سوال 1:
حج کے تین اقسام کون کون سے ہیں اورہرایک کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہے؟ نیز ان تین اقسام میں سب سے افضل حج کون سا ہے؟
جواب :
اہل علم –رحمۃ اللہ علیہم- نے حج کی تین قسمیں بیان کی ہیں, اوران میں سے ہرقسم رسول اللہ r کی صحیح احادیث سےثابت ہے-
پہلی قسم :یہ ہے کہ صرف عمرہ کا احرام باندھے, یعنی عمرہ کی نیت کرے اور
(اللہم لبیک عمرۃ ) یا
(لبیک عمرۃً)یا
(اللہم إنی أوجبتُ عمرۃً) کہ کرتلبیہ پکارے ,مشروع یہ ہے کہ غسل کرنے, خوشبولگانے اورضرورت ہوتومونچہ کاٹنے ,ناخن تراشنے اوربغل کے اورزیرناف کے بال صاف کرنے ,نیز اگراحرام باندھنے والا مرد ہوتو سلے ہوئے کپڑے اتارکراحرام کے کپڑے چادراورتہبند پہننے کے بعد نیت کی جائے اورمذکورہ کلمات کہے جائیں ,یہی افضل ہے-
عورت کے لئے احرام کے تعلق سے کوئی خاص لباس نہیں, بلکہ وہ جس لباس میں چاہے احرام باندھ سکتی ہے, ہاں افضل یہ ہے کہ وہ لباس جاذب نظر,حسین وجمیل اوردیکھنے والوں کے لئے باعث فتنہ نہ ہو, یہی اسکے لئے افضل ہے –
احرام باندھتے وقت مردیاعورت
(اللہم لبیک عمرۃً) کہنے کے بعد اگریہ کہ لے کہ "اگرمجھے کوئی عذرپیش آگیا تو جس جگہ عذرپیش آئیگا میں وہیں حلال ہوجاؤں گا" یا یہ کہے کہ " اے اللہ ! میرایہ عمل قبول فرما" یا یہ کہے کہ "اے اللہ! اس عبادت کی تکمیل میں میری مدد فرما" تواسطرح کے الفاظ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے –
اگرمحرم نے مشروط احرام باندھا ,یعنی احرام باندھتے وقت اس نے یہ کہا کہ " اگرمجھے کوئی عذرپیش آگیاتو جس جگہ عذرپیش آئیگا میں وہیں حلال ہوجاؤں گا" یا اسی قسم کے کوئی اورالفاظ اسنے کہے, اوراسے واقعتاً کوئی ایسا عذرپیش آگیا جواتمام حج سے مانع ہے ,تووہ حلال ہوجائیگا اوراس پرکوئی چیز واجب نہیں ہوگی,کیونکہ ضباعہ بنت زبیربن عبد المطلب نے رسول r سے اپنے بیمارہونے کی شکایت کی ,توآپ نے فرمایا:
"حج کرواورمشروط احرام باندھوکہ مجھے جہاں کوئی عذر پیش آجائے گا میں وہیں حلال ہوجاؤں گی" (متفق علیہ)
لہذا اگرکوئی عورت عمرہ کے لئے مکہ آئے اوراسی طرح مشروط احرام باندھے, پھراسے حیض آجائے اورساتہ والے قافلہ کے انتظارنہ کرنے کی وجہ سے اپنے پاک ہونے تک اسکا مکہ میں قیام کرنا مشکل ہو, تواسکے لئے یہ عذرتصورکیا جائیگا اوروہ حلال ہوجائےگی – اسی طرح اگرکسی مرد کوکوئی مرض لاحق ہوگیا جواتمام عمرہ سے مانع ہے, یا اس کے علاوہ کوئی بھی عارضہ لاحق ہوگیا جس کے سبب وہ اپنا عمرہ مکمل نہیں کرسکتا ,تووہ حلال ہوجائےگا – یہی حکم حج کا بھی ہے جوحج کے مذکورہ بالا اقسام میں سے دوسری قسم ہے-
دوسری قسم: يہ ہے کہ صرف حج کا احرام باندھے ,یعنی حج کی نیت کرے اور
(اللہم لبیک حجا) یا
(لبیک حجا) یا
(اللہم قد اوجبتُ حجّاً) کے الفاظ کے ساتہ تلبیہ پکارے ,یہاں بھی عمرہ کی طرح مشروع کاموں ,مثلاً غسل کرنے ,خوشبو لگانے اورسلے ہوئے کپڑے اتارکراحرام کے کپڑے پہننے وغیرہ ,سے فارغ ہونے کے بعد یہ الفاظ اپنی زبان سے اداکرے گا, جیساکہ عمرہ کے بیان میں اوپرمذکورہوچکا ہے , یہی افضل ہے –
مطلب یہ ہے کہ اس بارے میں حج کا حکم وہی ہے جوعمرہ کا ہے , کہ مسلمان مرد اورعورت احرام اس وقت باندھیں جب وہ اللہ کے مشروع کردہ کاموں سے فارغ ہوچکے ہوں , مثلاً غسل کرنا ,خوشبولگانا اوراس قسم کی دیگرضروریات جواحرام باندھنے سے پہلے مرد اورعورت کو پیش آسکتی ہیں-
اگرضرورت ہوتو جس طرح عمرہ کے لئے مشروط احرام باندھنا مشروع ہے اسی طرح حج کے لئے احرام باندھتے وقت بھی یہ کہ سکتا ہے کہ " اگرمجھے کوئی ایسا عذرپیش آگیا جواتمام حج سے مانع ہو تو جس جگہ عذرپیش آیا میں وہیں حلال ہوجاؤں گا"
احرام کامیقات سے باندھنا واجب ہے ,احرام باندھے بغیرمیقات سے آگے نہیں جاسکتا ,لہذا اگرکوئی نجد سے یا طائف سے یا مشرق کی طرف سے آئے تو اسے طائف کی میقات "سیل " (وادی قرن) سے احرام باندھنا ہوگا, اگرکوئی شخص میقات سے پہلے احرام باندھ لے تویہ کفایت کرجائے گا لیکن میقات سے پہلے احرام نہ باندھنا افضل ہے ,یعنی سنت یہی ہے کہ احرام پہلے نہ باندھے ,بلکہ میقات پہنچنے تک موخررکھے ,کیونکہ رسول r نے میقات ہی سے احرام باندھا تھا-
کوئی شخص اگراپنے گھرہی سے غسل کرکے , خوشبولگا کراوردیگرمشروع کام مثلاً مونچہ کاٹنے وغیرہ سے فارغ ہوکرنکلے , یا موقع پاکرراستہ میں ان کاموں سے فارغ ہوجائے ,تویہ کفایت کرجائیگا بشرطیکہ احرام باندھنے کا وقت قریب ہو-
جمہوراہل علم اس طرف گئے ہیں کہ احرام باندہنے سے پہلے دورکعت نماز پڑھنا مستحب ہے ,ان کی دلیل رسول اللہ r کی یہ حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا :
"ميرے پاس میرے رب کا فرستادہ (فرشتہ) آیا اورکہاکہ اس مبارک وادی میں نمازپڑھو اورکہو : حج کے ساتہ عمرہ بھی- یعنی حج اورعمرہ کا ایک ساتہ تلبیہ پکارو(صحیح بخاری )
یہ واقعہ وادی ذوالحلیفہ میں پیش آیا تھا-
نیز رسول اللہ r نے ظہرکی نمازاداکرنے کے بعد احرام باندھاتھا ,اوریہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ نمازکے بعد احرام باندھنا افضل ہے-
مذکورہ قول درست ہے, لیکن واضح رہے کہ احرام کی دورکعت نمازکی مشروعیت پرکوئی واضح دلیل یا صحیح حدیث موجود نہیں, اسلئے اگرکوئی شخص دورکعت نمازپڑھ کراحرام باندھے تو اسمیں کوئی حرج نہیں ,اوراگروضو کرکے دورکعت تحیۃ الوضوء پڑھ کراحرام باندھ لے توبھی کافی ہے-
