- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان الحمد للہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ اما بعد:
محترم ساتھیو السلام علیکم:
پہلے میں ہر سبق کے چھوٹے چھوٹے اقتباسات لے کر تھوڑی بہت وضاحت کروں گا اور پھر اسی سبق کے حوالے سے عمومی سوال و جواب کیے جائیں گے سبق کے حوالے سے جس بھائی کو بھی جہاں اشکال ہو وہ لازمی اپنا اشکال پیش کرے اس سے خالی اسکو فائدہ نہیں ہو گا بلکہ باقی ساتھیوں کو بھی اور ہم پڑھانے والوں کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے وہ پوائنٹ ہماری نظروں سے اوجھل رہ گیا ہو- باقی تدریس کے طریقہ کار میں تجربہ کے ساتھ ساتھ ان شاءاللہ بہتری لانے کی کوشش کی جائے گی جزاکم اللہ خیرا
پہلے سبق کی وضاحت
اگرچہ کسی زبان کی گرائمر سے لغوی مراد تو تمام قواعد ہوتے ہیں مگر استعمال اور اصطلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بتاتے چلیں کہ عربی میں گرائمر کا لفظ صرف و نحو کے علوم پر بولا جاتا ہے اور باقی علوم کو علیحدہ اپنے اپنے نام سے پڑھایا جاتا ہےعربی گرائمر
کسی بھی زبان کی گرائمر سے مراد اس زبان کے استعمال کے قواعد ہیں پس عربی زبان بولتے ہوئے جن اصول و قواعد کا خیال رکھا جاتا ہے انکے مجموعے کو عربی گرائمر کہتے ہیں جس میں صرف، نحو، تجوید، کتابت، لغۃ وغیرہ کے علوم آجاتے ہیں
جس کو تھوڑی بہت دین کی سمجھ بوجھ حاصل ہو وہ گرائمر کی افادیت کا انکار نہیں کر سکتا اپنی ذات کے لئے یا دعوت کے میدان میں اسکا بہت فائدہ ہوتا ہےعربی گرائمر سیکھنے کا مقصد
اللہ کی عبادت کے فریضے کو انجام دینے کے لئے اسکے احکامات کا علم حاصل کرنا لازمی ہے لیکن اس علم کا ماخذ چونکہ عربی زبان میں ہے تو اسکے لئے عربی گرائمر سیکھنا بہت ضروری ہے اس میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اکثر جگہوں پر گرائمر کو سیکھ کر قرآن و حدیث کی جو سمجھ پیدا ہوتی ہے وہ سادہ ترجمے سے نہیں آتی
سادہ ترجمے اور گرائمر کے ذریعے قرآن کو سمجھنے کے فرق کو بریلویلت سے کنورژن کے وقت کچھ بھائیوں نے دیکھا ہو گا
اوپر وضاحت ہو چکی ہےعربی گرائمر کے لئے ضروری علوم (صرف و نحو)
ویسے تو قرآن و حدیث کی عربی عبارت کو مکمل سمجھنے کے لئے بہت سے علوم کی ضرورت پڑتی ہے جن میں صرف، نحو، تجوید، کتابت، لغۃ وغیرہ کے علوم آجاتے ہیں مگر ہمارا تقریبا سارا واسطہ چونکہ صرف و نحو کے قواعد سے پڑتا ہے پس مدارس میں گرائمر کی اصطلاح کا عمومی اطلاق صرف و نحو کی حد تک کیا جاتا ہے اور گرائمر میں انہیں دو مضامین کو ہی زیادہ پڑھایا جاتا ہے باقی کی معلومات ساتھ ساتھ ویسے ہی ملتی جاتی ہیں
اوپر یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ کرتے وقت ہم ایک تو ہر لفظ کو اکیلی حالت میں دیکھتے ہیں کہ اگر یہ باقی جملے سے ہٹ کر اکیلا پڑا ہو تو اسکا ترجمہ کیا ہو گا اسکا نام میں نے پہلا مرحلہ رکھا ہےصرف و نحو میں فرق
جب ہم کسی جملہ کا ترجمہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کن چہزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اسکے جواب کے لئے ایک قرآنی مثال لیتے ہیں پہلے انگلش میں سمجھتے ہیں پھر عربی کی مثال سے اسی کی وضاحت کریں گے
Dawood killed Jaloot
اوپر جملہ میں تین لفظ ہیں اس کا ترجمہ کرنے کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل دو مرحلے طے کرنے ہوں گے
1- پہلے مرحمہ میں ہر لفظ کا علیحدہ عیحدہ ترجمہ کرتے ہیں پس پہلے لفظ کا ترجمہ 'داود' ہے دوسرے کا ترجمہ مارا اور تیسرے کا ترجمہ جالوت ہے پس اس مرحلہ میں ہر لفظ کا علیحدہ ترجمہ معلوم ہو جانے کے بعد ہمیں مندرجہ ذیل نامکمل ترجمہ ملے گا 'داود جالوت مارا' یعنی بات ابھی ادھوری ہے
