محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 06-ذو الحجہ-1434 کا خطبہ جمعہ بعنوان " حج ۔۔نصائح اور اسباق " ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے فریضہ حج کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے حج کے ہر رکن سے حاصل ہونے والی نصیحتیں اور اسباق ذکر کئے ، اور اس بات پر زور دیا کہ پورے حج میں حجاج کرام اللہ کاذکر اور کثرت سے دعائیں کریں۔پہلا خطبہ:
یقینا تمام تعریفیں اللہ عز وجل کیلئے ہیں، ہم اسکی کی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، اور اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درودو سلام بھیجے۔
حمد اور درود و سلام کے بعد!
اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، اور اسلام کے مضبوط کڑے سے تھام لو۔
مسلمانو!
اللہ تعالی اپنی مخلوق کیلئے نیکیوں کی بہاریں بار بار میسر کرتا ہے تا کہ انکے گناہ دُھل جائیں، اور انکے درجات بھی بلند ہوں، اسلام کا ایک رکن جن دنوں میں ادا کیا جاتا ہے اسکی راتوں کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائی ہے، اور فرمایا: وَلَيَالٍ عَشْرٍ قسم ہے دس راتوں کی۔ [الفجر: 2] پھر اس جگہ کی بھی قسم اٹھائی جہاں وہ رکن ادا کیا جاتا ہے، فرمایا: لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ میں اس شہر -مکہ -کی قسم اٹھاتا ہوں۔[البلد: 1]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں : "اللہ تعالی نے مکہ ام القری کی اس حالت میں قسم اٹھائی ہےجب حاجی یہاں پر موجود ہو، تاکہ اسے اس شہر کی قدر منزلت کا اندازہ اس وقت ہو جب یہاں کے سب لوگوں نے احرام باندھ رکھا ہو"
یہ حج اللہ کے ہاں افضل اعمال میں شامل ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ترین اعمال کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانا) کہا گیا : اسکے بعد؟ آپ نے فرمایا: (جہاد فی سبیل اللہ) کہا گیا : اسکے بعد؟آپ نے فرمایا: (حج مبرور) متفق علیہ
ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جب اسلام غالب اور عام ہوجائے جسکی وجہ سے جہاد فرض کفایہ کے درجے میں پہنچ جائے تو اس وقت حج افضل ترین عبادت ہوگا"
اسی حج کے دنوں میں اللہ تعالی آسمان والوں کے سامنے حجاج کے بارے میں فخر فرماتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عرفہ کے دن سے بڑھ کر کوئی ایسا دن نہیں جس میں اللہ تعالی بندوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے، وہ یقینا قریب ہوتا ہےاور پھر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں) مسلم
حج کی ادائیگی سے گناہ اور برائیاں جھڑ جاتی ہیں، آپ نے فرمایا: (جس شخص نے بیت اللہ کا حج کیا اور کسی قسم کے بیہودہ یا فسق کا ارتکاب نہیں کیا وہ ایسے واپس آتا ہے جیسےاسکی ماں نے آج اسے جنم دیا ہو) متفق علیہ
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس حدیث کا ظاہر یہی ہے کہ چھوٹے بڑے ، تمام گناہ بخش دئے جائیں گے"
اسی حج کی وجہ سے گناہوں کے پہاڑ بھی ریزہ ہوجاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام سابقہ تمام گناہ مٹا دیتا ہے، ہجرت سے سابقہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور حج بھی پچھلے سارے گناہ ختم کردیتا ہے) مسلم
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اسکا حدیث کا مطلب ہے کہ تمام گناہ ختم کر کے اسکے اثرات بھی مٹا دیتا ہے"
یہ ایک ایسا رکن ہے جس میں نصائح اور اسباق بھرے ہوئے ہیں، حج کا سب سے بڑا مقصد اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور صرف اسی کیلئے عبادت ہے، حج میں داخل ہوتے ہی توحید کا اعلان ہے، اور شرک سے بیزاری ہے" لبَّيك اللهم لبَّيك، لبَّيك لا شريكَ لك لبَّيك " یا اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ، یا اللہ! میں حاضر ہوں۔
عقیدہ توحید کے اظہار اور شرک سے بیزاری کیلئے ہی بیت اللہ کو بنایا گیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے ابراہیم کے لئے بیت الحرام کی جگہ تجویز کی تھی (اور انھیں کہا تھا کہ) میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنانا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا رکھنا۔ [الحج: 26]
