• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تدریس سبق نمبر 1 (گرائمر ابتدائیہ 1)

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
بسم اللہ الرحمن الرحیم

ان الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ اما بعد:
محترم ساتھیو السلام علیکم:
پہلے میں ہر سبق کے چھوٹے چھوٹے اقتباسات لے کر تھوڑی بہت وضاحت کروں گا اور پھر اسی سبق کے حوالے سے عمومی سوال و جواب کیے جائیں گے سبق کے حوالے سے جس بھائی کو بھی جہاں اشکال ہو وہ لازمی اپنا اشکال پیش کرے اس سے خالی اسکو فائدہ نہیں ہو گا بلکہ باقی ساتھیوں کو بھی اور ہم پڑھانے والوں کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے وہ پوائنٹ ہماری نظروں سے اوجھل رہ گیا ہو- باقی تدریس کے طریقہ کار میں تجربہ کے ساتھ ساتھ ان شاءاللہ بہتری لانے کی کوشش کی جائے گی جزاکم اللہ خیرا

پہلے سبق کی وضاحت


عربی گرائمر
کسی بھی زبان کی گرائمر سے مراد اس زبان کے استعمال کے قواعد ہیں پس عربی زبان بولتے ہوئے جن اصول و قواعد کا خیال رکھا جاتا ہے انکے مجموعے کو عربی گرائمر کہتے ہیں جس میں صرف، نحو، تجوید، کتابت، لغۃ وغیرہ کے علوم آجاتے ہیں
اگرچہ کسی زبان کی گرائمر سے لغوی مراد تو تمام قواعد ہوتے ہیں مگر استعمال اور اصطلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بتاتے چلیں کہ عربی میں گرائمر کا لفظ صرف و نحو کے علوم پر بولا جاتا ہے اور باقی علوم کو علیحدہ اپنے اپنے نام سے پڑھایا جاتا ہے

عربی گرائمر سیکھنے کا مقصد
اللہ کی عبادت کے فریضے کو انجام دینے کے لئے اسکے احکامات کا علم حاصل کرنا لازمی ہے لیکن اس علم کا ماخذ چونکہ عربی زبان میں ہے تو اسکے لئے عربی گرائمر سیکھنا بہت ضروری ہے اس میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اکثر جگہوں پر گرائمر کو سیکھ کر قرآن و حدیث کی جو سمجھ پیدا ہوتی ہے وہ سادہ ترجمے سے نہیں آتی
جس کو تھوڑی بہت دین کی سمجھ بوجھ حاصل ہو وہ گرائمر کی افادیت کا انکار نہیں کر سکتا اپنی ذات کے لئے یا دعوت کے میدان میں اسکا بہت فائدہ ہوتا ہے
سادہ ترجمے اور گرائمر کے ذریعے قرآن کو سمجھنے کے فرق کو بریلویلت سے کنورژن کے وقت کچھ بھائیوں نے دیکھا ہو گا


عربی گرائمر کے لئے ضروری علوم (صرف و نحو)
ویسے تو قرآن و حدیث کی عربی عبارت کو مکمل سمجھنے کے لئے بہت سے علوم کی ضرورت پڑتی ہے جن میں صرف، نحو، تجوید، کتابت، لغۃ وغیرہ کے علوم آجاتے ہیں مگر ہمارا تقریبا سارا واسطہ چونکہ صرف و نحو کے قواعد سے پڑتا ہے پس مدارس میں گرائمر کی اصطلاح کا عمومی اطلاق صرف و نحو کی حد تک کیا جاتا ہے اور گرائمر میں انہیں دو مضامین کو ہی زیادہ پڑھایا جاتا ہے باقی کی معلومات ساتھ ساتھ ویسے ہی ملتی جاتی ہیں
اوپر وضاحت ہو چکی ہے

صرف و نحو میں فرق
جب ہم کسی جملہ کا ترجمہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کن چہزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اسکے جواب کے لئے ایک قرآنی مثال لیتے ہیں پہلے انگلش میں سمجھتے ہیں پھر عربی کی مثال سے اسی کی وضاحت کریں گے
Dawood killed Jaloot​

اوپر جملہ میں تین لفظ ہیں اس کا ترجمہ کرنے کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل دو مرحلے طے کرنے ہوں گے

