• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تقدیر اور قضا پر ایمان :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
تقدیر اور قضا پر ایمان :

اسلام میں صبر کا کیا مقام ہے ؟ اور مسلمان کو کس چیز پر صبر کرنا چاہۓ ؟


الحمدللہ :

تقدیر اور قضاء پر ایمان لانا یہ ارکان ایمان میں سے ہے اور مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ اسے اس بات کا علم نہ ہو جو کہ تکلیف اسے آنے والی ہے وہ اس سے ہٹ نہیں سکتی اور جو اس نہیں پہنچتی وہ اسے آ نہیں سکتی اور ہر چیز اللہ تعالی کی تقدیر اور قضاء کے ساتھ ہی ہے ۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

< بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ) اندازے پر پیدا فرمایا ہے > القمر 49

اور صبر ایمان میں اس طرح ہے جیسے کہ جسم میں سر ہو اور صبر بہت اچھی اور محمود صفت ہے اور صابر لوگ اللہ تعالی سے بغیر حساب کے اجر حاصل کریں گے

جیسا کہ فرمان ربانی ہے :

< بات یہ ہے کہ صبر کرنے والوں کو پورا پورا بغیر حساب کے اجر دیا جائے گا > الزمر 10

اور جو بھی زمین میں یا نفس یا مال اور اہل وعیال وغیرہ میں مصائب اور فتنے واقع ہوتے ہیں انہیں اللہ تعالی نے ان کے وقوع سے قبل ہی جان لیا اور انہیں لوح محفوظ میں لکھ دیا تھا ۔

جیسا کہ فرمان ربانی ہے :

< دنیا میں کوئی مصیبت نہیں آتی اور نہ تمہاری جانوں میں مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہو‏ئی ہے یہ (کام) اللہ تعالی پر (بالکل ) آسان ہے > الحدید 22

اور جو بھی انسان کو تکلیف آۓ اس میں اس کے لۓ خیر ہی ہوتی ہے چاہے اس کا اسے علم ہو یا نہ ہو کیونکہ اللہ تعالی خیر اور بھلائی کے علاوہ کوئی فیصلہ نہیں کرتا ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

< آپ کہہ دیجۓ کہ ہمیں صرف وہ تکلیف ہی پہنچتی ہے جو کہ اللہ تعالی نے ہمارے لۓ لکھ دی ہے وہ ہمارا کار ساز اور مولی ہے مومنوں کو تو اللہ تعالی کی ذات پاک پر ہی بھروسہ کرنا چاہۓ > التوبۃ 51

اور جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اللہ تعالی کے حکم سے ہے اور جس کا اللہ تعالی پر ایمان ہے کہ اگر وہ چاہتا تو اس کا وقوع نہ ہوتا اور لیکن اللہ تعالی نے اسے اجازت دی اور اس کی تقدیر بنائی تو اس کا وقوع ہوا-

جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

< کوئی مصیبت اللہ تعالی کے حکم کے بغیر نہیں پہنچ سکتی جو اللہ تعالی پر ایمان لاۓ اللہ تعالی اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ تعالی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے > التغابن 11

اور جب بندے کو اس کا علم ہو جائے کہ یہ تکالیف اور مصائب اللہ تعالی کی تقدیر اور اس کے فیصلے کے ساتھ ہیں تو اس پر ایمان لانا اور اسے تسلیم اور اس پر صبر کرنا واجب ہے اور پھر صبر کا بدلہ اور جزا جنت ہے-

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

< اور انہیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا ہوں گے > الدھر 12

اور دعوت الی اللہ ایک ایسا پیغام ہے جو اسے آگے پہنچاتا ہے اسے بہت سی تکالیف اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اسی وجہ سے اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دوسرے انبیاء کی طرح صبر کرنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا :

< پس اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) تم بھی ایسا صبر کرو جیسا کہ عالی ہمت رسولوں نے کیا > الاحقاف / 35

اور اللہ تعالی نے مومنون کی رہنمائی کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ جب انہیں کوئی غمگین کرنے والا معاملہ لاحق ہو یا ان پر کوئی مصیبت نازل ہو تو وہ اس پر صبر اور نماز کے ساتھ تعاون لیں تا کہ اللہ تعالی ان کے غم کو ختم کرے اور ان کی اس مشکل کو جلد ختم کر دے –

ارشاد ربانی ہے :

< اے ایمان والو صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو اللہ تعالی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے > البقرہ 143

اور مومن پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کی تقدیر پر ایمان لاۓ اور اس کی اطاعت پر صبر کرے اور اللہ تعالی کی مصیبت کرنے پر صبر کرے تو جو صبر کرتا ہے اللہ تعالی قیامت کے دن اسے بغیر حساب اجر وثواب سے نوازے گا ۔

جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

<بات یہ ہے کہ صبر کرنے والوں کو پورا پورا بغیر حساب کے اجر دیا جائے گا > الزمر 10

اور مومن تو خاص طور پر تنگی اور خوشی کی حالت میں اجر کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( مومن کے معاملے میں تعجب ہے کہ اس کے سب کاموں میں خیر ہے اور یہ مومن کے علاوہ کسی کے لۓ نہیں اگر اسے کوئی نعمت اور آسانی نصیب ہوتی تو شکر کرتا ہے تو اس میں اس کے لۓ خیر ہے اور اگر اسے تنگی پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے تو اس میں بھی اس کے لۓ خیر ہے ) مسلم حدیث نمبر (2999)

اور انسان کو مصیبت کے وقت کیا کرنا اور کیا کہنا چاہۓ اس کی طرف رہنمائی کرتے بیان فرمایا ہے کہ صبر کرنے والوں کے لۓ اللہ تعالی کے ہاں اجر وعظیم ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

<اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجۓ جنہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں > البقرہ 155- 157 .


کتاب اصول الدین الاسلامی سے اقتباس ، تالیف : الشیخ محمد بن ابراہیم التویجری

http://islamqa.info/ur/12380
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
قضاء اور قدر کے متعلق اسلام کا نظریہ :


اسلام قضاء اور قدر کو کس نظریہ سے دیکھتا ہے۔؟

الحمدللہ

قضاء اور قدر پر ایمان رکھنا یہ ایمان کی اصل ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کو جانتا اور ہر چیز کا خالق ہے۔ اور یہ کہ اسکے ارادہ اور مشیت سے کوئی چیز نکال نہيں سکتی۔ اور اس نے ہر چیز کو اپنے پاس لوح محفوظ میں مخلوقات کی پیدائش سے پچاس ہزار سال قبل لکھ رکھا ہے۔ اور یہ کہ جو بھی اس جہان میں ہے اسے اور اسکے افعال کو پیدا فرمایا ہے تو جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا۔ اور بندے کو جو کچھ پہنچتا ہے اسکا یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ خطاء ہو جائے اور جو خطا ہو گیا اس کا اسے پہنچنا ممکن ہی نہيں۔

اور یہ کہ بندہ اطاعت والے کام کرنے یا معصیت کرنے پر مجبور نہیں ہے بلکہ اسکا ارادہ ہے جو کہ اس کی حالت کے لائق ہے لیکن یہ ارادہ خالق کے ارادہ کے ماتحت ہے۔

واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ur/6287
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
قضاء اور قدر پر ایمان رکھنا یہ ایمان کی اصل ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کو جانتا اور ہر چیز کا خالق ہے۔ اور یہ کہ اسکے ارادہ اور مشیت سے کوئی چیز نکال نہيں سکتی۔ اور
اس نے ہر چیز کو اپنے پاس لوح محفوظ میں مخلوقات کی پیدائش سے پچاس سال قبل لکھ رکھا ہے۔
یہاں پچاس سال نہیں ،بلکہ پچاس ہزار سال ہے ،اس فتوی اصل عربی عبارت میں پچاس ہزار سال ہی ہے ؛
نظرة الإسلام للقضاء والقدر
السؤال :
كيف ينظر الإسلام للقضاء والقدر ؟

الجواب :
الحمد لله
الإيمان بالقضاء والقدر أصل من أصول الإيمان وهو يعني أن الله عالم بكل شيء ، خالق لكل شيء ، وأنه لا يخرج شيء عن إرادته وتقديره ، وكتب كل شيء عنده في اللوح المحفوظ ، وذلك قبل أن يخلق الخلق بخمسين ألف عام ، وأن ما في الكون خلق لله تعالى هم وأفعالهم ، فما شاء الله كان وما لم يشأ لم يكن ، وما أصاب العبد لا يمكن أن يخطئه وما أخطأه لا يمكن أن يصيبه وأن العبد ليس بمجبور على فعل الطاعات أو المعاصي بل له إرادة تليق بحاله ولكنها تحت إرادة الخالق . والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد

http://islamqa.info/ar/6287
اور حدیث شریف میں بھی پچاس ہزار سال پہلے کی بات ہے،صحیح مسلم (2653) میں
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " كَتَبَ اللهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ "،
جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی تقدیر ۔۔زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے
لکھ دی تھی ،اور اس کا عرش پانی پر تھا ؛
 
Top