چنانچہ جب توحید کا غلبہ ہوگیا تو اس شہر کو اللہ تعالی نے امن و امان والا بنا ڈالا، اللہ تعالی نے فرمایا: وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا اور جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ [البقرة: 125]
حج میں رسولوں پر ایمان واضح ہونے کیساتھ ساتھ ان سے محبت کی تجدید بھی ہوتی ہے، چنانچہ قربانی، جمرات کو کنکریاں مارنا، اور طواف ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
حقیقت میں دعا ہی عبادت ہے، جبکہ حاجی کی دعا کیلئے قبولیت کی زیادہ امید ہوتی ہے، اس لئے کہ ابراہیم علیہ السلام کی تمام دعائیں ، قبولیتِ عمل کیلئے دعا، اسلام پر قائم رہنے کی دعا، مناسک حج سیکھنے کی دعا، ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کیلئے دعا، مکہ کیلئے امن و امان کی دعا، اس میں رہنے والوں کیلئے رزق کی دعا، لوگوں کے مکہ کی طرف کھنچتے چلے آنے کی دعا، اپنے اور اپنی اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچانے کی دعا، اسی طرح اپنے لئے اور اپنی اولاد کیلئے نمازی ہونے کی دعا، اپنے لئے اور دیگر تمام مؤمنین کیلئے انہوں نے مغفرت کی دعا اسی بیت اللہ کے پاس ہی مانگی تھیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حج کے مختلف مواقع پر دعائیں ثابت ہیں جیسے عرفہ کے دن، صفا ، مروہ پہاڑی پر، اسی لئے ایک حاجی انبیاء کے طریقے پر چلتے ہوئے حج کے دوران کثرت سے دعائیں کرتا ہے۔
اللہ تعالی پر توکل عبادت کے دو ارکان میں سے ایک ہے، چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے بنایا تھا، جسکو قرآن نے کچھ یوں بیان کیا: رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے قابل احترام گھر کے پاس ایسے میدان میں لا بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں۔[إبراهيم: 37]، پھر لوگوں نے آپکے توکل کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ پروردگار ! بعض لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے ۔[إبراهيم: 37]
ایک ہی جگہ پر اتنی تعداد میں پوری دنیا سے حجاج کرام کے جمع ہونے سے ایک تو اس امت کی فضیلت واضح ہوتی ہے اور دوسری طرف اسلام کی عظمت بھی اجاگر ہوتی ہے۔
حج میں عقیدہ الولاء والبراء کی توثیق بھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ حج کے موقع پر اعلان کردیں: (اس سال کے بعد کوئی بھی مشرک حج نہ کرے) بخاری
حج میں کفار کی جاہلیت سے تعلق رکھنے والی عبادات کو عملی طور پر مسترد کیا جاتا ہے، جیسے مشرکین کا تلبیہ خاص تھا، وہ لوگ مزدلفہ سے ہی واپس چلے جاتے تھے عرفات نہیں جاتے تھے، اسی طرح حج کے ارکان ادا کرنے کے بعد وہ لوگ اپنے ذاتی قصہ کہانیوں میں مشغول ہوجاتے ، اور مسلمانوں کی طرح کثرت سے اللہ کا ذکر نہیں کرتے تھے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "پوری شریعت میں مشرکین کی مخالفت قصداً کی جاتی ہے، خاص طور پر حج میں "
اسلام میں سب سے لمبی اور پیچیدہ بدنی عبادت حج ہی ہے، حج کے دوران مختلف عبادات ، تلبیہ ، طواف، سعی، مبیت، کنکریاں مارنا، سر کے بال منڈوانا، قربانی کرنا، اسلامی شعائر کی تعظیم کی شکل میں کی جاتی ہیں، اور کامل بندگی دلوں میں تقوی کی بنا پر حاصل ہوتی ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عبادت کی روح جلالت ، اور محبت میں پنہاں ہے، ان دونوں میں ایک بھی عبادت سے ختم ہوجائے تو عبادت ، عبادت نہیں رہتی"
حج کی ادائیگی میں اطاعت گزاری پر صبر کرنے کی عملی تربیت ہے، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "جہاد افضل ترین عمل ہے تو کیا ہم جہاد نہ کریں؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں، افضل اور بہترین جہاد حج مبرور ہے) بخاری
