- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,409
- پوائنٹ
- 562
ارشاد باری تعالی ہے کہ " أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ "(الزمر:60) کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے ، نیز فرمایا :" تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا "(القصص:83) یہ آخرت کا گھر ہم انہی لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں بڑائ اور کبر چاہتے ہیں اور نہ فساد۔ إِن فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ "ان کے دلوں میں اور کچھ نہیں ٍصرف تکبر ہے اور وہ اس کو پہنچنے والے نہیں "(غافر:56)
عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم : لایدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر ، قال رجل :ان الرجل یحب ان یکون ثوبہ حسنا ونعلہ حسنا ؟ قال :ان اللہ جمیل یحب الجمال ، الکبر بطرالحق وغمط الناس ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے دل میں ایک ذرےکے برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا ، ایک شخص نے سوال کیا : آدمی کو یہ پسند ہے کہ میرا لباس اچھا ہو اور اسکے چوتے اچھے ہوں (کیا یہ کبر میں داخل ہے )؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا : یقینا اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے ، کبر کا مطلب حق کا ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ۔ (صحیح مسلم :91الایمان ۔ سنن الترمذی : 1999 البر والصلہ )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبر کی دوقسمیں قرار دیں ۔اول حق کے مقابلے میں کبر : یعنی حق کو رد کردینا اور اسے قبول نہ کرنا۔ دوم مخلوق کے مقابلے میں تکبر ، کبر جو دخول جنت میں مانع ہے یہ اسکی دوسری قسم ہے یعنی لوگوں کو اپنے سے حقیر سمجھنا ، خود بینی میں مبتلا ہونا اور "ہم چنیں دیگر ے نیست " کے مرض سے دوچار ہونا اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب آدمی اپنے کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے اور لوگوں پراپنی برتری ظاہر کرناچاہتاہے کہ جو کچھ وہ سمجھ رہا ہے وہی حق ہے ، جو عقل اسے ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے ۔ سچ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ" کسی شخص کے برا ہونے کی لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے" (صحیح مسلم )
کبر کے مقابلہ میں عجز و انکساری اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں دنیوی امور مین تکبر کے ساتھ ساتھ ”دینی تکبر“ بھی بہت عام ہے۔ اگر ایک شخص کو اللہ نے کسی قسم کی نیکی کی توفیق دی ہے تو وہ اپنے جیسی نیکی نہ کرنے والوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ نے کسی کو قرآن و حدیث کے حقیقی علم سے نوازا ہے تو وہ اس اعزاز پر اترانے لگتا ہے۔ خود کو عوام الناس سے برتروافضل اور دوسروں کو کمتر و حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اپنی بات چیت، معاملات اور باڈی لینگویج سے یہ ظاہر کرنے لگتا ہے کہ بس مَیں ہی مَیں ہوں، تم کیا شئے ہو۔ اللہ ہم سب کو بالعموم اور اصحاب علم و ہنر کو بالخصوص ہر قسم کے تکبر سے نجات عطا کرے آمین ثم آمین
عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم : لایدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر ، قال رجل :ان الرجل یحب ان یکون ثوبہ حسنا ونعلہ حسنا ؟ قال :ان اللہ جمیل یحب الجمال ، الکبر بطرالحق وغمط الناس ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے دل میں ایک ذرےکے برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا ، ایک شخص نے سوال کیا : آدمی کو یہ پسند ہے کہ میرا لباس اچھا ہو اور اسکے چوتے اچھے ہوں (کیا یہ کبر میں داخل ہے )؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا : یقینا اللہ تعالی خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے ، کبر کا مطلب حق کا ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ۔ (صحیح مسلم :91الایمان ۔ سنن الترمذی : 1999 البر والصلہ )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبر کی دوقسمیں قرار دیں ۔اول حق کے مقابلے میں کبر : یعنی حق کو رد کردینا اور اسے قبول نہ کرنا۔ دوم مخلوق کے مقابلے میں تکبر ، کبر جو دخول جنت میں مانع ہے یہ اسکی دوسری قسم ہے یعنی لوگوں کو اپنے سے حقیر سمجھنا ، خود بینی میں مبتلا ہونا اور "ہم چنیں دیگر ے نیست " کے مرض سے دوچار ہونا اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب آدمی اپنے کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے اور لوگوں پراپنی برتری ظاہر کرناچاہتاہے کہ جو کچھ وہ سمجھ رہا ہے وہی حق ہے ، جو عقل اسے ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے ۔ سچ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ" کسی شخص کے برا ہونے کی لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے" (صحیح مسلم )
کبر کے مقابلہ میں عجز و انکساری اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں دنیوی امور مین تکبر کے ساتھ ساتھ ”دینی تکبر“ بھی بہت عام ہے۔ اگر ایک شخص کو اللہ نے کسی قسم کی نیکی کی توفیق دی ہے تو وہ اپنے جیسی نیکی نہ کرنے والوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ نے کسی کو قرآن و حدیث کے حقیقی علم سے نوازا ہے تو وہ اس اعزاز پر اترانے لگتا ہے۔ خود کو عوام الناس سے برتروافضل اور دوسروں کو کمتر و حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اپنی بات چیت، معاملات اور باڈی لینگویج سے یہ ظاہر کرنے لگتا ہے کہ بس مَیں ہی مَیں ہوں، تم کیا شئے ہو۔ اللہ ہم سب کو بالعموم اور اصحاب علم و ہنر کو بالخصوص ہر قسم کے تکبر سے نجات عطا کرے آمین ثم آمین
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چُن لئے
قطرے جو تھے مِرے عرقِ انفعال کے
قطرے جو تھے مِرے عرقِ انفعال کے