ وجہ في العلم ))(فتح الباري:۲/۳۰۴)
'' علماء فرماتے ہیں :ہر اس تاویل کرنے والے کو عذر دیا جائے گا اور گنہگار نہیں گردانا جائے گا جس کی تاویل کی عربی زبان اور علم (شرعی )میں گنجائش پائی جاتی ہو ۔''
امام ابن العز حنفی فرماتے ہیں :
(والقول قد یکون مخالفًا للنص ،و قائلہ معذور ،فان المخالفۃ بتأویل لم یسلم منھا أحد من أھل العلم ،وذلک التأویل اِنْ کان فاسداً فصاحبہ مغفور لہ لحصولہ عن اجتھادہ......فمخالفۃ النص ان کانت عن قصد فھي کفر ،وان کانت عن اجتھاد فھي من الخطأ المغفور......)
''بسا اوقات قول نص کے مخالف ہوتا ہے اور اس کا قائل معذور ہوتا ہے ۔کیونکہ تاویل کرتے ہوئے نص کی مخالفت میں واقع ہونے سے اہل علم میں سے کوئی نہیں بچ پایا ۔ تاویل فاسد ہونے کے باوجود تاویل کرنے والے کے بارے میں امید ہے کہ اللہ بخش دے گا' کیونکہ یہ تاویل اس کے اجتہاد کا نتیجہ ہوتی ہے ...پس نص کی مخالفت اگر ارادۃً اور قصد اًکی جائے تو یہ کفر ہے اور اگر یہ اجتہاد کے سبب ہو یہ خطا قابل معافی ہے ۔''(الاتباع :۲۹)
تاویل غیر سائغ:
وہ تاویل جس کا عربی زبان اور شرعی علم میں اعتبار نہ کیا جاتا ہو ۔اس قسم کی تاویل کرنے والوں کو عذر نہیں دیا جائے گا ۔بشرطیکہ جب یہ تاویل دین کے اُن بنیادی امور میں کی جائے جو لوگوں کے مابین معروف ہوتے ہیںجیسے اسماعیلیوں ، دروز یوں، نصیریوں اور ملاحدہ کی تاویلات ۔
امام ابن الوزیر فرماتے ہیں :
(وکذلک لا خلاف في کفر من جحد ذلک المعلوم بالضرورۃ للجمیع وتستر باسم التأویل فیما لا یمکن تأویلہ)
''اسی طرح اس کے کفر میں بھی کوئی اختلاف نہیں جو تاویل کے نام پر ،معلوم بالضرورہ امور کا انکار کرتا ہے ۔''(ایثار الحق علی الخلق:۴۱۵ )