تاریخ انسانی میں وہ لوگ بڑے نمایاں ہیں جن کو جرم کے بغیر سزا دی گئی۔ عقل انسانی حیران اور پڑھنے والے لوگ پریشان ہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟ کس آئین و قانون اور ضابطہ کے تحت ان کو سزا سنائی اور دی گئی؟ یقینا اس کے پس منظر میں رعونیت، فرعونیت، تکبر اور انانیت تھی جس کے سبب محسن کو مجرم بنا کر ظلم و زیادتی کی سیاہ تاریخ رقم کی گئی، یہ تسلسل آج بھی جاری ہے، عالمی دہشت گرد امریکہ کی نائب وزیر خارجہ نے ہمارے دائمی دشمن ملک انڈیا میں بیٹھ کر پروفسر حافظ محمد سعید امیر جماعۃ الدعوۃ کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی ہے، جو کھلی دہشت گردی اور واضح طور پر لاقانونیت ہے۔
امریکہ نے کبھی بھی قانون و آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے بات نہیں کی بلکہ انسانی، اخلاقی قوانین کو توڑا ہے۔ جاپان، عراق اور افغانستان، وانا وزیرستان کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک پر اس نے فوج کشی کی ہے۔ زندہ معاشروں کو موت کی نیند سلایا۔ تہذیب و تمدن کو کچلا ہے، انسانی جسم کے ٹکڑے اور عمارتوں کو تباہ کیا ہے، مختلف ملکوں کے سربراہوں کو تختہ دار کی زینت بنا کر ان کی لاشوں پر جشن منایا ہے۔ ہر وہ شخصیت جو اپنے ملک سے حب الوطنی کا جذبہ رکھنے والی ہے، اس کو پابند سلاسل کر کے پس دیوار زنداں کر کے اذیت ناک، درد ناک اور کربناک سزائوں سے دوچار کیا ہے۔ پروفیسر حافظ محمد سعید اپنے مذہب اور ملک سے سنجیدہ شخصیت کا نام ہے۔ وہ اسلام، اس کی حقانیت، وطن اور اس کی حقیقت کی بات کرتا ہے، اس کے سینے میں اخلاص و خلوص، ہمدردی و ایثار سے لبریز ایک دل ہے جو دین اسلام کے لئے دھڑکتا اور وطن و ہم وطنوں کے لئے تڑپتا ہے۔ اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے ہزاروں طلباء کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا، ان کے عقائد و نظریات کی اصلاح کی، ملک کے معروف تعلیمی ادارے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں پچیس برس تک معلم و عربی اور شعبہ علوم اسلامیہ کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کیا، وہ معلم آج مجرم کیسے بن گیا؟
زلزلے کی شدت نے جب پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیا، ہزاروں انسان جب اس میں دب گئے اور لاکھوں بے سرو سامانی کے عالم میں ننگی زمین پر نیلے آسمان کے نیچے کسی مسیحا کے منتظر تھے تو وہ حافظ محمد سعید تھے جنہوں نے ہم وطنوں کے کرب و درد کو محسوس کرتے ہوئے بلاامتیاز و تفریق سب کی خدمت کی اور سب سے پہلے کی۔ ان کے روحانی بیٹوں نے دن کے اجالے اور رات کے اندھیروں کا فرق مٹاتے ہوئے ایسی جدوجہد کی جو تاریخ انسانی کا حصہ بن گئی۔ ملک کے صدر اور متعددد این جی اوز کو اعتراف حقیقت کرنا پڑا اور تعریفی اسناد پیش کرنا پڑیں، یو این سمیت جس کسی ادارے کو سامان کی تقسیم میں دقت اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے میں دشواری اور وادیوں میں اترتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا وہ بھی جماعۃ الدعوۃ کے دروازے پر دستک دیتے تھے، تو کارکنان ہمہ وقت ہم وطنوں کی امداد و اعانت کیلئے تیار نظر آتے۔ کارکنان کے اس اخلاص اور امیر جماعۃ الدعوۃ کی اطاعت کے اس منظر نے تمام عالمی طاقتوں کو حیران و پریشان کر دیا۔
سندھ کے سیلاب نے جب ہر چیز کو غرق کر دیا کہیں باپ کے سامنے بیٹا اور کہیں بیٹے کے سامنے ماں، باپ ڈوبتے نظر آئے۔ انسانوں نے انسانوں کو بے بسی کے عالم میں غرق ہوتے دیکھا۔ جب جنوبی پنجاب اور سندھ کے صحرا دریا کا منظر پیش کر رہے ہیں، پانی مکانوں کی چھتوں کے اوپر سے گزر رہا تھا، مکینوں کے لئے کوئی مکان اور کھانے پینے کیلئے کوئی سامان میسر نہیں تھا، جان لینے والی پانی کی موجیں ضرور تھیں مگر جان بچانے کے لئے صاف پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں مل رہا تھا۔ لوگوں کے مال و مویشی، فصل یہاں تک نسل بھی پانی کی موجوں کی نظر ہو گئی تو ان کٹھن حالات اور مشکل اوقات میں کس نے ہم وطنوں کے حق میں آواز بلند کی، کس نے آگے بڑھ کر مظلوموں اور بے سہارا انسانیت کی خدمت کا اعلان اور اس پر عملدرآمد کیا۔ اپنی ذات کیلئے نہیں دکھی انسانیت کیلئے اہل ثروت حضرات کے تعاون سے امتیاز کے بغیر سب کی خدمت کی۔ مسلمان تو مسلمان ہندو مرد و خواتین کو اس مصیبت سے نجات دلائی۔ وہ نجات دھندہ آج مجرم کیسے؟ ہسپتال، ڈسپنسریاں، ایمبولینسز، میڈیکل کیمپس، تعلیمی ادارے، رفاہی ادارے، یتیموں کی کفالت، مریضوں کا مفت علاج، تبلیغ دین کے مراکز اور سجدہ گاہوں (مساجد) کی تعمیر، یہ جرم ہے جس نے حافظ محمد سعید کو مجرم بنا دیا ہے۔ ایسا مجرم جس کو ملک کی چھوٹی بڑی عدالتوں نے جرم ثابت نہ ہونے پر باعزت رہا کیا ہے۔ ایسا پرامن شخص کہ جس کی بار بار گرفتاری پر نہ درخت کا پتہ گرا اور نہ ہی کسی گاڑی کا شیشہ ٹوٹا، نہ ٹائر جلائے گئے اور نہ ہی ملکی اثاثہ و املاک کو نقصان پہنچا، جس پر ہندوستان نے بے بنیاد الزامات لگائے، مگر اس کی جماعت نے سندھ میں بسنے والے ہندوئوں کی بھی مشکل گھڑی میں ہمیشہ مدد کی۔ امریکی وزیر خارجہ نے حافظ صاحب کے خلاف اعلان کرنے کی سیاہی اپنے منہ پر ملی ہے تو وہ بھی ہندوستان میں جو امریکہ کی بے بسی اور شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ افغانستان میں ہونے والی شکست اور ناٹو سپلائی لائن کی بندش کا بدلہ وہ پاکستانی اور قائد عوام حافظ محمد سعید سے لینا چاہتا ہے۔
انعام کا لالچ دے کر پاکستان میں قتل و غارت کا بازار گرم، خانہ جنگی اور انتشار کا علم بلند کرنا چاہتے ہیں۔ اس کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں، سوائے رسوائی اور بدنامی کے۔ حضرت محمدﷺ کی دعوت، برہان و دلیل کے سامنے جب قریش مکہ بے بس ہو گئے انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ آپ کو قتل کر دیا جائے 100 اونٹ انعامی رقم مقرر کی گئی۔ مگر! ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا، حق کی آواز مزید بلند ہوئی، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کی حفاظت خود فرمائی اور اپنے دین کو سربلند فرمایا۔ امریکہ کے خلاف جو شدید ردعمل آیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ملک کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں اور اتحادوں کے قائدین و کارکنان نے بھرپور مذمت کی ہے۔دفاع پاکستان کونسل میں شامل تمام جماعتوں کے قائدین نے راولپنڈی میں امریکی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اپنے مشن کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ مولانا سمیع الحق، جنرل حمید گل، شیخ رشید احمد، مولانا طیب طاہربھٹوی، لیاقت بلوچ، علامہ طاہر اشرفی کے علاوہ بہت زیادہ علماء و عمائدین کی موجودگی میں میڈیا کے سامنے جب حافظ صاحب جلوہ افروز ہوئے تو چہرہ پر اطمینان تھا اور خوف نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ صحافیوں کے سوالات کے جوابات خندہ پیشانی سے دے رہے تھے اور اپنے عزائم کا اعلان کر کے وہاں سے روانہ ہوئے۔
پھر ٹیلی فونک کالز کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، مولانا فضل الرحمن، صاحبزادہ ابو الخیر اور نصیر احمد بھٹہ، علامہ احمد لدھیانوی بے شمار ایم این ایز، ایم پی اے حضرات اور صحافی صاحبان کے رابطے شروع ہو گئے۔ حافظ عاکف سعید، مولانا احمد خان، محمد افضل قادری، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں، مولانا عبدالقادر لونی کے علاوہ سینکڑوں علماء و اکابرین نے میرے ساتھ رابطہ کرکے ہر قسم کی حمایت کا یقین دلایا ہے۔
6 اپریل جمعۃ المبارک امریکہ کے اس اعلان کے خلاف پوری قوم اس کے خلاف اظہار تعزیت کرتے ہوئے اعلان کی مذمت کی گئی۔ لاہو، اسلام آباد، پشاور کے پریس کلبوں میں پریس کانفرنسز کی گئیں اور پریس کلب کے باہر مظاہرے ہوئے۔ عام شہری بھی پکار اٹھے ہیں کہ
حافظ سعید کاایک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput