• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید کا تارک کافر ہے

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
توحید کا تارک کافر ہے
شیخ الاسلام مجدد الدعوہ محمد بن عبدالوہاب کی تصنیف”مفید المستفید علی کفر تارک التوحید“ سے کچھ اقتباسات
توحید اور شرک کے مسئلے کو اپنی دعوت اور تحریک کی بنیاد بنانا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔توحید کوسب سے بڑا اور پہلا فرض ماننا اور شرک کو سب سے بڑی اور سب سے سنگین برائی تسلیم کرنا اسلام کی ابتدا ءہے مگر جوبات توجہ طلب ہے و ہ یہ کہ اللہ کے ساتھ شرک دنیا میں سب سے بڑی برائی اور اصل فساد تو ہے ہی لیکن یہ اس سے بھی بڑی برائی اس وقت ہوتی ہے جب یہ دنیا میں اسلام کے نام پر ہو اور کلمہ پڑھ کر کیا جائے۔ شرک غیر اللہ کو پکارنے سے ہوتا ہے ۔غیر اللہ کے ساتھ دل کا لو لگانے سے ہوتا ہے۔ غیر اللہ کا خوف کھانے اور غیر اللہ کو سجدہ و رکوع کرنے سے ہوتا ہے۔ غیراللہ کے لئے چڑھاوا اور ذبیحہ دینے سے ہوتا ہے۔ غیر اللہ کے قانون اور دستور کو تسلیم کرنے سے ہوتا ہے اور جب شرک ہوجائے تو پھر کلمہ گو ہونا کسی کام کا نہیں ہوتا۔ یہ کلمہ لاالہ الا اللہ کبھی شرک اور نظام شرک کےلئے موت کا پیغام ہوتا کرتا تھا۔ غیر اللہ کی بندگی کے خاتمے کااعلان ہوتا تھا۔۔۔۔ مگر آج یہ کلمہ گو ہونا اسی شرک اور اسی نظام شرک کے تحفظ کےلئے ڈھال کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ مسلمانوں پر شرک کے نظام اور قانون کو مسلط کرنے والوں کے لیے ہمیشہ یہ عذر پیش کردیا جاتا ہے کہ صاحب یہ کلمہ گو ہیں اور مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کلمہ گو محفوظ رہیں ۔ شرک کو اس کلمہ گوئی۔ ’لا الہ الاا للہ‘ کی ڈھال فراہم کرنے میں سب سے بڑا کردار وقت کے گمراہ علماءاور رہبان کا ہوتا ہے۔ انہی کی حب دنیا اور ہوس قیادت کے سبب دنیا میں شرک کے نظام کو اسلام کے نام پر تحفظ دلایا جاتا ہے۔
ایسے علماءاور زہاد کا پردہ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کا لٹریچر خو ب خوب چاک کرتا ہے۔۔ نجد کے یہ شیخ۔ ۔۔ اور مسعود عالم ندوی صاحب کی زبان میں وقت کے بدنام مصلح۔۔۔ اپنے لٹریچر میں قرآن و حدیث اور فہم و سلف سے مدد لے کر اپنے قاری کے ذہن سے اس گرہ کو خوب کھولتے ہیں کہ بھائی اس کلمہ گوئی کا اعتبار بس تبھی تک ہے جب تک یہ شرک کے راستے کی دیوار بنار رہے مگر جب کوئی شرک کرلے تو یہ کلمہ اس کا تحفظ تو کیا کرے گا الٹا یہی کلمہ اس کے خلاف نالش کرتا ہے اوراسلامی ریاست میں اس کی جان و مال کی حرمت تک ختم کرادیتا ہے۔ اس سلسلہ میں محمد بن عبدالوہاب کا رسالہ”مفید المستفیدفی کفر تارک توحید“‘ تو بہت ہی واضح اور مفید ہے اور واقعتا اسم با مسمی ہے ۔