کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
امام أبو الشيخ الأصبهاني رحمه الله (المتوفى369)نے کہا:
ثنا أبو الحريش، ثنا شيبان، ثنا حماد، ثنا عاصم الأحول، عن رجل، عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم مثله (ولفظ الحديث الذي قبله عندالبیھقی : قال في هذه الآية {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} قال: " وضع يده اليمنى على وسط يده اليسرى، ثم وضعها على صدره ") وعند البیھقی :أو قال: عن النبي صلى الله عليه وسلم"
صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ نے سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے۔ سنن بیہقی کی روایت میں راوی کا شک ہے کہ یہ انس رضی اللہ عنہ کی تفسیر ہے یا انہوں نے یہ تفسیر اللہ کے نبی صلی اللہ عنہ سے بیان کی ہے[كتاب التفسير لأبي الشيخ الأصبهاني بحوالہ االدر المنثور 8/ 650 ، بدون شک ، والسنن الكبرى للبيهقي: 2/ 46 حدیث نمبر2337 من طریق ابی الشیخ وفیہ شک الراوی والحدیث صحیح بالشواہد]
سنن بیہقی میں راوی کا شک منقول ہے کہ یہ تفسیر انس رضی اللہ عنہ نے کی ہے یا انس رضی اللہ عنہ نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے ۔
لیکن امام سیوطی نے اسی روایت کوامام ابوالشیخ الاصبہانی رحمہ اللہ کی کتاب سے نقل کیا ہے اورساتھ میں بیہقی کابھی حوالہ دیا ہے اور سند میں کسی شک کا تذکرہ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتاہے کہ امام ابوالشیخ الاصبہانی رحمہ اللہ کی کتاب میں یہ سند بغیر شک کے ۔اوران کی سند عالی ہے لہٰذا اسی کو ترجیح دی جائے گی۔
اس سند میں انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد کا نا م درج نہیں ہے اس لئے ان کے بارے معلومات نہیں مل سکیں ۔ان کے علاوہ بقیہ سارے راوی معروف اورثقہ ہیں تفصیل ملاحظہ :
عاصم بن سليمان الأحول:
آپ صحیحین سمیت سنن اربعہ کے رجال میں سے ہیں۔انہیں تمام محدثین نے ثقہ قراردیا ہے ۔صرف یحیی بن سعید القطان نے انہیں بغیرکسی قوی بنیاد کے ضعیف کہا ہے جو معتبر نہیں ہے اسی لئے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
ثقة من الرابعة لم يتكلم فيه إلا القطان فكأنه بسبب دخوله في الولاية
یہ ثقہ ہیں چوتھے طبقہ کے ہیں ان کے بارے میں کسی نے کلام نہیں کیا ہے سوائے ابن القطان کے ۔اور گویاکہ انہوں نے ولایت میں ا ن کے داخل ہونے کی وجہ سے ایسا کہا ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3060]
نوٹ:
امام عقیلی نے انہیں اپنی کتاب ضعفا ء میں ذکرکیا ہے[الضعفاء الكبير للعقيلي: 3/ 336]۔
اس کے باوجود بھی حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا کہ انہیں یحیی بن سعید القطان کے علاوہ کسی نے ضعیف نہیں کیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ بھی ضعفاء پرلکھی گئی کتب میں کسی راوی کے مذکور ہونے سے یہ نہیں سمجھتے کہ ضعفاء کے مؤلفین کے نزدیک وہ ضعیف ہے ۔ورنہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ یحیی بن سعید القطان کے ساتھ امام عقیلی کو بھی ان کی تضعیف کرنے والا بتلاتے۔
لہٰذا جو لوگ ضعفاء کی کتب میں کسی راوی کے مذکورہونے سے یہ کہتے ہیں کہ ضعفاء کے مؤلفین نے انہیں ضعیف کہاہے یہ سراسر غلط ہے ۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب :یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ: ص 675 تا 677۔
فائدہ:
حنفی حضرات بہت سارے مقامات پر اس راوی کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں ،مثلادیکھئے :حدیث اور اہل حدیث :ص271 حدیث نمبر ۔اس کی سند میں یہی راوی موجود ہے دیکھئے:السنن الكبرى للبيهقي (2/ 143) رقم 2632 ۔