تیسری قسم :يہ ہے کہ حج اورعمرہ کا ایک ساتہ احرام باندہے ,یعنی حج اورعمرہ کی ایک ساتہ نیت کرے اور
(اللہم لبیک عمرۃً وحجا) یا
(حجا وعمرۃً) کہ کرتلبیہ پکارے ,یامیقات پرصرف عمرہ کا تلبیہ پکارے, پھرراستہ میں عمرہ کے ساتہ حج بھی شامل کرلے اورطواف شروع کرنے سے پہلے پہلے حج کا تلبیہ بھی پکارلے- اورحج کی یہ تیسری قسم "حج قران " کہلاتی ہے, جسکا مطلب حج اورعمرہ کا ایک ساتہ اداکرنا ہے, نبی کریم r نے حجۃ الوداع کے موقع پر"حج قران" ہی کا احرام باندھا تھا,اورعمرہ اورحج کا ایک ساتہ تلبیہ پکارا تھا ,اورہدی کے جانوراپنے ساتہ لائے تھے ,جیساکہ انس اورابن عمررضی اللہ عنہم وغیرہم کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے – اس لئے ہدی کے جانورساتہ لانے والے کے لئے "حج قران "ہی افضل ہے, البتہ جوشخص ہدی ساتہ نہ لائے اسکے لئے "حج تمتع" (یعنی عمرہ سے حلال ہونے کے بعد حج کا احرام باندھنا) افضل ہے, نبی r کے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے اورطواف اورسعی سے فارغ ہونے کے بعد یہی بات طے پائی, اورجن صحابہ نے حج قران یا حج افراد کا احرام باندھا تھا آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام کو عمرہ سے بدل دیں , چنانجہ انہوں نے طواف کیا ,سعی کی ,بال کٹوائے اورپہرحلال ہوگئے- اس سے ثابت ہوا کہ ہدی کا جانورساتہ نہ لانے والے کے لئے "حج تمتع " افضل ہے –
حج قران یا افراد کا احرام باندھنے والا جب اپنے احرام کوعمرہ سے بدل دی تو وہ متمتع شمارہوگا ,جس شخص نے حج افراد یا قران کی نیت کی ہواوراسکے پاس ہدی کا جانورنہ ہوتو اسکے لئے مشروع یہ ہے کہ وہ طواف اورسعی کرکے اوربال کٹواکرحلال ہوجائے اورمتمتع بن جائے, جیساکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی r کے حکم سے کیا تھا ,نیز آپ r نے فرمایا تھا:
" جوبات مجھے بعد میں معلوم ہوئی وہ اگرپہلے معلوم ہوجاتی تو ہدی کا جانورمیں ساتہ نہ لاتا اوراپنے احرام کو عمرہ سے بدل دیتا"
عمرہ کرنے والااگرحج کا ارادہ نہیں رکھتا تو وہ صرف معتمرکہلائےگا ,اسے متمتع بھی کہا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض صحابہ کے کلام میں استعمال ہوا ہے,مگرفقہاء کی اصطلاح میں ایسا شخص جو موسم حج مثلاً شوال یا ذی قعدہ میں مکہ آئے اورعمرہ کرکے وطن واپس چلاجائے معتمرہی کہلائےگا, ہاں اگروہ حج کی نیت کرکے مکہ میں ٹہرجائے تو متمتع شمارہوگا ,اسی طرح جو شخص رمضان میں یا کسی اورمہینہ میں عمرہ کے لئے مکہ آئے وہ بھی معتمرکہلائے گا,عمرہ کے معنی بیت اللہ کی زیارت کے ہیں-