1- پہلے مرحمہ میں ہر لفظ کا علیحدہ عیحدہ ترجمہ کرتے ہیں پس پہلے لفظ کا ترجمہ 'داود' ہے دوسرے کا ترجمہ مارا اور تیسرے کا ترجمہ جالوت ہے پس اس مرحلہ میں ہر لفظ کا علیحدہ ترجمہ معلوم ہو جانے کے بعد ہمیں مندرجہ ذیل نامکمل ترجمہ ملے گا 'داود جالوت مارا' یعنی بات ابھی ادھوری ہے

2- ہر لفظ کا ترجمہ کر چکنے کے باوجود جب اس علیحدہ علیحدہ ترجمہ کو ملا کر مکمل جملہ نہین بنایا جا سکتا تو ہمیں کچھ اور قواعد چاہیے ہوں گے کیونکہ خالی ان الفاظ کو ملا کر 'داود جالوت مارا' کوئی جملہ نہیں بنتا- جملہ مکمل کرنے کے لئے داود اور جالوت میں سے ایک کے بعد 'نے' لگانا پڑے گا اور دوسرے کے بعد'کو' لگانا پڑے گا یعنی داود نے جالوت کو مارا یا داود کو جالوت نے مارا- یعنی جو فاعل ہو گا اسکے بعد 'نے' کا اضافہ ہو گا اور جو مفعول ہو گا اسکے بعد'کو' لگے گا پس اس بارے میں انگلش میں یہ قاعدہ ہے کہ پہلے فاعل آتا ہے پھر فعل اور پھر مفعول آتا ہے- پس اس انگلش کے اس قاعدہ سے پتا چلا کہداود فاعل ہے اور جالوت مفعول ہے پس ہم داود کے بعد 'نے' اور جالوت کے بعد'کو' لکھتے ہیں پس اس مرحلے کے قواعد لاگو کرنے کے بعد نیا مکمل ترجمہ کچھ اس طرح ہو گا داود نے جالوت کو مارا
اوپر یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ کرتے وقت ہم ایک تو ہر لفظ کو اکیلی حالت میں دیکھتے ہیں کہ اگر یہ باقی جملے سے ہٹ کر اکیلا پڑا ہو تو اسکا ترجمہ کیا ہو گا اسکا نام میں نے پہلا مرحلہ رکھا ہے
لیکن اس اکیلے اکیلے ترجمے کے بعد بھی بات کی وضاحت نہیں ہو پاتی پس اسکے لئے تمام الفاظ کو ملایا جاتا ہے اور اسکے لئے پہلے مرحلے میں حاصل شدہ معنی میں کچھ اضافہ کرنا پڑتا ہے یہ اضافہ کچھ اصولوں کے تحت ہوتا ہے جسکو دوسرے مرحلے کے اصول یا قواعد کہتے ہیں جیسا کہ اوپر انگلش کی مثال میں وضاحت کی گئی ہے


اب اسی مثال کو عربی میں لیتے ہیں
قتل داودُ جالوتَ

1- پہلے مرحمہ میں ہر لفظ کا علیحدہ عیحدہ ترجمہ کرتے ہیں پس پہلے لفظ کا اکیلا ترجمہ ہے قتل کیا(مارا) -دوسرے کا اکیلا ترجمہ ہے داود اور تیسرے کا اکیلا ترجمہ ہے جالوت - پس اس مرحلہ کے بعد ہمیں پھر انگلش کی طرح عربی میں بھی مندرجہ ذیل نامکمل ترجمہ ملے گا داود جالوت مارا

