• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تنقید یا تنقیص

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تنقید یا تنقیص

ہمارے ہاں تنقید قولا و فعلا بہت ہی عام ہے۔ تنقید اگر تنقید برائے تنقید نہ ہو اور اصلاح کی غرض سے ہو تو واقعتا ایک مستحسن امر ہے لیکن عموما دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ تنقید اصلاح کے جذبہ کے ساتھ نہیں بلکہ دوسرے میں نقص تلاش کرنے، اور پھر انہیں عام کرنے اور اس کی عیب جوئی کے لیے کرتے ہیں جو شرعا درست عمل نہیں ہے۔ کون سے عوامل ایسے ہیں جو ایک تنقید کو تنقید محض یا تنقید برائے تنقید یا تنقیص و تعییب سے بالاتر کرتے ہوئے ایک اصلاحی عمل بنا سکتے ہیں، ذیل میں ہم ان کا ایک جائزہ لے رہے ہیں:
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تنقید کے مقاصد

اکثر لوگوں کے نزدیک تنقید کرتے ہوئے اس کے مقاصد کا تعین نہیں ہوتا ہے یعنی وہ تنقید کیوں کر رہے ہیں، انہیں اس کی کچھ خبر نہیں ہوتی ہے :
1- ہمارے معاشروں میں اکثر تنقید برائے تنقید ہوتی ہے۔
2- یا تنقید کا مقصد تنقیص اور تعییب ہوتا ہے۔
3- یا لوگ تنقید اس لیے کرتے ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تنقید ان کے بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک حق ہے۔
4- یا تنقید اس لیے بھی کی جاتی ہے کہ آپ کو کسی شخص یا گروہ سے بغض و نفرت ہوتی ہے تو آپ کے لیے اس کے کسی بھی عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔
5- یا تنقید کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی نے آپ پر تنقید کی ہے تو آپ نے اس پر تنقید شروع کر دی ہے۔

ان بیان کردہ مقاصد اور محرکات کے ساتھ کیے گئے عمل کو تنقید کہنا ایک مشکل امر ہے، ہاں اسے رد عمل کی نفسیات یا تنقیص یا تعییب یا عصبیت یا عزت نفس یا مجادلہ یا مناظرہ کا نام ضرور دیا جا سکتا ہے۔

تنقید اکثر و بیشتر اصلاح کے جذبہ و مقصد کے تحت نہیں ہوتی ہے اگرچہ دعوی ہر ناقد کا یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس عمل سے اصلاح اور بناؤ چاہتا ہے۔ تنقید سے پہلے کسی بھی ناقد کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنی نیت و ارادے اور مقاصد کا جائزہ لینا اور ان پر نظر ثانی کرنا از بس ضروری ہے تا کہ یہ نہ ہو کہ جسے وہ اصلاح سمجھ رہا ہو، درحقیقت وہ اس کا ڈیپریشن ،فرسٹریشن اور ٹینشن ہو جسے وہ مد مقابل پر نکال رہا ہو یا وہ فریق مخالف پر اپنا غصہ نکالنے کو اعلی درجے کی کوئی معاشرتی یا دینی خدمت سمجھ رہا ہو۔ فرمان نبوی ہے:
انما الاعمال بالنیات وانما لکل امرئ ما نوی۔ (متفق علیہ)
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور انسان کو اپنے عمل کے بدلے محض وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے اپنے عمل میں نیت کی تھی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تنقید کی تعریف

ہماے ہاں اکثر لوگ ناقد تو ہوتے ہیں لیکن وہ تنقید کی تعریف سے کما حقہ آشنا نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں تنقید ایک اعتبار سے تنقیص یعنی نقص تلاش کرنا اور تعییب یعنی عیب جوئی کے مترادف بن چکا ہے۔ تنقید عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مادہ یعنی روٹ ورڈ "ن۔ق۔د" ہے۔ اسی سے لفظ نقدی بھی بنا ہے۔ عربی زبان میں نقد الدراھم کا معنی درہموں میں چھان پھٹک کے بعد کھوٹے سکوں کو علیحدہ کرنا ہے۔ پس آسان الفاظ میں نقد و تنقید صحیح و ضعیف کی تمیز کا نام ہے۔ یہ تو اس کا لغوی معنی ہے جبکہ اصطلاح معنی کے اعتبار سے کسی چیز کے تجزیاتی مطالعہ یعنی analysis کے علاوہ اس کی تشریح یعنی interpretation اور اس کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا یعنی evaluation اور پسندیدگی یعنی appreciation بھی اس میں شامل ہے۔