حاجی اس صورت میں متمتع کہلائےگا جب وہ رمضان کے بعد موسم حج میں عمرہ کرے اورپھرحج کی نیت سے مکہ میں ٹھرارہے اورحج کا وقت ہونے پرحج کرے, جیسا کہ اوپربیان ہوا- اسی طرح جس نے حج قران کا احرام باندھا اوراحرام کو فسخ کئے بغیر حج کے لئے احرا م ہی کی حالت میں باقی رہا, وہ بھی متمتع کہلائے گا اوروہ اللہ تعالى کے اس حکم کے ضمن میں شامل ہے :
]
فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ } (196) سورة البقرة
پس جو شخص عمرہ کو حج سے ملاکرتمتع کرنا چاہے تو جو میسرآئے قربانی کرے-
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قارن کو متمتع کہا جاسکتا ہے , نبی کریم r کے اصحاب کے یہاں یہی بات معروف بھی تھی , چنانچہ ابن عمرd کی حدیث ہے کہ رسول d نے عمرہ کوحج سے ملاکرتمتع فرمایا ہے, حالانکہ آپ نے حج قران کا احرام باندھا تھا- لیکن فقہاء کی اصطلاح میں متمتع وہ شخص ہے جوعمرہ کرکے حلال ہوجائے ,پھرمثلاً 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کرحج کرے , اوراگرحج اورعمرہ کا احرام ایک ساتہ باندھے اوربیچ میں عمرہ کرکے حلال نہ ہوتو قارن کہلائے گا , لیکن اگرمطلب اورحکم واضح ہو تو اصطلاح میں کوئی جگھڑا نہیں-
قارن اورمتمتع دونوں کے احکام ایک ہیں ,چنانچہ دونوں کو ہدی قربان کرنی ہوگی, اورہدی میسرنہ ہونے کی صورت میں تین دن ایام حج میں اورسات دن وطن واپس ہوکر( کل دس دن ) روزہ رکھنا ہوگا ,اسی طرح ہرایک کو متمتع بھی کہا جاسکتا ہے ,البتہ صفا اورمروہ کے درمیان سعی کرنے میں دونوں کے احکام علیحدہ ہیں , چنانچہ جمہورعلماء کے نزدیک متمتع کو دومرتبہ سعی کرنی ہوگی ,ایک سعی طواف عمرہ کے ساتہ اوردوسری طواف حج کے ساتہ ,جیساکہ ابن عباس d کی حدیث سے ثابت ہوتاہے , کہ جن صحابہ نے حج تمتع کیا تھا اورعمرہ کرکے حلال ہوگئے تھے انہوں نے دوبارہ سعی کی تھی ,ایک طواف عمرہ کے ساتہ اوردوسری طواف حج کے ساتہ ,اوریہی جمہوراہل علم کا مسلک ہے-
البتہ قارن کے لئے صرف ایک سعی کافی ہے , یہ سعی اگراس نے طواف قدوم کے ساتہ کرلی تو کافی ہے , اوراگرموخرکرکے طواف حج کے ساتہ کی توبھی کافی ہے, یہی قول معتبرہے اورجمہوراہل علم کا مسلک بھی یہی ہے, یعنی متمتع کودومرتبہ سعی کرنی ہوگی اورقارن کو صرف ایک مرتبہ ,جسے وہ چاہے توطواف قدوم کے ساتہ ہی کرلے اوریہی افضل بھی ہے ,کیونکہ نبی r نے ایسا ہی کیا تھا ,یعنی آپ نے طواف کیا اوراسکے ساتہ ہی سعی بھی کرلی , اورآپکا یہ طواف طواف قدوم تھا ,کیونکہ آپ قارن تھے – اوراگرچاہے تو سعی کو موخرکرکے طواف حج کے ساتہ کرے ,اوریہ اللہ تعالى کی جانب سے بندوں کے لئے رحمت اورایک طرح کی آسانی ہے ,والحمد للہ-
