• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حبِّ شرعی اور اس کے تقاضے !!

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
بسم اللـه الرحمن الرحيم​

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّـهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّـهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّـهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّـهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ ﴿١٦٥﴾سورة البقرة
ترجمہ: بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں ، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہئے ۔ اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ۔ کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عزاب کو دیکھ کر (جان لیں گے ) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عزاب دینے والا ہے ( تو ہرگز شرک نہ کرتے )
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح طور بیان فرمائی ہے کہ توحید اور شرک، دو متضاد نظریوں اور عقیدوں کی اصل بنیاد محبت یعنی حب ہے ۔ اسکے علاوہ یہ بات بھی واضح طور اس آیت میں نمایا نظر آتی ہے کہ محبت کے مختلف مدارج ہیں اور اگر ان مدارج کو اعتدال پر رکھا جائے تو ایک محبت موحد کہلاتا ہے اور اگر اس اعتدال میں خلل واقع ہوا تو یہی محبت شرک کا مرتکب قرار پاتا ہے ۔ لہذا محبت کے معاملے میں ایک محب کو اس اعتدالِ محبت کو ملحوظ نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔ جہاں تک محبت کے اعتدال اور مدارج کا تعلق ہے تو اس میں اوّل درجے کی محبت ایک محب کے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ رکھنا ضروری ہے ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی ہی ذات اقدس ہے جو ایک محب کے ساتھ ساتھ ان کی بھی خالق اور مالک ہے کہ جن کو ایک محب محبوب رکھتا ہیں یا رکھنا چاہتا ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں ایک محب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان ہی کے ساتھ محبت کرے جن کو اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہو۔ اللہ تعالیٰ جس کو محبوب رکھتا ہے ان میں افراد بھی شامل ہیں اور افعال بھی اس لئے کسی فرد کو اس کے افعال و کردار کی بنیاد پر ہی محبوب مانا جاسکتا ہے اور اسی وجہ سے کسی سے نفرت بھی کی جاسکتی ہے ۔
پھر ان مدارج محبت میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد جو شخصیت اس حب و محبت کے معاملے میں اپنا ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے وہ سیدالمرسلین، خاتم النبین محمد رسول اللہ ﷺ کے سوا کوئی نہیں ۔ یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں رہتی دنیا تک اپنے بندوں کے لئے منہاج اتباع بنا کے پیش کیا ۔ اور یہی ذات اقدس ان تمام عبادالرّحمٰن میں سے اوّل درجے پر ہے جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ پھر ان کے بعد اللہ تعالیٰ کے نزدیق محبت کے دوسرے درجے پر تمام انبیاء ومرسلین ( ع ) ہیں ۔ان کے بعد محبت کے تیسرے درجے پر رسول اللہ ﷺ کے جان نثار صحابہؓ فائز ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان کے بعد تابعین یعنی مفسرین قرآن،محدثین، علماءحق، شہداء وصالحین اور متقین وغیرہ کا مقام آتا ہے۔ غرض محبت کے مختلف مدارج اور منازل ہیں اور ان منازل اور مدارج کو اعتدال پر رکھنا ایک محب کے لئے انتہائی لابدی اور لازمی امر ہے ۔
مدارج محبت کے تناظر میں ایک مثال اس طرح پیش کی جاسکتی ہے کہ ایک شخص پر شرعی طور یہ لازم ہے کہ وہ اپنی والدہ سے بھی محبت کرے،اپنی ہمشیرہ سے بھی محبت کرے، اپنی اہلیہ سے بھی محبت کرے اور اپنی دختر سے بھی محبت کرے ۔ لیکن کیا کوئی شخص ایسا ہوسکتا ہے جو اپنی والدہ کی محبت اپنی اہلیہ کے ساتھ رکھے یعنی ان مدارج محبت میں کوئی تبدیلی لاسکے؟ ایسا کرنے والا شرعی طور مجرم قرار پاسکتا ہے۔ اسی طرح مندرجہ بالا مدارجِ محبت میں کوئی خلل واقع کرنے والا بھی شرعی مجرم ہی گردانا جاسکتا ہے ۔
محبت کے معاملے میں یہ امر طے شدہ ہے کہ اولاد پر اپنے والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری اور ان کے ساتھ محبت رکھنا ایک شرعی حکم ہے۔ ایسی اولاد کے لئے وعید بھی نازل ہوچکی ہے جو اپنے والدین کی نافرمان ہو لیکن اس معاملے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسی شریعت میں والدین کی طرف سے غیر شرعی احکامات ملنے کی صورت میں اولاد پر یہ بھی حکم ہے کہ وہ اسطرح کے احکامات میں والدین کی مودبانہ نافرمانی کریں۔
