• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حج سے متعلق اہم فتاوے

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
حج سے متعلق اہم فتاوے
(ما خوذاز: فتاوى ارکان اسلام)

فتاوی مہمۃ تتعلق بالحج
(مقتبسة من فتاوی أرکان الإسلام)
( باللغۃ الأردیة)

تالیف
سماحۃ الشیخ عبد العزیزبن عبد اللہ بن باز ؒ
سابق مفتی اعظم سعودی عرب
جمع وترتیب
محمدبن شایع بن عبد العزیزالشایع حفظہ اللہ


ترجمة
ابوالمکرم بن عبد الجلیل ؒ - عتیق الرحمن اثری حفظہ اللہ
مراجعة (نظرثانى)
شفیق الرحمن ضیا ءاللہ مدنی


نشرواشاعت
دفترتعاون برائے دعوت وارشاد (شعبہ بیرونی شہربان)
سلطانہ - ریاض - سعودی عرب

الناشر
المکتب التعاونی للدعوة والإرشاد وتوعية الجاليات بسلطانة
الرياض –المملكة العربية السعودية
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 1:
حج کے تین اقسام کون کون سے ہیں اورہرایک کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے؟ نیز ان تین اقسام میں سب سے افضل حج کون سا ہے؟
جواب :
اہل علم –رحمۃ اللہ علیہم- نے حج کی تین قسمیں بیان کی ہیں, اوران میں سے ہرقسم رسول اللہ r کی صحیح احادیث سےثابت ہے-
پہلی قسم :یہ ہے کہ صرف عمرہ کا احرام باندھے, یعنی عمرہ کی نیت کرے اور(اللہم لبیک عمرۃ ) یا (لبیک عمرۃً)یا (اللہم إنی أوجبتُ عمرۃً) کہ کرتلبیہ پکارے ,مشروع یہ ہے کہ غسل کرنے, خوشبولگانے اورضرورت ہوتومونچہ کاٹنے ,ناخن تراشنے اوربغل کے اورزیرناف کے بال صاف کرنے ,نیز اگراحرام باندھنے والا مرد ہوتو سلے ہوئے کپڑے اتارکراحرام کے کپڑے چادراورتہبند پہننے کے بعد نیت کی جائے اورمذکورہ کلمات کہے جائیں ,یہی افضل ہے-
عورت کے لئے احرام کے تعلق سے کوئی خاص لباس نہیں, بلکہ وہ جس لباس میں چاہے احرام باندھ سکتی ہے, ہاں افضل یہ ہے کہ وہ لباس جاذب نظر,حسین وجمیل اوردیکھنے والوں کے لئے باعث فتنہ نہ ہو, یہی اسکے لئے افضل ہے –
احرام باندھتے وقت مردیاعورت (اللہم لبیک عمرۃً) کہنے کے بعد اگریہ کہ لے کہ "اگرمجھے کوئی عذرپیش آگیا تو جس جگہ عذرپیش آئیگا میں وہیں حلال ہوجاؤں گا" یا یہ کہے کہ " اے اللہ ! میرایہ عمل قبول فرما" یا یہ کہے کہ "اے اللہ! اس عبادت کی تکمیل میں میری مدد فرما" تواسطرح کے الفاظ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے –
اگرمحرم نے مشروط احرام باندھا ,یعنی احرام باندھتے وقت اس نے یہ کہا کہ " اگرمجھے کوئی عذرپیش آگیاتو جس جگہ عذرپیش آئیگا میں وہیں حلال ہوجاؤں گا" یا اسی قسم کے کوئی اورالفاظ اسنے کہے, اوراسے واقعتاً کوئی ایسا عذرپیش آگیا جواتمام حج سے مانع ہے ,تووہ حلال ہوجائیگا اوراس پرکوئی چیز واجب نہیں ہوگی,کیونکہ ضباعہ بنت زبیربن عبد المطلب نے رسول r سے اپنے بیمارہونے کی شکایت کی ,توآپ نے فرمایا:
"حج کرواورمشروط احرام باندھوکہ مجھے جہاں کوئی عذر پیش آجائے گا میں وہیں حلال ہوجاؤں گی" (متفق علیہ)