ایک دفعہ ایم اے انگلش لٹریچر کی ایک کلاس میں ہم لوگ معروف انگلش رائٹر بیکن کے مضامین کا مطالعہ کر رہے تھے تو پروفیسر صاحب نے بیکن کے ایک essay پر نقد کرنے کا کہا جب اس کے لیے بعض کتب چھانیں تو ان میں نقد کے نام پر تنقیدی پسندیدگی critical appreciation بہت زیادہ نظر آئی یعنی نقد و تنقید کے نام پر بیکن صاحب کی مدح و ثنا نقل کی جا رہی تھی تو اس وقت پروفیسر صاحب نے بتلایا کہ لٹریچر میں تنقید criticism کا معنی صرف اگلے کی دھلائی کرنا ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی اچھائی بھی اس پر نقد کی تعریف میں شامل ہے۔

لغوی اعتبار سے یہ بات درست ہے کیونکہ لغت میں نقد کا معنی بھی دراہم میں سکوں میں سے کھوٹے سکوں کو علیحدہ کرنا ہے یعنی جب کھوٹے سکے علیحدہ کریں گے تو کچھ کھرے سکے بھی ہوں گے، جن کی نشاندہی ہو گی۔ بس کسی شخص پر تنقید کا حقیقی معنی اس کے صحیح کو ضعیف سے جدا کرنا ہے اور اس معنی میں تنقید ہمارے معاشرے میں بہت کم پائی جاتی ہے کہ جس میں ایک ناقد کسی شخص کے صحیح اور غلط میں امتیاز کرے۔ عموما تنقید کسی کی غلطی کے بیان اور نشر و اشاعت کا دوسرا نام بن گیا ہے۔ کسی کی غلطی تو بیان ہو جاتی ہے لیکن اس کی صحیح کیا ہے، یہ بیان نہیں کیا جاتا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
تنقید کی اہلیت

ناقد کے لیے ایک اہم شرط یہ ہے کہ وہ نقد کی اہلیت رکھتا ہوں۔ اہلیت سے مراد یہ ہے کہ جس فن یا رجال فن پر کوئی شخص نقد کرنا چاہتا ہے تو اسے اس فن میں مہارت اور رسوخ حاصل ہونا چاہیے۔ کسی فن سے متعلق بات کرنے کے لیے تو شاید اس فن میں مہارت تامہ یا رسوخ کی ضرورت نہ ہو لیکن نقد و تنقید ایک اعلی تر علمی کام ہے جس کے لیے از بس ضروری ہے کہ ناقد کا علم متعلقہ فن کے صرف مبتدیات تک محدود نہ ہو۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نقد کا معنی صحیح کو ضعیف سے جدا کرنا ہے تو کسی بھی فن میں صحیح کو ضعیف سے جدا کرنے کا کام وہی شخص کر سکتا ہے جو اس فن کے ماہرین میں سے ہو۔ پس ایک میڈیکل فزیشن کی انجینیئرنگ پر اور ایک انجینیئر کی میڈیکل سائنس پر نقد ایک لایعنی اور عبث کام کہلائے گا کیونکہ یہ متعلقہ فنون کے رجال کی نقد نہیں ہے۔