2- پس پتا چلا کہ عربی میں بھی ہر لفظ کا ترجمہ کر چکنے کے باوجود جب اسکو ملائیں گے تو کچھ اور قواعد چاہیے ہوں گے کیونکہ خالی ملا کرداود جالوت مارا کوئی جملہ نہیں بنتا- جملہ مکمل کرنے کے لئے داود اور جالوت میں سے ایک کے بعد نے کا اضافہ چاہیے اور دوسرے کے بعد کو لگانا پڑے گا یعنی داود نے جالوت کو مارا یا داود کو جالوت نے مارا- یعنی جو فاعل ہو گا اسکے بعد نے لگے گا اور جو مفعول ہو گا اسکے بعد کو لگے گا پس اس سلسلے میں انگلش کے برعکس عربی میں یہ قاعدہ ہے کہ فاعل پر ضمہ (پیش) آتا ہے اور مفعول پر فتحہ (زبر) - پس اس قاعدہ سے پتا چلا کہ داود پر پیش ہونے کی وجہ ہے وہ فاعل ہو گا پس اسکے بعدترجمہ میں نے کا اضافہ کیا جائے گا جبکہ جالوت فتحہ کی وجہ سے مفعول بنے گا پس جالوت کے بعد کو کا اضافہ ہو گا پس اس مرحلے کے بعد نیا مکمل ترجمہ اس طرح ہو گا داود نے جالوت کو مارا
بالکل اوپر انگلش کی مثال کی طرح یہاں عربی میں بھی دو مرحلوں میں ترجمہ مکمل کیا جاتا ہے اگر کوئی اشکال ہو تو بتا دیں


جہاں تک پہلے مرحلہ کا تعلق ہے یعنی علیحدہ علیحدہ کسی لفظ کا ترجمہ کرنا تو اس میں علم الصرف اور علم اللغۃ کا استعمال ہوتا ہے مگر ہم یہاں صرف علم الصرف پڑھیں گے علم اللغۃ پریکٹس سے خود بخود آتی جائے گی- پس علم الصرف پڑھنے کے بعد ہم پہلے مرحلے کوآسانی سے طے کر لیں گے
جبکہ دوسرے مرحلے کو طے کرنے کے لئے ہمیں علم النحو پڑھنا پڑھے گا اوپر مثالوں سے ہمیں یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ دوسرے مرحلے میں انگلش میں جو کام جگہسے لیا جا رہا ہے عربی میں وہ حرکات سے لیا جا رہا ہے اور اردو میں وہ حروف (یعنی نے اور کو) سے لیا جا رہا ہے
دونوں مرحلوں کی وضاحت آگے آ رہی ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
پہلا مرحلہ(علم الصرف)
اسکے لئے ایک سادہ سی مثال لیتے ہیں ہم سب جانتے ہیں کہ بھٹہ پر اینٹیں اور ٹائلیں بنانے کے لئے مختلف سانچے استعمال ہوتے ہیں ان سانچوں میں جو مادہ بھرا جاتا ہے اسکو مٹی کہتے ہیں پس اینٹ کے سانچے میں مٹی بھر کر پکائیں تو وہ مٹی کی اینٹ بن جاتی ہے اور ٹائل کے سانچے میں مٹی بھر کر پکائیں تو وہ مٹی کی ٹائیل بن جاتی ہے
اب اگر ہم گھر میں ان سانچوں میں مٹی کی جگہ دودھ ڈال کر فریزر میں پکائیں تو وہ دودھ کی اینٹ یا ٹائیل بن جائے گی
پس اس سے پتا چلتا ہے کہ جو چیز تیار ہو گی اس کا نام دو حصوں پر مشتمل ہو گا ایک حصہ بتائے گا کہ اس میں کیا بھرا گیا ہے اور دوسرا حصہ بتائے گا کہ سانچہ کون سا تھا

پس مساوات یوں بنے ھی
6313 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اسی طرح عربی میں الفاظ بھی دو چیزوں سے مل کر بنے ہوتے ہیں یعنی مادہ اور سانچہ-
پس جب اکیلے لفظ کا ترجمہ (نام) لکھا جاتا ہے تو اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لفظ میں مادہ کون سا استعمال ہوا ہے اور سانچہ کون سا چنا گیا ہے

اسکو سمجھنے کے لئے اردو میں اور بھی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلا
1-پانی کا گلاس (مادہ پانی ہے اور سانچہ گلاس ہے)
2-دودھ کا گلاس (مادہ دودھ ہے اور سانچہ گلاس ہے)
3-پانی کا جگ (مادہ پانی اور سانچہ جگ ہے)
4-دودگ کا جگ (مادہ دودھ اور سانچہ جگ ہے)
5-چلو بھر پانی میں ڈوب مرو (مادہ اور سانچہ آپ بتائیں)

پس اکیلے معنی کے لئے دو علوم کی ضرورت ہوتی ہے ایک وہ جو یہ بتائے کہ مادے کا معنی کیا ہے اور دوسرا وہ جو یہ بتائے کہ سانچہ کا معنی کیا ہے


