- شمولیت
- مارچ 07، 2012
- پیغامات
- 679
- ری ایکشن اسکور
- 743
- پوائنٹ
- 301
حج كا نبوی طريقہ
سعودی عرب میں قيام كے دوران متعدد بار لوگوں كو حج و عمرہ پر لے جانے كی سعادت حاصل ہوئی اسی دوران يہ مختصر سا پمفلٹ تيار كيا تھا افادہ عام كے لئے پیش خدمت ہے۔حج يا عمرہ پر جانے والے ہر مسلمان سے دعاؤں کی خصوصی درخواست ہے۔
حج کی اقسام
حج ادا کرنے کی تین اقسام ہیں
(۱) حج تمتّع :۔
اوریہی سب سے افضل ہے۔یعنی میقات کے پاس صرف عمرہ کی نیت کریں‘اور یہ کہیں ’’لبیک عمرۃ‘‘ مکہ آنے کے بعد پہلے عمرہ کریں۔عمرہ مکمل کر لینے کے بعد احرام کھول دیںاور حلال ہو جائیں ۔پھر آٹھ ذو الحجہ کو دوبارہ حج کی نیت سے مکہ ہی سے احرام باندھیں اور حج کے اعمال کرنا شروع کر دیں۔
(۲)حج قران:۔
یعنی میقا ت کے پاس حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کریں اور کہیں’’لبیک حجاً وعمرۃً‘‘اب آپ عمرہ کر لینے کے بعد احرام نہیں کھولیں گے۔بلکہ اسی احرام میں آٹھ ذو الحجہ کو حج کے اعمال شروع کر دیں گے۔
(۳)حج مفرد :۔
یعنی میقات کے پاس صرف حج کی ہی نیت کریں اور کہیں’’لبیک حجاً‘‘اب آپ مکہ جا کر پہلے طواف قدوم کریں گے ‘پھرسعی۔اگر آپ نے طواف قدوم کے ساتھ سعی کر لی تو طواف افاضہ کے بعد سعی کی ضرورت نہیں۔ دس ذو الحجہ تک اسی احرام میں رہیں گے ۔اور آٹھ ذو الحجہ کو حج کے اعمال اسی احرام میں شروع کر دیں گے۔
نوٹ:۔ حج تمتّع اور حج قران کرنے والے پر قربانی ضروری ہے ‘جبکہ حج مفرد کرنے والے پر قربانی نہیں ہے۔
حج کے ارکان
۱۔احرام باندھنا
۲۔وقوف عرفہ کرنا
۳۔طواف افاضہ کرنا
۴۔صفا و مروہ کی سعی کرنا
حج کے واجبات
۱۔میقات سے احرام باندھنا
۲۔میدان عرفات میں جس نے دن کو قیام کیا ہو ‘اس کو غروب آفتاب تک ٹھہرنا۔
۳۔مزدلفہ میں فجر تک رات گزارنا‘یہاں تک کہ خوب روشنی ہو جائے۔سوائے عورتوں اور کمزور لوگوں کے ‘انہیں آدھی رات کے بعد جانے کی اجازت ہے۔
۴۔جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد حلق یاقصر کروانا۔
۵۔ایّام تشریق میں منیٰ میں رات گزارنا۔
۶۔ایّام تشریق میں رمی کرنا۔
۷۔طواف وداع کرنا۔
نوٹ:۔ جس آدمی کا کوئی رکن رہ گیا اس کا حج صحیح نہیں‘کیونکہ رکن کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔لیکن جس آدمی کا کوئی واجب رہ گیا تو اس پر دم(قربانی) ہے‘جس کو وہ مکہ میں ذبح کر کے وہاں کے فقراء میں تقسیم کرے گا۔
حج کی سنن
ارکان اور واجبات کے علاوہ جو کچھ بھی نبی ﷺ سے ثابت ہے ‘وہ سنن میں داخل ہے۔کسی سے اگر کوئی سنّت رہ گئی تو اس پر کچھ نہیں ہے۔
احرام کی حالت میں ممنوعہ اشیاء
