محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,799
- پوائنٹ
- 1,069
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تقلید کی ممانعت!!!
صاحب مضمون نے جو خیانت کی ہے وہ کئی غیرمقلدین کا خاصہ ہے ، بس ادھوری بات پیش کرنا اور اپنے مسلک کو حق پر سمجھنا اور مخالف پر الزمات لگانا
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے جو بات پیش کی گئی ہے وہ ادھوری ہے مکمل قول اس طرح ہے
-وأخرجه البيهقي في"السنن الكبرى"(10/116): أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ،ثنا أبو الحسين محمد بن أحمد القنطري ،ثنا أبو الأحوص القاضي، ثنا محمد بن كثير المصيصي ،ثنا الأوزاعي ،حدثني عبدة بن أبي لبابة، أن بن مسعود -رضي الله عنه- قال :
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر ،فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي، فإنّ الحي لا تؤمن عليه الفتنة )).
جس تقلید سے انہوں نے منع کیا وہ تقلید کون سی تھی انہی کے زبانی پڑھیئے
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر
کوئی شخص دین میں کسی ایسی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو مقلد بھی ایمان لائے اور اگر وہ شخص کفریہ کلمہ کہے تو مقلد بھی کفریہ کلمہ کہے
اس تقلید کو اندھی تقلید کہتے ہیں اور حنفی مسلک میں حرام ہے حوالہ کے لئیے دیکھئيے تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی صاحب رحمہ اللہ
مذید عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں
فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي
اگر تقلید کرنی ہی ہو تو مردہ افراد کی جائے زندہ کی نہ کی جائے
ہم احناف تو ان فقہاء کی تقلید کرتےہیں جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں
جناب قیامت کی صبح سے پہلے ہی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تقلید کے حوالہ سے قول کا انہی کے قول سے جواب دے دیا ۔ اور آپ حضرات کی خیانت کو بھی آشکار کردیا
موضوع کو سمجھا کریں ایسے ہی کاپی پیسٹ نہ شروع کردیں ، کاپی پیسٹ کا مواد مہارے پاس بھی بہت ہے ۔تقلید کے بارے میں صحابہ کرام کی کیا رائے تھی۔
وعن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال لا یقلد احدکم دینہ رجلا ان آمن آمن وإن کفر کفر۔ (ارشاد الفحول ج ۲ص ۳۵۷ اعلام الموقعین ج۲ ص۱۶۸)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنے دین کے بارے میں کسی آدمی کی تقلید نہ کرے کہ جب وہ کسی بات پر ایمان لاتا ہے تو وہ بھی ایمان لاتا ہے جب وہ کسی بات کا انکار کرتا ہے تو وہ بھی انکار کرتا ہے۔
وقال ابن عباس رضی اﷲ عنہ یوشک ان تنزل علیکم حجارۃ من السماء أقول! قال رسول اللہ ﷺ وتقولون قال ابو بکر و عمر (زادالمعاد ج ۲، ص۱۹۵)
ترجمہ: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے قریب ہے کہ تم لوگوں پر آسمان سے پتھر برسیں میں تم سے کہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور تم مجھے کہتے ہو ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے۔
آج بھی بالکل یہی حال مقلدین کا ہے جب امام سے کوئی بات منقول نہ ہو تو وہ اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اسی طرح کوئی بات اگر حدیث کے خلاف امام سے منقول ہو پھر اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ الٹا کہتے ہیں کیا ہمارے امام کو یہ حدیث نہیں ملی تھی ؟ جب انہوں نے اس حدیث کو نہیں لیا تو ہم کیوں لیں۔ بالفاظ دیگر یعنی ہمارے امام سے نبی کریم ﷺ کی کوئی بھی حدیث نہیں چھوٹی ۔
