• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تمام مسلم امھ سے ایک درخواست !!!

شمولیت
ستمبر 12، 2013
پیغامات
143
ری ایکشن اسکور
227
پوائنٹ
40
سر میں تیل اور کنگھا کرنے کی سنت میں حکمت اور فائدے

  • حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر انور کو کثرت سے تیل لگاتے تھے اور اپنی داڑھی شریف میں کنگھا فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر اقدس پر عمامہ شریف کے نیچے ایک کپڑا (سر بند )رکھتے تھے وہ کپڑا زیادہ تیل لگنے کی وجہ سے تیلی کا کپڑا معلوم ہوتا تھا۔(مشکوۃ،شمائل ترمذی ،رہبر زندگی)
  • سر میں قدرتی تیل کے مساج سے مرد اور خواتین بہت سی بیماریوں سے بچ سکتیں ہیں۔اس امر کا انکشاف ایوریریک تھراپی رپورٹ میں کہاگیا ہے۔رپورٹ کے مطابق مساج سے بیماریوں کا علاج صدیوں پرانا طریقہ ہے ۔ مساج سے جسم تروتازہ اور پرسکون ہو جاتا ہے۔بالخصوص خالص قدرتی تیل ہی مساج اضطراب اور بے چینی کی کیفیت کو ختم کرتا ہے۔نیز اس کی وجہ سے نبض کی رفتار بھی بہتر ہوجاتی ہے۔جلد کی اکثر بیماریوں کاعلاج قدرتی تیل کامساج ہی ہے۔جلد کی نگت نکھارنے اور جلد کو داغوں سے بچانے کے لئے مساج قدرتی تریاق ہے۔
  • درحقیقت قدرتی تیل جلد کی اندرونی تہوں میں جذب ہو کر جسم کومختلف بیماریوں کے وائرس سے محفوظ بناتاہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے خون کی گردش جسم کے درجہ حرارت کے متوازی ہو جاتی ہے۔جس سے پور ا جسم خوبصورت اور تندرست ہوجاتا ہے۔گردن اور کندھوں کا مساج ڈیپریشن اور اینگزایٹی کو ختم کر دیتا ہے۔(روزنامہ جنگ)
  • مزید یہ کہ سر کامساج ذہنی دباؤ ،اعصابی کھچاؤ ،درد سر کے پرانے مریض،گردن کے پٹھوں کا درد ،شانوں کا درد ،نظر کی کمزوری،چہرے کی سرجری کے لئے بہت مفید ہے۔(سائنس اورانسان)
  • سر میں کنگھا کرنے سے ایک حرارت اور انرجی پیدا ہوتی ہے جو بالوں کے ذریعے جسم کے اعصابی نظام کو قوی کرتی ہے حتی کہ مسلسل کنگھا کرنا بالوں کو بڑھاتا اور انہیں گنھا کرتا ہے۔

  • کنگھا کرنے کی سنت میں ایک حکمت یہ بھی ہے اگر بالوں میں کنگھا نہ کیا جائے تو ان میں جراثیم اٹک جاتے ہیں۔جو اندر ہی اندر بڑھتے رہتے ہیں اور ایک وقت میں خطرناک کیفیت اختیار کر لیتے ہیں نیز کنگھا نہ کرنا جوؤں کے خطرات کو بھی بڑھادیتاہے۔
 
شمولیت
ستمبر 12، 2013
پیغامات
143
ری ایکشن اسکور
227
پوائنٹ
40
ناخن پالش اور جدید سائنس


  • ناخن پالش ناخن کے مسامات کو بند کر دیتی ہے چونکہ پالش میں رنگ دار کیمیکل ہوتے ہیں
  • اس لئے یہ کیمیکل بے شمارامراض کا باعث بنتے ہیں۔
  • خاص طور پراس کا اثر جسم کے ہارمونری سسٹم پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔
  • جس سے خطرناک زنانہ امراض پیدا ہوتے ہیں۔نیز یہ رنگ اشتعال غصہ اوربلڈ پریشر ہائی کرتا ہے۔
  • اس لئے وہ لوگ جواس مرض میں پہلے مبتلا ہوتے ہیں ان کے امراض میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
  • ایک خلیجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق طبیبوں نے آج سے دو ہزار سال پہلے انگلیوں کے ناخنوں اور صحت کے درمیان تعلق کو دریافت کرلیا تھا قدیم مصر کی عورتیں بھی اپنے ناخنوں پر رنگ وروغن کرتی تھیں اورنعل پالش فر عون کے دور کی یادگار ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 12، 2013
پیغامات
143
ری ایکشن اسکور
227
پوائنٹ
40
سواری کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون کون سی سواریاں تھیں جن پرسواری کرتے تھے ؟

الحمدللہ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےگھوڑے ، خچر ، اونٹ ، اورگدھے پر سواری فرمائ‏ ، کبھی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے کی ننگی پیٹھ پراورکبھی کاٹھی ڈال کرسوارہوۓ ، بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے کودوڑاتے بھی تھے ، اکثرطورپر اکیلے ہی سوارہوتے اورکبھی اونٹ پر اپنے پیچھے کسی کوبٹھا بھی لیتے تھے ۔

اورکبھی ایسی بھی حالت ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آگے اور پیچھے بھی کسی بٹھاتے اورخود دومیان میں ہونے تواس طرح اونٹ پرتین اشخاص بیٹھتے تھے ، اوران پیچھے بیٹھنے والوں میں مرد بھی تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویاں بھی پیچھے بیٹھنے والوں میں شامل ہیں ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثرطورپر سواری یا تواونٹ تھی اور یا پھر گھوڑا ، اورخچر کے متعلق یہ معروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہی خچرتھا جوکسی بادشاہ نے آّپ کوھدیہ دیا تھا ، اورخچر عرب کی سرزمین پرمعروف نہیں تھے

بلکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخچر ھدیہ کیا گيا تویہ کہا گيا کہ :

کیا ہم گھوڑوں سےگدھوں کی جفتی نہ کروائيں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یہ کام تووہ لوگ کرتے ہیں جنہیں علم نہیں ہے ۔

دیکھیں سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2565 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ابی داود حدیث نمبر ( 2236 ) میں صحیح قرار دیا ہے ۔ .

دیکھیں زاد المعاد لابن قیم رحمہ اللہ تعالی ( 1 / 159 )
 
Top