دو سانچوں اور چار مادوں سے وضاحت
وضاحت کے لئے ہم عام استعمال ہونے والے چار مادوں اور دو سانچوں کو لیتے ہیں ہمارے پاس عبد (عبادت)، سجد(سجدہ)، قتل(قتل)، نصر(مدد) چار مختلف مادے ہیں جو تین حرفوں پر مشتمل ہیں اسکے ساتھ ساتھ ہمارے پاس فاعل اور مفعول کے دو سانچے ہیں
سانچوں کو پہلے خالی بریکٹوں سے ظاہر کرتے ہیں جس میں خالی بریکٹیں مادہ کو ظاہر کر رہی ہیں بعد میں مادہ بھر دیا جائے گا

1-فاعل کا سانچہ = ( َ ) ا ( ِ) ( )
یعنی پہلے حرف پر زبر + آگے الف زائد + دوسرےحرف پر زیر + آگے تیسرا حرف
اس سانچہ کا معنی= کرنے والا

2-مفعول کا سانچہ = مَ ( ) (ُ)و()
یعنی پہلے میم زائدہ پر زبر+ آگے پہلا حرف ساکن+ آگے دوسرے حرف پر پیش+ آگے واو زائدہ+ آگے تیسرا حرف
اس سانچہ کا معنی= کیا جانے والا
فَاعِل کا سانچہ اور مفعول کا سانچہ اگرچہ عربی کا سانچہ ہے مگر عام اردو میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں عربی میں استعمال ہوتا ہے مثلا ساجد مسجود، عابد معبود، قاتل مقتول، ناصر منصور وغیرہ


اب ہر سانچے میں باری باری چاروں مادے بھرنے کو ٹیبل کی مدد سے سمجھتے ہیں جس میں ہر لفظ کا معنی اوپر وضاحت کے مطابق کیا گیا ہے

پہلے سانچے کا چاروں مادوں کے ساتھ ٹیبل
6314 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اوپر ٹیبل سے پتا چلتا ہے کہ اس میں سانچہ ایک ہونے کی وجہ سے سانچے کا معنی ہر لفظ میں ایک ہی آ رہا ہے البتہ مادہ بدلنے کی وجہ سے معنی بدل رہا ہے

دوسرے سانچے کا چاروں مادوں کے ساتھ ٹیبل
6278 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
اس میں بھی سانچہ ایک ہونے کی وجہ سے سانچے کا معنی ہر لفظ میں ایک ہی آ رہا ہے البتہ مادہ کا معنی تبدیل ہو رہا ہے
پس پہلے مرحلے میں ہمیں دو چیزیں چاہیں یعنی مادے کا معنی اور سانچہ کا معنی- مادہ کے معنی کا تعلق علم اللغۃ سے ہے اور سانچے کا معنی کا تعلق علم الصرف سے ہے
یہاں ٹیبل میں ہر لفظ کو چونکہ اکیلا دیکھا گیا ہے تو اس میں مادے کے معنی اور سانچہ کے معنی کو لیا گیا ہے (یعنی پہلا مرحلہ) دوسرے مرحلے کے اصول یہاں پر استعمال نہیں ہوئے


علم اللغۃ ہمیں پڑھنے کی ضرورت اس لئے نہیں پڑے گی کہ ایک تو عربی کے بہت سے الفاظ کا مادہ اردو میں استعمال ہوتا ہے اور دوسرا اسکے کو یاد کرنے کے لئے کوئی آسان اصول نہیں بلکہ رٹا لگانا ہوتا ہے جو لاکھوں الفاظ کا نہیں لگایا جا سکتا اسکے لئے ہر زبان میں ڈکشنریاں استعمال ہوتی ہے جیسے انگلش میں vocabulary کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے انگلش میں اس کی استعطاعت کوبڑھانے کے لئے اسباق کی ریڈنگ کروائی جاتی ہے اور مدارس میں جب بچے عربی میں احادیث وغیرہ پڑھتے ہیں تو انکی یہ استطاعت خود بخود بنتی جاتی ہے
البتہ سانچوں کا علم جاننا ضروری ہے کیونکہ وہ کچھ قواعد کے تحت چلتا ہے جسکو سمجھ لینا آسان ہوتا ہے
یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ جیسے انگلش میں vocabulary کی استطاعت پڑھنے سے بنتی ہے یاد کچھ نہیں کروایا جاتا البتہ ڈکشنری سے استفادہ کرنے کا طریقہ آنا چاہیے اسی طرح عربی میں بھی پہلے مرحلے میں مادہ کا ترجمہ یا تو ویسے ہی ہمیں آتا ہوتا ہے یا پھر ڈکشنری سے استفادہ کیا جا سکتا ہے
البتہ سانچوں کا رویہ (behavior) چونکہ ایک سسٹمیٹک طریقے سے چلتا ہے جسکو ہم آسانی سے اصولوں میں بند کر کے فالو کر سکتے ہیں تو اسکو ایک باقاعدہ علم کے طور پر پڑھایا جاتا ہے یہ سسٹمیٹک طریقہ ان شاءاللہ علم الصرف میں ممکنہ دلائل کے ساتھ پڑھایا جائے گا