اس میں وہ جا بجا اپنے شیوخ امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کے اقوال سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ اس کے کچھ اقتباسات کااردو استفادہ قارئین ایقاظ کی نذر ہے۔ ہر اقتباس کے آخر میں رسالہ کے عربی متن کا صفحہ نمبر درج کیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد دو لائنیں چھوڑ دی گئی ہیں تاکہ اقتباسات آپس میں مد غم نظر نہ آئیں۔
اس رسالہ کا عربی متن ہم نے جامعہ الامام محمد بن سعود کے شائع کردہ مجموعہ ”مولفات الشیخ الا مام محمد بن عبدالوہاب“ کی پہلی جلد (صفحہ ٢٨١۔٣١٠) سے لیا ہے کسی صاحب کو اصل عربی متن کی کاپی درکار ہو تو ہم سے بذریعہ ڈاک طلب کی جاسکتی ہے(ایقاظ)
توحید اور شرک کے مسئلے کو اپنی دعوت اور تحریک کی بنیاد بنانا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔توحید کوسب سے بڑا اور پہلا فرض ماننا اور شرک کو سب سے بڑی اور سب سے سنگین برائی تسلیم کرنا اسلام کی ابتدا ءہے مگر جوبات توجہ طلب ہے و ہ یہ کہ اللہ کے ساتھ شرک دنیا میں سب سے بڑی برائی اور اصل فساد تو ہے ہی لیکن یہ اس سے بھی بڑی برائی اس وقت ہوتی ہے جب یہ دنیا میں اسلام کے نام پر ہو اور کلمہ پڑھ کر کیا جائے۔ شرک غیر اللہ کو پکارنے سے ہوتا ہے ۔غیر اللہ کے ساتھ دل کا لو لگانے سے ہوتا ہے۔ غیر اللہ کا خوف کھانے اور غیر اللہ کو سجدہ و رکوع کرنے سے ہوتا ہے۔ غیراللہ کے لئے چڑھاوا اور ذبیحہ دینے سے ہوتا ہے۔ غیر اللہ کے قانون اور دستور کو تسلیم کرنے سے ہوتا ہے اور جب شرک ہوجائے تو پھر کلمہ گو ہونا کسی کام کا نہیں ہوتا۔ یہ کلمہ لاالہ الا اللہ کبھی شرک اور نظام شرک کےلئے موت کا پیغام ہوتا کرتا تھا۔ غیر اللہ کی بندگی کے خاتمے کااعلان ہوتا تھا۔۔۔۔ مگر آج یہ کلمہ گو ہونا اسی شرک اور اسی نظام شرک کے تحفظ کےلئے ڈھال کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ مسلمانوں پر شرک کے نظام اور قانون کو مسلط کرنے والوں کے لیے ہمیشہ یہ عذر پیش کردیا جاتا ہے کہ صاحب یہ کلمہ گو ہیں اور مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے کلمہ گو محفوظ رہیں ۔ شرک کو اس کلمہ گوئی۔ ’لا الہ الاا للہ‘ کی ڈھال فراہم کرنے میں سب سے بڑا کردار وقت کے گمراہ علماءاور رہبان کا ہوتا ہے۔ انہی کی حب دنیا اور ہوس قیادت کے سبب دنیا میں شرک کے نظام کو اسلام کے نام پر تحفظ دلایا جاتا ہے۔
ایسے علماءاور زہاد کا پردہ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کا لٹریچر خو ب خوب چاک کرتا ہے۔۔ نجد کے یہ شیخ۔ ۔۔ اور مسعود عالم ندوی صاحب کی زبان میں وقت کے بدنام مصلح۔۔۔ اپنے لٹریچر میں قرآن و حدیث اور فہم و سلف سے مدد لے کر اپنے قاری کے ذہن سے اس گرہ کو خوب کھولتے ہیں کہ بھائی اس کلمہ گوئی کا اعتبار بس تبھی تک ہے جب تک یہ شرک کے راستے کی دیوار بنار رہے مگر جب کوئی شرک کرلے تو یہ کلمہ اس کا تحفظ تو کیا کرے گا الٹا یہی کلمہ اس کے خلاف نالش کرتا ہے اوراسلامی ریاست میں اس کی جان و مال کی حرمت تک ختم کرادیتا ہے۔ اس سلسلہ میں محمد بن عبدالوہاب کا رسالہ”مفید المستفیدفی کفر تارک توحید“‘ تو بہت ہی واضح اور مفید ہے اور واقعتا اسم با مسمی ہے ۔اس میں وہ جا بجا اپنے شیوخ امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم کے اقوال سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ اس کے کچھ اقتباسات کااردو استفادہ قارئین ایقاظ کی نذر ہے۔ ہر اقتباس کے آخر میں رسالہ کے عربی متن کا صفحہ نمبر درج کیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد دو لائنیں چھوڑ دی گئی ہیں تاکہ اقتباسات آپس میں مد غم نظر نہ آئیں۔
اس رسالہ کا عربی متن ہم نے جامعہ الامام محمد بن سعود کے شائع کردہ مجموعہ ”مولفات الشیخ الا مام محمد بن عبدالوہاب“ کی پہلی جلد (صفحہ ٢٨١۔٣١٠) سے لیا ہے کسی صاحب کو اصل عربی متن کی کاپی درکار ہو تو ہم سے بذریعہ ڈاک طلب کی جاسکتی ہے(ایقاظ)
امام ابن تیمیہ (اپنی کتاب ”نقض المنطق“ میں) متکلمین کے رد میں ان کے آئمہ کے بعض احوال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
” دنیامیں آج تک جو بھی شرک پھیلا وہ دراصل ایسے ہی لوگوں کی آراءکے زیر اثر پھیلا ۔ چنانچہ یہی لوگ شرک کے داعی ہیں اور یہی شرک کے فاعل۔ اور اگر ان میں سے کوئی شرک کی دعوت نہیں دیتا تو اس سے منع بھی بہرحال نہیں کرتا بلکہ دونوں فریقوں (اہل شرک اور اہل توحید) کےلئے سکو ت اقراراختیارکرتا ہے ۔ پھر ان میں کوئی اگر موحدین کو’ ترجیح‘ دے تو کوئی دوسرا مشرکوں کو ترجیح دے رہا ہوتا ہے۔ یا پھر یہ لوگ دونوں فریقوں سے ہی لا تعلقی اختیار کئے رہتے ہیں۔ تو بس اس نکتے کو بہت غور سے سمجھو کہ یہ سمجھنا نہایت فائدہ مند ہے۔
چنانچہ ان منطقیوں کے سب بڑے، چاہے وہ متقدمین ہو ں یا متاخرین، اس لحاظ سے شرک ہی کے داعی رہے ہیں، اسی طرح ان کے وہ لوگ جو ملت اسلام میں پائے گئے وہ بھی نہ تو شرک سے منع کرنے والے ہیں اور نہ ہی توحید کے داعی بلکہ شرک کو کسی نہ کسی انداز سے وجہ جواز فراہم کرنے والے اور اس کی دعوت دینے والے ہیں۔ یا پھر کم از کم توحید کا حکم دینے والے تو بہرحال نہیں۔ میں نے ان کی تصنیفات میں ملائکہ اور گزر جانے والی شخصیات کی عبادت کا تذکرہ تک پایا ہے ۔ چاہے و ہ شخصیات انبیاءہوں یا کوئی اور۔ جو کہ شرک کا اصل الاصول ہے ۔حتیٰ کہ جب وہ توحید کا دعویٰ کرتے ہیں تب بھی ان کی توحید قول کی توحید ہی رہتی ہے ۔نہ کہ وہ توحید جو عبادت اور عمل میں ہوا کرتی ہے۔ جبکہ وہ توحیدجسے لے کر انبیاءمبعوث ہوتے رہے ہیں یہ وہ توحید ہے جس میں دین (اطاعت اور بندگی) کو لازماً ایک اللہ کے لیے خالص کرنا ہوتا ہے ۔ اور ایک اللہ وحدہ لا شریک ہی کی عبادت روا رکھی جاتی ہے جبکہ یہ وہ چیز ہے جس کوتویہ لوگ جانتے پہچانتے تک نہیں۔ چنانچہ یہ لوگ اگر قول و اقرار اور کلامی انداز سے موحد ہوں بھی تو ان کی توحید عملی توحید نہیں ہوتی جبکہ سعادت اور نجات پانے کےلئے صرف اتنا کافی نہیں بلکہ یہ لازم ہے کہ ایک اللہ وحدہ لاشریک ہی کی بندگی ہوبس ایک وہی معبود رہے او ر اس کے سوا کسی کی بندگی روا نہ رکھی جائے۔ لا الہ الااللہ کا دراصل یہی معنی اور مراد ہے“۔
سو اللہ تم پر رحمت کرے امام ابن تیمیہ کی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ اس موضوع کو سمجھنے کےلئے انتہائی فائدہ مند ہے۔ اس میں جو سب سے اہم سمجھی جانی والی بات ہے وہ یہ کہ اس میں آپ ایسے شخص کی حالت سے آگاہ ہوتے ہیں جو اس دین کا اقرار تو کرتا ہے اور یہ گواہی بھی دے دیتا ہے کہ یہی حق ہے اور ےہ کہ شرک باطل ہے اور زبان سے ہر وہ بات تسلیم کرلیتا ہے جو اس سے اسلام تقاضا کرتا ہے مگر وہ دل و جان سے اور عملاً اس حقیقت کوتسلیم نہیں کرتا چاہے اس لئے کہ وہ اس سے کچھ بغض رکھتا ہے یا چاہے اس لئے کہ وہ اس سے پوری محبت اور لگائو نہیںرکھتا جیسا کہ ان منافقوں کا حال ہے جو آج ہم میں موجود ہیں ، اور چاہے وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ وہ کسی دنیوی مفاد یاتجارت کو ترجیح دیتا ہو۔ سو ایسے لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں تو خارج بھی ہوجاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
ذلک بانہم امنواثم کفروا (سورہ المنافقون) ایسا اس لیے ہے کہ یہ ایمان تو لائے مگر پھر کفر کرگئے“
اوریہ آیت بھی من کفرباللہ من بعد ایمانہ الامن اکرہ (سورہ النحل) ” جس نے ایمان لے آنے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کیا“ تا آنکہ آیت کے یہ لفظ ذلک بانہم استحبوا الحیاہ الدنیا علی الاخرت یعنی ” یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دے دی“۔
چنانچہ اگریہ لوگ زبان کی حدتک یہ شہادت دے دیں کہ یہ توحید ہی اللہ اور رسول کا دیا ہوا دین ہے اور اس کی خلاف ورزی شرک اور باطل ہے تو اس سے صرف وہی شخص دھوکا کھا سکتا ہے جسکی بصیرت کمزور پڑ چکی ہو ۔ جبکہ ان اہل حریملا اور ان جیسوں کا معاملہ تو اس سے بھی کہیں سنگین اور شدید ہے جو کہ دین توحید پر کھلی دشنام طرازی کرتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ حق وہی ہے جس پر آج کی اکثریت ہے ۔ چنانچہ اپنے مذہب کی حقانیت پر ان کی دلیل ”لوگوں کی اکثریت“ ہے اسکے علاوہ بھی یہ لوگ قول وفعل میں ارتداد کی شدید ترین اورسنگین ترین صورتوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایسی حالت میں اگر وہ لفظی طورپر توحید کوحق اور شرک کو باطل کہہ بھی دیں اور بے شک وہ اپنے معاشرے میں بت تراشی نہ بھی کرتے ہوں تب بھی ان کے دفاع پر ایک ملحد ہی تیار ہوگاجویہ کہے کہ یہ لوگ تو بت پرستی کو شرک ہی سمجھتے ہیں اور’ تو حید‘ کوہی حق مانتے ہیں جبکہ اسکے خیال میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ جتنا مرضی اللہ کے خالص دین کے خلاف دشنام طرازی روا رکھیں، دین اسلام میں انحراف پیدا کریں ،شرکیہ افعال کو سراہیں اور ان شرکیہ افعال کا دفاع کرنے میں اپنی زبان کا پورا زور صرف کریں۔ اپنا مال لگائیں اور اپنا زور بازو تک کام میں لانے سے دریغ نہ کریں (ایسے کج فہموں کو) اللہ ہی ہدایت دے۔
امام ابن تیمیہ مانعین زکوت کی بابت جو گفتگو فرماتے ہیں وہ بھی قابل توجہ ہے:
”صحا بہ نے مانعین زکوت سے یہ کبھی نہیں کہا کہ تم زکوت کے وجوب کا اقرارکرتے ہو یا انکار۔ خلفاءراشدین اور صحابہ کرام کے حوالے سے ایسی کوئی بات تاریخ میں محفوظ نہیں ۔بلکہ صدیق اکبر نے عمر فاروق سے جو لفظ کہے وہ یہی تھے واللہ لومنعونی عقالاً اوعنا قا کانوا یو دونہا الی رسول اللہ لقاتلتھم علی منعہ”کہ اللہ کی قسم ان لوگوں نے اگر مجھے ایک رسی دینے سے بھی احتراز کیا جو یہ رسول اللہ کو ادا کیاکرتے تھے تو میں اسکے نہ دیئے جانے پر ان سے جنگ کرونگا“۔چنانچہ ابوبکر نے ان لوگوں سے جنگ کرنے کاجوازاوربنیاد انکا’ صرف زکوت ادا نہ کرنا‘ قرار دیا نہ کہ اس کے ’وجوب کا انکار‘۔ جبکہ ایسی بھی روایات ملتی ہیں کہ ان میں سے بعض لوگ زکوت کے وجوب کا اقرار کرتے تھے مگر بخل کی بنا پر اس کو ادا کرنے پرتیار نہ تھے مگر اس کے باوجود خلفاءراشدین کی ان سبھی کے بارے میں ایک ہی سنت تھی اور وہ یہ کہ ان سے قتال کیا گیا ان کے خاندانوں کو غلام بنایا گیا ان کا مال مال غنیمت ٹھہرا ۔ جنگ میں ان کے جو مرے وہ جہنم واصل سمجھے گئے اور ان سبھی کو اہل ارتداد کا نام دیا گیا۔ اور یہ جو رویہ ان سے اختیار کیا گیاوہ صدیق اکبر کے بڑے فضائل میں سے شمار کیا گیاکہ اللہ نے ایسے وقت میں آپکو اس بات پر دلجمعی عطا فرمائی جب دوسرے لوگ اس پر توقف کرگئے تب آپ نے ان سے مناظرہ فرمایا تا آنکہ وہ سبھی آپ کی بات کے قائل ہوئے۔ ہاں جہاں تک مسیلمہ کی نبوت کے اقراریوں سے قتال کرنے کی بات تھی تو اس پر صحابہ میں کوئی بھی اختلاف رائے نہ ہوا“۔
اسی بات سے آپ امام ابن تیمیہ کی تکفیر معین (کسی شخص یا اشخاص کو متعین کرکے کافر قرار دینے) کی بابت رائے بھی بخوبی جا ن سکتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک زکوت سے امتناع پر لوگوں کا قتل اور ان کے عورتوں بچوں کو غلام بنانا ثابت ہے۔ یہ ہیں وہ امام ابن تیمیہ جن سے دین کے دشمن یہ بات منسوب کرتے ہیں کہ وہ تکفیر معین کے قائل نہیں۔ اس عبارت کے آخر میں امام ابن تیمیہ رقم طراز ہیں :
وکفر ھولا ءوادخالھم فی اھل الردہ مثبت با تفاق الصحابہ المستند الی نصوص الکتاب و السنہ
