عمرو بن مالك النکری:
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں [سؤالات ابن الجنيد ص: 420]۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے آپ کو ثقاہت میں ذکر کیا ہے دیکھئے: [الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 7/ 228]
اور ایک دوسری کتاب میں کہا:
هو في نفسه صدوق اللهجة
یہ بذات خود صدوق ہیں[مشاهير علماء الأمصار ص: 155]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
ثقة
آپ ثقہ ہیں[ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 286]
درج ذیل اقوال سے تضعیف ثابت نہیں ہوتی:
عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى 290)نے کہا :
سمعت أبي يقول لم تثبت عندي صلاة التسبيح وقد اختلفوا في إسناده لم يثبت عندي وكأنه ضعف عمرو بن مالك البكري
میں نے اپنے والد سے کہتے ہوئے سنا کہ : میرے نزدیک صلاۃ تسبیح ثابت نہیں ہے اس کی سند میں اختلاف ہے اور یہ میرے نزدیک ثابت نہیں ہے گویا کہ آپ نے عمربن مالک کو ضعیف قراردیا[مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله ص: 89]
عرض ہے کہ اس تضعیف سے مراد عمروبن مالک پر معمولی جرح بھی ہوسکتی ہے یعنی ممکن ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے خاص صلاۃ التسبیح والی حدیث میں عمروبن مالک پر اعتماد نہ کیا ہو ۔ کیونکہ اس کے اندر نکارت ہے ۔نیز امام احمد رحمہ اللہ کے ایک دوسرے شاگر ”علي بن سعيد بن جرير النسوي“نے امام احمد کی اس جرح کو ”وفيه مقال“ (عمروبن مالک کے بارے میں کلام ہے) کے الفاظ سے پیش کیا ہے[اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة: 2/ 38]۔اوریہ الفاظ معمولی جرح پر دلالت کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی جرح کی کوئی تفسیر بھی نہیں کی ہے بلکہ امام احمد نے اپنے الفاظ میں عمرو بن مالک پر جرح بھی نہیں کی ہے یہ تو ان کے شاگردوں نے سیاق وسباق سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے۔لہٰذا ثابت شدہ صریح توثیق کے مقابلہ میں جرح غیرمفسر قابل قبول نہیں ہے۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے ”ابوالجوزاء“ کا ذکر کرتے ہوئے کہا :
قال لنا مسدد عن جعفر بن سليمان عن عمرو بن مالك النكري عن أبي الجوزاء قال أقمت مع بن عباس وعائشة اثنتي عشرة سنة ليس من القرآن آية إلا سألتهم عنها قال محمد في إسناده نظر
ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس اوراماں عائشہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ بارہ سال گذارے ۔اس دوران قران کی کوئی آیت ایسی نہیں بچی جس کے بارے میں میں نے ان سے پوچھا نہ ہو ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کی سند میں نظر ہے[التاريخ الكبير للبخاري 2/ 16]
یہاں ”فی اسنادہ نظر“ (اس کی سند میں نظر ہے) سے امام بخاری رحمہ اللہ کی کیامراد ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ويقول البخاري في إسناده نظر انه لم يسمع من مثل بن مسعود وعائشة وغيرهما لا انه ضعيف عنده
امام بخاری کے قول ” فی اسنادہ نظر“ (اس کی سند میں نظر ہے)سے امام بخاری کی مراد یہ ہے کہ ابوالجوزاء نے ابن مسعود اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہما وغیرہما سے سنا نہیں ہے ۔امام بخاری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ابوالجوزاء ان کے نزدیک ضعیف ہے[الكامل في الضعفاء 1/ 411]
مگرحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
وقول البخاري في إسناده نظر ويختلفون فيه إنما قاله عقب حديث رواه له في التاريخ من رواية عمرو بن مالك النکری, والنکری "ضعيف عنده"
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ کہنا : ”فی اسنادہ نظر(اس کی سند محل نظرہے) اس میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ بات ایک حدیث کے بعد کہی ہے جسے اپنی کتاب تاریخ میں عمروبن مالک النکری سے روایت کیا ہے ۔ اورالنکری امام بخاری کے نزدیک ضعیف ہے۔[تهذيب التهذيب 3/ 377]۔
عرض ہے کہ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ”ابوالجوزاء “ کا ترجمہ پیش کرتے ہوئے یہ روایت درج کی ہے اور اس کے بعد مذکورہ کلام کیا ہے ۔اگرامام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں عمرو بن مالک النکری ضعیف ہوتے تو امام بخاری رحمہ اللہ اسی کا ترجمہ پیش کرکے مذکورہ کلام کرتے ۔
نیز اوپر امام ابن عدی رحمہ اللہ کے حوالے سے بتایا جاچکا ہے کہ مذکورہ کلام سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود کسی راوی کی تضعیف نہیں ہے ۔
بلکہ خود حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں کہا:
شرح بن عدي مراد البخاري فقال يريد أنه لم يسمع من مثل بن مسعود وعائشة وغيرهما لا أنه ضعيف عنده