ان سانچوں کو عربی میں صیغہ کہتے ہیں اور علم الصرف میں انہیں صیغوں کے معانی کو ایک سسٹمیٹک طریقے سے یاد کیا جاتا ہے کہ فلاں سانچے کا یہ معنی ہے فلاں سانچے کا یہ معنی ہے وغیرہ
ہم سونے کے بازار کو صرافہ بازار کہتے ہیں کیونکہ وہاں صراف (پھیرنے والے) ہوتے ہیں جو ایک مادہ (سونا) کو مختلف سانچوں (انگوٹھی، ہار، کنگن وغیرہ) میں پھیرتا ہے اسی مناسبت سے سانچوں میں کسی مادے کو پھیرنے کو علم الصرف کہتے ہیں
اب ہم آگے علم الصرف میں سانچے کی جگہ صیغے کا لفظ استعمال کریں گے یہ سانچہ صرف سمجھنے کے لئے تھا


یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ کچھ چیزیں تو مختلف سانچوں میں پھر سکتی ہیں مثلا مٹی کو اینٹ کے سانچے میں ڈالنے سے وہ اینٹ بن جائے گی مگر پتھر کو اینٹ کے سانچے میں ڈالنے سے وہ نہیں بدلے گا
اسی طرح عربی کے تمام مادے مختلف سانچوں میں نہیں پھرتے پس علم الصرف میں ہم صرف انکو پڑھیں گے جن میں پھرنے کی صلاحیت ہوتی ہے
اسکی تفصیل آگئے ہم پڑھیں گے کہ کچھ چیزوں کے سانچے کسی سسٹم کے تحت نہیں چلتے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
دوسرا مرحلہ(علم النحو)
دوسرے مرحلے میں بتایا گیا کہ جیسے انگلش میں مختلف الفاظ کے علیحدہ معانی جان لینے کے باوجود ترجمہ مکمل نہیں ہوتا بلکہ انکو جوڑکر جملہ بنانے کے وقت کچھ مزید قواعد چاہیے ہوتے ہیں (مثلا فاعل اور مفعول کی پہچان جگہ کو دیکھ کر کرنا)
اسی طرح عربی میں بھی ہر لفظ کا علیحدہ معنی جان لینے کے باوجود کچھ اور قواعد کا علم درکار ہوتا ہے جن کے تحت انکو جوڑ کر بات مکمل کی جا سکے (مثلا فاعل اور مفعول کی پہچان اعراب یعنی زبر زیر پیش سے کرنا)
مثلا اوپر مثال ہے قَتَلَ داودُ جالوتَ
اس میں چونکہ داود پر پیش ہے اور جالوت پر زبر ہے اور دوسرے مرحلہ (علم النحو) میں اوپر ہم نے پڑھا کہ فاعل پر پیش ہوتا ہے اور مفعول پر زبر تو ترجمہ میں ہم داود کے ساتھ نے اور جالوت کے ساتھ کو کا اضافہ کریں گے
اگر یہ الٹ ہوتا یعنی قتل داودَ جالوتُ
تو ترجمہ الٹ بنتا کہ داود کو جالوت نے قتل کیا
یعنی جب ہم کہتے ہیں کہ
Dawood killed Jaloot
تو پہلے مرحلے کے استعمال سے اکیلا اکیلا ترجمہ ہمیں داود جالوت مارا ملتا ہے جس سے بات نامکمل رہتی ہے پس بات کو سمجھنے کے لئے اردو میں دوسرے مرحلے کا مزید قاعدہ یہ لگایا جاتا ہے کہ فاعل کے ساتھ نے اور مفعول کے ساتھ کو لگا دیتے ہیں اس سے ہمیں بات مکمل سمجھ آ جاتی ہے اور ترجمہ کے غلط ہونے کے چانس ختم ہو جاتے ہیں ورنہ ہم خالی پہلے مرحلے کے استعمال سے غلط معنی بھی سمجھ سکتے ہیں​
اسی دوسرے مرحلے میں انگلش میں اوپر قاعدہ بتایا گیا ہے کہ وہاں یہ کام جگہوں سے لیا جاتا ہے یعنی وہاں فاعل کے ساتھ کچھ نہیں لگاتے بلکہ فاعل کو شروع میں اور مفعول کو آخر پر لے آتے ہیں پس ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ فلاں فاعل ہے اور فلاں مفعول ہے​
اسی طرح عربی میں یہ کام اعراب سے لیا جاتا ہے مثلا اوپر مثال میں داود پر پیش ہے تو وہ فاعل اور جالوت پر زبر ہے تو وہ مفعول کہلائے گا​
ان قواعد بارے بحث علم النحو میں کی جاتی ہے پس علم النحو میں پڑھا جاتا ہے کہ کلمہ کی آخر کی حرکت کیا ہے اور کیوں ہے یعنی وہ زبر ہے یا زیر ہے یا پیش یا سکون- انہیں کو اعراب کی علامات کہا جاتا ہے-
پس نحو کی تعریف یہ ہے کہ
ایسا علم جس کے ذریعے کلمہ (اسم فعل حرف) کے آخری حرف کی حالت معرب اور مبنی کے اعتبار سے پہچاننے اور انکو آپس میں جوڑنے کا طریقہ معلوم ہو
نحو کی تفصیل ان شاءاللہ علم النحو میں پڑھیں گے
 
