- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
تاریخ اور تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل تشیع کو تقیہ کی اتنی گھٹی دی جاتی ہے کہ جب تک وہ بھیس نہ بدل لے وہ گھٹی چھٹتی نہیں یعنی تقیہ کرنے یا بھیس بدلنے کے وہ ماہر ہوتے ہیں
چنانچہ اسی مناسبت سے ان کے آباء کا احوال میں نے مندرجہ ذیل تھریڈ میں لکھا ہے جو ابھی جاری ہے
عبداللہ بن سباء- کس کس کا ناخدا
اس تھریڈ میں آج کے دور میں ان کے بھیس بدلنے کی نشاندہی کرنی ہے میں اپنے علم کے مطابق لکھتا ہوں باقی بھائی اصلاح و اضافہ کر دیں جزاکم اللہ خیرا
اس سلسلے میں اس وقت انکے سرخیل ایران کو دیکھتے ہیں جس نے اس وقت اسرائیل اور امریکہ کی دشمنی کا بھیس بدلا ہوا ہے اور اس میں وہ انتہاء کا تقیہ کر رہا ہے اس کا پول کھولنے کی کوشش کرتے ہیں
انقلاب ایران میں امریکہ کا کردار
جب ایران میں خمینی انقلاب لایا تو اس سے پہلے شاہ ایران امریکہ کا خاص بندہ تھا پس لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاہ ایران کے خلاف انقلاب لانے والے تمام ساتھی امریکہ کے خلاف تھے اور امریکہ نے انقلاب والوں کا ساتھ نہیں دیا تو یہ بات غلط ہے
سابق شاہ ایران اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے کہ جنوری 1979 کی ابتداٗ میں مجھے حیرت انگیز خبر ملی کہ جنرل ہویزر (یورپ میں مسلح امریکی افواج کا نائب سپہ سالار) بہت دنوں سے تہران میں ہے پہلے ہمیشہ مجھے اطلاع ہوتی تھی اور مجھ سے ملاقات ہوتی تھی کیونکہ میرا ملک نیٹو کا اتحادی تھا لیکن کیونکہ اس دور میں امریکی اپنے خصوصی طیاروں پرآٓتے اور ان پر سرکاری قواعد لاگو نہیں ہوتے تھے یہ آٓمد انتہائی رازدانہ تھی اور اسکا پتا نہ چلا
روسی اخبار نے اس موجودگی پر تنقید کی کہ اسکا مقصد فوجی انقلاب کی تیاری کرنا ہے کیونکہ اب امریکہ کو لگ رہا تھا کہ شاہ ایران روس کی طرف جا رہا ہے اور پیٹرول کی قیمت بڑھانے میں اسنے اسکی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے
شاہ نے روسی اتحاد سے ملاقات کی اور بعض ذمہ داروں کا استقبال کیا جس کو امریکہ نے شک کی نگاہ سے دیکھا
15-3-1979 کو نباء کی ایجنسی نے ان کا یہ بیان نقل کیا کہ ایران خالی پیٹرول سے ہی نہیں بلکہ اپنی وسعت کی وجہ سے بھی خلیج میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے
خمینی فرانس میں بیٹھ کر امریکہ کی مدد سے فرانس کے درینہ دوست شاہ ایران کے خلاف شازشیں تیار کرتا رہا اور فرانس نے اس کو کھلی چھٹی دئے رکھی
19 جنوری 1980 کو واشنگٹن الوکات میں آیا کہ امریکی ٹی وی (ان۔بی۔سی) نے ذکر کیا کہ ایران کی دینی شخصیت راضی الشیرازی جن کے انقلابی مجلس کے ساتھ تعلقات تو نہیں مگر خمینی کے دوست ہیں کا رازدانہ علاج امریکہ میں چار ماہ تک ہوا جن پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا- اب پتا نہیں ٹی وی والوں کو کیسے پتا چلا کہ وہ انقلابی مجلس سے نہیں کیوں کہ انکے نام تو اس وقت مخفی تھے
یاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور
جمال عبد الناصر کے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے سے لے کر اسکی ہلاکت تک وہ خود بھی اور اسکے ذرائع ابلاغ بھی امریکہ کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے تھے اور جواب میں امریکہ کے ذرائع ابلاغ سے بھی ایسا ہی ہو رہا تھا مگر بعد میں پتا چلا کہ وہ تو انکا ہی ایجنٹ تھا اور جمال عبد الناصر نے جس خط میں امریکہ پر تنقید کی تھی اور چیکوسلواکیہ سے اسلحہ خریدنے کا اعلان کیا تھا وہ خط انکی معاونت مائلز کوبلند نے کی تھی جو امریکی اجنسیوں کے بہت بڑے ملازم تھے- اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ تیسری دنیا کے لیڈروں سے کسی لیڈر اور امریکہ میں دشمنی کا مظاہرہ نظر آئے مگر حقیقت میں وہ امریکہ کے ایجنٹوں میں سے ہی کوئی ایجنٹ ہو
امریکہ براہ راست بھی ایجنٹی کروا سکتا ہے اور انقلاب کے کچھ افراد کو خرید کر بھی خفیہ طریقے سے ایجنٹی کروا سکتا ہے اور باقی لوگوں کو اسکا علم ہی نہ ہو
خمینی نے انقلاب میں نظاہر یہ نعرے لگوائے کہ امریکہ السافاک (ایرانی انٹیلیجنس) کی مدد کر رہا ہے اور ایران کے تیل اور دوسرے اقتصادی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے بلکہ امریہکہ پوری دنیا کے مظالم کی پشت پناہی کر رہا ہے چنانچہ خمینی نے امریکہ کے بڑھتے ہوئے ناخن کاٹ دینے کی دھمکی دی
لیکن یہ سب کچھ امریکہ کی ملی بھگت سے ہو ریا تھا تاکہ کسی کو ہیرو بنایا جا سکے اور اس وقت ہیرو کے انتخاب میں ایک روحانی شخصیت وہی بہترین نظر آئی
لیکن انقلاب کے بعد کیا ہوا
1-اس نئے نظام کو تسلیم کرنے والوں میں امریکہ سر فہرست تھا
۲-بعض اخبارات نے ان امریکی ٓفیسروں کی تعداد 7 ہزار بتائی ہے جنہوں نے ایران نہیں چھوڑا تھا اور بعد میں بھی ادھر تھے
۳-پیٹرول کی اسی طرح امریکہ کے گوداموں میں ذخیرہ اندوزی ہوتی رہی بلکہ امریکہ آٓگے اسرائیل کو بھی دیتا رہا
جاری ہے
چنانچہ اسی مناسبت سے ان کے آباء کا احوال میں نے مندرجہ ذیل تھریڈ میں لکھا ہے جو ابھی جاری ہے
عبداللہ بن سباء- کس کس کا ناخدا
اس تھریڈ میں آج کے دور میں ان کے بھیس بدلنے کی نشاندہی کرنی ہے میں اپنے علم کے مطابق لکھتا ہوں باقی بھائی اصلاح و اضافہ کر دیں جزاکم اللہ خیرا
اس سلسلے میں اس وقت انکے سرخیل ایران کو دیکھتے ہیں جس نے اس وقت اسرائیل اور امریکہ کی دشمنی کا بھیس بدلا ہوا ہے اور اس میں وہ انتہاء کا تقیہ کر رہا ہے اس کا پول کھولنے کی کوشش کرتے ہیں
انقلاب ایران میں امریکہ کا کردار
جب ایران میں خمینی انقلاب لایا تو اس سے پہلے شاہ ایران امریکہ کا خاص بندہ تھا پس لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاہ ایران کے خلاف انقلاب لانے والے تمام ساتھی امریکہ کے خلاف تھے اور امریکہ نے انقلاب والوں کا ساتھ نہیں دیا تو یہ بات غلط ہے
سابق شاہ ایران اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے کہ جنوری 1979 کی ابتداٗ میں مجھے حیرت انگیز خبر ملی کہ جنرل ہویزر (یورپ میں مسلح امریکی افواج کا نائب سپہ سالار) بہت دنوں سے تہران میں ہے پہلے ہمیشہ مجھے اطلاع ہوتی تھی اور مجھ سے ملاقات ہوتی تھی کیونکہ میرا ملک نیٹو کا اتحادی تھا لیکن کیونکہ اس دور میں امریکی اپنے خصوصی طیاروں پرآٓتے اور ان پر سرکاری قواعد لاگو نہیں ہوتے تھے یہ آٓمد انتہائی رازدانہ تھی اور اسکا پتا نہ چلا
روسی اخبار نے اس موجودگی پر تنقید کی کہ اسکا مقصد فوجی انقلاب کی تیاری کرنا ہے کیونکہ اب امریکہ کو لگ رہا تھا کہ شاہ ایران روس کی طرف جا رہا ہے اور پیٹرول کی قیمت بڑھانے میں اسنے اسکی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے
شاہ نے روسی اتحاد سے ملاقات کی اور بعض ذمہ داروں کا استقبال کیا جس کو امریکہ نے شک کی نگاہ سے دیکھا
15-3-1979 کو نباء کی ایجنسی نے ان کا یہ بیان نقل کیا کہ ایران خالی پیٹرول سے ہی نہیں بلکہ اپنی وسعت کی وجہ سے بھی خلیج میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے
خمینی فرانس میں بیٹھ کر امریکہ کی مدد سے فرانس کے درینہ دوست شاہ ایران کے خلاف شازشیں تیار کرتا رہا اور فرانس نے اس کو کھلی چھٹی دئے رکھی
19 جنوری 1980 کو واشنگٹن الوکات میں آیا کہ امریکی ٹی وی (ان۔بی۔سی) نے ذکر کیا کہ ایران کی دینی شخصیت راضی الشیرازی جن کے انقلابی مجلس کے ساتھ تعلقات تو نہیں مگر خمینی کے دوست ہیں کا رازدانہ علاج امریکہ میں چار ماہ تک ہوا جن پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا- اب پتا نہیں ٹی وی والوں کو کیسے پتا چلا کہ وہ انقلابی مجلس سے نہیں کیوں کہ انکے نام تو اس وقت مخفی تھے
یاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور
جمال عبد الناصر کے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے سے لے کر اسکی ہلاکت تک وہ خود بھی اور اسکے ذرائع ابلاغ بھی امریکہ کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے تھے اور جواب میں امریکہ کے ذرائع ابلاغ سے بھی ایسا ہی ہو رہا تھا مگر بعد میں پتا چلا کہ وہ تو انکا ہی ایجنٹ تھا اور جمال عبد الناصر نے جس خط میں امریکہ پر تنقید کی تھی اور چیکوسلواکیہ سے اسلحہ خریدنے کا اعلان کیا تھا وہ خط انکی معاونت مائلز کوبلند نے کی تھی جو امریکی اجنسیوں کے بہت بڑے ملازم تھے- اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ تیسری دنیا کے لیڈروں سے کسی لیڈر اور امریکہ میں دشمنی کا مظاہرہ نظر آئے مگر حقیقت میں وہ امریکہ کے ایجنٹوں میں سے ہی کوئی ایجنٹ ہو
امریکہ براہ راست بھی ایجنٹی کروا سکتا ہے اور انقلاب کے کچھ افراد کو خرید کر بھی خفیہ طریقے سے ایجنٹی کروا سکتا ہے اور باقی لوگوں کو اسکا علم ہی نہ ہو
خمینی نے انقلاب میں نظاہر یہ نعرے لگوائے کہ امریکہ السافاک (ایرانی انٹیلیجنس) کی مدد کر رہا ہے اور ایران کے تیل اور دوسرے اقتصادی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے بلکہ امریہکہ پوری دنیا کے مظالم کی پشت پناہی کر رہا ہے چنانچہ خمینی نے امریکہ کے بڑھتے ہوئے ناخن کاٹ دینے کی دھمکی دی
لیکن یہ سب کچھ امریکہ کی ملی بھگت سے ہو ریا تھا تاکہ کسی کو ہیرو بنایا جا سکے اور اس وقت ہیرو کے انتخاب میں ایک روحانی شخصیت وہی بہترین نظر آئی
لیکن انقلاب کے بعد کیا ہوا
1-اس نئے نظام کو تسلیم کرنے والوں میں امریکہ سر فہرست تھا
۲-بعض اخبارات نے ان امریکی ٓفیسروں کی تعداد 7 ہزار بتائی ہے جنہوں نے ایران نہیں چھوڑا تھا اور بعد میں بھی ادھر تھے
۳-پیٹرول کی اسی طرح امریکہ کے گوداموں میں ذخیرہ اندوزی ہوتی رہی بلکہ امریکہ آٓگے اسرائیل کو بھی دیتا رہا
جاری ہے