2- ہر لفظ کا ترجمہ کر چکنے کے باوجود جب اس علیحدہ علیحدہ ترجمہ کو ملا کر مکمل جملہ نہین بنایا جا سکتا تو ہمیں کچھ اور قواعد چاہیے ہوں گے کیونکہ خالی ان الفاظ کو ملا کر 'داود جالوت مارا' کوئی جملہ نہیں بنتا- جملہ مکمل کرنے کے لئے داود اور جالوت میں سے ایک کے بعد 'نے' لگانا پڑے گا اور دوسرے کے بعد'کو' لگانا پڑے گا یعنی داود نے جالوت کو مارا یا داود کو جالوت نے مارا- یعنی جو فاعل ہو گا اسکے بعد 'نے' کا اضافہ ہو گا اور جو مفعول ہو گا اسکے بعد'کو' لگے گا پس اس بارے میں انگلش میں یہ قاعدہ ہے کہ پہلے فاعل آتا ہے پھر فعل اور پھر مفعول آتا ہے- پس اس انگلش کے اس قاعدہ سے پتا چلا کہداود فاعل ہے اور جالوت مفعول ہے پس ہم داود کے بعد 'نے' اور جالوت کے بعد'کو' لکھتے ہیں پس اس مرحلے کے قواعد لاگو کرنے کے بعد نیا مکمل ترجمہ کچھ اس طرح ہو گا داود نے جالوت کو مارا
لیکن اس اکیلے اکیلے ترجمے کے بعد بھی بات کی وضاحت نہیں ہو پاتی پس اسکے لئے تمام الفاظ کو ملایا جاتا ہے اور اسکے لئے پہلے مرحلے میں حاصل شدہ معنی میں کچھ اضافہ کرنا پڑتا ہے یہ اضافہ کچھ اصولوں کے تحت ہوتا ہے جسکو دوسرے مرحلے کے اصول یا قواعد کہتے ہیں جیسا کہ اوپر انگلش کی مثال میں وضاحت کی گئی ہے
بالکل اوپر انگلش کی مثال کی طرح یہاں عربی میں بھی دو مرحلوں میں ترجمہ مکمل کیا جاتا ہے اگر کوئی اشکال ہو تو بتا دیںاب اسی مثال کو عربی میں لیتے ہیں
قتل داودُ جالوتَ
1- پہلے مرحمہ میں ہر لفظ کا علیحدہ عیحدہ ترجمہ کرتے ہیں پس پہلے لفظ کا اکیلا ترجمہ ہے قتل کیا(مارا) -دوسرے کا اکیلا ترجمہ ہے داود اور تیسرے کا اکیلا ترجمہ ہے جالوت - پس اس مرحلہ کے بعد ہمیں پھر انگلش کی طرح عربی میں بھی مندرجہ ذیل نامکمل ترجمہ ملے گا داود جالوت مارا
2- پس پتا چلا کہ عربی میں بھی ہر لفظ کا ترجمہ کر چکنے کے باوجود جب اسکو ملائیں گے تو کچھ اور قواعد چاہیے ہوں گے کیونکہ خالی ملا کرداود جالوت مارا کوئی جملہ نہیں بنتا- جملہ مکمل کرنے کے لئے داود اور جالوت میں سے ایک کے بعد نے کا اضافہ چاہیے اور دوسرے کے بعد کو لگانا پڑے گا یعنی داود نے جالوت کو مارا یا داود کو جالوت نے مارا- یعنی جو فاعل ہو گا اسکے بعد نے لگے گا اور جو مفعول ہو گا اسکے بعد کو لگے گا پس اس سلسلے میں انگلش کے برعکس عربی میں یہ قاعدہ ہے کہ فاعل پر ضمہ (پیش) آتا ہے اور مفعول پر فتحہ (زبر) - پس اس قاعدہ سے پتا چلا کہ داود پر پیش ہونے کی وجہ ہے وہ فاعل ہو گا پس اسکے بعدترجمہ میں نے کا اضافہ کیا جائے گا جبکہ جالوت فتحہ کی وجہ سے مفعول بنے گا پس جالوت کے بعد کو کا اضافہ ہو گا پس اس مرحلے کے بعد نیا مکمل ترجمہ اس طرح ہو گا داود نے جالوت کو مارا
دونوں مرحلوں کی وضاحت آگے آ رہی ہےجہاں تک پہلے مرحلہ کا تعلق ہے یعنی علیحدہ علیحدہ کسی لفظ کا ترجمہ کرنا تو اس میں علم الصرف اور علم اللغۃ کا استعمال ہوتا ہے مگر ہم یہاں صرف علم الصرف پڑھیں گے علم اللغۃ پریکٹس سے خود بخود آتی جائے گی- پس علم الصرف پڑھنے کے بعد ہم پہلے مرحلے کوآسانی سے طے کر لیں گے
جبکہ دوسرے مرحلے کو طے کرنے کے لئے ہمیں علم النحو پڑھنا پڑھے گا اوپر مثالوں سے ہمیں یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ دوسرے مرحلے میں انگلش میں جو کام جگہسے لیا جا رہا ہے عربی میں وہ حرکات سے لیا جا رہا ہے اور اردو میں وہ حروف (یعنی نے اور کو) سے لیا جا رہا ہے