شمولیت
اکتوبر 10، 2012
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
46
فاعل کے سانچے میں پہلے حرف پر زبر پھر حرف الف زائد دوسرے حرف پر زیراور پھر تیسرے حر ف پر کیا آئے گا؟
اسم،فعل اور حرف کے آخری حرف کی حالت معرب اور مبنی سے کیا مراد ہے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
الحمدللہ۔۔۔مجھے تو علم الصرف اور علم النحو دونوں بہت اچھے طریقے سے سمجھ آ گئے کہ کس علم سے کیا مراد ہے اور اس کی ضرورت کیوں ہے۔
انگلش والی مثال نےسمجھنا بہت ہی سہل کر دیا۔ کہ "جیسے انگریزی میں فاعل مفعول جگہ سے پہچانے جاتے ہیں یعنی جو پہلے آئے وہ فاعل اور جو بعد میں آئے وہ مفعول (اگرچہ اس میں استثناء ہوتا ہے جیسے PASSIVE VOICE وغیرہ) ویسے ہی عربی میں فاعل مفعول کی پہچان حرکات سے ہوتی ہے،( یقینا اس میں بھی استثناء ہوتا ہوگا)۔

سانچہ کا معنی کا تعلق علم الصرف سے ہے۔ گویا ہم علم الصرف میں صیغہ یا Tenses کے بارے میں پڑھیں گے۔
بس مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ جیسے انگریزی میں ہم Tenses اور vocabulary (عربی کا علم الصرف ہوا گویا) پڑھتے ہیں۔ ویسے ہی adjectives, proverbs وغیرہ پڑھنے کو کیا عربی کا علم النحو قرار دیا جا سکتا ہے؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
فاعل کے سانچے میں پہلے حرف پر زبر پھر حرف الف زائد دوسرے حرف پر زیراور پھر تیسرے حر ف پر کیا آئے گا؟

