• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جان و مال کا نذرانہ

ابوحتف

مبتدی
شمولیت
اپریل 04، 2012
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
318
پوائنٹ
0
منحوس وار آن ٹیرر ہزاروں جوانوں کی زندگیاں نگل چکی ہے۔دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاک فوج کے جوان دس سالوں سے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ حاکم وقت بھارت گیا اور اسے کامیاب ترین دورہ قرار دیا۔امیر ترین حاکم خواجہ غریب نواز ؒ کی درگاہ پر گیااور دس لاکھ ڈالر کے نذرانے کاا علان کر دیا۔ایک طرف ڈالروں میں نذرانہ ہے اور دوسری طرف بیش بہا جانوں کا نذرانہ ہے۔ایک طرف منت ہے اور دوسری طرف نیت ہے۔منت کو مراد ملے یانہ ملے ، نیت کو مراد مل جاتی ہے۔ جوانوں کی نیت دفاع پاکستان ہے اس کے لئے خواہ جان چلی جائے۔ شہادت نصیب والوں کو نصیب ہوتی ہے۔جان کا نذرانہ مال کے نذرانے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔جان ذاتی ہوتی ہے جبکہ مال ”خزانے“ سے ادا کیا جاتا ہے۔حاکم وقت اگر اتنا سخی ہے تو سب سے پہلے اپنوں پر مال خرچ کرے ۔ اجمیر شریف کے دورے پر کسی کو اعتراض نہیں البتہ کچھ فیصلے جب حدود تجاوز کر جاتے ہیں تومعاملہ مشکوک ہوجاتا ہے۔ خواجہ غریب نواز ؒ کی درگاہ کے لئے دس لاکھ ڈالر کے نذرانہ کا اعلان حاکم وقت کی ذاتی عقیدت ہے بشرطیکہ نذرانہ ذاتی جیب سے ادا کیا جائے۔اللہ کے حضور وہی نذر نیاز قبول ہوتی ہے جو حلال کمائی سے ادا کی جائے ۔خواجہ غریب نوازؒ سخی دل تھے،جو نذر نیاز آتی تھی غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم فرما دیتے تھے،غریب نواؒ ز خدائی اصولوں کے پابند تھے کہ سب سے پہلے اپنے گھر کودیکھو،اگر گھر میں لوگ بھوکے ہیں تو باہر نذر نیاز کا حکم نہیں۔غریب نوزاؒ کو حقیقی روحانی خوشی جب ہوتی اگر لاکھوں ڈالر پاکستان کے غریب عوام پر خرچ کرنے کا اعلان کیا جاتا ۔بھارت کے دورے کو تب کامیاب مانا جائے گا جب مسئلہ کشمیر اور سیاچن کے تنازعات حل ہو جائیں گے۔ اب جبکہ بھارت ایک پسندیدہ اور دوست ملک قرار دے دیا گیا ہے،سیاچن سے فوجیں واپس بلا لینی چاہئیں کہ دوستوں سے کیا خطرہ؟پڑوسی ملک مذاکرات کی میز پر مسئلہ حل کریں اور دوستی کا عملی ثبوت پیش کریں۔مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ دبانے اور سیاچن پر قبضہ جمانے کی کوشش بھی جاری ہے اور امن کی بھی آرزو رکھتے ہیں۔دشمنوں کی زبانی جمع خرچ سے زمینی حقائق کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔سیاچن میں ہونے والے حالیہ المناک واقعہ نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکی میڈیا کی ایک
رپورٹ کے مطابق سیاچن میں پاکستان کے اب تک تین ہزار جوان شہید ہو چکے ہیں۔ 1984سے2012تک موسم کے ہاتھوں دونوں اطراف اب تک آٹھ ہزار فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیںجبکہ مالی نقصان الگ ہے۔پاکستان کوروزانہ15 ملین روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ پاکستان کے غریب عوام ایک وقت کی روٹی سے محروم ہیں جبکہ سیاچن میں ایک روٹی کی قیمت ایک ہزار روپیہ ہے۔بیس ہزار فٹ سے زائد بلندی تک خوردو نوش کا سامان پہنچانا نہایت کٹھن اور خطرناک مرحلہ ہے۔ دنیا کے اس خطرناک علاقے میں دونوں ممالک کو تنازع کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔سیاچن کا علاقہ پاکستان کی حدود میں شامل ہے اور جموں وکشمیر بھی بھارت کا حصہ نہیں،اس حقیقت کااقوام متحدہ بھی ضامن ہے مگر بھارت کسی اصول اور قانون کو نہیں مانتا اور ناجائز قبضہ کو اپنا حق سمجھتا ہے۔پاکستان اور بھارت امن کے خواہاں ہیں تو انہیں سب سے پہلے خطرناک پہاڑیوں سے فوجیں واپس بلانے کے معاہدے پر دستخط کرنا چاہئیں۔ پاک فوج کے ساتھ پیش آنے والے حادثات نے پاکستان کے ماحول کو افسردہ بنا دیا ہے۔پاکستان کی چیک پوسٹ پر امریکی حملہ اور سیاچن میں قدرتی آزمائش نے دکھوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔مختلف ا وہام اور سوالات جنم لے رہے ہیں۔امریکہ کی جنگ کواپنی جنگ کہنا،اپنے ملک کو دوسروں کی پالیسی کے مطابق چلانا، جوانوں کو امریکہ کی آگ میں جھونک دینا ، اغیار کی جنگ کی حمایت میں جواز پیش کرنا،اپنے ہی شہریوں پر بمباری کرنا ،بے گناہوں کی سسکیوں اور بد دعاﺅں کو ڈرون حملوں اور دھماکوںمیں خاموش کرادینا،ان ہولناک کاروائیوں کے نتائج کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے؟ عوام اپنی ہی فوج سے بد ظن ہوتی جا رہی ہے۔ ایک مغربی جریدے کے مطابق وار آن ٹیرر سے متعلق پاک فوج کے جرنیلوں اور جوانوں کی رائے میں تضاد پایا جاتا ہے۔ عراق جنگ میں امریکہ کو شکست ہوئی، سابق صدر بُش نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا مگر بے گناہ عراقیوں کی جانوں کے ضیاع کی تلافی نہ کر سکا۔ افغانستان میں بے گناہوں کی اموات کا جواز پیش نہ کر سکا لیکن پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے کو جائز قرار دے دیا۔ ڈرونز حملوں کو پاک فوج اور حکومت کی رضامندی قرار دے دیا۔ شمالی علاقہ جات میں اندھا دھند ہلاکتوں کو کامیابی قراردے دیا۔ وار آن ٹیرر کے ردعمل میں پاکستان کو پانی پت کا میدان بنا دیا اور اب پاک فوج کے جذبات کو نیٹو افواج کی طرح دبایا جا رہا ہے۔ امریکہ کے چار ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، لاتعداد فوجی خودکشی کر چکے ہیں، عراق اور افغانستان میں مارے جانے والوں کو بے گناہ سمجھتے ہیں، اس وجہ سے نیٹو افواج شدید نفسیاتی دبا ﺅ اور احساس جرم کا شکار ہیں۔ مسلمان کے نزدیک خود کشی چونکہ حرام ہے لہٰذا ذہنی دباﺅ کا برملا اظہار نہیں کر سکتے مگر مسلمان فوج بھی اس جنگ کے ہاتھوں ذہنی دباﺅ کا شکار ہے۔ نیٹو افواج مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں جبکہ مسلمان فواج اپنے ہی بھایﺅں کا قتل کر رہے ہیں۔ مسلمان بھائی پر بندوق اٹھانا آسان نہیں، مظلوموں کی بد دعائیں لینا آسان نہیں، آزمائشوں اور آفات کو نظر انداز کرنا آسان نہیں مگر ایک سپاہی کے لئے ڈیوٹی بجا لانا فرض ہے اور فرض میں جذبات حائل نہیں ہو سکتے۔ پاک فوج کے جوان صرف اپنے ملک و قوم کے دفاع کے امین ہیں لیکن جب انہیں اغیار کی جنگ کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ جنرل ضیاءالحق نے امریکہ کو سپرپاور بننے میں مدد دی۔ روس کے خلاف جنگ کو جہاد قرار دیا اور پاک فوج کو اس آگ میں جھونک دیا۔ جنرل مشرف نے بھی امریکہ کی جنگ کو پاک فوج پر مسلط کرد یا۔ ان دس سالوں میںہزاروں جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں مگر جنگ ختم ہونے کی بجائے طول پکڑ تی جا رہی ہے۔ یہ جنگ خوفناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ اب توامریکہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ ڈرونز حملوں کے رد عمل میں جی ایچ کیو اور دیگر سکیورٹی اداروں پر حملے ہوئے۔ سیاچن کا واقعہ گو کہ قدرتی آفت کا نتیجہ ہے مگر اس نقصان کے پس پشت بھی بھارت سے خطرہ ہے۔ سیاچن پر تعینات پاکستانی عملہ اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوا۔ غیرت کی لڑائی میں شہید ہوا۔ اب جبکہ زرداری حکومت نے پڑوسی ملک کو پسندیدہ اور دوست ملک قرار دے دیا ہے تو دوستوں سے کیا خطرہ؟ پاک فوج کا سرحدوں اور پہاڑوں کو سنبھالنے کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ جوانوں کو گھروں کو واپس بلا لینا چاہئے تا کہ گھروں کے گھر یتیم اور لاوارث ہونے بچ سکیں۔
طیبہ ضیاء- نوائے وقت
 
Top