- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ صاحب
سنن ابو داؤد:
3541- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ شَفَعَ لأَخِيهِ بِشَفَاعَةٍ فَأَهْدَى لَهُ هَدِيَّةً عَلَيْهَا فَقَبِلَهَا فَقَدْ أَتَى بَابًا عَظِيمًا مِنْ أَبْوَابِ الرِّبَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۶۱) (حسن)
ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'' جس نے اپنے کسی بھائی کی کوئی سفارش کی اور اس نے اس سفارش کے بدلے میں سفارش کرنے والے کو کوئی چیز ہدیہ میں دی اور اس نے اسے قبول کر لیا تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہو گیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ کسی کے حق میں اچھی سفارش یہ مندوب اور مستحسن چیز ہے، اور بسا اوقات سفارش ضروری اور لازمی ہو جاتی ہے ایسی صورت میں اس کا بدل لینا مستحسن چیز کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے جس طرح سود سے حلال چیز ضائع ہو جاتی ہے.
ایک بھائی کا سوال:
زید نے بکر کے لیے کسی جائز کام کی سفارش کرنی ہے.
زید وہ سفارش فون پر بھی کر سکتا ہے اور بکر کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ فون کرنے پر بھی کام بن جائے گا لیکن بکر اُسے مجبور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں شہر خود جا کر سفارش کرو وہاں پر تم اپنے اہل و عیال کو بھی اسی بہانے مل لینا. آنے جانے کا خرچہ میں دیتا ہوں.
کیا زید کے لیے خرچہ لینا درست ہے؟..جبکہ یہ خرچہ وہ سفارش کے بدلے نہیں لے رہا؟
محترم شیخ صاحب
سنن ابو داؤد:
3541- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ شَفَعَ لأَخِيهِ بِشَفَاعَةٍ فَأَهْدَى لَهُ هَدِيَّةً عَلَيْهَا فَقَبِلَهَا فَقَدْ أَتَى بَابًا عَظِيمًا مِنْ أَبْوَابِ الرِّبَا >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۰۲)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۶۱) (حسن)
ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'' جس نے اپنے کسی بھائی کی کوئی سفارش کی اور اس نے اس سفارش کے بدلے میں سفارش کرنے والے کو کوئی چیز ہدیہ میں دی اور اس نے اسے قبول کر لیا تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہو گیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ کسی کے حق میں اچھی سفارش یہ مندوب اور مستحسن چیز ہے، اور بسا اوقات سفارش ضروری اور لازمی ہو جاتی ہے ایسی صورت میں اس کا بدل لینا مستحسن چیز کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے جس طرح سود سے حلال چیز ضائع ہو جاتی ہے.
ایک بھائی کا سوال:
زید نے بکر کے لیے کسی جائز کام کی سفارش کرنی ہے.
زید وہ سفارش فون پر بھی کر سکتا ہے اور بکر کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ فون کرنے پر بھی کام بن جائے گا لیکن بکر اُسے مجبور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں شہر خود جا کر سفارش کرو وہاں پر تم اپنے اہل و عیال کو بھی اسی بہانے مل لینا. آنے جانے کا خرچہ میں دیتا ہوں.
کیا زید کے لیے خرچہ لینا درست ہے؟..جبکہ یہ خرچہ وہ سفارش کے بدلے نہیں لے رہا؟