خوشبو لگانا‘بالوں یا ناخنوں کو کاٹنا‘سر کو کپڑے سے ڈھانکنا‘شکار کرنا‘مباشرت یا جماع کرنا‘نکاح کرنا‘سلے ہوئے کپڑے پہننا‘جیسے بنیان اور پائجامہ وغیرہ‘حرم کے درخت یا جھاڑیوں کو کاٹنا۔
حج کے اعمال
آٹھ ذو الحجہ(ترویہ کا دن)
٭آٹھ ذو الحجہ کو چاشت کے وقت متمتّع غسل ‘صفائی وغیرہ کر کے دوسری مرتبہ احرام با ندھنے کے بعد ’’لبیک حجاً‘‘کہہ کر حج کی نیت کرے۔(جبکہ قارن اور مفرد تو پہلے ہی احرام میں ہوتے ہیں)
٭احرام باندھ کر نیت کر لینے کے بعد احرام کی ممنوعہ اشیاء سے بچا رہے۔
٭اور تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ روانہ ہو جائے۔وہاں پر پانچ نمازیں یعنی ظہر‘عصر‘مغرب‘عشاء فجرادا کرے۔اور ہر نماز اپنے وقت پر قصر پڑھے یعنی چار رکعت والی نمازدو دو رکعت ادا کرے۔
٭سفر میں نبی ﷺ فجر کی دو سنّتوں اور نماز وتر کے علاوہ کوئی سنت ادا نہیں کرتے تھے۔اور مسنون ذکر و اذکا ر پڑھتا رہے۔خصوصاّصبح وشام اور سوتے وقت کے اذکار کا خیال رکھے۔
٭یہ رات منیٰ میں ہی گزارے ‘اور نو ذو الحجہ کو نماز فجر ادا کر کے طلوع آفتاب کے بعد عرفات کی طرف روانہ ہو جائے۔
نو ذو الحجہ(عرفہ کا دن)
٭۹ ذو الحجہ کو نماز فجر منیٰ میں ادا کرکے طلوع آفتاب کے بعد تکبیر اور تلبیہ کہتے ہوئے عرفات آجائے۔
٭حاجی کے لئے اس دن کا روزہ رکھنا مکروہ ہے ‘ اس دن نبی ﷺکی خدمت میں دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا ‘جس کو آپ نے پی لیا۔
٭ممکن ہو تو زوال تک مسجد نمرہ میں رہنا سنت ہے۔پھر وہاں خطبہ ہو گا ‘جو دھیا ن سے سنے۔اس کے بعد ظہر و عصر کی نمازیں ایک ساتھ ظہر کے وقت میں دو دو رکعتیں(قصر)ادا کی جائیں گی۔جس میں ایک اذان اور دو اقامتیں ہوں گی۔
٭سارا عرفہ ہی ٹھہرنے کی جگہ ہے‘لیکن عرفہ کی حدود کا خیال رکھا جائے‘کیونکہ ’’وادی عرنہ ‘‘عرفہ میں داخل نہیں۔اگر ممکن ہو تو جبل رحمت کو اپنے اور قبلہ کے درمیان رکھے۔
٭غروب آفتاب تک ذکر واذکار میں مشغول رہے۔اور اس میں خشوع وخضوع اور دلجمعی کا خصوصی خیال رکھے ‘اور ’’لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ‘لہ الملک ولہ الحمد یحیی و یمیت وھو علیٰ کلّ شییٔ قدیر ‘‘کثرت سے کہتا رہے۔
٭غروب آفتاب کے بعد سکون و اطمینان کے ساتھ مزدلفہ روانہ ہو جائے‘اگر جگہ کشادہ ہو تو ذرا تیزی سے چلے ورنہ نہیں۔مزدلفہ پہنچنے کے بعد مغرب اور عشاء ایک ساتھ ایک اذان اور دو اقامتوں سے قصر ادا کرے۔یعنی مغرب کی تین اور عشاء کی دو رکعت ادا کرے۔اس کے بعد سوائے وتر کے اور کچھ نہ پڑھے۔
٭ساری رات مزدلفہ میں ہی گزارے ‘مگر کمزور لوگوں اور عورتوں کو رات کے آخری حصہ میں منیٰ جانے کی اجازت ہے۔
٭نماز فجر مزدلفہ میں ہی ادا کرے اور سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے تلبیہ کہتے ہوئے اطمینان و سکون کے ساتھ منیٰ روانہ ہو جائے۔
دس ذو الحجہ (نحر کا دن)
٭مزدلفہ میں نماز فجر ادا کرنے کے بعد کثرت سے اللہ کا ذکر کرے‘اور سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے منیٰ آجائے‘اور اگر ممکن ہو تو ’’وادی محسر‘‘ سے جلدی جلدی گزر جائے۔اور سات کنکریاں اٹھا لے جو منیٰ یا مزدلفہ میں سے کہیں سے بھی اٹھائی جا سکتی ہیں۔اس کے بعد آپکو مندرجہ ذیل کام کرنے ہیں۔
(۱)جمرہ عقبہ کو مسلسل یکے بعد دیگرے سات کنکریاں ماریں‘اور ہر مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔
(۲)اپنی قربانی ذبح کریں‘آپ بھی کھائیں اور غریبوں میں بھی تقسیم کریں۔قربانی صرف متمتّع اور قارن پر واجب ہے۔
(۳)پھر پورے سر کے بال منڈوائیں یا کٹوائیں‘منڈوانا زیادہ افضل ہے۔عورت صرف انگلی کے پور کے برابر بال کاٹے۔اب آپ احرام سے حلال ہو گئے لیکن یہ تحلّل اصغر ہے۔یعنی آپ کپڑے پہن سکتے ہیں‘خوشبو لگا سکتے ہیں۔بیوی کے علاوہ ساری چیزیں حلال ہو جائیں گی۔
(۴)اس کے بعد مکہ جائیں اور طواف افاضہ کریں‘اس میں رمل نہیں ہو گا۔پھر طواف کی دو رکعت ادا کریں۔پھر طواف کے بعد سعی کریں۔سعی حج تمتّع اور حج قران کرنے والے کے لئے ہے۔اگر مفرد نے طواف قدوم کے ساتھ سعی نہ کی ہو تو وہ بھی اب سعی کرے گا۔اس کے بعد آپ مکمل حلال ہو جائیںگے۔
٭مذکورہ اشیاء اگر آگے پیچھے ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔اس کے بعد آب زمزم نوش کریں اور مکہ میں ظہر کی نماز ادا کریں۔جبکہ بقیہ راتیں منیٰ میں گزارنا ضروری ہے۔
۱۱‘۱۲‘۱۳ ذوالحجہ( ایّام تشریق )
٭ایّام تشریق میں راتیں منیٰ میں گزارنا ضروری ہے۔رات گزارنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرنے کا بھی اہتمام کیا جائے۔
٭نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ایّام تشریق کھانے پینے اور ذکر واذکار کرنے کے دن ہوتے ہیں۔[مسلم]ان دنوں میں کثرت سے تکبیر کہنا مسنون ہے۔خصوصاًنمازوں کے بعد اس کا اہتمام کرنا چاہئے۔
٭ایّام تشریق میں روزانہ تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا بھی اللہ کا ذکر ہے۔تینوں جمرات کو ظہر کی اذان کے بعد(یعنی زوال کے بعد)کنکریاں مارنا شروع کریں۔پہلے چھوٹے جمرہ کو ‘پھر درمیانی جمرہ کو ‘اور آخر میں بڑے جمرہ کو ’’جسے جمرہ عقبہ بھی کہا جاتا ہے‘‘کنکریاں ماریں۔
٭جو شخص ۱۲ ذوالحجہ کو ہی جانا چاہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ ۱۲ ذوالحجہ کو کنکریاں مارنے کے بعد غروب آفتاب سے پہلے پہلے منیٰ سے نکل جائے۔اور اگر اس کو منیٰ میں ہی سورج غروب ہو گیا تو۱۳ ذوالحجہ کی رمی بھی ضروری ہے۔اور یہی افضل ہے کیونکہ نبی ﷺ نے ایسا ہی کیا تھا۔