مسلمان معاشروں بلکہ اب تو پورے عالم انسانی کا یہ المیہ بن چکا ہے کہ ہر فن کے اشخاص اور رجال، مذہب و دین پر نقد و تنقید کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ سائنسز، سوشل سائنسز، مینیجمنٹ سائنسز، آرٹس، میڈیکل سائنس اور انجینیئرنگ وغیرہ کے طلبا یا ماہرین فن اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ وہ مذہب یا اہل مذہب، علوم دینیہ یا علماء وفقہاء پر نقد کریں جبکہ انہیں مذہب یا دین اسلام کی الف، ب کا بھی علم نہیں ہوتا ہے۔ اگر کسی کو مذہب اور اہل مذہب یا مدرسہ اور اہل مدرسہ پر نقد کرنی ہی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ پہلے علوم عربیہ اور علوم شرعیہ کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرے اور پھر اپنا شوق پورا کرے۔ اپنے گھر میں میذیکل سائنس کی کتابیں پڑھ کر لوگوں کا علاج شروع کر دینے کی اجازت کون سی عقل عام دیتی ہے چہ جائیکہ کوئی شخص میڈیکل سائنس کی چند کتب کے انفرادی اور ذاتی مطالعہ کے نتیجہ میں ڈاکٹروں پر ہی نقد شروع کر دے۔ ناواقف اور جذباتی لوگوں کی طرف سے رجال فن پر ایسی تنقیدات کی مثالیں مذہب میں تو بہت موجود ہیں لیکن کسی اور فن میں ان کا مقام لطیفے سے کم شمار نہیں کیا جاتا ہے۔ لہذا کسی شخص کے لیے یہ درست طرز عمل نہیں ہے کہ وہ چند ترجمہ کی ہوئی کتابوں کی معلومات کو بنیاد بناتے ہوئے مذہب یا اہل مذہب، مدرسہ یا اہل مدرسہ یا علوم دینیہ یا علماء پر نقد شروع کر دے۔ خلاصہ کلام یہی ہے کہ کسی بھی فن یا میدان میں نقد و تنقید کے لیے فن یا میدان کا متخصص ہونا لازمی امر ہے ورنہ تو ایسا ناقد کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔

نفسیات کے ایک طالب علم نے راقم کی بعض تحریروں پر نقد کی جو اصول شریعت سے متعلق تھیں اور جواز یہ پیش کیا کہ تنقید کرنا ان کا بنیادی حق ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ نقد و تنقید ہر شخص کا بنیادی حق نہیں ہے بلکہ یہ اس شخص کا حق ہے جو تنقید کا اہل ہے یعنی جس فن یا رجال فن پر نقد کر رہا ہے، اس فن کے ماہرین میں سے ہو۔ دینی علوم میں اہلیت کا کم ازکم ظاہری معیار فاضل درس نظامی ہونا ہے جیسا کہ دنیاوی علوم میں اہلیت کا کم ازکم معیار کسی فن میں گریجویشن ( بی۔ اے) یا ماسٹر ( ایم۔ اے) ہونا ہے۔ اگر کوئی کسی فن میں ڈگری یا سرٹیفکیٹ ہولڈر نہ بھی ہو لیکن اس نے وہ فن ماہر اساتذہ اور شیوخ سے حاصل کیا ہو اور اس فن میں رسوخ بھی حاصل کیا ہو تو وہ بھی اس فن کے ماہرین میں ہی شمار ہو گا اور اسے اس فن کے رجال پر نقد کی اہلیت حاصل ہو گی۔ اسی طرح اگر کوئی عالم دین، فزکس یا بیالوجی کے ماہرین پر نقد شروع کر دیں تو یقینا ایسی نقد، نقد کہلانے کی مستحق نہیں ہے کیونکہ یہ علماء کا میدان نہیں ہے۔ بعض جلیل القدر علماء نے جو فلسفہ و منطق یا فلکیات و علم کلام میں ناقدانہ تحقیقات پیش کی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صدیوں یہ علوم مدارس دینیہ کے نصاب میں شامل رہے ہیں لہذا وہ علماء ان علوم و فنون کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے۔

ایک عامی کی طرف سے ماہرین فن سے ان کے نظریات کے حوالہ سے سوالات کیے جا سکتے ہیں، کسی نقطہ پر اعتراضات و اشکالات وارد کیے جا سکتے ہیں، مزید وضاحت طلب کی جا سکتی ہے لیکن تنقید ایک علیحدہ شیئ ہے جس کے لیے ناقد کا ایک اعلی علمی معیار کا حامل ہونا عقل عام کا تقاضا ہے۔ عموما نااہل ناقدین کی نقد کی بنیاد ان کا حد سے زیادہ جذباتی مزاج کا حامل ہونا ہوتا ہے یا ایسی تنقید کسی فرد یا جماعت یا گروہ کے ساتھ ضرورت سے زیادہ تعصب رکھنے کے سبب سے ہوتی ہے۔ پس جس فن سے ہمیں گہری واقفیت نہ ہو تو اس فن میں ہمیں اہل فن کو اہل فن پر نقد و جرح کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
شخصی اور علمی نقد