اب ان سے کوئی پوچھے کیا آپ کے امام نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش تمام صحابہ کرام سے ملاقات کی تھی؟ اگر کہتے ہو کہ کی تھی تو یہ جھوٹ روزِ روشن کی طرح واضح ہے اور اگر کہتے ہو کہ نہیں کی تھی اور یقینا نہیں کی تھی تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ تمام حدیثیں بھی ان کو نہیں ملی تھیں
تو پھر سوال یہ ہو گا کہ جو حدیثیں آپ کے مسلک کے خلاف امام مالک رحمہ اللہ کے پاس ہیں یا امام شافعی رحمہ اللہ کے پاس ہیں یا امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے پاس ہیں یا امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ اور دیگر محدثین کے پاس ہیں انہوں نے اپنی طرف سے گھڑی ہیں یا ان کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کوئی دشمنی تھی یا ان کے خلاف اپنا مذہب اور جماعت تیار کرنا مقصود تھا حالانکہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں کسی صحابی کا فعل بھی حجت نہیں ہے۔
یہ بات ہم اپنے طرف سے نہیں کر رہے ہیں بلکہ جلیل القدر صحابی کی زبان سے سنیں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کسی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
قال عبد اﷲ بن عمر: أرأیت ان کان أبی نھیٰ عنھا وصنعھا رسول اللہ ﷺ أأمرأبي یتبع أم أمر رسول ﷺ فقال الرجل بل أمر رسول اللہ فقال: لقد صنعھا رسول ﷺ (رواہ الترمذی فی باب ماجاء فی التمتع رقم الحدیث ۸۲۴)
ترجمہ : تومجھے بتا اگر اس کام سے میرے والد نے منع کیا ہو اور اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو کیا ہو بتا کس کی اتباع کرنی چاہئے؟ میرے والد کی یا اللہ کے رسول ﷺ کی ؟ تو اس نے کہا بیشک اللہ کے رسول ﷺکی اتباع کی جائے گی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو پھر سن لے اللہ کے رسول ﷺ نے اس کام کو کیا ہے۔
اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک بھی نبی کریم ﷺ کی حدیث کے سامنے کسی صحابی کا قول یا فعل حجت نہیں تھا۔
موضوع کو سمجھا کریں ایسے ہی کاپی پیسٹ نہ شروع کردیں ، کاپی پیسٹ کا مواد مہارے پاس بھی بہت ہے ۔
ہم یہاں تقلید کی تعریف یا اس کی شرعی حیثیت کی بات نہیں کر رہے
آپ نے صرف یہ اعتراض کیا تھا
تمام مقلدین کو کھلا چیلنج ہے کسی ایک صحابی سے تقلید کا حکم ثابت کردیں ۔ روایت میں تقلید کا لفظ ہونا لازمی ہے
میں جو جواب دیا اس میں اس سوال کا جواب شامل ہے
مذید عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں
فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي
اگر تقلید کرنی ہی ہو تو مردہ افراد کی جائے زندہ کی نہ کی جائے
ہم احناف تو ان فقہاء کی تقلید کرتےہیں جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں
قیامت سے پہلے ہی آپ کو صحابی کی روایت میں تقلید کا لفظ دکھا دیا ، باقی آپ کے کاپی پیسٹ مواد غیر متعلق امور ہیں وہ ابھی ہمارا موضوع نہیں اور نہ آپ نے اپنی پہلی پوسٹ میں اس کو موضوع بنایا تھا
اس لئیے غیر متعلق امور کو کاپی پیسٹ کرنے سے متعلق باز رہیں ،
صاحب مضمون نے جو خیانت کی ہے وہ کئی غیرمقلدین کا خاصہ ہے ، بس ادھوری بات پیش کرنا اور اپنے مسلک کو حق پر سمجھنا اور مخالف پر الزمات لگانا
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے جو بات پیش کی گئی ہے وہ ادھوری ہے مکمل قول اس طرح ہے
-وأخرجه البيهقي في"السنن الكبرى"(10/116): أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ،ثنا أبو الحسين محمد بن أحمد القنطري ،ثنا أبو الأحوص القاضي، ثنا محمد بن كثير المصيصي ،ثنا الأوزاعي ،حدثني عبدة بن أبي لبابة، أن بن مسعود -رضي الله عنه- قال :
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر ،فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي، فإنّ الحي لا تؤمن عليه الفتنة )).
