• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث سے متعلق سوالات و جوابات کے اصول وضوابط

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
بسم الله الرحمٰن الرحيم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’’تحقیق حدیث سے متعلق سوالات وجوابات ‘‘ سیکشن میں سوال پوچھنے سے قبل درج ذیل اصول وضوابط بغور پڑھ لیں۔


  • یہاں پرفقہی سوالات نہیں پوچھے جا سکتےاس کے لئے ’’فقہی سوالات وجوابات‘‘ میں یا ’’محدث فتوی‘‘ میں تشریف لائیں۔
  • حدیث یا علوم حدیث سے متعلق کوئی بھی سوال کرسکتے ہیں۔
  • سوال سے قبل تلاش کرلیں ممکن ہے اس کا جواب دیا جاچکاہو۔
  • ایک رکن ایک دن میں صرف اور صرف ایک ہی سوال کرسکتاہے۔
  • سوال میں کوئی مضمون یا کوئی مقالہ پیش کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
  • ایک موضوع میں صرف اور صرف ایک ہی روایت سے متعلق سوال کرسکتے ہیں۔
  • سوال میں ویڈیو لنک پیش کرنا سخت ممنوع ہے ، ایسے سوالات بلا تاخیر حذف کردئے جائیں گے۔
  • سوال صرف یونی کوڈ میں پیش کریں ، تصاویر وغیرہ قطعاً نہ لگائیں بصورت دیگر سوال کو نظر انداز یاحذف کیا جاسکتا ہے۔
  • سوال اردو زبان میں ہو نیز اردو رسم الخط میں ہو۔ البتہ متعلقہ روایت کو اردو کے ساتھ حتی الامکان عربی میں بھی پیش کیاجائے۔
  • انگریزی زبان میں یا انگریزی رسم الخط میں سوال کرنے سے حتی الامکان اجتناب کریں بصورت دیگر جواب میں کافی تاخیر ہوسکتی ہے۔
  • متعلقہ روایت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مرجع و مصدر کا حوالہ مع جلد ، صفحہ اور حدیث نمبر حتی الامکان لکھنے کی کوشش کریں۔
  • ایک بار سوال پوچھنے کے بعد دوبارہ اس سوال سے متعلق وضاحت کا موقع نہیں ملے گا اس لئے پہلی بار ہی سوال بالکل واضح کرکے پیش کریں۔
  • سوال کے جواب کے لئے کم ازکم تین دن تک انتظار کریں اگر تین دن کے بعد بھی جواب نہ ملے اور جواب جلد مطلوب ہو تو ذاتی پیغام کے ذریعہ یاد دہانی کرائیں۔
  • جواب آنے کے بعد اس جواب سے متعلق مزید استفار کی اجازت نہیں ہے ۔
اصول وضوابط کی خلاف وزری کی صورت میں سوال کو حذف یا منتقل یا لمبی مدت تک کے لئے نظر انداز کیا جاسکتاہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
’’علماء کرام سے سوال پوچھنے کے آداب‘‘