عموما ہمارے ہاں جو تنقید ہوتی ہے وہ شخصی تنقید ہوتی ہے یعنی جس میں کسی شخص کے افکار و نظریات کی بجائے اس کی ذات اور شخصیت کو رگیدا جاتا ہے۔ شخصی تنقید کو در اصل تنقیص یا تعییب کہنا چاہیے۔ اس کی بنیاد عموما علمی رویہ یا دلائل نہیں ہوتے ہیں بلکہ حد سے بڑھا ہوا تعصب، انتہا پسندی اور جذباتی مزاج ہوتا ہے۔ رد عمل کی نفسیات میں تو شاید کسی شخص کے لیے یہ گنجائش نکلے آئے کہ کسی نے اس پر شخصی تنقید کی ہے تو یہ بھی اس کے جواب میں اس پر شخصی نقد کرے، اگرچہ اس صورت میں بھی پسندیدہ امر یہی ہے کہ وہ اس کی شخصی تنقید کے جواب میں صبر کرے اور صرف علمی نقد کا جواب دے، لیکن عام حالات میں شخصی تنقید ایک بہت ہی قابل مذمت امر ہے۔ یہ واضح رہے کہ شخصی نقد سے ہماری مراد یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ کسی شخص کا نام لے کر اس کے نظریات پر تنقید نہیں کی جا سکتی ہے بلکہ شخصی تنقید سے ہمارے مراد یہ ہے کہ جس نقد میں کسی فرد کے افکار و نظریات کی بجائے اس کی صفات و احوال کو ہدف تنقید بنایا جائے۔

مثلا عموما یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ یونیورسٹیز میں مدارس اور علماء پر جو نقد کی جاتی ہے وہ شخصی نوعیت کی ہوتی ہے یعنی علماء شخصی اور ذاتی کوتاہیاں بیان کی جاتی ہیں اور طلبا کو مذہب اور اہل مذہب سے برگشتہ کرنے کے لیے باقاعدہ برین واشنگ کی جاتی ہے۔ میرے ایک تحریکی دوست لاہور کے ایک معروف لاء کالج میں نئے نئے ایل۔ایل۔بی کے سٹوڈنٹ تھے تو ایک دن کافی پریشان نظر آئے۔ راقم نے پوچھا تو بتلانے لگے کہ کالج کے پرنسپل صاحب کلاس میں علماء یا مولویوں کو بہت رگڑا لگاتے ہیں اور مجھ سے برداشت نہیں ہوتا ہے، اسی لیے پریشان ہوں۔ چھ ماہ بعد ہمارے وہ دوست ہمارے ہی سامنے علماء کو طعن کا نشانہ بنا رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ لاء کالج میں تو قانون کی تعلیم ہونی چاہیے تھی نہ کہ علماء کی برائیاں لیکن اس پر آپ ایک سروے کر لیں اور آپ یہ جان کر حیران ہوں گے انگریزی کے ڈیپارٹمنٹ سے لے کر سائنس کی فیکلٹی تک کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں مذہب یا مدرسہ یا علماء کی مخالفت بعض پروفیسر صاحبان کی مہربانی سے آپ کے مضامین کا لازمی جزو نہ بن چکی ہوں۔ اور اس برین واشنگ کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلامی تحریکوں سے وابستہ طلبا بھی بعض اوقات خدا کے وجود تک کے بارے بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایک اسلامی تحریک سے وابستہ ایک رکن نے بتایا کہ وہ اپنے پروفیسر حضرات کی طرف سے ایسی ہی نقد سے پریشان ہو کر تقریبا ایک ہفتہ تک کے لیے خدا کے وجود کے بارے بھی شدید قسم کے اضطراب اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئے تھے۔ یہ کوئی علمی نقد نہیں ہوتی ہے بلکہ شخصی رویوں اور کہانیوں کے بیان سے طلبا کو علماء و مدرسہ بیزار بنایا جاتا ہے کہ جس کا اگلا مرحلہ مذہب بیزاری ہوتا ہے۔