لہذا اگرکوئی عورت عمرہ کے لئے مکہ آئے اوراسی طرح مشروط احرام باندھے, پھراسے حیض آجائے اورساتہ والے قافلہ کے انتظارنہ کرنے کی وجہ سے اپنے پاک ہونے تک اسکا مکہ میں قیام کرنا مشکل ہو, تواسکے لئے یہ عذرتصورکیا جائیگا اوروہ حلال ہوجائےگی – اسی طرح اگرکسی مرد کوکوئی مرض لاحق ہوگیا جواتمام عمرہ سے مانع ہے, یا اس کے علاوہ کوئی بھی عارضہ لاحق ہوگیا جس کے سبب وہ اپنا عمرہ مکمل نہیں کرسکتا ,تووہ حلال ہوجائےگا – یہی حکم حج کا بھی ہے جوحج کے مذکورہ بالا اقسام میں سے دوسری قسم ہے-

دوسری قسم: يہ ہے کہ صرف حج کا احرام باندھے ,یعنی حج کی نیت کرے اور(اللہم لبیک حجا) یا (لبیک حجا) یا (اللہم قد اوجبتُ حجّاً) کے الفاظ کے ساتہ تلبیہ پکارے ,یہاں بھی عمرہ کی طرح مشروع کاموں ,مثلاً غسل کرنے ,خوشبو لگانے اورسلے ہوئے کپڑے اتارکراحرام کے کپڑے پہننے وغیرہ ,سے فارغ ہونے کے بعد یہ الفاظ اپنی زبان سے اداکرے گا, جیساکہ عمرہ کے بیان میں اوپرمذکورہوچکا ہے , یہی افضل ہے –
مطلب یہ ہے کہ اس بارے میں حج کا حکم وہی ہے جوعمرہ کا ہے , کہ مسلمان مرد اورعورت احرام اس وقت باندھیں جب وہ اللہ کے مشروع کردہ کاموں سے فارغ ہوچکے ہوں , مثلاً غسل کرنا ,خوشبولگانا اوراس قسم کی دیگرضروریات جواحرام باندھنے سے پہلے مرد اورعورت کو پیش آسکتی ہیں-
اگرضرورت ہوتو جس طرح عمرہ کے لئے مشروط احرام باندھنا مشروع ہے اسی طرح حج کے لئے احرام باندھتے وقت بھی یہ کہ سکتا ہے کہ " اگرمجھے کوئی ایسا عذرپیش آگیا جواتمام حج سے مانع ہو تو جس جگہ عذرپیش آیا میں وہیں حلال ہوجاؤں گا"
احرام کامیقات سے باندھنا واجب ہے ,احرام باندھے بغیرمیقات سے آگے نہیں جاسکتا ,لہذا اگرکوئی نجد سے یا طائف سے یا مشرق کی طرف سے آئے تو اسے طائف کی میقات "سیل " (وادی قرن) سے احرام باندھنا ہوگا, اگرکوئی شخص میقات سے پہلے احرام باندھ لے تویہ کفایت کرجائے گا لیکن میقات سے پہلے احرام نہ باندھنا افضل ہے ,یعنی سنت یہی ہے کہ احرام پہلے نہ باندھے ,بلکہ میقات پہنچنے تک موخررکھے ,کیونکہ رسول r نے میقات ہی سے احرام باندھا تھا-
کوئی شخص اگراپنے گھرہی سے غسل کرکے , خوشبولگا کراوردیگرمشروع کام مثلاً مونچہ کاٹنے وغیرہ سے فارغ ہوکرنکلے , یا موقع پاکرراستہ میں ان کاموں سے فارغ ہوجائے ,تویہ کفایت کرجائیگا بشرطیکہ احرام باندھنے کا وقت قریب ہو-
جمہوراہل علم اس طرف گئے ہیں کہ احرام باندہنے سے پہلے دورکعت نماز پڑھنا مستحب ہے ,ان کی دلیل رسول اللہ r کی یہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا :
"ميرے پاس میرے رب کا فرستادہ (فرشتہ) آیا اورکہاکہ اس مبارک وادی میں نمازپڑھو اورکہو : حج کے ساتہ عمرہ بھی- یعنی حج اورعمرہ کا ایک ساتہ تلبیہ پکارو(صحیح بخاری )
یہ واقعہ وادی ذوالحلیفہ میں پیش آیا تھا-
نیز رسول اللہ r نے ظہرکی نمازاداکرنے کے بعد احرام باندھاتھا ,اوریہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ نمازکے بعد احرام باندھنا افضل ہے-
مذکورہ قول درست ہے, لیکن واضح رہے کہ احرام کی دورکعت نمازکی مشروعیت پرکوئی واضح دلیل یا صحیح حدیث موجود نہیں, اسلئے اگرکوئی شخص دورکعت نمازپڑھ کراحرام باندھے تو اسمیں کوئی حرج نہیں ,اوراگروضو کرکے دورکعت تحیۃ الوضوء پڑھ کراحرام باندھ لے توبھی کافی ہے-

