پروفائل پیغام میں محترم بھائی
@کامران احسان نے جوئے کی تعریف طلب کی ہے ؛
قرآن مجید میں جوئے کے ارشاد باری تعالی ہے :
۞ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
ترجمہ :
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں‘ فرما دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے (کبھی )دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ تم سے یہ بھی دریافت کرتے ہیں کیا کچھ خرچ کریں ؟ تو آپ فرما دیں اپنی ضرورت سے زائد چیز خرچ کرو۔ اللہ تعالیٰ اس طرح تمہارے لیے اپنے احکام صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم سوچ سمجھ سکو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوئے کو میسر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے میسر کالفظی معنی آسان ہے۔
اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جوا کھیلنے والا بغیر کسی جسمانی اور ذہنی محنت کے مال حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عرب کے لوگ بسا اوقات اس لیے بھی جوا کھیلتے تھے کہ اس سے حاصل شدہ رقم غریبوں میں تقسیم کردی جائے۔ جس طرح آج کل کئی فن کار ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی رقم قحط زدہ یا معذور اور بیمار لوگوں پر خرچ کردیتے ہیں۔ جوئے کے بارے میں بھی اس قسم کے منافع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن اس میں بھی نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوتے ہیں۔ کاروبار میں رقم لگاتے وقت آدمی کے ذہن میں نفع اور نقصان دونوں ہوتے ہیں۔ پھر کاروبار میں تاجر سوچ وبچار کرتے ہوئے نقصان سے بچنے کے لیے محنت بھی کرتا ہے اگر اسے ایک کاروبار میں مسلسل نقصان ہورہا ہو تو وہ اسے چھوڑنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
محنت ومشقت سے حاصل ہونے والی رقم آدمی سمجھ سوچ کر خرچ کرتا ہے۔ جب کہ جوئے میں یہ تمام صورتیں مفقود ہوتی ہیں۔ جوئے پر رقم لگانے والا جواری نقصان کے بجائے فائدے کے بارے میں بڑا جذباتی ہوتا ہے۔ جوئے سے حاصل شدہ رقم اکثر اللّے تللّوں پر خرچ ہوتی ہے۔ جوا کھیلنے والا ہارنے کے باوجود مسلسل قسمت آزمائی کرتا چلا جاتا ہے۔ کاروبار میں نقصان یا مندا ہونے میں آدمی جذباتی ہونے کے بجائے سوچ وبچار کرتا ہے اور بسا اوقات فیکٹری یا کاروبار کو کچھ عرصہ کے لیے بند کردیتا ہے۔ جوئے میں یہ صورت نہیں ہوتی۔ جوّے باز جیتنے کے لالچ سے چند لمحوں میں ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کاروبار میں حاصل ہونے والا منافع مزید تجارت کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ جوئے سے حاصل ہونے والی رقم سے کبھی بھی لوگ کاروبار کرتے نہیں دیکھے گئے۔
تفسیر فہم القرآن ،میاں جمیل
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
علامہ علی بن محمد الشریف الجرجانی(المتوفی 816ھ) اپنی کتاب "التعریفات " میں لکھتے ہیں :
القمار: هو أن يأخذ من صاحبه شيئًا فشيئًا في اللعب.
القمار: في لعب زماننا: كل لعب يشترط فيه غالبًا من المتغالبين شيئًا من المغلوب
یعنی :
ہر وہ کهيل جس ميں یہ شرط ہو کہ مغلوب(یعنی ناکام ہونے والے)کی کوئی چیز غالب(کامیاب ہونے والے) کودی جائے گی قمار کہلاتا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــ
قرآن میں جوئے کو "میسر " کہا گیا ہے ،اور دراصل
میسر کے معنی ہیں ''سہولت یا آسانی''۔ میسر کا لفظ یسرسے ہے، ''
تو ہر وہ کھیل جس میں آسانی و سہولت سے کچھ حاصل ہونے یا کھونے کی توقع ہو اسے میسر کہیں گے ۔
اور اگر اس کھیل میں مادی طور پر کچھ کھونے یا پانے کا معاملہ نہ ہو ،بلکہ محض وقت کا ضیاع اور دینی و دنیوی فرائض سے غفلت کا سبب بنےتو ایسا کھیل بھی "میسر " ہی کہلائے گا ۔
الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیۃ میں " میسر " یعنی جوئے کی تعریف میں لکھا ہے :
وقال مالك: الميسر: ميسران، ميسر اللهو وميسر القمار فمن ميسر اللهو النرد والشطرنج والملاهي كلها، وميسر القمار ما يتخاطر الناس عليه. وبمثل ذلك قال ابن تيمية "
http://shamela.ws/browse.php/book-11430#page-25825
یعنی امام مالکؒ کا کہنا ہے کہ : میسر دو طرح کا ہوتا ہے ،ایک "میسر اللہو ۔یعنی (مقاصد زندگی سے ) غافل کردینے والا کھیل " جیسے نرد ،شطرنج ،اور تمام بے مقصد کھیل ، اور دوسرا میسر جسے عرف عام میں قمار ،جواء کہا جاتا ہے جس میں کھیلنے والے کچھ ہارتا ہے ،اور جوئے کی تعریف میں امام ابن تیمیہؒ بھی یہی کہتے ہیں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