• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تنازع - 1

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تنازع - 1

اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’ذَالِکَ خَیْرٌ‘‘(یہی بہتر ہے) ۔پس جس چیز پر اللہ تعالیٰ نے خیر کا اطلاق کیا ہے، اس کو کبھی بھی شر نہیں پہنچ سکتی، بلکہ وہ صرف دنیا اور آخرت میں بھی خیر ہی خیر ہے۔ پھر فرمایا: ’’وَاَحْسَنُ تَأْوِیْلاً‘‘ اور انجام کار کے لحاظ سے بھی بہتر ہے۔
یعنی دنیا اور آخرت میں انجام کے لحاظ سے بھی یہی بہتر ہے۔ یعنی معاملہ کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف لوٹانا، دنیا اور آخرت میں انجام کے لحاظ سے بہتر ہے۔ موجودہ دور میں بھی اور مستقبل میں بھی۔ الغرض جس قسم کا بھی مسئلہ ہو، جس دور اور جس شہر میں بھی پیش آئے، انجامِ کار کے لحاظ سے اس کا اللہ اور رسول اللہﷺ کی طرف لوٹانا ہی بہتر ہے، چاہے اللہ کے دشمن جو بھی کہتے رہیں یا بُری باتیں پھیلائیں۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ تنازع کے وقت اسے رسول اکرم ﷺ کے علاوہ کسی اور کی طرف لوٹانا صرف برائی ہے اور انجام کے لحاظ سے دنیا اور آخرت میں بدترین ہے۔

اور یہ چیز فی الواقع حقیقت ہے۔ آج کا دور اور گزرا ہوا دور بھی اس بات کا گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت سے ہٹ کر کسی کو اپنا حاکم بنانے کا نتیجہ دنیا میں بھی بُرا ہی نکلتا ہے اور آخرت میںجو عذاب ان کا منتظر ہے، وہ بہت بڑا اور بہت سخت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَكْبَرُ ۘ (القلم:33)۔
اور البتہ آخرت کا عذاب تو بہت ہی بڑا ہے، کاش انہیں سمجھ ہوتی۔
دنیا و آخرت میں انجام بدتر ہے، منافقین کے قول کے برعکس ہے۔
یعنی یہ جو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے اور ثابت کیا ہے یہ منافقین کے اقوال کے برعکس ہے جو کہ طاغوت سے فیصلے کروانا چاہتے ہیں اور ساتھ یہ کہتے ہیں:

اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّآ اِحْسَانًا وَّتَوْفِيْقًا(النسآء:62)
(قسمیں کھاتے ہیں) کہ ہمارا ارادہ تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا
اور یہ دعوے تو قدیم دور میں بھی تھے اور موجودہ دور میں بھی ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خلاف جو بھی بات کرنے کی جرأت کرتا ہے وہ تأویل یا شبہ کا سہارا لے کر ہی کرتا ہے۔ حتی کہ بُت جن کی پوجا کی گئی وہ بھی تأویل کے ساتھ ہی پوجے گئے۔ بہرے گونگے پتھر جیسا کہ عقلمند جانتے ہیں، وہ نفع و نقصان کے مالک بھی نہیں، اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کی گئی!! کیوں؟؟ اس لئے کہ انہوں نے کہا کہ یہ پتھر ’’ود‘‘ ’’سواع‘‘، ’’یغوث‘‘، ’’یعوق‘‘ اور ’’نسر‘‘ کی شکلوں پر تراشے گئے ہیں۔ اوریہ بڑے نیک بزرگ تھے، ان کا اللہ کے ہاں بڑا مقام تھا، اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان کی مورتیاں بنا کر ان کی عبادت کو یاد کر کے ان ہی کی طرح اللہ کی عبادت کریں۔ پھر ان پتھروں کی ہی پوجا شروع ہو گئی اور پھر آہستہ آہستہ ہر پتھر کی پوجا شروع ہو گئی۔
جیسا کہ سیرت کی کتابوں میں موجود ہے کہ لوگ بیت اللہ الحرام کعبۃ کی طرف آتے اور اس کی تعظیم کرتے تھے۔ اس لئے تعظیم کرتے تھے کہ یہ اللہ کا گھر ہے اور اس میں حجر اسود نصب ہے۔ پھر کچھ لوگ مکہ سے اپنے شہروں کو اپنے ساتھ پتھر لے جانا شروع ہو گئے اور یہ کہنے لگے کہ یہ مکہ کا پتھر ہے، یہ کعبہ کا پتھر ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے حرمت والے شہر سے ہے، تو لوگ ان کی تعظیم کرنے لگ گئے۔ ان سے برکت حاصل کرنے لگے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ان ہی پتھروں کو سجدہ کیا جانے لگا اور ان کی عبادت ہونے لگی۔
گویا کہ ہر چیز میں ’’تأویل‘‘ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایسے ہی وہ لوگ جو وضعی قوانین سے فیصلے کراتے ہیں، وہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد دین کے احکام کی مخالفت نہیں ہے اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک کا حکم اچھا اور بہتر نہیں ہے۔ ہم تو صرف احسان اور موافقت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ بالکل وہی بات ہے جو منافقین نے نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں کہی تھی، یہ اب کہہ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا:

اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ (البقرۃ:11)
(کہتے ہیں) کہ بیشک ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔
اور یہ کہتے ہیں کہ ہم تو اسلام اور جدید دور کے تقاضوں میں موافقت چاہتے ہیں۔ اسی لئے ہم وضعی قوانین سے فیصلے کراتے ہیں، اس کے باوجود ہم مسلم ہیں۔ قرآن و سنت سے محبت رکھتے ہیں۔ اور بہت ممکن ہے کہ یہ لوگ حج و عمرہ بھی ادا کرتے ہوں، صدقہ و خیرات بھی کرتے ہوں، نماز کے بھی پابند ہوں لیکن کہتے ہیں کہ اب ہم اکیسویں صدی سے گزر ہے ہیں اور زمانہ اور زمانے کے حالات و معاملات بدل گئے ہیں، تو بجائے اس کے کہ ہم پورے دین کا ہی انکار کر دیں، جدید دور کے مطالبات اور اسلام میں موافقت کر رہے ہیں۔ ہم تنظیم سازی اور قانون سازی کی اجازت دیتے ہیں۔ عورت کے متعلق اور اجتماعی (معاشرتی) زندگی کے متعلق ترقی پسند ہیں اور اس کے باوجود ہم مسلم ہیں۔
پس وہ لوگ یہ کبھی نہیں کہتے کہ تم اللہ کے ساتھ کفر کرو۔ اور غافل نوجوانوں اور قوموں کی مشکل یہی ہے کہ وہ دن رات دھوکہ کھاتے رہتے ہیں، وہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ انہیں کوئی اللہ کے ساتھ کفر کرنے کا کہے تو وہ معاملے کی خطرناکی سے متنبہ ہوں، اور اللہ کے دشمن اس سے بہت زیادہ چالاک ہیں، وہ یہ سب کچھ کیوں کہیں؟ کیونکہ وہ اپنے کام میں ماہر اور اس کے اسلوب سے واقف ہیں، اس لئے کہ ان کا بڑا استاد ابلیس ہے اور ابلیس کبھی بھی یہ نہیں کہتا۔ اس نے ہمارے باپ سیدنا آدم علیہ السلام سے بھی یہ نہیں کہا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق اس نے کہا تھا:

وَقَاسَمَہُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ (الاعراف:21)
اور (آدم و حواء علیہما السلام) دونوں کے رُوبرو قسم کھالی کہ یقین جانیئے میں تم دونوں کا خیرخواہ ہوں
یَـٰٓـاَدَمُ ھَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی
(شیطان کہنے لگا) اے آدم! کیا میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اور بادشاہت بتلاؤں کہ جو کبھی پرانی نہ ہو؟ (طہ:120) ۔
اور کہا تھا:
مَا نَہٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ(الاعراف:20)
(شیطان نے آدم و حواء کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ کروانے کیلئے کہا کہ) تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہو جاؤ یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ۔
اور ہر دور میں اس دور کے مطابق ہی مکر و فریب اور حقیقت کو چھپانے کے انداز ہوتے ہیں۔ اور یہ سادگی ہی ہے کہ ہم یہ تصور کر کے بیٹھے رہیں کہ ہمیں ضرور یہ کہا جائے گا کہ اللہ کے احکام کا انکار کر دو۔ اللہ کی نازل کردہ شریعت سے کفر کرو تو ہم کہیں گے کہ نہیں۔ اللہ کی قسم! ہم تو اللہ کے ساتھ کفر نہیں کریں گے۔ وہ ایسا کبھی بھی نہیں کریں گے، بلکہ وہ حیلے سے کام لیتے ہیں۔ مثلاً یہ کہتے ہیں کہ ہم تو موافقت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تو احسان اور اصلاح کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اور اللہ کی قسم! یہ لوگ کبھی بھی مصلح اور خیرخواہ نہیں ہو سکتے اور یہ تو ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالیشان ہے:

اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَہَاۗءُ وَلٰكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:13)
(مسلمانو!) خبردار ہو جاؤ! یقینا یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں لیکن جانتے نہیں۔
اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہر وہ آدمی جو اللہ کی شریعت کو مسخ کرنے کے متعلق کھتے ہیں، مغربی مفکرین، مستشرقین اور ان کے چیلوں کی اصطلاح میں وہ اصلاح پسند ’’مصلحین‘‘ کہلاتے ہیں اور اصلاح کے ضامن (ٹھیکیدار) کہلاتے ہیں۔ جیسے مصلح عبدالرحمن الکواکبی، مصلح جمال الدین افغانی، (مصلح اشرف علی تھانوی، مصلح احمد رضا بریلوی، مصلح قاضی حسین احمد، مصلح فضل الرحمن، مصلح جنرل ضیاء الحق، مصلح اسحق خان، مصلح نواز شریف، مصلحہ بینظیر، مصلح جنرل پرویز مشرف وغیرہ)۔ حتی کہ کمال اتاترک کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ مصلحین کے بڑے سرداروں میں سے ہے اور اس کی تحریک کا نام ہی ’’الحرکۃ الاصلاحیۃ‘‘ اصلاحی تحریک ہے۔
 
Top