تیسری قسم :يہ ہے کہ حج اورعمرہ کا ایک ساتہ احرام باندہے ,یعنی حج اورعمرہ کی ایک ساتہ نیت کرے اور(اللہم لبیک عمرۃً وحجا) یا (حجا وعمرۃً) کہ کرتلبیہ پکارے ,یامیقات پرصرف عمرہ کا تلبیہ پکارے, پھرراستہ میں عمرہ کے ساتہ حج بھی شامل کرلے اورطواف شروع کرنے سے پہلے پہلے حج کا تلبیہ بھی پکارلے- اورحج کی یہ تیسری قسم "حج قران " کہلاتی ہے, جسکا مطلب حج اورعمرہ کا ایک ساتہ اداکرنا ہے, نبی کریم r نے حجۃ الوداع کے موقع پر"حج قران" ہی کا احرام باندھا تھا,اورعمرہ اورحج کا ایک ساتہ تلبیہ پکارا تھا ,اورہدی کے جانوراپنے ساتہ لائے تھے ,جیساکہ انس اورابن عمررضی اللہ عنہم وغیرہم کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے – اس لئے ہدی کے جانورساتہ لانے والے کے لئے "حج قران "ہی افضل ہے, البتہ جوشخص ہدی ساتہ نہ لائے اسکے لئے "حج تمتع" (یعنی عمرہ سے حلال ہونے کے بعد حج کا احرام باندھنا) افضل ہے, نبی r کے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے اورطواف اورسعی سے فارغ ہونے کے بعد یہی بات طے پائی, اورجن صحابہ نے حج قران یا حج افراد کا احرام باندھا تھا آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام کو عمرہ سے بدل دیں , چنانجہ انہوں نے طواف کیا ,سعی کی ,بال کٹوائے اورپہرحلال ہوگئے- اس سے ثابت ہوا کہ ہدی کا جانورساتہ نہ لانے والے کے لئے "حج تمتع " افضل ہے –
حج قران یا افراد کا احرام باندھنے والا جب اپنے احرام کوعمرہ سے بدل دی تو وہ متمتع شمارہوگا ,جس شخص نے حج افراد یا قران کی نیت کی ہواوراسکے پاس ہدی کا جانورنہ ہوتو اسکے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ طواف اورسعی کرکے اوربال کٹواکرحلال ہوجائے اورمتمتع بن جائے, جیساکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی r کے حکم سے کیا تھا ,نیز آپ r نے فرمایا تھا:
" جوبات مجھے بعد میں معلوم ہوئی وہ اگرپہلے معلوم ہوجاتی تو ہدی کا جانورمیں ساتہ نہ لاتا اوراپنے احرام کو عمرہ سے بدل دیتا"
عمرہ کرنے والااگرحج کا ارادہ نہیں رکھتا تو وہ صرف معتمرکہلائےگا ,اسے متمتع بھی کہا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض صحابہ کے کلام میں استعمال ہوا ہے,مگرفقہاء کی اصطلاح میں ایسا شخص جو موسم حج مثلاً شوال یا ذی قعدہ میں مکہ آئے اورعمرہ کرکے وطن واپس چلاجائے معتمرہی کہلائےگا, ہاں اگروہ حج کی نیت کرکے مکہ میں ٹہرجائے تو متمتع شمارہوگا ,اسی طرح جو شخص رمضان میں یا کسی اورمہینہ میں عمرہ کے لئے مکہ آئے وہ بھی معتمرکہلائے گا,عمرہ کے معنی بیت اللہ کی زیارت کے ہیں-
حاجی اس صورت میں متمتع کہلائےگا جب وہ رمضان کے بعد موسم حج میں عمرہ کرے اورپھرحج کی نیت سے مکہ میں ٹھرارہے اورحج کا وقت ہونے پرحج کرے, جیسا کہ اوپربیان ہوا- اسی طرح جس نے حج قران کا احرام باندھا اوراحرام کو فسخ کئے بغیر حج کے لئے احرا م ہی کی حالت میں باقی رہا, وہ بھی متمتع کہلائے گا اوروہ اللہ تعالى کے اس حکم کے ضمن میں شامل ہے :
] فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ } (196) سورة البقرة
پس جو شخص عمرہ کو حج سے ملاکرتمتع کرنا چاہے تو جو میسرآئے قربانی کرے-