جس تقلید سے انہوں نے منع کیا وہ تقلید کون سی تھی انہی کے زبانی پڑھیئے
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر
کوئی شخص دین میں کسی ایسی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو مقلد بھی ایمان لائے اور اگر وہ شخص کفریہ کلمہ کہے تو مقلد بھی کفریہ کلمہ کہے
اس تقلید کو اندھی تقلید کہتے ہیں اور حنفی مسلک میں حرام ہے حوالہ کے لئیے دیکھئيے تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی صاحب رحمہ اللہ
مذید عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں
فإن كان مقلداً لا محالة ،فليقلد الميت ويترك الحي
اگر تقلید کرنی ہی ہو تو مردہ افراد کی جائے زندہ کی نہ کی جائے
ہم احناف تو ان فقہاء کی تقلید کرتےہیں جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں
جناب قیامت کی صبح سے پہلے ہی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تقلید کے حوالہ سے قول کا انہی کے قول سے جواب دے دیا ۔ اور آپ حضرات کی خیانت کو بھی آشکار کردیا
اولاآپ نہ پوسٹ پر غور نہیں کیا میں نہ کہا ہے کہ کسی صحابی سے تقلید کا حکم اور اس کا واجب ہونا ثابت کر دیں جس میں تقلید لفظ استعمال کیا گیا ہو۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہ رہے ہیں کہکسی صحابی سے تقلید کا حکم اور اس کا واجب ہونا ثابت کر دیں جس میں تقلید لفظ استعمال کیا گیا ہو
آپ نے نہ موضوع پڑھا اور نہ سمجھا ویسے ہی بیچ میں کود گئے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ جَابِرٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي مَرَرْتُ بِأَخٍ لِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ فَكَتَبَ لِي جَوَامِعَ مِنْ التَّوْرَاةِ أَلَا أَعْرِضُهَا عَلَيْكَ قَالَ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ ثَابِتٍ فَقُلْتُ لَهُ أَلَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِينَا بِاللَّهِ تَعَالَى رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا قَالَ فَسُرِّيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ إِنَّكُمْ حَظِّي مِنْ الْأُمَمِ وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنْ النَّبِيِّينَ
مسند احمد:جلد ہشتم:حدیث نمبر 220 ، مسند احمد جلد 4 صفحہ 265
حضرت عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بنوقریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا اس نے تورات کی جامع باتیں لکھ کر مجھے دی ہیں کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہیں تو نبی کریم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے- اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہارا حصہ ہوں ۔
اولا
آپ نے خیانت (یا جہالت) یہ کی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ادھورا قول ذکر کیا (اس خیانت پر آپ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو قیامت کے دن کیا جواب دیں گے وہ آپ حضرات کا معاملہ ہے )
آپ نے ذکر کیا
لا تقلدوا دینکم الرجال
اور دعوی کیا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے تقلید کی ممانعت ثابت کردی ۔ لیکن یہ نہ بتایا کہ وہ کون سی تقلید ہے جس سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے منع فرمایا
انہوں نے اس تقلید سے منع فرمایا کہ جس میں مقلد جس کی تقلید کر رہا ہوتا ہے اس کے ایمانی اعمال اور کفریہ اعمال کی بھی تقلید کرتا ہے
(( ألا لا يقلدن رجل رجلاً دينه ،فإن آمن آمن وإن كفر كفر
کوئی شخص دین میں کسی ایسی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو مقلد بھی ایمان لائے اور اگر وہ شخص کفریہ کلمہ کہے تو مقلد بھی کفریہ کلمہ کہے
اس تقلید کو اندھی تقلید کہتے ہیں اور حنفی مسلک میں حرام ہے حوالہ کے لئیے دیکھئيے تقلید کی شرعی حیثیت از تقی عثمانی صاحب رحمہ اللہ
اس لئیے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات سے یہ سمجھنا کہ انہوں نے بغیر کوئي قید لگائے تقلید سے منع کیا یہ صرف جہالت کے سوا کچھ نہیں
ثانیا
آپ نے کہا
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہ رہے ہیں کہ
فليقلد الميت
اگر آپ عربی گرائمر سے نابلد ہیں تو اپنے کسی عالم سے پوچھ لیں (ان سے دلیل ضرور مانگئیے گا کیوں کہ بغیر دلیل قول تو تقلید ہوجائے گا )
حدیث میں کئی حکم مندجہ ذیل صیغہ پر دئيے گے ہیں
ف + لام تاکیدی + حکمیہ صیغہ ،
اور یہاں بھی یہ صیغہ مستعمل ہے ۔
تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے وجوب بھی ثابت ہوگيا وللہ الحمد