پس تنقید ایک تو شخصی نہیں ہونی چاہیے اور شخصی نقد ہو تو اعلانیہ نہ ہو کیونکہ اللہ تعالی کسی بھی شخص کی اعلانیہ برائی کو پسند نہیں فرماتے ہیں الا یہ کہ کسی کے ساتھ ظلم ہوا ہو تو مظلوم کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنا بدلہ لینے کے لیے ظالم پر اعلانیہ نقد کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
{لاَّ يُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللّهُ سَمِيعاً عَلِيماً }النساء148

دوسری بات یہ ہے کہ نقد اگر علمی ہو تو اس علمی نقد کی بنیاد بھی تعصب یا ہٹ دھرمی یا ضد یا گروہی نسبتیں وغیرہ نہ ہوں۔ جب ہم تعصب اور ضد کا نام لیتے ہیں تو فورا ہمارے ذہن میں اہل مدرسہ آ جاتے ہیں۔ بلاشبہ مدرسہ اور اہل مدرسہ میں تعصب اور انتہا پسندی ہے لیکن یونیورسٹی اور اہل یونیورسٹی میں تعصب، ضد اور انتہا پسندی کئی گنا زیادہ ہے۔ عصر حاضر کے سب سے بڑے ماہر فلکیات و ریاضی دان اسٹیفن ہاکنگ نے لکھا ہے کہ امریکن سائنسدان محض تعصب کی بنیاد پر روسی سائنسدانوں کی تحقیقات کا رد کرتے ہیں یعنی ان کی سوچ ہی یہ بن چکی ہے کہ چونکہ وہ امریکن نہیں ہے لہذا ہر حال میں ہم نے ان کا رد ہی کرنا ہے۔ یہی معاملہ اہل مذہب میں بھی موجود ہے کہ چونکہ فلاں عالم دین فلاں مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے تو اب میرا یہ بنیادی فرض ہے کہ میں اس کی کسی بھی بات کی تائید نہ کروں یا اس کی ہاں میں ہاں نہ ملاؤں، چاہے وہ میرے نزدیک حق ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے ہاں اکثر علمی نقد کی بنیاد یہاں سے طے ہوتی ہے کہ وہ ہمارے مکتبہ فکر کا ہے یا نہیں ہے جو کہ مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ علمی نقد کی بنیاد کسی بھی قسم کا جماعتی، گروہی، قومی، لسانی، شخصی یا ذاتی تعصب یا انتہا پسندی نہیں ہونی چاہیے ورنہ ایک غیر متوازن اور غیر معتدل نقد سامنے آئے گی۔

میں اپنے لیے بھی یہ بات شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ بعض اوقات کسی شخص کے موقف یا نقطہ نظر پر نقد میں پرسنل بھی ہو جاتا ہوں جو درست امر نہیں اور ہم سب کو اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
غیر متعلق نقد

ہمارے ہاں اکثر نقد ایسی ہوتی ہے جو غیر متعلق ہوتی ہے مثلا ایک صاحب نے میری ایک تحریر پر نقد کرتے ہوئے کہا کہ مدرسہ کا مائنڈ سیٹ ایسا ایسا ہوتا ہے یا اہل حدیث ایسے ایسے ہوتے ہیں۔ یعنی آپ کی گفتگو کسی ایک متعین شخص سے ہو رہی ہو لیکن آپ اس کو غصہ دلانے کے لیے یا اپنا ڈپریشن نکالنے کے لیے اس کے متعلقین مثلا خاندان یا مکتبہ فکر یا مسلک یا ممدوحین کو رگیدنا شروع کر دیں، یہ ایک غیر متوازن طرز عمل ہے۔ عموما میاں بیوی کی لڑائی میں، اگر زوجین یا ان میں سے کوئی ایک زیادہ جذباتی ہو، تو یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایک دوسرے کے متعلقین کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جو ایک غیر معتدل رویہ ہے۔ جب آپ کی گفتگو یا مکالمہ یا مباحثہ ایک شخص سے جاری ہے تو یہ غیر متعلق تنقید ہے کہ آپ اپنے فریق اور مد مقابل کے متعلقین پر چڑھ دوڑیں۔