حماد بن زيد بن درهم:
آپ صحیحین سمیت سنن اربعہ کے رجال میں سے ہیں۔اوربہت بڑے ثقہ وثبت امام ہیں ،آپ کے ثقہ ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔
امام أبو يعلى الخليلي رحمه الله (المتوفى446)نے کہا:
ثقة متفق عليه مخرج في الصحيحين رضيه الأئمة
آپ بالاتفاق ثقہ ہیں ،صحیحین میں ان کی احادیث ہیں اور ائمہ ان سے راضی ہیں[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 2/ 498]۔
فائدہ:
حنفی حضرات بہت سارے مقامات پر اس راوی کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں ،مثلادیکھئے :حدیث اور اہل حدیث :ص438 حدیث نمبر 4۔اس کی سند میں یہی راوی موجود ہے دیکھئے:صحيح البخاري (1/ 163)رقم 818 ۔
شيبان بن فروخ:
آپ صحیح مسلم ،سنن ابی داؤد اورنسائی کے رجال میں سے ہیں اور ثقہ ہیں:
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
صدوق
یہ صدوق ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 4/ 357واسنادہ صحیح]
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 8/ 315]
امام أبو علي، الغساني رحمه الله (المتوفى498)نے کہا:
ثقة
یہ ثقہ ہیں[تسمية شيوخ أبي داود لأبي علي الغساني: ص: 129]
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
شيبان بن فروخ الامام الثقة محدث البصرة
شیبان بن فروخ ،یہ امام،ثقہ اور بصرہ کے محدث ہیں[تذكرة الحفاظ للذهبي: 2/ 443]
فائدہ:
حنفی حضرات بہت سارے مقامات پر اس راوی کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں ،مثلادیکھئے :حدیث اور اہل حدیث :ص175 حدیث نمبر 1۔اس کی سند میں یہی راوی موجود ہے دیکھئے:صحيح مسلم (1/ 214)رقم 241 ۔
أحمد بن عيسى بن مخلد الكلابي أبو الحريش:
آپ ثقہ ہیں کیونکہ امام ابوبکر الاسماعیلی کے شیخ ہیں اور ان سے ایک روایت امام ابوبکر اللاسماعیلی نے ”معجم“میں نقل کی ہے اور انہوں نے اس کتاب کے مقدمہ میں صراحت کردی ہے کہ اگر کوئی ضعیف راوی ہوگا تو وہ اس کی وضاحت کریں گے:دیکھیں[معجم أسامي شيوخ أبي بكر الإسماعيلي 1/ 309]
نیزدیکھیں:[سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 5/ 275 ]۔
یادرہے کہ اس توثیق کے برخلاف کسی بھی محدث نے آپ پر کوئی جرح نہیں کی ہے۔لہٰذا آپ ثقہ ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ اس سند کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد کے کیونکہ ان کا نام سند میں درج نہیں ہے ۔لیکن چونکہ انہوں نے کوئی ایسی روایت بیان نہیں کی ہے جس کے مفہوم کی تائید نہ ملتی ہو بلکہ کئی روایات سے اس کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے اس لئے ان کی یہ روایت دیگر شواہد کی روشنی میں صحیح قرارپائے گی۔
چنانچہ اس روایت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےجو تفسیر منقول ہے وہی تفسیر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورعلی رضی اللہ عنہ سے بھی صحیح سندسے ثابت ہے جیساکہ تفصیل آرہی ہے۔اوریہ تفسیر ایسی نہیں ہے جس میں اجتہاد ورائے کادخل ہوکیونکہ محض رائے اوراجتہاد سے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}کا یہ مفہوم ہرگز نہیں معلوم کیا جاسکتا ۔اس لئے یہ حکما مرفوع ہے لہٰذا حقیقی مرفوع کے لئے یہ روایات شاہد قرار پائیں گی ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بہت سارے مقامات پر حکمامرفوع روایت کو حقیقی مرفوع روایت کے لئے شاہد تسلیم کیا ہے مثلا دیکھئے: سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 135)۔حالانکہ علامہ البانی رحمہ اللہ محض موقوف روایت کومرفوع روایت کے لئے شاہدتسلیم نہیں کرتے ۔