اللہ تعالی کے احکامات کے سامنے سرِ تسلیم خم کردینا ہر شخص پر واجب ہے چاہے اسے حکمِ الہی کی حکمت کا علم ہو یا نہ ہو، ابراہیم علیہ السلام جب بیابان وادی میں تھے تو انہیں اللہ تعالی نے فرمایاتھا: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا نیز یہ کہ لوگوں میں حج کا عام اعلان [٣٥] کر دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل۔ [الحج: 27]تو انہوں نے اللہ کا حکم مانتے ہوئے حج کیلئے لوگوں کو صدا لگائی، تو اب لوگ بیت اللہ کی طرف دوڑتے ہوئے لپکتے ہیں، انہیں اس گھر کی طرف سفر کیلئے خرچہ کرتے ہوئے خوشی بھی محسوس ہوتی ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتےہیں: "مسلمانوں میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو کعبہ کی زیارت اور اسکے طواف کیلئے نہ تڑپے، لوگ چہار سوئے عالم سے بیت اللہ کی طرف دوڑے چلے آتےہیں"
حج اسلام کا ایسا رکن ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا عملی نمونہ پیش کیا جاتا ہے، چنانچہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے بارے میں کہتے ہیں: "میں جانتا ہوں کہ توں ایک پتھر ہے، نہ نقصان دے سکتا ہے اور نہ ہی فائدہ، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا ، تو میں کبھی بھی تجھے نہ چومتا" متفق علیہ
تمام عبادات کی بنیاد اتباع ہے بدعات کیلئے ان میں کوئی گنجائش نہیں، طواف اور سعی کے ساتھ چکر ہوتے ہیں، سات چکروں کی حکمت کیا ہے ؟ یہ کسی کوبھی معلوم نہیں، اسی لئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجاج کرام کو کہا تھا: (تم مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو) مسلم
اللہ تعالی نے کسی کو بھی بیت اللہ کے علاوہ کہیں بھی طواف کی اجازت نہیں دی، اگر کوئی کرتا ہے تو وہ اپنی تباہی کا سامان پیدا کرر ہا ہے۔
حج میں یہ بھی درس دیتا ہے کہ مسلمان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، اسی لئے حج کے دوران روزانہ مختلف عبادات ہیں، ان میں سے ہر عبادت اپنے مقررہ وقت تک ہے اسکے بعد اس عبادت کا وقت ختم ہوجاتا ہے، جیسے عرفہ سے واپسی سورج غروب ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے، اور مبیت کا وقت سورج طلوع ہونے پر ختم ہوجاتا ہے۔
ان سلے دو کپڑے پہنا کر ہمیں کفن پوشی کا وقت یاد کروایا گیا ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے حج کی آیات کے بعد فرمایا: وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ اور جان لو کہ (آخرت کو) تم اسی کے حضور جمع کئے جاؤ گے
[البقرة: 203]
حج ہمیں یہ بھی بتلاتا ہے کہ لوگوں میں درجہ بندی تقوی کی بنیاد پر ہوتی ہے اس لئے حج کے دوران تقوی کو اپنا زادِ راہ بناؤ، اسی لئے فرمایا: وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى اور زاد راہ ساتھ لے لیا کرو اور (سفر حج میں) بہتر زاد راہ تو پرہیزگاری ہے۔ [البقرة: 197]
دلوں کی زندگی اللہ کےذکر میں ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے کثرت کے ساتھ حج کے سارے ایام میں اپنا ذکر کرنے کی تلقین کی ہے، فرمایا: وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ گنتی کے دنوں میں اللہ کا خوب ذکر کرو۔[البقرة: 203]
اسی طرح اللہ تعالی نے کچھ مقامات کا ذکر کیا جہاں پر کثرت سے ذکرِ الہی کا حکم بھی دیا، اور فرمایا: فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ پھر جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعر الحرام (مزدلفہ) پہنچ کر اللہ کو اس طرح یاد کرو جیسے اس نے تمہیں ہدایت کی ہے۔ [البقرة: 198]، پھر فرمایا: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ پھر وہاں سے واپس لوٹو جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیں اور اللہ سے بخشش مانگتے رہو۔ [البقرة: 199]
اسی طرح جب حاجی تمام ارکان مکمل کر چکے تو اللہ تعالی نے پھر سے کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا پھر جب تم ارکان حج ادا کر چکو تو اللہ تعالیٰ کو ایسے یاد کرو جیسے تم اپنے آباؤ اجداد کو یاد کیا کرتے تھے یا اس سے بھی بڑھ کر۔ [البقرة: 200]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کعبۃ اللہ کا طواف، صفا اور مروہ کے درمیان سعی اور جمرات کو کنکریاں مارنا ، یہ سب کام صرف اللہ کے ذکر کیلئے مقرر کئے گئے ہیں)احمد