یعنی” ان لوگوں کو کافر قرار دینا اوران کا اہل ارتداد میں شمار کرنا تمام صحابہ کے اتفاق سے ثابت ہے جس پر کتاب اور سنت کی نصوص سے سند بھی ملتی ہے“
چنانچہ ایسے لوگوں کی تکفیر اور قتال جن کا مقصد چاہے اتباع حق ہی ہو اس پر جو اشکال پایاجاسکتا ہے اسے رفع کرنے کی سب سے بڑی دلیل صحابہ کرام کا وہ اجماع ہے جو انہوں نے مانعین زکوت کے خلاف قتال اور ان کو اہل ارتداد میں شمار کرکے ان کے پسماندگان کو غلام بنانے کی صورت میں کیا۔ اور یہ اسلام کی تاریخ میں وہ پہلا قتال ہے جو ایسے لوگوں کے خلاف کیا گیا جو اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ جبکہ یہ” کلمہ گو “ لوگوں کے خلاف قتال کا واضح ترین واقعہ بھی ہے جو کہ صحابہ کرام سے لے کر آج تک علماءحق کے ہا ں مسلمہ ہے۔
امام ابو الوفاءبن عقیل فرماتے ہیں:
”جاہلوں اور بدعملوں کےلئے جب شریعت کے احکامات گراں گزرتے ہیں تو وہ شریعت کے طور طریقے چھوڑ کر اپنے من گھڑت طور طرےقے اختیار کرلیتے ہیں اور وہ ان کو بہت آسان لگتے ہیں۔ جبکہ میرے نزدیک وہ اپنے ان طور طریقوں کو اپنا کر کافر قرار پاتے ہیں جیسے مثلاً قبروں کی تعظیم، مردوں کو پکارنا اور حاجتیں پوری کروانا وغیرہ“
--------------------------------------------------------------------------------------
_______________________________________(رسالہ کا صفحہ٨١ تا ١٢)
امام ابن القیم اغاثہ اللہفان میں قبروں کی تعظیم کے ردکے سلسلے میں لکھتے ہیں:
وقد آل الا مربھو لا ءالمشرکین الی ان صنف بعض غلاتھم فی ذلک کتابا سماہ مناسک المشاھد ولا یخفی ءان ھذا مفارقہ لدین الاسلام ودخول فی دین عباد الاصنام
” ان مشرکوں کا معاملہ اس نوبت تک کو بھی جا پہنچا کہ ان کے بعض غالیوں نے ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام یہ رکھا ” مناسک زیارات“ اور یہ تو کوئی پوشیدہ بات نہیں کہ یہ دین اسلام سے کھلی مفارقت ہے اور بت پرستوں کے دین میں جا شامل ہونا“
یہ امام ابن القیم نے جس مصنف کا ذکر کیا ہے اس کا نام ابن المفید ہے امام ابن القیم نے اس کے بار ے میںجوفرمایا وہ تو آپ نے دیکھ ہی لیا۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امام ابن القیم تکفیر معین( کسی شخص یا اشخاص کو معین کرکے اسے کافر قرار دینے) کے سرے سے انکاری ہوں ۔
جبکہ تکفیر کے بارے میں آئمہ مذاہب کے اتباع نے جو کچھ کہا ہے وہ بہت زیادہ ہے اور اس میں سے تھوڑا سا یہاں ذکر ہوا ہے۔ ان میں سب سے سخت اور جاندار کلام حنفیہ کی کتب میں پایا جاتا ہے۔
--------------------------------------------------------------------------------------
-----------------------------------------------------------------------(رسالہ کا صفحہ٤٢)
مضمون کا لنک
 
Top