یہاں پرایک مسئلہ اورہے جس کے تعلق سے سوال اٹہ سکتا ہے, وہ یہ کہ متمتع اگرعمرہ کرکے سفرکرجائے توکیا دم دینا (ہدی ذبح کرنا) اس سے ساقط ہوجائےگا ؟ تواس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ,ابن عباس d کا معروف قول یہ ہے کہ متمتع سے دم دینا کسی بھی حال میں ساقط نہیں ہوگا ,خواہ وہ اپنے اہل وعیال کے پاس سفرکرجائے یاکہیں اور, کیونکہ متمتع پردم واجب ہونے کے دلائل عام ہیں- اوراہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ متمتع اگرعمرہ سے فارغ ہوکرقصرکی مسافت تک سفرکرجائے ,پھرحج کا احرام باندھ کرلوٹے تو وہ مفرد شمارہوگا اوردم دینا اس سے ساقط ہوجائے گا-
اہل علم کی ایک تیسری جماعت اسطرف گئی ہے کہ متمتع سے دم صرف اس صورت میں ساقط ہوگا جب وہ عمرہ سے فارغ ہوکراپنے اہل وعیال کے پاس چلاجائے ,
یہی قول حضرت عمراوران کے بیٹے عبد اللہ d سے بھی مروی ہےکہ متمتع اگرعمرہ سے فارغ ہونے کے بعد سفرکرکے اپنے اہل وعیال کے پاس چلاجائے ,پھرحج کے لئے واپس مکہ آئے , تو وہ مفرد شمارہو گا اوراسے دم نہیں دینا ہوگا ,
لیکن اگراہل وعیال کے پاس جانے کے علاوہ کہیں اورجائے ,مثلاً عمرہ اورحج کے درمیان مدینہ چلا جائے یا جدہ یا طائف چلا جائے تو اس سفرکی وجہ سے وہ حج تمتع کے حکم سے باہرنہیں ہوگا-
دلیل کی رو سے یہی آخری قول ہی زیادہ واضح اورصحیح معلوم ہوتا ہے ,یعنی عمرہ اورحج کے درمیان اس قسم کے سفرکی وجہ سے متمتع "حج تمتع" کے حکم سے خارج نہیں ہوگا,بلکہ وہ متمتع شمارہوگا اوراسے دم دینا ہوگا, بھلے ہی عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد اس نے مدینہ یا جدہ یا طائف کا سفرکیا ہو,
ہاں اس صورت میں وہ مفرد مان لیا جائے گا جب وہ سفرکرکے اپنے اہل وعیال کے پاس چلا جائے اورپھرمیقات سے حج کا احرام باندھ کرمکہ لوٹے , جیساکہ حضرت عمراوران کے بیٹے عبد اللہ d کا قول ہے , کیونکہ بال بچوں کے پاس سفرکرجانے سے عمرہ اورحج کے درمیان تعلق باقی نہیں رہ جاتا –
بہرحال , احتیاط اسی میں ہے کہ اختلاف سے بجتے ہوئے ,جیسا کہ ابن عباس d سکا مسلک ہے ,ہرصورت میں دم دے ,بھلے ہی عمرہ کے بعد سفرکرکے وہ اپنے اہل وعیال کے پاس گیا ہو, اسی طرح جولوگ قصرکی مسافت تک سفرکرجانے سے دم ساقط مانتے ہیں انکے نزدیک احتیاط اسی میں ہے کہ اختلاف سے بچتے ہوئے وہ دم دے اورپوری سنت اداکرے, بصورت استطاعت یہی بہتراورافضل ہے ,اوردم دینے کی استطاعت نہ ہونے پرتین دن ایام حج میں اورسات دن وطن واپس ہوکر(کل دس دن) روزہ رکھے, جیساکہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ } (196) سورة البقرة
پس جو شخص عمرہ کو حج سے ملا کرتمتع کرنا چاہے تو جو میسرآئے قربانی کرے-اللہ تعالى کا یہ ارشاد متمتع اورقارن سب کو شامل ہے , کیونکہ قارن کو بھی متمتع کہا جاتا ہے, جیساکہ اوپرمذکورہوچکاہے – واللہ ولی التوفیق-