غیر متعلقہ تنقید کی مثال یہ بھی ہے کہ آپ نے کسی موضوع پر کسی ایک فن کی روشنی میں گفتگو کی ہے اور اب ایک دوسرے صاحب اس پر ایک دوسرے فن کی روشنی میں نقد شروع کر دیتے ہیں۔ مثلا آپ نے تاریخ پر ایک مقالہ لکھا ہے اور ایک صاحب علم نفسیات اور اس کے اصولوں کی روشنی میں اس مقالے کا معیار جانچنے کی کوشش کرتے ہیں اور آپ کے مقالہ کو ایک غیر معیاری مقالہ قرار دے دیتے ہیں۔ اسی طرح ناقد صاحب کسی فلسفی کے فلسفے کو سائنسی تجربہ گاہ میں پرکھنا چاہتے ہیں یا کیمسٹری اور بائیالوجی کو علم منطق کے معیارات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ جب ماہرین نفسیات نے علم وحی کو علم نفسیات کی روشنی میں سمجھنا چاہا تو انبیا و رسل پر نازل شدہ وحی کو کبھی ان کی بچپن کی نامکمل خواہشات، کبھی خوابات اور کبھی جنون یا ہسٹیریا سے جوڑ دیا۔

قرآن مجید نے نشوز کی صورت میں بیوی کو مارنے کی اجازت دی یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کی عمر کے بچوں کو نماز نہ پڑھنے کی صورت میں مارنے کا حکم دیا یا جادو و نظر بد کے اثرات کے بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث مروی ہیں، اب ان نصوص کو جدید نفسیات کی روشنی میں پرکھنا شروع کر دیں تو اگر تو ناقد صاحب دین کے ساتھ کچھ مخلص ہیں تو تاویلات کے ذریعے ان نصوص کو انسانی نفسیات کے تابع بنا دیں گے اور اگر روشن خیال ہیں تو ان نصوص کا ہی انکار کر دیں گے۔

اہل سائنس کی اہل مذہب پر نقد کی نوعیت بھی ایسی ہی ہے یعنی وہ مذہب کو سائنسی اصولوں کی روشنی میں پرکھنا چاہتے ہیں۔ وہ مافوق العقل کو عقل اور ما فوق الحواس کو حواس کے ذریعے جانچنا چاہتے ہیں۔ کسی چیز کے معیار کو پرکھنے کا یہ اسلوب ایک غیر علمی اسلوب ہے۔ غیر متعلقہ تنقید کی مثال وہ نقد بھی ہے جو کسی گفتگو کے موضوع یا مرکزی خیال سے ہٹ کر ہو۔ پس معیاری تنقید کے لیے لازم امر ہے کہ وہ متعلقہ فن کے اصول و ضوابط، مبتدیات و معیارات کی روشنی میں ہو، متعلقہ مسئلہ کے بارے ہو اور ذات سے جماعت کی برائی تک پہنچنے والی نہ ہو۔ جماعتوں اور گروہوں پر بھی نقد ہو سکتی ہے لیکن مقصود کلام یہ ہے کہ ایک شخص پر نقد کے ضمن میں جماعت یا مکتبہ فکر کو برا بھلا کہنا درست طرز عمل نہیں ہے۔ اگر جماعت یا مکتبہ فکر کو نقد کی بنیاد بنانا ہے تو اس شخص کو چھوڑ کر پہلے اس جماعت یا مکتبہ فکر پر نقد کر لینی چاہیے اور دونوں جو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اصلاحی تنقید

اگر تو تنقید کے ذریعے اصلاح مطلوب ہو تو اس میں کسی شخص پر نقد سے پہلے کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی خوبیوں کو سراہا جائے۔ ہمارے ہاں کسی صاحب میں بیسیوں خوبیاں ہوتی ہیں لیکن ہم اس پر نقد کے دوران ان کا ذکر مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔ اگر خوبیوں کا ذکر نہ بھی کیا جائے صرف اس کی بھی تمیز ہو جائے کہ فلاں صاحب کے کلام میں یہ بات تو درست ہے لیکن اس سے مجھے اتفاق نہیں ہے تو اس سے بھی اصلاح کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

