• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین دن سے زیاد بول چال چھوڑنا حلال نہیں

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
تین دن سے زیاد بول چال چھوڑنا حلال نہیں

عَنْ أَبِى أَيُّوبَ الأَنْصَارِىِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا وَخَيْرُهُمَا الَّذِى يَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ » [متفق علیه]
’’ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زیادہ چھوڑے رکھے وہ دونوں ملیں تو یہ اس طرف منہ پھیر لے اور وہ (اس طرف) منہ پھیر لے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔‘‘
تشریح:
1۔ تین راتوں سے زیادہ حلال نہ ہونے سے صاف ظاہر ہے کہ تین راتوں سے زیادہ آپس میں بول چال چھوڑ دینا حرام ہے، کیونکہ بات چیت چھوڑ دی تو سارے حقوق ہی ضائع کر دیے جو ایک دوسرے پر واجب تھے، مثلا سلام، قبول دعوت، عیادت، چھینک کا جواب وغیرہ۔
2۔تین رات تک باہمی گتفگو چھوڑنا جائز ہے کیونکہ ناراضگی اور غصہ انسانی فطرت ہے ، اسے مد نظر رکھتے ہوئے اتنی رعایت کر دی گئی ہے تاکہ پہلے دن غصے میں ٹھہراؤ آ جائے، دوسرے دن انسان کچھ سوچے، تیسرے دن واپس لوٹ آئے عموما تین دنوں میں غصہ ختم یا کم ہو جاتا ہےم۔ اس سے زیادہ قطع تعلق کرے گا تو قطع حقوق لازم آئے گا۔
3۔ قطع تعلق جو حرام ہے، سلام کہنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« لاَ يَكُونُ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلاَثَةٍ فَإِذَا لَقِيَهُ سَلَّمَ عَلَيْهِ ثَلاَثَ مِرَارٍ كُلُّ ذَلِكَ لاَ يَرُدُّ عَلَيْهِ فَقَدْ بَاءَ بِإِثْمِهِ » [سنن أبى داؤد:4105]
’’کسی مسلمان کےلئے جائز نہیں کہ کسی مسلمان کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے پس جب وہ اسے ملے تو اسے تین دفعہ سلام کہے، اگر (دوسرا آدمی) ہر دفعہ اسے جواب نہیں دیتا تو وہ اس کے گناہ کے ساتھ لوٹے گا۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر دوسرے بھائی کو اس کے بات نہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہو تو صرف سلام سے قطع تعلق ختم نہیں ہو گا بلکہ پہلے جیسے تعلقات بحال کرنے سے ختم ہو گا، مگر اوپر والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام وہ صورت ہے جس میں دونوں ملتے ہیں مگر منہ پھیر لیتے ہیں اور سلام تک نہیں کہتے، البتہ اس میں شک نہیں کہ اخوت دینی جس تعلق کا تقاضا کرتی ہے وہ پہلے تعلقات مکمل بحال کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
4۔ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے کسی کے ساتھ بول چال بند کر دینا جائز ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں کے جنگ تبوک میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے مسلمانوں کو ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قطع کلام مخلص ساتھیوں کے لئے ہے جن پر بات چیت چھوڑنے سے اثر پڑتا ہو اور و حق کی طرف پلٹ آنے والے ہوں ورنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے کفار اور منافقین سے بات چیت ترک نہیں فرمائی۔ کفار اور منافقین کے ساتھ قطع تعلق دل سے ہوتا ہے زبان سے نہیں، البتہ مخلص مسلمانوں سے ظاہری عتاب ترک کلام سے ہوتا ہے، دل سے قطع تعلق نہیں ہوتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جزاک اللہ خیرا بھائی۔
تین رات تک باہمی گتفگو چھوڑنا جائز ہے کیونکہ ناراضگی اور غصہ انسانی فطرت ہے ، اسے مد نظر رکھتے ہوئے اتنی رعایت کر دی گئی ہے تاکہ پہلے دن غصے میں ٹھہراؤ آ جائے، دوسرے دن انسان کچھ سوچے، تیسرے دن واپس لوٹ آئے عموما تین دنوں میں غصہ ختم یا کم ہو جاتا ہےم۔ اس سے زیادہ قطع تعلق کرے گا تو قطع حقوق لازم آئے گا۔
« لاَ يَكُونُ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلاَثَةٍ فَإِذَا لَقِيَهُ سَلَّمَ عَلَيْهِ ثَلاَثَ مِرَارٍ كُلُّ ذَلِكَ لاَ يَرُدُّ عَلَيْهِ فَقَدْ بَاءَ بِإِثْمِهِ »
[سنن أبى داؤد:4105]
اللہ تعالی عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا کثیرا عمر بھائی جان۔
کتنی ہی اچھی تعلیمات ہیں دین کی۔ اور ہمارے معاشرے کا المیہ بنتا جا رہا ہے کہ اپنے ہی رشتہ داروں سے سالہا سال قطع تعلقی، چھوٹی چھوٹی باتوں پر رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہر کوئی معافی کی امید لگائے بیٹھتا ہے اور مجال ہے جو خود کبھی دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کا سوچیں۔ رائی کا پہاڑ بنا کر اور قائل کے مطلب کے خلاف بات اخذ کر کے دوسروں پر الزامات لگا دینا اور پھر دوسروں کی غلطیوں کی جگہ جگہ تشہیر کرتے پھرنا۔ معلوم نہیں ہمارے اندر وہ رحم دلی، محبت اور اخوت کے جذبات کہاں گئے۔ پورا معاشرہ ہی اس اخلاقی تنزل کی لہر میں آیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قطع تعلقی جیسے گناہ کبیرہ سے محفوظ فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
 
Top