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قارن کو متمتع کہا جاسکتا ہے , نبی کریم r کے اصحاب کے یہاں یہی بات معروف بھی تھی , چنانچہ ابن عمرd کی حدیث ہے کہ رسول d نے عمرہ کوحج سے ملاکرتمتع فرمایا ہے, حالانکہ آپ نے حج قران کا احرام باندھا تھا- لیکن فقہاء کی اصطلاح میں متمتع وہ شخص ہے جوعمرہ کرکے حلال ہوجائے ,پھرمثلاً 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کرحج کرے , اوراگرحج اورعمرہ کا احرام ایک ساتہ باندھے اوربیچ میں عمرہ کرکے حلال نہ ہوتو قارن کہلائے گا , لیکن اگرمطلب اورحکم واضح ہو تو اصطلاح میں کوئی جگھڑا نہیں-
قارن اورمتمتع دونوں کے احکام ایک ہیں ,چنانچہ دونوں کو ہدی قربان کرنی ہوگی, اورہدی میسرنہ ہونے کی صورت میں تین دن ایام حج میں اورسات دن وطن واپس ہوکر( کل دس دن ) روزہ رکھنا ہوگا ,اسی طرح ہرایک کو متمتع بھی کہا جاسکتا ہے ,البتہ صفا اورمروہ کے درمیان سعی کرنے میں دونوں کے احکام علیحدہ ہیں , چنانچہ جمہورعلماء کے نزدیک متمتع کو دومرتبہ سعی کرنی ہوگی ,ایک سعی طواف عمرہ کے ساتہ اوردوسری طواف حج کے ساتہ ,جیساکہ ابن عباس d کی حدیث سے ثابت ہوتاہے , کہ جن صحابہ نے حج تمتع کیا تھا اورعمرہ کرکے حلال ہوگئے تھے انہوں نے دوبارہ سعی کی تھی ,ایک طواف عمرہ کے ساتہ اوردوسری طواف حج کے ساتہ ,اوریہی جمہوراہل علم کا مسلک ہے-
البتہ قارن کے لئے صرف ایک سعی کافی ہے , یہ سعی اگراس نے طواف قدوم کے ساتہ کرلی تو کافی ہے , اوراگرموخرکرکے طواف حج کے ساتہ کی توبھی کافی ہے, یہی قول معتبرہے اورجمہوراہل علم کا مسلک بھی یہی ہے, یعنی متمتع کودومرتبہ سعی کرنی ہوگی اورقارن کو صرف ایک مرتبہ ,جسے وہ چاہے توطواف قدوم کے ساتہ ہی کرلے اوریہی افضل بھی ہے ,کیونکہ نبی r نے ایسا ہی کیا تھا ,یعنی آپ نے طواف کیا اوراسکے ساتہ ہی سعی بھی کرلی , اورآپکا یہ طواف طواف قدوم تھا ,کیونکہ آپ قارن تھے – اوراگرچاہے تو سعی کو موخرکرکے طواف حج کے ساتہ کرے ,اوریہ اللہ تعالى کی جانب سے بندوں کے لئے رحمت اورایک طرح کی آسانی ہے ,والحمد للہ-
یہاں پرایک مسئلہ اورہے جس کے تعلق سے سوال اٹہ سکتا ہے, وہ یہ کہ متمتع اگرعمرہ کرکے سفرکرجائے توکیا دم دینا (ہدی ذبح کرنا) اس سے ساقط ہوجائےگا ؟ تواس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ,ابن عباس d کا معروف قول یہ ہے کہ متمتع سے دم دینا کسی بھی حال میں ساقط نہیں ہوگا ,خواہ وہ اپنے اہل وعیال کے پاس سفرکرجائے یاکہیں اور, کیونکہ متمتع پردم واجب ہونے کے دلائل عام ہیں- اوراہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ متمتع اگرعمرہ سے فارغ ہوکرقصرکی مسافت تک سفرکرجائے ,پھرحج کا احرام باندھ کرلوٹے تو وہ مفرد شمارہوگا اوردم دینا اس سے ساقط ہوجائے گا-
اہل علم کی ایک تیسری جماعت اسطرف گئی ہے کہ متمتع سے دم صرف اس صورت میں ساقط ہوگا جب وہ عمرہ سے فارغ ہوکراپنے اہل وعیال کے پاس چلاجائے ,
یہی قول حضرت عمراوران کے بیٹے عبد اللہ d سے بھی مروی ہےکہ متمتع اگرعمرہ سے فارغ ہونے کے بعد سفرکرکے اپنے اہل وعیال کے پاس چلاجائے ,پھرحج کے لئے واپس مکہ آئے , تو وہ مفرد شمارہو گا اوراسے دم نہیں دینا ہوگا ,