یہ ایک واضح امر ہے کہ جس پر آپ نقد کر رہے ہوتے ہیں، اس کی کچھ باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جن سے آپ کو اتفاق ہوتا ہے لہذا متعلقہ شخص پر نقد کرتے ہوئے ان اتفاقی امورکے بیان سے اگر آپ نقد کا آغاز کریں گے تو اپنے فریق مخالف کی اصلاح میں اس کے لیے ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ اپنے فریق مخالف کی کسی خوبی کی تعریف یا اس کے بعض نکات یا تحقیقات کو سراہنے یا اس سے اتفاق رائے کا اظہار کرنے سے ہماری علمی دھاک یا مقام و مرتبہ میں کسی قسم کی کمی نہیں آئے گی جیسا کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے فریق مخالف کی کچھ تعریف کر دی تو اس کا پلڑا بھاری ہو جائے گا گویا کہ علمی مقابلہ نہ ہو رہا ہو کوئی ریسلنگ ہو رہی ہو۔

ایک صاحب نے میری ایک تحریر پر نقد کی حالانکہ سوچ اور فکر کے اعتبار سے میرے اور ان کے درمیان بہت سی باتیں مشترک تھیں لیکن انہوں نے ان کا تذکرہ نہیں کیا۔ پس اگر کسی شخص کی ایک صد تحریریں یا مضامین ہیں اور کوئی صاحب دو یا تین مضامین سے عدم اتفاق کی بنا پر اس پر نقد شروع کر دیتے ہیں تو یہ نقد ان کا حق تھا لیکن انہیں اس نقد سے پہلے اس شخص کی تمام یا اکثر تحریروں کا مطالعہ کرنے چاہیے تھا تا کہ اختلاف کے ساتھ ساتھ اتفاقات بھی سامنے آ جاتے یا کم ازکم اختلافات کا دائرہ ہی وسیع ہو جاتا۔ راقم کا یہ معمول ہے کہ جب کسی شخصیت پر نقد کرنی ہو تو خود اس متعین شخص، اس کے مداحین اور اس کے مخالفین کا ممکنہ مہیا لٹریچر پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مثلا شیخ ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود پر جب میں نے لکھنا چاہا تو اس کی مکمل زندگی کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی۔ اس کی تقریبا چالیس کتب کا سرسری مطالعہ کیا۔ اس کے حق اور مخالفت میں لکھی جانے والی تقریبا ١٤٠ کتب کا طائرانہ جائزہ لیا اور پھر اس کے بعد اس کے نظریہ وحدت الوجود کے بارے تین صٍفحات مرتب کیے۔ اس تفصیلی مطالعہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس پر آپ نقد کر رہے ہوتے ہیں، اس کی شخصیت کا ہر پہلو آپ کے سامنے نکھر کر آ جاتا ہے اور نقد میں متوازن پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کی ایک صد کتب یا تحریریں ہوں اور آپ اس کی کسی ایک یا دو کتابوں یا تحریروں کو پکڑ کر نقد شروع کر دیں گے تو آپ کی یہ نقد معیاری نقد نہیں کہلائے گی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ متعلقہ شخص کی دوسری کتب میں اس کے نقطہ نظر کی وضاحت زیادہ بہتر انداز میں آ گئی ہو یا اس نے اپنی ان تحریروں سے رجوع کر لیا ہو وغیرہ ذلک۔ عام طور پر تو ناقدین کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ جن صاحب کی تحریر پر وہ نقد کر رہے ہیں تو ان کے کتنے اور کن عناوین سے تحریریں یا کتب یا تحقیقی مقالہ جات موجود ہیں۔ اسے اصطلاحا Case Study بھی کہا جاتا ہے کہ کس شخص پر نقد سے پہلے اس کی پیدائش، تعلیم و تدریس، کتب و مقالات اور تاریخ کا ایک سرسری تجزیاتی مطالعہ کیا جائے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
سطحی تنقید

