محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹرجسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 12-شعبان- 1434کا خطبہ جمعہ " تعمیر و ترقی کے ذرائع " کے عنوان پر ارشاد فرمایا،جس میں انہوں نے اسبابِ ترقی و زوال پر گفتگو کی ، اور کہا کہ مسلم حکمرانوں اور عوام الناس پر غلبہ اسلام کیلئے شرعی و مادی اسباب اپنانا لازمی ہے پھر انہوں نے اسی ضمن میں کچھ اسباب بھی ذکر کئے۔پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، وہی توحید و اہل توحید کو عزت بخشنے والا ہے،مشرک اتحادیوں کو ذلیل و خوار کرنے والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے؛ اسکا ربوبیت ، الوہیت، اور اسماء و صفات میں کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، جنہیں اللہ نے پوری مخلوق میں سے چنا، اللہ تعالی ان پر انکی آل ، اور متقی پرہیز گار صحابہ کرام پر درود و سلام بھیجے۔
حمد و ثنااور درود و سلام کے بعد، مسلمانو!
اللہ عز و جل سے ڈرو، اصلاحِ احوال اور سعادتِ نفس کی بنیاد تقوی ہی ہے، اسی سے دنیاو آخرت میں کامیابی حاصل ہوگی ۔
اسلامی بھائیو!
یہ بات مسلّم ہے کہ ترقی و زوال کے علیحدہ علیحدہ اسباب ہیں، اس لئے تمام مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ ہر وقت اور ہر جگہ تعمیر و ترقی ، شان و شوکت کے اسباب اپنائیں، اس بات کو اللہ تعالی نے مسلمانوں پر لازمی قرار دیا ہے، اور اس فرض کی بنیاد عقیدہ توحید اور شرک کے وسائل و ذرائع سے اجتناب پر قائم ہے، اور ان سب اسباب کا اللہ کے احکامات اور فرمودات نبویہ کے عین مطابق ہونا ضروری ہے۔ وعدہ الہی ہے کہ : إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ اگر تم اللہ (کے دین )کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کریگا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ [محمد: 7]
چنانچہ اللہ کی مدد مؤمنوں کو اسی وقت حاصل ہوتی ہےجب وہ عقیدہ توحید اپنائیں اور شریعت پر عمل کریں، اور اسکے ساتھ ساتھ غلبہ اسلام اور اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کریں ؛ اس قاعدےپر عمل کرنے سے اسلام دشمن قوتیں کتنا ہی زور لگا لیں مسلمانوں کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتی، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے خاص لوگوں کی مدد ، غلبہ اور نصرت کا وعدہ کیا ہوا ہے، اور یہ یقینی بات ہے کہ جس کے ساتھ اللہ کی ذات ہو وہ ہمیشہ کامیاب اور کامران ہوتا ہے، غلبہ اسی کا مقدر بنتا ہے ، اسی بارے میں فرمایا: إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ اور اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو ان کو بری لگتی ہے اور کوئی مصیبت پیش آئے تو اس پر خوش ہوتےہیں۔ اور اگر تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو ان کی مکاری تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی, اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ یقینا اس کو مکمل طور پر جانتا ہے۔ [آل عمران: 120]
سچے دل اور اخلاص کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر عمل ایک ایسی طاقت ہے جو کسی بھی وقت اور جگہ مغلوب نہیں ہوئی، نفاذِ شریعت، سنتِ نبوی کا عملی تحفظ ایک ایسا معنوی لشکر ہے جو کبھی شکست خوردہ نہیں ہوا، کیونکہ فرمانِ نبوی ہے: "تم اللہ کے حقوق کی حفاظت کرو ، اللہ تعالی کو ہمیشہ یاد رکھو تم اسے اپنی مدد کیلئے سامنے پاؤ گے"
امتِ اسلامیہ صحابہ کرام کے منہج کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو بالادستی دے گی تو تب ہی تعمیر و ترقی ہوگی، امن و امان قائم ہوگا، شان و شوکت میں اضافہ ہوگا، بالکل اسی طرح جیسے مسلمان پہلے ترقی یافتہ تھے، کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہے فرمایا: وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ اور مومنوں کی مدد کرنا ہمارا حق تھا [الروم: 47]، أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ سن لو ! جو اللہ کے دوست ہیں انھیں نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے[62] (اور یہ وہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے [يونس: 62، 63]
چانچہ جو اللہ کیساتھ وفا داری کرے اللہ تعالی اس کے ساتھ وفاداری کریگا ۔
اسلامی بھائیو!
مسلمانوں کا بنیادی ہدف اگر دین بن جائے، اسی کیلئے اپنی ہر چیز قربان کردیں، اسلام کو ہر جگہ مقدم سمجھیں، اور اسی سے اپنی زندگی کے تمام مراحل کیلئے خلوص دل سے راہنمائی لیں، تو تب ہی ترقی و شادمانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، فرمان باری تعالی ہے: وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40) الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ہیں اور اللہ ایسے لوگوں کی ضرور مدد کرتا ہے جو اس (کے دین) کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ یقینا بڑا طاقتور اور سب پر غالب ہے[40] (اللہ کے دین کی مدد کرنے والے) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکوہ ادا کریں، بھلے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں اور سب کاموں کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے [الحج: 40، 41]
بڑے ہی افسوس اور دکھ کی بات ہےکہ ہم امت اسلامیہ کو ترقی میں دیکھ لیں یا تنزلی میں کسی بھی حالت میں شریعت الہی کو کچھ نہیں سمجھا جاتا، اسلامی ممالک میں سے کوئی بھی شریعتِ الٰہیہ کے نفاذ کی بات نہیں کرتا۔
مؤمنو! دنیا میں عزت و شان و شوکت اسی کا مقدر ہےجو قرآن کریم پر عمل کرے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اپنائے، فرمان الٰہی ہے: إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ ہم یقینا اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے [غافر: 51]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نور ِوحی کی روشنی میں تاتاریوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو درپیش سنگین حالات کے تناظر میں کہتے ہیں: " بڑے لوگوں اور بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے ظاہر ہوگا کہ جو کوئی غلبہ دین کیلئے اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف جتنا زیادہ جہاد کریگا، اور اللہ اسکے رسول کی اتباع پر قائم رہے گا وہ یقیناً اسی قدر امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد سے بھی زیادہ اللہ کے دین کی مدد ، نصرت،اور اطاعت کرنے والا ہو گا" انتہی
امتِ اسلامیہ کے جوانوسنو! جدید چیلنجز کے مقابلے کیلئے مادی اور حسّی تیاری رکھنا احکامات ِ الٰہیہ کی تعمیل ہے، تم ہی دین کی خدمت کرنیوالی امت ہو، اس فانی دنیا کی رغبت نہیں رکھتے، تمام حکمرانوں اور مسلم رعایا کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان چیلنجز کے مقابلے کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں، اور اسکے لئے ضروری ساز و سامان کا بندو بست بھی رکھیں۔
مسلم اقوام اور حکمران اپنی استطاعت اور بسط کے مطابق تیاری کریں، فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ اور جہاں تک ممکن ہو کافروں کے مقابلہ کے لئے قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو۔ جن سے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے دشمنوں پر اپنا رعب ڈال سکو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ انہیں جانتا ہے [الأنفال: 60]
اور صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے "قوت" کی تفسیر نشانہ بازی سے کی، اور اسکے علاوہ بھی بہت سی احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نشانہ بازی سیکھنے کی ترغیب دی ہے، جس سے جنگی تیاری کے واجب ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
مسلم علمائے کرام !، دین کی تبلیغ کرنے والو! مسلم حکمرانو! ہماری سب سے پہلی دعوتی کوشش وحی مطہر ، اللہ کی جانب سے نازل شدہ شریعت کو اپنانے کی جانب ہو، توحید و سنت پر مکمل عمل ہو، ہمارا اوڑھنا بچھونا انہی پر قائم ہو، اور اسی بنیاد پر ہمارے تمام معاملات آگے بڑھائے جائیں۔
اسلامی بھائیو!
امتِ اسلامیہ کے انحطاط اور تنزلی کا سب سے بڑا سبب دین الٰہی سے دوری اور احکاماتِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے میں سستی ہے، کتنی ہی شرمناک بات ہے کہ تمہیں بہت سے اسلامی ممالک لمبے چوڑے معاہدے قرآن و سنت سے ہٹ کر کرتے ہوئے نظر آئیں گے!!