لیکن اگراہل وعیال کے پاس جانے کے علاوہ کہیں اورجائے ,مثلاً عمرہ اورحج کے درمیان مدینہ چلا جائے یا جدہ یا طائف چلا جائے تو اس سفرکی وجہ سے وہ حج تمتع کے حکم سے باہرنہیں ہوگا-
دلیل کی رو سے یہی آخری قول ہی زیادہ واضح اورصحیح معلوم ہوتا ہے ,یعنی عمرہ اورحج کے درمیان اس قسم کے سفرکی وجہ سے متمتع "حج تمتع" کے حکم سے خارج نہیں ہوگا,بلکہ وہ متمتع شمارہوگا اوراسے دم دینا ہوگا, بھلے ہی عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد اس نے مدینہ یا جدہ یا طائف کا سفرکیا ہو,

ہاں اس صورت میں وہ مفرد مان لیا جائے گا جب وہ سفرکرکے اپنے اہل وعیال کے پاس چلا جائے اورپھرمیقات سے حج کا احرام باندھ کرمکہ لوٹے , جیساکہ حضرت عمراوران کے بیٹے عبد اللہ d کا قول ہے , کیونکہ بال بچوں کے پاس سفرکرجانے سے عمرہ اورحج کے درمیان تعلق باقی نہیں رہ جاتا –

بہرحال , احتیاط اسی میں ہے کہ اختلاف سے بجتے ہوئے ,جیسا کہ ابن عباس d سکا مسلک ہے ,ہرصورت میں دم دے ,بھلے ہی عمرہ کے بعد سفرکرکے وہ اپنے اہل وعیال کے پاس گیا ہو, اسی طرح جولوگ قصرکی مسافت تک سفرکرجانے سے دم ساقط مانتے ہیں انکے نزدیک احتیاط اسی میں ہے کہ اختلاف سے بچتے ہوئے وہ دم دے اورپوری سنت اداکرے, بصورت استطاعت یہی بہتراورافضل ہے ,اوردم دینے کی استطاعت نہ ہونے پرتین دن ایام حج میں اورسات دن وطن واپس ہوکر(کل دس دن) روزہ رکھے, جیساکہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ } (196) سورة البقرة
پس جو شخص عمرہ کو حج سے ملا کرتمتع کرنا چاہے تو جو میسرآئے قربانی کرے-
اللہ تعالى کا یہ ارشاد متمتع اورقارن سب کو شامل ہے , کیونکہ قارن کو بھی متمتع کہا جاتا ہے, جیساکہ اوپرمذکورہوچکاہے – واللہ ولی التوفیق-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 2:
ایک شخص نے حج کے کسی مہینہ مثلا ً ذی القعدہ میں عمرہ کیا, پھرمکہ سے مدینہ چلاگیا اورحج کاوقت آنے تک وہیں ٹھرارہا ,کیا ایسے شخص کے لئے حج تمتع کرنا ضروری ہے,یا اسے اختیارہے کہ حج کی تین قسموں میں سے جوچاہے اداکرلے؟
جواب :
ایسے شخص کے لئے حج تمتع کرنا ضروری نہیں , اب اگروہ چاہے کہ دوسرا عمرہ کرکے متمتع ہوجائے - ان لوگوں کے مسلک کے مطابق جوکہتے ہیں کہ سفرکرنے سے حج تمتع منقطع ہوجاتاہے – توایساکرسکتا ہے ,اوراس نئے عمرہ کے ساتہ وہ متمتع ہوجائیگا ,البتہ اگراس نے مدینہ منورہ سے (احرام باندھ کر) عمرہ اداکیا ,پھراسکے بعد حج کیا ,تو تمام اہل علم کے نزدیک اس پردم واجب ہوگا اوروہ متمتع مانا جائے گا – لیکن اگروہ چاہے کہ صرف حج کرکے واپس ہوجائے توایسا بھی کرسکتا ہے ,لیکن اس صورت میں یہ اختلاف ہے کہ وہ ہدی قربان کرے گا یا نہیں ؟ ویسے صحیح یہی ہے کہ اسے ہدی قربان کرنی ہوگی, کیونکہ صحیح قول کے مطابق عمرہ کے بعد مدینہ جانے سے حج تمتمع منقطع نہیں ہوتا-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 3:
جو شخص حج یا عمرہ کا تلبیہ پکارنے کے بعد میقات سے آگے بڑھ گیا اورکوئی شرط نہیں باندھی ,پھراسےکوئی عارضہ مثلاً مرض وغیرہ لاحق ہوگیا جو حج یا عمرہ کی ادائیگی سے مانع ہے , توایسی صورت میں اسے کیا کرنا چاہئے؟
جواب :
ايسا شخص محصرمانا جائے گا ,اگراسنے احرام کے وقت کوئی شرط نہیں باندھی تھی ,پھراسے کوئی عارضہ پیش آگیا جوحج یا عمرہ کی تکمیل سے مانع ہے ,تو اگروہ اس امید پررک سکتا ہو کہ شاید یہ عارضہ دورہوجائے اوروہ اپنا حج یا عمرہ مکمل کرلے تورکارہےگا , اوراگراسکے لئے رکناممکن نہ ہو توصحیح مسلک کے مطابق وہ محصرشمارہوگا, اورمحصرکے متعلق اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
) فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ} (196) سورة البقرة
اگرتم راستے میں روک دئے جاؤ تو جو ہدی میسرہو (قربانی کرو)-

صحیح قو ل کے مطابق "احصار" دشمن کے ذریعہ بھی ہوتا ہے اوراسکے علاوہ بھی, لہذا جوشخص راستہ میں روک دیا جائے وہ ہدی قربان کرے اورحلق یا قصرکرواکرحلال ہوجائے , محصرکا یہی حکم ہے کہ وہ جس جگہ روکا گیا ہے وہیں ایک جانورقربان کرے , خواہ وہ حدود حرم میں ہویا اس سے باہر, اوراسکا گوشت وہیں کے فقراء میں تقسیم کردے, اگروہاں فقراء نہ ہوں تووہ گوشت حرم کے فقراء کویابعض دیہات کے فقراء کو پہنچادے ,اورپھرحلق یا قصرکروا کرحلال ہوجائے, اوراگرقربانی کا جانورمیسرنہ ہو تو دس دن روزہ رکھے ,پھرحلق یا قصرکروائے اورحلال ہوجائے –
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 4:
ایک شخص نے میقات سے احرام باندھا لیکن تلبیہ میں "لبیک عمرۃمتمتعا بہا الی الحج" کہنا بھول گیا ,توکیا حج تمتع پورا کریگا ؟ اورعمرہ سے حلا ل ہونے کے بعد جب مکہ سے حج کااحرام باندھے تو اسےکیا کرنا ہوگا؟
جواب :
مذكوره شخص نے احرام باندھتے وقت اگرعمرہ کی نیت کی تھی لیکن تلبیہ پکارنا بھول گیا, حالانکہ اسکی نیت عمرہ کی تھی ,تووہ تلبیہ پکارنے والوں کے حکم میں ہے, چنانچہ وہ طواف اورسعی کرے, اورقصرکرائے اورپھرحلال ہوجائے, راستہ میں اسے تلبیہ پکارنا چاہئے ,لیکن اگرنہیں پکارا تواس پرکوئی چیز واجب نہیں ,کیونکہ تلبیہ پکارنا سنت موکدہ ہے , لہذا وہ طواف کرے , سعی کرے ,قصرکرائے اوراسے عمرہ بنالے ,کیونکہ اسکی نیت عمرہ کی تھی-
لیکن اگر اسنے احرام کے وقت حج کی نیت کی تھی , اوروقت میں گنجائش ہوتو افضل یہ ہے کہ حج کو فسخ کرکے عمرہ بنالے , اورطواف وسعی کرے, پھرقصرکراکے حلال ہوجائے ,اوراسکا حکم حج تمتع کرنے والوں کا حکم ہوگا, والحمدللہ-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال5:
كسي شخص نے اپنی ماں کی طرف سے حج کیا ,اورمیقات پراسنے حج کا تلبیہ بھی پکارا ,لیکن ماں کی طرف سےنہیں پکارا ,اسکا کیا حکم ہے؟
جواب :
مذكورشخص كا اراده جب اپنی ماں کی طرف سے حج کرنے کا تھا, لیکن تلبیہ کے وقت کہنا بھول گیا تو یہ حج ماں کا حج شمارہوگا,کیونکہ نیت ہی زیادہ قوی مانی جاتی ہے,رسول اللہ r کا ارشاد ہے :
"یقیناً اعمال کادارومدارنیتوں پرہے"
لہذا جب اسکے سفرکا مقصد ماں یا باپ کی طرف سے حج کرنا تھا ,پھراحرام کے وقت ماں یاباپ کی طرف سے تلبیہ پکارنا بھول گیا ,تو ماں یا باپ یا جس کی طرف سے بھی حج کرنے کی نیت تھی اسی کا حج شمارہوگا-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 6:
عورت کے لئے موزے اوردستانے میں احرام باندھنا کیساہے؟ اورجس کپڑے میں وہ احرام باندھ چکی ہے کیا اسکا نکالنا جائزہے؟
جواب:
عورت كے موزے یا جوتے میں احرام باندھنا افضل اورزیادہ پردے کا ذریعہ ہے, اوراگرکشادہ کپڑے میں احرام باندھ لے توبھی کافی ہے, موزے پہن کراحرام باندھنے کے بعد اگرموزے اتاردے تواسمیں کوئی حرج نہیں , جس طرح کہ مرد جوتے پہن کراحرام باندھے, پھرجب چاہے جوتے اتاردے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا –

البتہ عورت دستانے میں حرام نہیں باندھ سکتی ,کیونکہ محرم عورت کودستانے استعمال کرنے سے منع کیا گیا ,اسی طرح اسکے لئے چہرے پرنقاب جیسے برقع وغیرہ ڈالنا بھی درست نہیں, کیونکہ رسول اللہ r نے اس سے منع فرمایا ہے ,ہاں غیرمحرم (اجنبی ) مردوں کی موجودگی میں نیزطواف اورسعی کے دوران اسکے لئے چہرے پراوڑھنی ڈالنا یا پردہ کرنا ضروری ہے ,عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے ,وہ بیان کرتی ہیں کہ سوارہمارے پاس سے گزرتے تھے اورہم لوگ رسول اللہ r کے ساتہ تھے , پس جب سوارہمارے سامنے پہنچتے تو ہم میں سے ہرعورت اپنے سرسے پردہ گراکرچہرہ ڈھک لیتی ,اورجب وہ ہمارے پاس سے گزرجاتے تو ہم اپنے چہرے کھول لیتیں (سنن ابی داؤد وسنن ابن ماجہ)
مرد کے لئے احرام کی حالت میں خف (موزے) کا پہننا جائزہے ,بھلے ہی وہ ٹخنوں کے نیچے سے کٹے ہوئے نہ ہوں , جمہورکے نزدیک موزوں کا ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دینا ضروری ہے ,لیکن صحیح بات یہ ہے کہ جوتے نہ ملنے کی صورت میں خفین (موزوں) کا ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا ضروری نہیں, کیونکہ رسول اللہ r نے عرفہ میں لوگوں کوخطبہ دیا توارشاد فرمایا :
"جوتہبند نہ پائے وہ پائجامہ پہن لے , اورجوجوتے نہ پائے وہ خف(موزے ) پہن لے " (متفق علیہ)
اس حدیث میں رسول r نے موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنے کا حکم نہیں دیا, اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کاٹنے والا حکم منسوخ ہے – واللہ ولی التوفیق-
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 7:
كيا احرام كي نيت زبان سے بول کرکی جائے گی؟اوراگرکوئی شخص دوسرے کی طرف سے حج کررہا ہوتوکس طرح نیت کرے؟
جواب:
نیت کی جگہ دل ہے, اوراسکا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے دل میں یہ نیت کرے کہ وہ فلاں شخص کی طرف سے ,یا اپنے بھائی کی طرف سے ,یافلاں بن فلاں کی طرف سے حج کررہا ہے, اسکے ساتہ ہی زبان سے ( اللہم لبیک حجا عن فلان )یا (لبیک عمرۃ عن فلاں) کہنا مستحب ہے ,یعنی اپنے باپ یا جس فلاں کی طرف سے حج کی نیت ہو اسکا نام لے , تاکہ دل کی نیت کو الفاظ کے ذریعہ موکد کردے, کیونکہ رسول اللہ r نے حج اورعمرہ کے الفاظ کے ساتہ نیت کی ہے, اسلئے آپ r کی اتباع میں زبان سے حج اورعمرہ کی نیت کرنا مشروع ہے, اسی طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کے سکھلائے ہوئے طریقہ کے مطابق زبان سے نیت کی ہے ,چنانچہ وہ بلند آوازسے تلبیہ پکارتے تھے , سنت یہی ہے , لیکن اگرکوئی شخص بلندآواز سے نیت نہ کرے اورصرف دل کی نیت پراکتفا کرلے تو یہ بھی کافی ہے-