سطحی تنقید وہ ہے جو فریق مخالف کا اصل موقف سمجھے بغیر کی گئی ہو۔ مثلا مجلس تحقیق اسلامی سے تقریبا تین ہزار صفحات میں حجیت قراءات پر تین خصوصی نمبر شائع کیے گیے تو ایک صاحب نے اا صفحات پر مشتمل ایک ناقدانہ مضمون لکھا اور دعوی کیا کہ میں نے ان خصوصی نمبرز کی اشاعت کا جواب دے دیا ہے۔ مثلا راقم نے ایک ١٢٠ صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی مضمون لکھا تو ایک صاحب نے چار سطروں میں اس پر تنقید کا حق ادا کر دیا۔ صحیح معنوں میں ایسی تنقید، تنقید نہیں کہلاتی ہے اگرچہ عرفی معنوں میں اسے نقد ہی کہا جاتا ہے۔ اسے ہمیں مناسب اصطلاح میں عدم اتفاق کا اظہار کہہ سکتے ہیں۔ کسی ایم۔فل یا پی۔ایچ۔ڈی کے مقالہ سے بھی عدم اتفاق کا اظہار چار چھوڑ تو دو سطروں میں بھی ہو سکتا ہے لیکن اسے نقد کا نام نہیں دینا چاہیے۔ نقد اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک اعلی تر علمی و تحقیقی کام ہے نہ کہ عدم اتفاق اور عدم تعرض کے اعلان عام کا دوسرا نام۔ لہذا چار سطروں میں کسی کی تغلیط بھی مناسب امر نہیں ہے۔ تغلیط یعنی کسی کو غلط ٹھہرانے کی بنیاد علمی دلائل اور ٹھوس تجزیہ پر مبنی ہونی چاہیے نہ کہ شاہی فرمان کے اسالیب اور جرنیلی لب و لہجہ میں۔

راقم نے فکر غامدی پر تقریبا چار صد صفحات میں ایک کتاب مرتب کی جس پر ایک صاحب نے چار سطروں میں تبصرہ کیا کہ یہ کتاب نفسیات کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے لیکن انہوں نے میری کتاب سے کوئی حوالہ نقل نہیں کیا۔ ایک صاحب نے راقم کے سنت کے بارے ١٢٠ صفحات کے ایک مضمون پر چار سطروں کا یہ بیان صادر فرمایا کہ یہ غامدی اور اسراری اور اصلاحی فکر ہے اور اس سے زیادہ کوئی دلیل بیان کرنے کی وہ ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں۔ فکر غامدی نامی کتاب کا موضوع اصول شریعت یا اصول قانون یعنی اسلامک جیورس پروڈنس ہے لہذا اسے علم نفسیات کی روشنی میں پرکھنا ہی ایک غلط طرز عمل ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی صاحب علم نفسیات کی کتاب کو اصول قانون کی روشنی میں جانچنا شروع کر دیں۔ صرف ایک علم ایسا ہے کہ جس کی روشنی میں ہر نظریاتی علم کو جانچا جا سکتا ہے اور وہ علم، علم وحی ہے کیونکہ وحی معیار علم ہے جبکہ کوئی اور علم دوسرے علوم کے لیے معیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسفہ، علم کلام، منطق، سیاسی، عمرانی، معاشی نظریات اور علم نفسیات وغیرہ کو کتاب و سنت کی روشنی میں اس عتبار سے پرکھا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کیا حق ہے اور کیا باطل ہے۔

پس پہلی بات تو یہ ہے کہ اصول شریعت کی کتاب کو علم نفسیات کی روشنی میں جانچنا ہی غلط رویہ ہے لیکن اگر کسی صاحب نے جانچنا ہی ہے تو اس کا صحیح طریق کار یہ تھا کہ پہلے نفسیات کا ایک مسلمہ بیان کیا جاتا اور پھر راقم کی ایک عبارت نقل کی جاتی اور پھر یہ ثابت کیا جاتا کہ یہ اس عبارت میں اس اصول کا لحاظ نہیں کیا گیا ہے تو یہ ایک علمی رویہ تھا لیکن ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ اسی طرح جن صاحب نے تصور سنت کے موضوع پر نقد کی تھی، انہیں چاہیے تھا کہ وہ میرے مضمون کے مرکزی خیال کو بیان کرتے اور اس سے کچھ اقتباسات نقل کرتے اور پھر ان کا تقابل غامدی اور اصلاحی صاحب وغیرہ کی عبارتوں سے کرتے اور ان میں وجہ مشابہت تلاش کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا جو مناسب امر نہیں ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top