انہی اسباب کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے: وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ اور تمہیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمہارے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب سے آتی ہے اور وہ تمہارے بہت سے گناہوں سے درگزر بھی کرجاتا ہے [الشورى: 30]مسلمانو ! کیا ہمارا خالق ہم سے مخاطب نہیں؟ اسے ہمارے اسبابِ زوال اور ہمارے مفاد کا علم نہیں؟ اسی نے فرمایا: وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ اور تمہیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمہارے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب سے آتی ہے اور وہ تمہارے بہت سے گناہوں سے درگزر بھی کرجاتا ہے مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ اگر تجھے کوئی فائدہ پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور کوئی مصیبت آئے تو وہ تیرے اپنے اعمال کی بدولت ہوتی ہے [النساء: 79]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب لوگ برائی دیکھنے کے بعد بھی ختم نہ کریں تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی انہیں عذاب سے دوچار کر دے) احمد نے اسے صحیح سند کیساتھ بیان کیا۔
ایک اور حدیث میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ : "ہمارے ہاں نیک لوگ بھی موجود ہوں تب بھی ہمیں ہلاک کردیا جائے گا؟" فرمایا: (ہاں! جب گناہ زیادہ ہو جائے گے تو ایسا ہی ہوگا)
ہم اپنے رسول کی امت ہیں اگر ہم اپنے پیارے پیغمبر کی اطاعت اب نہیں کرینگے تو کب ؟ سنو! وگرنہ داستاں نہ ہوگی تمہاری داستانوں میں۔
ذرا غور کرو! جب اللہ تعالی نے جنگ احد میں صحابہ کرام کو نصیحت کی، اور جنگ میں حاصل ہونے والی تکالیف یاد کروائی - حالانکہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوچکا ہے، انکا مقام انبیاء کرام کے بعد سب سے بلند ہے، ان کے مرتبے کا اور کوئی نہیں- ان کے بارے میں فرمایا: کہ معرکہ احد میں فتح کے بعد نمودار ہونے والے شکست کے آثار صرف اورصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے باعث تھے ۔
اسی تناظر میں ہمارا کیا حال ہوگا؟ جبکہ برائیاں ہمارے اندر بہت زیادہ، احکاماتِ الٰہیہ کی دھجیاں ہم نے اڑائیں، انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو اکثر اسلامی ممالک نے بالادستی دی اور شریعتِ مطہرہ کو ترک کر دیا، تو اب کوئی عجیب بات نہیں کہ ہمیں مختلف بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے، جس قدر ہمارے اندر مخالفت پائی جائے گی اسی قدر ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ہوگی۔
ذرا یہ آیت تو پڑھیں! اور اسکے معنی پر غور کرتے ہوئے اپنی حالت کے متعلق سوچیں کہ کس حد تک یہ آیت ہماری کیفیت بیان کر رہی ہے: أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ کیا تم کتاب کے بعض احکام مانتے ہو اور بعض کا انکار کر دیتے ہو؟ بھلا جو لوگ ایسے کام کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں اور قیامت کے دن وہ سخت عذاب کی طرف دھکیل دیئے جائیں؟ [البقرة: 85]
اسلامی احکامات کی مخالفت و دنیا داری میں پڑنے والوں اور اسکو آخرت پر ترجیح دینے والوں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم سودی کاروبار کرنے لگو، کھیتی باڑی میں مصروف ہوجاؤ، اور جہاد ترک کردو تو اللہ تعالی تم پر ذلت مسلط کر دے گا اور اسے اس وقت تک نہیں ہٹائے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ) ابو داود نے اسے روایت کیا اور اہل علم نے اسے صحیح کہا۔
مسلمانو! اللہ سے ڈرو، اپنے دین کی طرف واپس آجاؤ، اسلام کو مضبوطی سے تھام لو، اپنے رب کی شریعت نافذ کرو، اس کے بدلے میں تمہیں اللہ تعالی شان و شوکت اور عزت و ترقی عنائت فرمائے گا۔
اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں ، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
میں ایک اللہ کی تعریف کرتا ہوں ، اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد -صلی اللہ علیہ وسلم - اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں ، یا اللہ! آپ پر اور آپکی آل و اصحاب پر درود و سلام بھیج دے ۔
مسلمانو!
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، یہی اللہ تعالی نے تمام سابقہ اور لاحقہ لوگوں کو نصیحت کی۔
مسلمانو!
ناکامی اور تنزلی کے بہت سے اسباب ہیں ان میں اہم ترین مسلمانوں کا نیکی اور تقوی کی بنیاد پر عدمِ اتفاق ہے، ہدایت و کامرانی کےراستہ پر اختلاف ہے۔
سلف میں کسی نے کیا ہی خوب کہا: "کیا ہماری کتاب ایک نہیں؟ نبی ایک نہیں؟ ہدف بھی ایک ہے تو مسلمانوں میں اختلاف کس بات کا ہے؟؟"
ہماری آپس میں خونخار جنگیں کیوں ہوتی ہیں؟ ہم پوری دنیا کے سامنے اپنے پیٹ سے کپڑا کیوں اٹھا کر دیکھاتے ہیں!؟ اسی بارے میں اللہ تعالی نےفرمایا: وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ [الأنفال: 46] وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ اور صبر سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ یقینا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
آؤ ! مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا کریں، آؤ ! اپنے نبی کے حقوق ادا کریں ہم اسی کی امت میں سے ہیں، آپ کی سنت کی بنیاد پر ہمارے اندر اتحاد پیدا ہو، اور اسی کی وجہ سے ہم دینی اور دنیاوی تمام مفاد بھی پا سکیں۔
ہم فرعی اور ذیلی مسائل میں اختلاف رائے کی بنا پردین کے بنیادی مسائل میں اختلاف پیدا نہ کریں ، اللہ تعالی نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے ، اگر ہم نے اسکی مخالفت کی تو ہمارا انجام بہت برا ہوگا، اور وہ حکم ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو [آل عمران: 103]
اسکے بعد اللہ تعالی نے ہم پر ایک اور بہت بڑا فریضہ عائد کیا ہے اور وہ ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی ہر جگہ مدد کریں، انکی اپنی بساط کے مطابق ہر ممکنہ امداد کریں، اللہ تعالی کسی پر اسکی طاقت سے زیادہ ذمہ داری عائد نہیں کرتا، لیکن ایک مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اس حکم کی تعمیل میں سچا ہو، اللہ تعالی کے احکامات کو سچے دل سے انجام دے، ایسا کرنے پر اللہ تعالی کی جانب سے وعدہ ہے: فَلَوْ صَدَقُوا اللَّهَ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ اگر وہ اللہ سے (کئے ہوئے عہد میں) سچے رہتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا۔ [محمد: 21]
افضل ترین اعمال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھنا ہے: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد, كما صليت على إبراهيم , وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد, اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد , كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد
.