ثنا أبو الحريش، ثنا شيبان، ثنا حماد، ثنا عاصم الأحول، عن رجل، عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم مثله (ولفظ الحديث الذي قبله عندالبیھقی : قال في هذه الآية {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} قال: " وضع يده اليمنى على وسط يده اليسرى، ثم وضعها على صدره ") وعند البیھقی :أو قال: عن النبي صلى الله عليه وسلم"
صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ نے سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے۔ سنن بیہقی کی روایت میں راوی کا شک ہے کہ یہ انس رضی اللہ عنہ کی تفسیر ہے یا انہوں نے یہ تفسیر اللہ کے نبی صلی اللہ عنہ سے بیان کی ہے[كتاب التفسير لأبي الشيخ الأصبهاني بحوالہ االدر المنثور 8/ 650 ، بدون شک ، والسنن الكبرى للبيهقي: 2/ 46 حدیث نمبر2337 من طریق ابی الشیخ وفیہ شک الراوی والحدیث صحیح بالشواہد]
سنن بیہقی میں راوی کا شک منقول ہے کہ یہ تفسیر انس رضی اللہ عنہ نے کی ہے یا انس رضی اللہ عنہ نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے ۔
لیکن امام سیوطی نے اسی روایت کوامام ابوالشیخ الاصبہانی رحمہ اللہ کی کتاب سے نقل کیا ہے اورساتھ میں بیہقی کابھی حوالہ دیا ہے اور سند میں کسی شک کا تذکرہ نہیں کیا جس سے معلوم ہوتاہے کہ امام ابوالشیخ الاصبہانی رحمہ اللہ کی کتاب میں یہ سند بغیر شک کے ۔اوران کی سند عالی ہے لہٰذا اسی کو ترجیح دی جائے گی۔
اس سند میں انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد کا نا م درج نہیں ہے اس لئے ان کے بارے معلومات نہیں مل سکیں ۔ان کے علاوہ بقیہ سارے راوی معروف اورثقہ ہیں تفصیل ملاحظہ :
عاصم بن سليمان الأحول:
آپ صحیحین سمیت سنن اربعہ کے رجال میں سے ہیں۔انہیں تمام محدثین نے ثقہ قراردیا ہے ۔صرف یحیی بن سعید القطان نے انہیں بغیرکسی قوی بنیاد کے ضعیف کہا ہے جو معتبر نہیں ہے اسی لئے حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
ثقة من الرابعة لم يتكلم فيه إلا القطان فكأنه بسبب دخوله في الولاية
یہ ثقہ ہیں چوتھے طبقہ کے ہیں ان کے بارے میں کسی نے کلام نہیں کیا ہے سوائے ابن القطان کے ۔اور گویاکہ انہوں نے ولایت میں ا ن کے داخل ہونے کی وجہ سے ایسا کہا ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3060]
نوٹ:
امام عقیلی نے انہیں اپنی کتاب ضعفا ء میں ذکرکیا ہے[الضعفاء الكبير للعقيلي: 3/ 336]۔
اس کے باوجود بھی حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا کہ انہیں یحیی بن سعید القطان کے علاوہ کسی نے ضعیف نہیں کیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ بھی ضعفاء پرلکھی گئی کتب میں کسی راوی کے مذکور ہونے سے یہ نہیں سمجھتے کہ ضعفاء کے مؤلفین کے نزدیک وہ ضعیف ہے ۔ورنہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ یحیی بن سعید القطان کے ساتھ امام عقیلی کو بھی ان کی تضعیف کرنے والا بتلاتے۔
لہٰذا جو لوگ ضعفاء کی کتب میں کسی راوی کے مذکورہونے سے یہ کہتے ہیں کہ ضعفاء کے مؤلفین نے انہیں ضعیف کہاہے یہ سراسر غلط ہے ۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ہماری کتاب :یزیدبن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ: ص 675 تا 677۔
فائدہ:
حنفی حضرات بہت سارے مقامات پر اس راوی کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں ،مثلادیکھئے :حدیث اور اہل حدیث :ص271 حدیث نمبر ۔اس کی سند میں یہی راوی موجود ہے دیکھئے:السنن الكبرى للبيهقي (2/ 143) رقم 2632 ۔
حماد بن زيد بن درهم:
آپ صحیحین سمیت سنن اربعہ کے رجال میں سے ہیں۔اوربہت بڑے ثقہ وثبت امام ہیں ،آپ کے ثقہ ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے ۔
امام أبو يعلى الخليلي رحمه الله (المتوفى446)نے کہا:
ثقة متفق عليه مخرج في الصحيحين رضيه الأئمة
آپ بالاتفاق ثقہ ہیں ،صحیحین میں ان کی احادیث ہیں اور ائمہ ان سے راضی ہیں[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 2/ 498]۔
فائدہ:
حنفی حضرات بہت سارے مقامات پر اس راوی کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں ،مثلادیکھئے :حدیث اور اہل حدیث :ص438 حدیث نمبر 4۔اس کی سند میں یہی راوی موجود ہے دیکھئے:صحيح البخاري (1/ 163)رقم 818 ۔
شيبان بن فروخ:
آپ صحیح مسلم ،سنن ابی داؤد اورنسائی کے رجال میں سے ہیں اور ثقہ ہیں:
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
صدوق
یہ صدوق ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 4/ 357واسنادہ صحیح]
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 8/ 315]
امام أبو علي، الغساني رحمه الله (المتوفى498)نے کہا:
ثقة
یہ ثقہ ہیں[تسمية شيوخ أبي داود لأبي علي الغساني: ص: 129]
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
شيبان بن فروخ الامام الثقة محدث البصرة
شیبان بن فروخ ،یہ امام،ثقہ اور بصرہ کے محدث ہیں[تذكرة الحفاظ للذهبي: 2/ 443]
فائدہ:
حنفی حضرات بہت سارے مقامات پر اس راوی کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں ،مثلادیکھئے :حدیث اور اہل حدیث :ص175 حدیث نمبر 1۔اس کی سند میں یہی راوی موجود ہے دیکھئے:صحيح مسلم (1/ 214)رقم 241 ۔
أحمد بن عيسى بن مخلد الكلابي أبو الحريش:
آپ ثقہ ہیں کیونکہ امام ابوبکر الاسماعیلی کے شیخ ہیں اور ان سے ایک روایت امام ابوبکر اللاسماعیلی نے ”معجم“میں نقل کی ہے اور انہوں نے اس کتاب کے مقدمہ میں صراحت کردی ہے کہ اگر کوئی ضعیف راوی ہوگا تو وہ اس کی وضاحت کریں گے:دیکھیں[معجم أسامي شيوخ أبي بكر الإسماعيلي 1/ 309]
نیزدیکھیں:[سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 5/ 275 ]۔
یادرہے کہ اس توثیق کے برخلاف کسی بھی محدث نے آپ پر کوئی جرح نہیں کی ہے۔لہٰذا آپ ثقہ ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ اس سند کے سارے رجال ثقہ ہیں سوائے انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد کے کیونکہ ان کا نام سند میں درج نہیں ہے ۔لیکن چونکہ انہوں نے کوئی ایسی روایت بیان نہیں کی ہے جس کے مفہوم کی تائید نہ ملتی ہو بلکہ کئی روایات سے اس کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے اس لئے ان کی یہ روایت دیگر شواہد کی روشنی میں صحیح قرارپائے گی۔
چنانچہ اس روایت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےجو تفسیر منقول ہے وہی تفسیر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اورعلی رضی اللہ عنہ سے بھی صحیح سندسے ثابت ہے جیساکہ تفصیل آرہی ہے۔اوریہ تفسیر ایسی نہیں ہے جس میں اجتہاد ورائے کادخل ہوکیونکہ محض رائے اوراجتہاد سے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}کا یہ مفہوم ہرگز نہیں معلوم کیا جاسکتا ۔اس لئے یہ حکما مرفوع ہے لہٰذا حقیقی مرفوع کے لئے یہ روایات شاہد قرار پائیں گی ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بہت سارے مقامات پر حکمامرفوع روایت کو حقیقی مرفوع روایت کے لئے شاہد تسلیم کیا ہے مثلا دیکھئے: سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 135)۔حالانکہ علامہ البانی رحمہ اللہ محض موقوف روایت کومرفوع روایت کے لئے شاہدتسلیم نہیں کرتے ۔