انسان حج کے دوران عملی طور پر اچھا اخلاق اور اچھی صفات حاصل کرتا ہے، اور سب کیلئے بھلائی تلاش کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ جو شخص ان مہینوں میں حج کا عزم کرے (اسے معلوم ہونا چاہیے کہ) حج کے دوران نہ جنسی چھیڑ چھاڑ جائز ہے، نہ بدکرداری اور نہ ہی لڑائی جھگڑا۔ اور جو بھی نیکی کا کام تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔ [البقرة: 197]
حج میں اخوت اور بھائی چارے کیلئےضروری ذہن سازی ہوتی ہے، اور دینی و دنیاوی منافع کا تبادلہ بھی ہوتا ہے ، فرمانِ باری تعالی ہے: لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ تاکہ لوگ وہ فائدے مشاہدہ کریں جو یہاں ان کے لئے رکھے گئے ہیں [الحج: 28]
قرطبی رحمہ اللہ کہتےہیں: "حجاج کیلئے قربانی، تجارت، اور مغفرت دنیا اور آخرت کے فوائد میں سے ہیں"
حج کے ارکان میں معاشرتی الفت اور محبت کیلئے عملی اقدامات کئے جاتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (قربانی کے گوشت سے) خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی کھلائیں۔ [الحج: 28]
ان تمام باتوں کے بعد، مسلمانو!
حج کا اصل فائدہ نعمتوں والی جنت کا حصول ہے، فرمانِ رسالت ہے: (حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہی ہے) متفق علیہ۔
بڑے ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے خلوصِ نیت کے ساتھ بیت اللہ کا حج کیا، اس دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنے لئے مشعل راہ بنایا، اور اللہ سے آخرت کے دن ثواب کی امید بھی رکھی۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کی مہمانی فردوس کے باغات سے ہوگی۔ [الكهف: 107]
اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں ، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل ،و صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرمائے۔
مسلمانو!
اللہ تعالی اپنے بندوں پر نہایت ہی لطف کرنے والا ہے، چنانچہ جس شخص کو بیت اللہ کا حج کرنے کا موقع نہ ملےوہ ان دنوں میں ذکر و اذکار اور تکبیرات کے ذریعے حجاج کرام کے ساتھ اجر وثواب میں شریک ہو سکتا ہے، عرفہ کے دن کا روزے رکھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے پر مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہ معاف کردئے جائیں) متفق علیہ
مسلمانوں کیلئے تمام ایام خوشی اور مسرت کے ہوتے ہیں، اسی لئے اللہ تعالی نے اسلام کے دو ارکان کے بعد خوشی اور مسرت کے دن مقرر کئے ہیں، ایک تو رمضان میں روزے رکھنے کے بعد اور دوسرا دن یوم عرفہ کے بعد۔
اللہ تعالی نے ان دنوں کو کھانے پینے کیلئے بنایا ہے، فرمانِ رسالت ہے: (ایام تشریق کھانے ، پینے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں) مسلم
جب لوگ خوشی اور مسرت میں مشغول ہوں ایسے وقت میں بھی اللہ کا ذکر کرنا بہت بلند درجہ مقام رکھتا ہے، اس لئے عید کا بہترین دن وہی ہے جس میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جائے۔
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم على نبينا محمد,اے اللہ !خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہوجا؛ اے اللہ !اپنے رحم وکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، اے اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، اے اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔
یا اللہ! ہر جگہ پر مسلمانوں کے حالات درست فرما، یا اللہ! خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ! ظاہری اور باطنی تمام قسم کے فتنوں سے انہیں محفوظ فرما، یا ذو الجلال و الاکرام۔
یا اللہ! حجاج کرام کا حج قبول فرما، انکے حج کو حجِ مبرور بنا، انکی تمام تر کوششوں کو قبول فرما، اور انکے گناہوں کو معاف کردے، اور انہیں اپنے اپنے علاقوں میں صحیح سلامت واپس لوٹا، یا ذو الجلال و الاکرام۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔
لنک