شریعت تو رشتہ داروں، پڑاسیوں اور دوست احباب کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیتی ہے جو کہ محبت کی ایک واضح اور نمایاں مثال ہے لیکن غیر شرعی امور کی انجام دہی میں ان لوگوں سے کنارہ پکڑنا بھی ہمیں شریعت ہی سکھاتی ہے ۔ شریعت جو احکام الٰہی کی ائینہ دار ہے، ہر طرح کی محبت پر سبقت اور بالادستی رکھتی ہے اور یہی بات اس آیت مبارکہ میں بخوبی بیان ہوچکی ہے ۔ اور اسی آیت میں یہ بات بھی بخوبی اس بات پر استدلال کرتی ہےکہ ’’ ایمان والے اللہ کی محبت میں بحت سخت ہوتے ہیں ‘‘ ۔ یعنی اہل ایمان ہی اس اعتدال مدارج کو قائم رکھتا ہے اور اللہ ہر بندے کے ساتھ اس کے مقام کی حیثیت کے مطابق اس سے محبت کرتا ہے ۔ جب کہ اہل شرک اس اعتدال مدارج کو قائم رکھنا غری ضروری سمجھتے ہوئے اللہ کے بندوں سے ایسی محبت روا رکھتے ہیں جیسی اللہ کے ساتھ روا رکھنا ضروری ہے ۔ اور محبت کے مدارج کا اعتدال قائم نہ رکھنا ایسے سماجی فتنوں کو جنم دیتا ہے جو توحیدالوہیت اور اسوہ حسنہ کے خلاف ایک کھلی بغاوت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پھر جہاں تک حبِّ شرعی کا تعلق ہے تو اس کے چند بنیادی تقاضے ہیں۔ اوّل یہ کہ محبت انتہائی خلوص پر مبنی ہو ۔ پھر یہ کہ ایسی محبت سے عقیدے میں خلل واقع نہ ہوتا ہو اور اس محبت کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہو اور ایسی محبت میں اسوہ حسنہ کو مشعلِ راہ بنایا گیا ہو ۔ اسوہ حسنہ ایک چیز ہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے بندوں کے لئے معیار عمل بنا کے پیش کیا اور حکم فرمایا ’’۔۔۔۔۔ وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا واتقوا اللـه إن اللـه شديد العقاب ﴿ ۷ سورة الحشر) اور تمہیں جو کچھ رسول ﷺ دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقینا اللہ تعالیٰ سخت عزاب دینے والا ہے۔ اس آیت سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ہم ان کے فرمودات کو اپنی زندگی کے لئے مشعل راہ بنائیں ۔ عمل کے بارے میں انہونے جس چیز کے کرنے کہ اجازت یا حکم دیا ہے اسی کام کو عمل میں لانے کے لئے عزم کریں اور جس چیز سے ہمیں پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے اس سے کوسوں دور رہنے کا قصد کریں ۔ اور اگر ایسا نہ کیا تو نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی بلکہ یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے نافرمان بندوں سے ناراض ہو کر سخت سے سخت عزاب میں انہیں مبتلا کرنے والا ہے۔ اسطرح رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہونا ہی ان سے محبت کرنا ٹھہرا اور ان کی سنت کو نظر انداز کرنا کسی بھی طرح ان سے محبت رکھنے کا غماز تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی حقیقت رسول اللہ ﷺ نے خود اس انداز میں بیان فرمائی ۔۔’’ من أحب سنتي فقد أحبنی ‘‘ یعنی جس نے میری سنت کو محبوب رکھا (حقیقت میں ) اسی نے مجھ کو محبوب رکھا ۔ ایک اور جگہ یوں ارشاد فرمایا ۔’’ فمن رغب عن سنتي فليس مني ‘‘ پس جس نے میری سنت کے سوا ( اور رستہ) اختیار کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔
پھر ہم رسول اللہ ﷺ اور اولیاء اللہ کے ساتھ محبت کے نام پر جو امور انجام دیتے ہوں یا دینا چاہتے ہوں، ان پر یہ لازم آتا ہے کہ پہلے ان کا شرعی جواز معلوم کریں۔ اگر ان پر شرعی جواز حاصل ہے تو یہ امور واقعی عبادت کا مقام رکھتے ہے اور اگر نہیں تو یہ امور عبادت کا مقام نہیں رکھتے اور جو امور عبادت سے تعلق نہ رکھتے ہوں اور عبادت سمجھ کر انجام دئے جاتے ہو ان کے بدعت ہونے میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ۔ پھر بدعت ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو گمراہی میں مبتلا کر سکتی ہے اور ہر طرح کی گمراہی ایک انسان کو دوزخ کا ایندھن بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی ۔
لہذا جو ہم مختلف امور حبّ نبوی اور حب اولیاء کے نام پر انجام دیتے ہوں ان کے لئے شرعی جواز حاصل کرنا ہمارے لئے فرض بنتا ہیں ۔ بصورت دیگر ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک جنگ چھیڑ نے کے مرتکب پائے جاسکتے ہیں اور ہمارا اسطرح کا کوئی بھی ارتکاب نہ اللہ کو پسند ہے نہ ایسی بات رسول اللہ ﷺ کو پسند ہے نہ کسی اور ولی اللہ(رح) کو ۔ لہذا ہمیں عقل کے ناخن لے کر اپنی ابدی سلامتی کے لئے شریعت کو اپنا متاعِ زندگی سمجھ کر اسی سے روز مرہ کے معمولات میں انجام دہی کے لئے جواز یا عدم جواز حاصل کرتے ہوئے جایز امور کیانجام آوری میں مستعد اور تیار رہنا چاہئے اور عدم جواز والے امور سے اجتناب برتنے میں کسی بھی تساہل سے کام نہیں لینا چاہئے یہی اللہ کے ساتھ ہماری سچی محبت کا والہانہ اظہار ہے اور اسی میں ہمارے رسول اللہ ﷺ اور دیگر تمام اولیاءاللہ کے ساتھ ہماری محبت کا راز مضمر ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے میری یہی دعا ہے کہ وہ ہم میں مدارج محبت میں اعتدال قائم رکھنے کا ہنر مستحکم کرے اور ہماری خطائیں معاف فرما کر ہماری آخرت کو سنوارے ۔ (آمین)
 
Top