محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
تکفیر معین میں جلد بازی نہ کرنے کایہ مطلب بھی نہیں کہ سلف کے ہاں سرے سے تکفیر معین نہیں ہے اور یہ کہ ہمارے سلف نے متعین اشخاص کی تکفیر ہی نہیں کی ۔ اہلسنت کا باقاعدہ اصول ہے کہ وہ شروط پوری ہونے اور موانع دور ہونے کے بعد تکفیر معین کرتے ہیں تاکہ اہل اسلام کو فتنوں سے بچایا جا سکے ۔یہی وجہ ہے کہ علی ابن ابی طالب نے کچھ لوگوں کو آگ میں جلادیا اور محمد بن عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابن الخضیری نے اپنے والد (شیخ الخضیری جو احناف کے بڑے ائمہ میں سے ہیں )سے روایت کی ہے کہ شہر بخارا کے فقہا ابن سینا کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ کافر تھا مگر بلا کا ذہین تھا ۔اس پر محمد بن عبدالوہاب یہ اضافہ کرتے ہیں کہ بخارا کے تمام فقہا نے متعین طورپر ابن سینا کی تکفیر کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے دین میں متعین طور پر تکفیر کرنا روا ہے ۔(ہدایۃ المستفید)تکفیر معین:
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حق کو باطل بنا کر پیش کیا جاتا رہے جس سے عامتہ المسلمین گمراہ ہو سکے تو علماء حق کا خاموش رہنا جرم بن جاتا ہے اسلام میں اس مداہنت کی کوئی گنجائش نہیں موجودہ دور میں بھی علماء کرام نے اور خصوصاً سعودیہ عرب کے دار الافتاء الجنۃ الدائمۃنے قادیانیوں کی مجموعی طور پر اور مرزا غلام احمد کی متعین طور پر تکفیر کی ۔
علامہ ابن باز اور الجنۃ الدائمۃ کے دیگر علماء کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
سوال :کیا علماء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو کافر کہہ دیں اور اس پر کفر کا الزام لگا دیں ؟
جواب :''کسی کی تعیین کئے بغیر (کسی کفریہ حرکت کی بنا پر ) کافر قرار دینا شرعاً درست ہے ۔مثلاً یہ کہنا '' جس مصیبت کا ٹالنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اگر کوئی شخص اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے غیر اللہ سے فریاد کرے تو وہ کافر ہے ۔''مثلاً کوئی شخص کسی نبی یا ولی سے یہ درخواست کرے کہ وہ اسے یا اس کے بیٹے کو شفا دے دے ۔
کسی معین شخص کو اس صورت میں کافر کہا جا سکتا ہے جب وہ کسی ایسی چیز کا انکار کرے جس کا جزو دین ہونا ہر خاص و عام کو معلوم ہو۔مثلاً نماز ،زکوٰۃ یا روزہ وغیرہ ۔ جو شخص اس کا علم ہونے کے بعد بھی انکار کرتا ہے اسے کافر کہنا واجب ہے ۔لیکن اسے نصیحت کرنی چاہیے اگر توبہ کر لے تو بہتر ہے ورنہ اسلامی حکمران اسے سزائے موت دیں ۔اگر کفریہ اعمال کے ارتکاب کے بعد بھی کسی خاص شخص کو کافر کہنا درست نہ سمجھا جائے تو پھر کسی مرتد پر بھی حد نافذ نہیں ہو سکتی ۔( فتاویٰ دارالافتاء سعودی عر ب :فتوی نمبر :۶۱۰۹،جلد دوم ،ص:۹۷ )