٭تینوں جمرات کو سات سات کنکریاں مسلسل یکے بعد دیگرے ماریں۔اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہیں۔کنکری مارتے وقت مکہ آپ کے بائیں اور مسجد خیف یا منیٰ آپ کے دائیں ہو۔
٭چھوٹے جمرہ کو کنکریاں مارنے کے بعداسی حال میں قبلہ کی طرف رخ کرتے ہوئے دائیں طرف کچھ آگے بڑھیں‘وہاں ٹھہریں اور طویل دعا کریں۔جیسا کہ نبی ﷺ سے ثابت ہے۔
٭درمیانہ جمرہ کو کنکریاں مارنے کے بعد قبلہ رخ ہو کر بائیں طرف آگے بڑھیں اوروہاں ٹھہر کر طویل دعا کریں۔جبکہ جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد نہ ٹھہریں بلکہ وہاںسے روانہ ہو جائیں۔
٭اگرچہ ضرورت کے وقت رات کو بھی رمی کرنا جائز ہے ‘مگر دن کو افضل ہے۔اگر ممکن ہو تو منیٰ میں قیام کے دوران مسجد خیف میں نماز اد ا کرنا بہترہے۔جب آپ اپنے گھر جانا چاہیں تو آخر میں طواف وداع کریں ۔حیض اور نفاس والی عورت پر طواف وداع نہیں ہے۔
٭یوں حج کے سارے مناسک ختم ہو جاتے ہیں۔والحمد للہ رب العالمین۔
چند غلطیوں کی نشاندہی
۱۔احرام کی ابتداء سے مناسک حج کی انتہا تک اضطباع کی حالت میں رہنا۔
۲۔کسی کی قیادت میں اجتماعی تلبیہ کہنا۔
۳۔مسجد میں داخل ہوتے وقت یا کعبہ کو دیکھتے وقت بعض غیر مسنون دعاؤں کا پڑھنا۔
۴۔سبز نشانوں کے درمیان بعض عورتوں کا دوڑنا‘جبکہ یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہے۔
۵۔احرام سے حلال ہوتے وقت سر کا کچھ حصہ منڈوا دینا اور کچھ حصہ چھوڑدینایا پورے سر کے بال کٹوانے کی بجائے چند بالوں کو کاٹ لینا۔
۶۔عرفات میں دعا کے لئے جبل رحمت پر چڑھنے کی کوشش کرنا
۷۔جمرات کی رمی کے وقت جوتیاں یا بڑے بڑے پتھر مارنا۔
۸۔عید کے دن یہ سمجھتے ہوئے داڑھی منڈوانا کہ یہ زینت ہے۔حالانکہ یہ عمل افضل جگہوں اور افضل وقت میں اللہ کی نافرمانی ہے۔
۹۔حجر اسود کو نفع ونقصان کا مالک سمجھ کراسے ہاتھ لگا کر اپنے جسم سے ملنا۔
۱۰۔بیت اللہ کے تمام کونوں کو چھونا یا رکن یمانی کو بوسہ دینا‘جبکہ بوسہ صرف حجر اسود کو دیا جاتا ہے۔
۱۱۔ تمام کنکریوں کو ایک ہی مرتبہ پھینک دینا ۔
۱۲۔کعبہ سے الوداع ہوتے وقت اس کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرنا یا طواف وداع کے بعد مکہ میں ٹھہرنا ۔
۱۳۔نبی ﷺکی قبر کی زیارت کو حج کا حصہ سمجھنا اورقبر کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا ۔
یہ حج کے متعلق مختصر سا پمفلٹ ہے ‘جس کا مقصدیہ ہے کہ مسلمان اپنی حج نبی ﷺ کے طریقہ کے مطابق ادا کر سکیں۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ اسے اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے‘ اور اس کو آخرت میں ذریعہ نجات بنائے۔آمین
اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