یا اللہ ! اپنی رحمت کے صدقے ہم پر رحم فرما، یا اللہ! ہم پر اپنی رحمت کے صدقے رحم فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں ہر مصیبت و فتنہ میں رحم فرما، یا اللہ تمام مسلمانوں کو ہر مصیبت اور فتنہ سے نجات نصیب فرما، یا اللہ تمام مسلمانوں کو ہر مصیبت اور فتنہ سے نجات نصیب فرما، یا اللہ! کمزور مسلمانوں کی ہر جگہ جلد از جلد مدد فرما، یا اللہ ہر جگہ مسلمانوں کی جلد از جلد مدد فرما۔
یا اللہ! توں ہی انکا رب ہے، توں ہی انکا معبود ہے، تو ہی رحم کرنے والا ہے، یا اللہ !ان پر اپنی رحمت نازل فرما، یا اللہ! انکی جلد از جلد تکالیف دور فرما، یا اللہ! انکی جلد از جلد تکالیف دور فرما، یا اللہ! انکی جلد از جلد تکالیف دور فرما۔
یا اللہ! ہم سب کو رمضان کی برکات نصیب فرما، اور رمضان سے پہلے پہلے امتِ اسلامیہ کو امن وامان اور چین و سکون کی نعمت سے نواز۔
یا اللہ! تمام مسلمان مرو و خواتین کو معاف فرما، تمام مؤمن مرد و خواتین کو معاف فرما، یا ا للہ! زندہ اور فوت شدگان تمام کو معاف فرما۔
یا اللہ !ہمیں ماہِ رمضان نصیب فرما، یا اللہ ہمیں ماہِ رمضان نصیب فرما، اور ہمیں قیام و صیام کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! یا حیی یا قیوم! ماہِ رمضان ہمارے لئے نصرت و کامیابی اور فلاح کا مہینہ بنا، یا اللہ! ماہِ رمضان کے آتے ہی مسلمانوں کو غلبہ عنائت فرما، یا اللہ ! مسلمانوں کی اصلاح کا سبب بنا۔
یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ !مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ! ہم تجھے تیری طاقت کا واسطہ دیتے ہیں تو ہمیں برے حکمرانوں سے بچا، یا اللہ! برے حکمرانوں سے بچا، یا اللہ! برے حکمرانوں سے بچا، یا اللہ! مسلمانوں پر کسی فاجر کو کوئی منصب نہ دے، یا اللہ! کسی فاجر کو مسلمانوں پر مسلط نہ کر، یا اللہ ، یا حیی یا قیوم ، یا ذا الجلا ل والاکرام! کسی بھی فاجر کو مسلمانوں پر مسلط نہ کر۔
یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ !اس کے ذریعے مسلمانوں میں اتحاد پیدا فرما، یا اللہ! اس کے ذریعے مسلمانوں میں اتحاد پیدا فرما۔
یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ! شریروں کے شر سے انہیں محفوظ فرما، یا اللہ شریروں کے شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! توں ہی ہمیں کافی ہے، توں ہی بہترین کار ساز ہے، یا اللہ! یا حیی یا قیوم! مسلمانوں کو شریروں سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہمیں اپنےممالک میں امن و امان نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں اپنے ممالک میں امن وامان نصیب فرما، یا اللہ ! ہمارے ممالک کو ایمان و تقوی سے بھر دے، یا اللہ! توحید و سنت سے بھر دے۔
اللہ کے بندو!
اللہ کا ذکر صبح و شام کثرت سے کیا کرو، ہماری آخری بات یہی ہے کہ تمام تعریفات اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔
لنک