• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمہوریت سے توبہ

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
بدلتی دُنیا
جمہوریت سے توبہ
محمد زکریا

اسلامی ملکوں میں جمہوریت کے نتیجے میں امریکہ مخالف قوتیں اقتدارمیں آرہی ہیں، حماس، اخوان المسلمین اور عراق میں حالیہ دنوں، دینی عناصر کی انتخابات میں کامیابی بش کابینہ کیلئے یقینا پریشان کن ہے۔ امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کے سامنے دو راہیں ہیں، عوام میں غیر مقبول سکیولر عناصر کو چھوڑ کر براہ راست دینی قیادتوں سے مذاکرات کرکے امریکہ کے مفادات کو محفوظ بنایا جائے یا اسلامی ملکوں میں انتخابات کا جاری عمل روک کر بین الاقوامی بدنامی مول لی جائے!

فرانس کے تجزیہ نگار، عالم اسلام میں دینی تنظیموں کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
نوٹ) محترم قارئین جمہوریت پر ایقاظ ایک واضح موقف رکھتا ہے۔ رسالہ ’العصر‘ سے اس مضمون کو ایقاظ میں شائع کرنے کامقصد بین الاقوامی سیاسی رخ کو قارئین ایقاظ کے سامنے رکھنا ہے۔
اس سلسلے میں فرانسیسی اخباروں میں جو تجزیے شائع ہوئے ہیں۔ اُن میں کہاگیا ہے کہ مشرق وسطی میں اس قسم کے حالات پہلے بھی فوجی مداخلت سے سازگار ہوئے تھے۔ اس کی دلیل الجزائر میں دینی جماعتوں کی انتخابات میںکامیابی اور لبنان کی خانہ جنگی ہے جسے بیرونی قوت سے ہی معمول پرلایا جا سکا تھا۔
فلسطین میں حماس کی انتخابات میں کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ یاسرعرفات کی الفتح ہو یا مشرق وسطی کی دوسری سیکولر سیاسی تنظیمیں، سب ہی اپنا وقار کھو چکی ہیں۔
فرانس کے تجزیہ نگار صورتحال کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے لکھتے ہیں: یاسرعرفات کی تنظیم ’الفتح‘ کو مسترد کرکے شدت پسند تنظیم ’حماس‘ کا انتخابات میں کامیاب ہونا ’الفتح‘ کی حد درجہ غیر مقبولیت کو ثابت کرتا ہے۔ تجزیہ نگار امریکہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکہ کا صدر محمود عباس کی حکومت کو امداد نہ دینا بھی ’حماس‘ کی کامیابی کا ایک بڑا سبب ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکہ کا اگر یہ تاثر بن گیا کہ وہ شدید ضرورت کے وقت بھی اپنے دوستوں کی مدد نہیں کرتا تو پھر مشرق وسطی میں امریکہ کے دوستوں پر عوام کا اعتماد اور کم ہو جائے گا۔
تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ امریکہ جلد از جلد فلسطینی قیادت کے ساتھ تعاون کی صورت نکالے بصورت دیگر فلسطینی قیادت ایران سے امداد لینے کے معاہدے کرلے گی۔ تجزیہ نگاروں کا اشارہ حماس کے خالد مشعل کی دمشق میں ایرانی صدر احمد نژاد سے ملاقات کی طرف تھا۔
برطانوی تجزیہ نگار لکھتا ہے کہ حماس کو صدر بش کا شکر گزار ہونا چاہیے جس نے اپنی خارجہ پالیسی سے دینی تنظیموں کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ دینی سیاسی تنظیمیں پہلے بھی انتخابات میں شریک ہوتی تھیں مگر انہیں کبھی ایسی بھرپور کامیابی نہیں ہوئی جیسی اب ہوئی ہے تو لازمی طور پر اس کامیابی کا سبب صدر بش کی پالیسی کو قرار دینا پڑے گا۔
تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ گیارہ ستمبر سے امریکہ اسلامی ملکوں میں سیکولر عناصر کی پشت پناہی کر رہا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیکولر عناصر غیر مقبول اور دینی تنظیمیں مضبوط ہو رہی ہیں۔
تجزیہ نگار لکھتے ہیں: عین ممکن ہے کہ حماس بھی اسرائیل کو تسلیم کرلے لیکن یاسرعرفات کی الفتح اور شدت پسندوں کی حماس کے اسرائیل تسلیم کرنے میں بڑا فرق ہے۔
برطانیہ کے تجزیہ نگار اپنے ہم خیال فرانسیی تجزیہ نگاروں سے زیادہ دیانت داری کا ثبوت دینا چاہتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ سیکولر طبقے کی غیر مقبولیت کا ایک بڑا سبب وہ خود ہیں۔ وہ عوام کے مسائل کا حل نہیں کرپاتے، دوسری طرف دینی تنظیمیں جہاں موقع ملتا ہے عوام کے مسائل بھی حل کرتی ہیں اور فلاحی کاموں میں بھی شریک ہوتی ہیں۔
امریکہ کے ہوش مند جمہوریت کی ہوش ربانیوں پر ششدر ہیں، سعودی عرب کے بلدیاتی انتخابات ہوں یا عراق کے قومی انتخابات، ہرجگہ دینی عناصر ہی منتخب ہوئے ہیں۔
اسلامی ملکوں میں امریکہ دینی عناصر سے مذاکرات کرتا ہے یا ان ملکوں میں جاری جمہوری عمل کا تجربہ ناکام قرار پاتا ہے، دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا مستقبل میں امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کیلئے خاصی الجھن کا باعث بنے گا۔

××××××××××××××
 
Top