دوسرے شخص کی طرف سے حج کرنے کی صورت میں آدمی اسی طرح اعمال حج ادا کرے گا جس طرح اپنی طرف سے حج کرتا ہے ,وہ اسی طرح مطلق تلبیہ پکارے گا گویا اپنی طرف سےحج کررہا ہو,فلاں یا فلاں کانام ذکرکرنے کی ضرورت نہیں, لیکن اگروہ فلاں کا نام لینا چاہے تو شروع تلبیہ میں نام لینا افضل ہے ,یعنی شروع شروع میں جب احرام باندھ رہا ہو اسوقت (لبیک حجا عن فلان )یا(لبیک عمرۃ عن فلاں) یا (لبیک عمرۃ وحجا عن فلاں) کہے گا ,اسکے بعد دیگرحجاج اورمعتمرین کی طرح بالکل اسی طرح مسلسل تلبیہ پکارتا رہے گا گویا وہ اپنی طرف سے تلبیہ پکاررہا ہو,
"لبیک اللہم لبیک, لبیک لا شریک لہ لبیک, إن الحمد والنعمۃ لک والملک, لاشریک لک, لبیک اللہم لبیک, لبیک الہ الحق لبیک"
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال 6:
عورت کے لئے موزے اوردستانے میں احرام باندھنا کیساہے؟ اورجس کپڑے میں وہ احرام باندھ چکی ہے کیا اسکا نکالنا جائزہے؟
جواب:
عورت كے موزے یا جوتے میں احرام باندھنا افضل اورزیادہ پردے کا ذریعہ ہے, اوراگرکشادہ کپڑے میں احرام باندھ لے توبھی کافی ہے, موزے پہن کراحرام باندھنے کے بعد اگرموزے اتاردے تواسمیں کوئی حرج نہیں , جس طرح کہ مرد جوتے پہن کراحرام باندھے, پھرجب چاہے جوتے اتاردے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا –

البتہ عورت دستانے میں حرام نہیں باندھ سکتی ,کیونکہ محرم عورت کودستانے استعمال کرنے سے منع کیا گیا ,اسی طرح اسکے لئے چہرے پرنقاب جیسے برقع وغیرہ ڈالنا بھی درست نہیں, کیونکہ رسول اللہ r نے اس سے منع فرمایا ہے ,ہاں غیرمحرم (اجنبی ) مردوں کی موجودگی میں نیزطواف اورسعی کے دوران اسکے لئے چہرے پراوڑھنی ڈالنا یا پردہ کرنا ضروری ہے ,عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے ,وہ بیان کرتی ہیں کہ سوارہمارے پاس سے گزرتے تھے اورہم لوگ رسول اللہ r کے ساتہ تھے , پس جب سوارہمارے سامنے پہنچتے تو ہم میں سے ہرعورت اپنے سرسے پردہ گراکرچہرہ ڈھک لیتی ,اورجب وہ ہمارے پاس سے گزرجاتے تو ہم اپنے چہرے کھول لیتیں (سنن ابی داؤد وسنن ابن ماجہ)
مرد کے لئے احرام کی حالت میں خف (موزے) کا پہننا جائزہے ,بھلے ہی وہ ٹخنوں کے نیچے سے کٹے ہوئے نہ ہوں , جمہورکے نزدیک موزوں کا ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دینا ضروری ہے ,لیکن صحیح بات یہ ہے کہ جوتے نہ ملنے کی صورت میں خفین (موزوں) کا ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا ضروری نہیں, کیونکہ رسول اللہ r نے عرفہ میں لوگوں کوخطبہ دیا توارشاد فرمایا :
"جوتہبند نہ پائے وہ پائجامہ پہن لے , اورجوجوتے نہ پائے وہ خف(موزے ) پہن لے " (متفق علیہ)
اس حدیث میں رسول r نے موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنے کا حکم نہیں دیا, اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کاٹنے والا حکم منسوخ ہے – واللہ ولی التوفیق-
 
Top