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے امام بخاری کی مراد کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ: امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ ابوالجوزاء نے ابن مسعود اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہما وغیرہما سے سنا نہیں ہے ۔امام بخاری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ابوالجوزاء ان کے نزدیک ضعیف ہے[فتح الباري لابن حجر: 1/ 392]
لہٰذا جب خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی امام بن عدی کی تشریح سے راضی ہیں تو پھر امام بخاری رحمہ اللہ کے اس قول میں کسی کی تضعیف کے پہلو کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
اوس بن عبد الله أبو الجوزاء هذا يحدث عنہ عمرو بن مالك النكري، يحدث عن أبي الجوزاء هذا أيضا عن بن عباس قدر عشرة أحاديث غير محفوظة
اوس بن عبداللہ ابوالجوزاء ان سے عمروبن مالک النکری سے روایت کرتے ہین۔ اور النکری یہ بھی ابوالجوزاء سے تقریبا دس غیرمحفوظ احادیث روایت کرتے ہیں[الكامل في الضعفاء 1/ 411]۔
عرض ہے تقریبا دس احادیث کوئی بہت بڑی تعداد نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے اس طریق کو ضعیف کہہ دیا جائے نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی رحمہ اللہ کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ ان سے نیچے کے رواۃ کا ہو جیساکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے صراحت کرتے ہوئے کہا:
عمرو بن مالك النكري أبو مالك والد يحيى بن عمرو وقعت المناكير في حديثه من رواية ابنه عنه وهو في نفسه صدوق اللهجة
عمروبن مالک النکری ابومالک ، یہ یحیی بن عمرو کے والد ہیں ان کی حدیث میں نکارت ان سے ان کی بیٹے روایات میں ہے اور یہ فی نفسہ صدوق ہیں۔[مشاهير علماء الأمصار ص: 155]۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمروبن ملک کی ان روایات میں نکارت ہے جنہیں ان سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے ۔لہٰذا ہم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک پر نہیں ڈال سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الاطلاق ثقہ کہا ہے۔
علاوہ بریں امام ابن عدی رحمہ اللہ نے جن احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے ان کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔ اور زیر بحث روایت ان میں سے ہر گز نہیں ہوسکتی کیونکہ اس روایت میں عمرو بن مالک کی مخالفت کسی بھی دوسرے طریق سے ثابت نہیں ہے۔
تنبیہ :
امام ابن عدی فرماتے ہیں:
عمرو بن مالك النكري بصري منكر الحديث عن الثقات ويسرق الحديث
عمروبن مالک النکری بصری یہ ثقات سے منکر احادیث بیان کرتا ہے اور حدیث چوری کرتا ہے[الكامل في الضعفاء 5/ 150]۔
اس کے بعدامام ابویعلی سے ''عمرو بن مالك النكري'' تضعیف نقل کرتے ہوئے ،فرماتے ہیں:
سمعت أبا يعلى يقول عمرو بن مالك النكري كان ضعيفا
میں نے ابویعلی کو کہتے ہوئے سنا کہ : عمروبن مالک النکری ضعیف تھا[الكامل في الضعفاء 5/ 150]۔
امام ابن حبان فرماتے ہیں:
عمرو بن مالك النكري من أهل البصرة يروى عن الفضيل بن سليمان ثنا عنه إسحاق بن إبراهيم القاضى وغيره من شيوخنا يغرب ويخطىء
عمروبن مالک النکری یہ اہل بصرہ میں سے ہے جو فضیل بن سلیمان سے روایت کرتا ہے ہم سے اس کے واسطے سے ہمارے شیوخ میں اسحاق بن ابراہیم قاضی وغیرہ نے بیان کیا ہے یہ غریب احادیث بیان کرتا ہے اور غلطی کرتا ہے[الثقات لابن حبان 8/ 487]۔
بعض اہل علم نے ان تینوں جروح کو مذکورہ حدیث میں موجود راوی ''عمرو بن مالک '' کے سلسلے میں سمجھ لیا ہے ، لیکن ہماری نظر میں یہ بات درست نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ ان تینوں جروح کا تعلق ''عمروبن مالک الراسبی '' سے ہے۔
حافظ ذہبی نے فرماتے ہیں:
عمرو بن مالك الراسبى البصري لا النكرى.هو شيخ. حدث عن الوليد بن مسلم. ضعفه أبو يعلى.وقال ابن عدى: يسرق الحديث.وأما ابن حبان فذكره في الثقات
عمروبن مالک راسبی یہ بصری ہے نکری نہیں ہے یہ شیخ ہے ۔ اس نے ولیدبن مسلم سے روایت کیا ہے اسے ابویعلی نے ضعیف کہا ہے اور امام ابن عدی نے کہا: یہ حدیث چوری کرتا ہے اور ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکر کیا ہے[ميزان الاعتدال 3/ 285]۔
اس عبارت میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مذکورہ تینوں جروح کو ''عمرو بن مالك الراسبى'' پرفٹ کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔
حافظ ابن حبان کی جرح ''يغرب ويخطىء'' کو مذکورہ سندمین موجود راوی پرفٹ کرنے میں میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو بھی وہم ہوا ہے ، جیساکہ تہذیب سے معلوم ہوتا ہے، اورغالبا انہیں کی متابعت میں حافظ زبیرعلئ زئی سے بھی غلطی ہوئی ا اورانہوں نے بھی اس جرح کو أبو الجوزاء کے شاگر ''عمروبن مالک'' پرفٹ کیا ہے دیکھیں (ابن ماجہ بتحقیق حافظ زبیرعلی زئی ، حاشیہ رقم الحدیث 1046)۔