  • علماء کرام سے سوال پوچھنے کو اللہ تعالی کا حکم سمجھیں کہ وہ ایک اہم دینی ذمہ داری سے عہدہ براء ہورہا ہے، لہذا دل میں عمل کا جذبہ اور تقویٰ الہی موجزن ہو۔
  • بلاضرورت کثرت سوال دین میں معیوب چیز ہے، مثلاً ایسے مسائل جو اب تک وقوع پذیر نہیں ہوئے ان کے لئے پرتکلف مفروضے بناکر سوالات کرنا۔
  • خود سائل کو اپنے مسئلے کی مکمل تفاصیل کا بخوبی علم ہو اور اسے بروقت پیش کرسکے،تاکہ عالم کو جواب دینے میں وضوح حاصل ہو۔
  • سوال واضح اور ملخص ہو تاکہ جواب بھی واضح ہو، اگر سوال میں کسی قسم کا ابہام یا غموض ہوگا تو یقیناً جواب بھی غیر واضح ہی رہے گا۔
  • سائل کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اکیلا نہیں جو مفتی حضرات سے سوال کررہا ہے بلکہ روزانہ بیسیوں اور اس سے بھی زائد لوگ ان سے رابطہ کرتے ہیں لہذا سوال کو دوٹوک، واضح اور مختصر الفاظ میں ہونا چاہیے۔
  • سائل کو جس بات کا علم نہ ہو صرف اس کا سوال کرنا چاہیے ناکہ جواب ملنے پر اپنے یا کسی اور کے دلائل لاکر مناظرہ کرنا چاہیے، ہاں اگر کسی مسئلہ میں تحقیق مزید کرنا چاہیے تو اہل علم کی کتب ودروس کی طرف رجوع کریں۔ کیونکہ کتنی ہی ایسی دینی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں کہ جو مفتی صاحب اور سائل کو ادا کرنے کے لئے وقت کی تنگی رہتی ہے، پس بجائے ان مفید کاموں میں وقت صرف کرنے کے پہلے سے معلوم شدہ مسئلہ کو باربار پوچھناغیرمناسب ہے۔
  • کسی ثقہ عالم سے جواب ملنے کے بعد دوسرے عالم کے پاس جاکر پھر وہی سوال کرنا مناسب نہیں، جیسا کہ کسی عالم کو خوامخواہ دوسرے عالم کے دئے گئے فتویٰ کا حوالہ دینا۔ ایک تو علماء کے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے دوسرا اپنے آپ کو پریشان کرنے کا سبب ہے کہ فلاں عالم تو یہ کہتا ہے اور فلاں یہ! اور آپ حیران وپریشان ہوجاتے ہیں کہ کس کی بات پر عمل کریں۔ جبکہ اللہ کا حکم تو ہے کسی بھی راسخ فی العلم ثقہ عالم سے پوچھیں اور برئ الذمہ ہوجائیں، نہ یہ کہ خواہش پرستی میں سب سے پوچھتے رہیں اور جو سہل ترین نفسانی بات ہو اسے لے لیں۔ تاہم اگر دلیل سمجھ نہ آئے تو ایک سے زائد مرتبہ سے پوچھا جاسکتا ہے۔
  • سوال مبہم نہ ہو کہ ایسا ایسا کسی کے ساتھ ہوا وغیرہ بلکہ واضح ہو کس سے متعلق ہے اور کیا تفصیلات ہیں کیونکہ اہل علم سے سوال کرنا کوئی عیب نہیں کہ اسے شرم کرتے ہوئے چھپایا جائے، بلکہ صحابہ وصحابیات واضح ودین کے تعلق سے کھل کر سوال کیا کرتے تھے، وہ حیاء معیوب ہے جو دینی مسئلہ کو معلوم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے جو مبہم سا سوال آپ نے کیا ہے اگر اسے مخصوص شخص یا حالت سے متعلق آپ دریافت کرتے تو شاید جواب یکسر اس دئے گئے جواب سے مختلف ہوتا۔
  • سائل کو چاہیے اپنے لئے سوال پوچھے ناکہ کسی غیر کے لئے کیونکہ لازم ہے کہ عالم کو دیگر تفصیلات کی ضرورت ہوگی جس کا جواب آپ بروقت نہیں دے سکتے اور اکثر غیر تسلی بخش جوابات سائل کے کمزوربیانی وعدم وضاحت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
  • سائل کے لئے جائز نہیں کہ عالم کی اجازت کے بغیر اس سے کی گئی ٹیلیفونک گفتگو کو ریکارڈ کرے، یا لکھ کر نشر کرے الا یہ کہ عالم سے پیشگی اجازت لے لی جائے، کیونکہ شرعی حکمت وقواعد کے اعتبار سے بہت سے ایسی باتیں ہوتی ہیں جو کچھ لوگوں سے کی جاتی ہیں ان کے حال کو جانتے ہوئے لیکن عوام الناس میں نشر کرنا مناسب نہیں ہوتا اور ایک عالم اس بات کو بخوبی جانتا ہے لہذا اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی چیز اس سے متعلق نشر کرنا ناجائز ہے۔
  • عام لوگوں کی مجلس میں ایسے دقیق وعلمی واختلافی مسائل نہیں پوچھنے چاہیے کہ جسے اکثریت سمجھنے تک سے قاصر ہوں یا کسی کے لئے فتنے کا ہی باعث بن جائے۔
  • سائل کو اگر جواب صحیح طور پر سمجھ نہ آیا ہو تو اسے دوبارہ پوچھنا چاہیے یا جو مفہوم وہ سمجھا ہے اسے بیان کرکے پوچھنا چاہیے کیا میں صحیح سمجھا ہوں؟، ناکہ اسی غیرواضح سمجھ وفہم کو لیکر عمل شروع کردے۔
  • عالم سے انتہائی مناسب وقت کی اجازت لے کر سوال کرنا علماء کرام سے پیش آنے کے آداب میں سے ہے کیونکہ وہ بھی انسان ہیں اور ہمیشہ ایک ہی حالت میں نہیں ہوتے کبھی جلدی میں ہوتے ہیں کبھی کوئی ذاتی کام یا علمی تحقیق وغیرہ میں مصروف ہوتے ہیں تو جواب بھی ممکن ہے آپ کو تسلی بخش تفصیل کے ساتھ نہ مل پائے۔
  • عالم کی وقار ومنزلت کو ہرحال میں ملحوظ خاصر رکھنا چاہیے کچھ علماء طبیعتاً نرم مزاج ہوتے ہیں اور کچھ تھوڑے سخت، کچھ کے جوابات آسان الفہم ہوتے ہیں تو کچھ کہ قدرے مشکل، ہمیں چاہیے کہ انہیں اس سلسلے میں معذور سمجھا جائے اور حسن ظن کو باقی رکھا جائے ناکہ ان کے بارے میں عوام میں بدگمانی کی ترویج شروع کردی جائے۔
  • یہ بات علماء کرام کے ساتھ بے ادبی میں شمار کی جائے گی کہ خوامخواہ کسی عالم کو عوامی مجمع میں اپنے خاص سوال کے لئے یا کسی بھی موقع پر اللہ کی قسمیں دیکر پابند کیا جائے کہ اس کاجواب دیجئے وغیرہ اس لئے کہ یہ عالم کے لئے حرج واذیت کا سبب ہے، کیونکہ حدیث میں حکم ہے جو اللہ تعالی کی قسم دے کر سوال کرے تو اسے جواب دینا ضروری ہے دوسری طرف ہوسکتاہے کسی جائز شرعی مصلحت کے تحت وہ عوام میں جواب نہ دینا چاہتا ہو تو اسے ان دو مفاسد میں کسی ایک کو اختیار کرنے کے سلسلے میں پریشانی کا آپ سبب بنے۔
(شیخ صالح آل الشیخ (حفظہ اللہ) کے درس "علماء کرام سے سوال پوچھنے کے آداب" سے ماخوذ) بشکریہ اصلی اہل سنت و اردو مجلس۔
 
Top