ماشاءاللہ بڑی اچھی بات پوچھی ہے اس کے لئے اوپر دوسرے مرحلے پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ اسکے قواعد کا تعلق لفظ کی آخری حرف کی حرکت سے ہوتا ہے
جیسے اوپر دوسرے مرحلے میں یہ پڑھایا گیا ہے کہ اس میں لفظ کی آخری حرکت کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ فاعل ہے یا مفعول ہے پس کسی لفظ کی آخری حرکت کا تعلق پہلے مرحلے (یعنی سانچے کے معنی) کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ کسی سانچے کے آخر پر زبر یا زیر یا پیش ہو تو سانچے (صیغہ) کا ایک ہی معنی ہو گا یعنی آپ فاعل پر پیش لکھیں یا زبر لکھیں یا زیر لکھیں سب صورتوں میں ایک ہی معنی ہو گا
اسی وجہ سے جب میں نے پہلے مرحلے کو فاعل اور مفعول کے سانچوں سے سمجھایا تو فاعل اور مفعول کے سانچوں کے آخری حرف پر کچھ نہیں لکھا
پس آخری حرکت کے قواعد ہم سانچے کے تحت پڑھنے کی بجائے دوسرے مرحلے میں پڑھتے ہیں


اسم،فعل اور حرف کے آخری حرف کی حالت معرب اور مبنی سے کیا مراد ہے؟
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ دوسرے مرحلے میں لفظ کے آخری حرف کی حرکت کو دیکھا جاتا ہے مثلا فاعل اور مفعول کے تعین کے لئے ہمیں دیکھنا پڑتا ہے کہ پیش کس پر ہے (وہ فاعل ہو گا) اور زبر کس پر ہے (وہ مفعول ہو گا)
اب فرض کریں کبھی ایسا فاعل اور مفعول آ جاتا ہے کہ جن پر پیش یا زبر کی حرکت آ نہیں سکتی مثلا ھذا، موسی وغیرہ
تو اب امتیاز کرنے کے لئے کچھ اور اصول اور قواعد دیکھنے ہوتے ہیں جن کی تفصیل ہم معرب اور اسکی اقسام اور مبنی وغیرہ میں پڑھیں گے تاکہ ایسی مشکل صورتحال میں ہمیں فاعل اور مفعول کی پہچان کیسے ہو گی
اسکی تفصیل ان شاءاللہ علم النحو میں پڑھیں گے صرف سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
انگلش والی مثال نےسمجھنا بہت ہی سہل کر دیا۔ کہ "جیسے انگریزی میں فاعل مفعول جگہ سے پہچانے جاتے ہیں یعنی جو پہلے آئے وہ فاعل اور جو بعد میں آئے وہ مفعول (اگرچہ اس میں استثناء ہوتا ہے جیسے PASSIVE VOICE وغیرہ) ویسے ہی عربی میں فاعل مفعول کی پہچان حرکات سے ہوتی ہے،( یقینا اس میں بھی استثناء ہوتا ہوگا)۔
جی محترم بھائی جزاک اللہ خیرا یہ استثناء خالی Passive کے لئے نہیں ہوتا اور بہت سی جگہوں پر بھی قواعد کا اضافہ ہوتا ہے جیسے اوپر معرب اور مبنی بارے ایک سوال کے جواب میں کچھ لکھا ہے تفصیل آگے آئے گی

سانچہ کا معنی کا تعلق علم الصرف سے ہے۔ گویا ہم علم الصرف میں صیغہ یا Tenses کے بارے میں پڑھیں گے۔
جی محترم بھائی آپ درست سمجھے البتہ Tenses کا تعلق لفظ کو زمانہ کے ساتھ پھیرنے سے ہوتا ہے یعنی ان میں عموما verb یا فعل کو دیکھا جاتا ہے مگر صرف میں ہم لفظ کے سانچوں کو خالی زمانے کے لحاظ سے نہیں پھیرتے بلکہ اسم کے بھی سانچے یا صیغے ہوتے ہیں انگلش میں اسم کے پھیرنے کا کام اور طریقوں سے لیا جاتا ہے مثلا comparative or superlative degree وغیرہ پس یہ پھیرنا بھی عربی کی صرف میں آئے گا


