• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تذکرہ جنگ احد کے چند شہداء کا

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
سیدنا عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ
سیدنا عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ بھی جہاد کرنے والوں میں سر فہرست تھے۔
احد کے روز جب جنگ زوروں پر تھی،ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا تھا۔اس وقت انہوں نے جرات و بہادری سے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔
عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ خالہ زاد بھائی تھے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے احد کے روز کہا کہ آئیے مل کر تنہائی میں اللہ سے اپنی اپنی دعا کرتے ہیں ۔
میں نے دعا کی : ”اے اللہ کل جب میر ا دشمن سے مقابلہ ہو تو مجھے ان میں سے سب سے سخت،مضبوط اور بہادر دشمن سے ملا۔
میں اس کو قتل کروں اور اس کی اشیاءپر قبضہ کروں ۔“اس پر عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے کہا ”آمین“
پھر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے دعا کی:”اے اللہ میں دعا کرتا ہوں کہ کل میرا مقابلہ کافروں میں سے کسی سورما سے ہو، میں تیری خاطر اس سے لڑوں اور وہ مجھ سے لڑے۔پھر وہ مجھے قتل کرے اور میرے جسم کو قبضے میں لے۔
میر ی ناک کاٹے،میرے کان کاٹے،
پھر جب میری تجھ سے ملاقات ہو اور تو پوچھے عبداللہ تیری ناک اور کان کیوں کاٹے گئے؟
میں جواب دوں : تیری خاطر اور تیرے رسول کی خاطر اور اللہ کہے تو نے سچ کہا۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
عبداللہ رضی اللہ عنہ کی دعا میری دعا سے بہت بہتر تھی ۔
میں نے شام کے وقت دیکھا کہ ان کی ناک اور کا ن ایک دھاگے کے ساتھ لٹک رہے تھے۔
الراوي: سعد بن أبي وقاص المحدث:الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم:9/304
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح‏


سیدنا عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری رضی اللہ عنہ
ان کا نام سیدنا عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری تھا اللہ تعالیٰ ان سے رضامند ہو، صحیح بخاری شریف میں ہے سیدنا جابر فرماتے ہیں
میرے باپ کی شہادت کے بعد میں رونے لگا اور ابا کے منہ سے کپڑا ہٹا ہٹا کر بار بار ان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ صحابہ مجھے منع کرتے تھے
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر رو مت جب تک تیرے والد کو اٹھایا نہیں گیا فرشتے اپنے پروں سے اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں،
ابو بکر بن مردویہ میں سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور فرمانے لگے جابر کیا بات ہے کہ تم مجھے غمگین نظر آتے ہو؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میرے والد شہید ہو گئے
جن پر بار قرض بہت ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی بہت ہیں
آپ نے فرمایا سن میں تجھے بتاؤں
جس کسی سے اللہ نے کلام کیا پردے کے پیچھے سے کلام کیا
لیکن تیرے باپ سے آمنے سامنے بات چیت کی فرمایا مجھ سے مانگ جو مانگے گا دوں گا (سبحان اللہ)
تیرے باپ نے کہا اللہ عزوجل میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا میں دوبارہ بھیجے اور میں تیری راہ میں دوسری مرتبہ شہید کیا جاؤں،
رب عزوجل نے فرمایا یہ بات تو میں پہلے ہی مقرر کر چکا ہوں
کہ کوئی بھی لوٹ کر دوبارہ دنیا میں نہیں جائے گا۔ کہنے لگے
پھر اے اللہ میرے بعد والوں کو ان مراتب کی خبر پہنچا دی جائے
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آیت (ولا تحسبن) الخ، فرمائی،
بیہقی میں اتنا اور زیادہ ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں تو اے اللہ تیری عبادت کا حق بھی ادا نہیں کر سکا۔
تفسیر ابن کثیر سورۃ آل عمران آیت نمبر 169
مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا اے جابر تمہیں معلوم بھی ہے؟
کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور ان سے کہا
اے میرے بندے مانگ کیا مانگتا ہے؟ تو کہا
اے اللہ دنیا میں پھر بھیج تا کہ میں دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں،
اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ کوئی یہاں دوبارہ لوٹایا نہیں جائے گا۔

سیدنا انس بن نضر رضی اللہ عنہ
مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ﴿٢٣﴾
مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی (23)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ''میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت (میرے چچا) انس بن نضر کے حق میں نازل ہوئی ہے'' (بخاری۔ کتاب التفسیر)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
'':میرا نام میرے چچا انس بن نضر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ وہ جنگ بدر میں رسول اللہ کے ساتھ حاضر نہ ہوسکے اور یہ بات ان پر بہت شاق گزری
اور کہا کہ : '' یہ رسول اللہ کے ساتھ حاضر رہنے کا پہلا موقع تھا جس سے میں غائب رہا۔ اللہ کی قسم! اب اگر آپ کے ساتھ حاضر ہونے کا کوئی موقع آیا
تو اللہ تعالیٰ خود دیکھ لے گا کہ میں کیا کچھ کرتا ہوں''
راوی کہتا ہے کہ : پھر وہ ڈر گئے کہ ان الفاظ کے علاوہ کچھ اور لفظ کہنا مناسب تھا۔ پھر جب اگلے سال احد کے دن رسول اللہ کے ساتھ حاضر ہوئے
تو انھیں (راہ میں) سعد بن معاذ ملے۔ انہوں نے پوچھا: ''ابوعمرو! کہاں جاتے ہو؟'' انس کہنے لگے: ''واہ میں تو احد (پہاڑ) کے پار جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔
چنانچہ وہ (بڑی جرأت سے) لڑے۔ حتیٰ کہ شہید ہوگئے
اور ان کے جسم پر ضربوں، نیزوں اور تیروں کے اسی (٨٠)سے زیادہ زخم پائے گئے۔
میری پھوپھی ربیع بنت نضر کہنے لگی :
میں اپنے بھائی کی نعش کو صرف اس کے پوروں سے پہچان سکی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)

سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کے چچا انس بن نضر بدر کی لڑائی میں غیر حاضر تھے کہنے لگے
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی جنگ میں شریک نہیں ہو سکا خیر اب اگر اللہ نے مجھ کو لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہونے کا موقعہ دیا تو اللہ دیکھ لے گا کہ میں کیسی کوشش کرتا ہوں
جب احد کا دن آیا اور مسلمان بھاگنے لگے تو انس بن نضیر نے کہا یا اللہ میں تیری بارگاہ میں عذر کرتا ہوں
جو ان مسلمانوں نے کیا اور مشرکین نے جو کچھ کیا اس سے بیزار ہوں پھر تلوار لے کر میدان میں بڑھے راستہ میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ملے (جو بھاگے آ رہے تھے) انس رضی اللہ عنہ نے کہا
کیوں سعد (رضی اللہ عنہ) کہاں بھاگے جاتے ہو؟ میں تو احد پہاڑ کے پیچھے سے جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں غرض انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر لڑے کہ شہید ہو گئے (زخموں کی کثرت سے) ان کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی
ان کی بہن نے ایک تل اور پاؤں کی انگلی کے نشان سے ان کو پہچانا اسی (80) سے زیادہ زخم تلوار وغیرہ کے جسم پر لگے تھے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1273 غزوات کا بیان
۔۔۔
 
Top