بس مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ جیسے انگریزی میں ہم Tenses اور vocabulary (عربی کا علم الصرف ہوا گویا) پڑھتے ہیں۔ ویسے ہی adjectives, proverbs وغیرہ پڑھنے کو کیا عربی کا علم النحو قرار دیا جا سکتا ہے؟
جی محترم بھائی اوپر بتا دیا ہے کہ ایک تو Tenses کو مکمل صرف نہیں کہ سکتے
دوسرا یہ بھی سبق میں بتایا ہے کہ vocabulary علم اللغۃ کے متبادل ہو سکتی ہے صرف کا جز نہیں- بلکہ صرف اور vocabulary سے ملکر پہلا مرحلہ مکمل ہوتا ہے
پس پہلے مرحلے میں ہم علم الصرف اور علم اللغۃ استعمال کرتے ہیں دوسرے میں علم النحو استعمال کرتے ہیں

اب proverb کی جگہ اگر adverb کا پوچھا ہے تو adjective اور adverb کی comparative or superlative forms کا اوپر بتا دیا ہے کہ وہ بھی صرف کی طرح سانچوں کی تبدیلی ہے یہ اس لئے بھی صرف کی طرح ہے کیونکہ اس میں ہم اکیلے لفظ کا معنی کر رہے ہوتے ہیں
پس یہ نحو نہیں ہے جس میں ہم لفظوں کو جوڑتے ہوئے قواعد اپلائی کرتے ہیں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
پوسٹ نمبردو بالکل سر کے اوپر گزر گیا ۔ پھر سے کوشش کرتا ہوں ،پہلی اور تیسری کو سمجھ گیا ۔ الحمدلِلہ ۔


محترم بھائی سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ ہمارا مقصد گرائمر کے ذریعے سے عربی عبارت کا ترجمہ کرنا ہے اس سلسلے میں آپ کو سمجھ آ جانے والی پہلی پوسٹ میں اسی ترجمہ کرنے کے عمل کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے
1-پہلا مرحلے میں الفاظ کا اکیلا اکیلا ترجمہ کرنا
2-دوسرے مرحلے میں الفاظ کو ملاتے وقت ترجمہ میں تبدیلی یا اضافہ کرنا

اب دوسری پوسٹ جو آپ کو سمجھ نہیں آئی اس میں پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے
اسکے لئے میں نے پورے جملے کی بجائے اکیلی اکیلی چیز کی مثال لی ہے کیونکہ اس مرحلہ میں ہم اکیلی چیز کا معنی کرتے ہیں
عربی میں سانچوں یا صیغوں کے نظام کو سمجھانے کے لئے میں نے دنیا میں عام استعمال ہونے والی مثالیں استعمال کیں ہیں تاکہ آسانی سے سمجھ آ جائے چند اور مثالوں سے تھوڑی وضاحت کرتا ہوں
فرض کریں ہمارے پاس مندرجہ ذیل چار چیزیں پڑی ہیں
1-مٹی کا پیالہ
2-شیشے کا پیالہ
3-مٹی کا جگ
4-شیشے کا جگ

اب کوئی آپ سے پوچھتا ہے کہ یہ چار کیا چیزیں ہیں
تو آپ کیا جواب دیں گے
آپ ان کا نام لیتے ہوئے جو باتوں کو مد نظر رکھیں گے
1-یہ مٹی سے بنی ہے یا شیشے سے (یعنی جس مادہ سے بنی ہیں اسکا نام لیں گے)
2-انکی شکل پیالہ کی طرح ہے یا جگ کی طرح (یعنی جس سانچہ سے شکل ملتی ہے اسکا نام لیں گے)

بالکل اسی طرح عربی میں کسی لفظ کا اکیلا ترجمہ کرتے وقت ایک اسکا سانچہ دیکھا جاتا ہے دوسرا مادہ
مثلا فاعل کا سانچہ جہاں بھی استعمال ہو گا اسکا معنی کرنے والا ہو گا اب اس میں مادہ قتل بھر لیں تو قاتل بمعنی قتل کرنے والا بن جائے گا اگر اس میں عبد بھر لیں تو عابد بمعنی عبادت کرنے والا بن جائے گا اگر سجد کا مادہ بھر لیں تو ساجد بمعنی سجدہ کرنے والا بن جائے گا
پس عربی مادہ کا معنی تو ہمیں یاد ہوتا ہے ورنہ ہم ڈکشنری بھی استعمال کر سکتے ہیں
جبکہ سانچے کا معنی یاد کرنا پڑتا ہے انہیں سانچوں کے معنی کو یاد کرنے کو علم الصرف کہتے ہیں
 
Top