• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث علی تفسیر {فصل لربك وانحر}

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
قال موسى: حدثناحماد بن سلمة، سمع عاصما الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن ظبيان، عن علي، رضي الله عنه: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} وضع يده اليمني على وسط ساعده على صدره.
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر اپنے سینے پررکھنا مرادہے [التاريخ الكبير للبخاري: 6/ 437 ، السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 45 واسنادہ صحیح]

وضاحت :
’’ساعد‘‘ بازو کے کہنی سے لیکر کلائی تک کے حصہ کو کہتے ہیں۔چنانچہ
لسان العرب میں ہے:
والساعد: ملتقى الزندين من لدن المرفق إلى الرسغ
ساعد کہتے ہیں ، دونوں گٹوں کے درمیان کہنی سے لے کر کلائی تک کا حصہ[لسان العرب: 3/ 214]

’’الساعد‘‘ کے معانی میں ’’القاموس الوحید‘‘ کے مؤلف لکھتے ہیں:
بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کا حصہ) [القاموس الوحید: ص 769]
بریکٹ اور اس کے اندر کے الفاظ القاموس الوحید ہی کے ہیں۔

دائیں ہاتھ کو اگر بائیں بازو کے ساعدکے درمیان رکھا جائے گا تو دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے سرے بائیں ہاتھ کی کہنی کے قریب پہنچیں گے ۔ یعنی دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے بازو پر آئے گا ۔ اور ایسی صورت میں دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے ۔ چنانچہ اس حدیث میں اس کیفیت کے ذکر کے ساتھ ساتھ سینے پر ہاتھ باندھنے کی بھی صراحت موجود ہے۔

علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا قران مجید سے بھی ثابت ہے۔ بلکہ احناف میں سے بھی کئی حضرات نے علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر سے استدلال کرتے ہوئے یہی بات کہی ہے ۔
حتی کہ بعض احناف نے اسی بنیادپر شیعوں کی تردید کی ہے جو نماز میں ہاتھ باندھتے ہی نہیں ، چنانچہ دیوبندی مکتبرفکر کے ’’رئیس المناظرین مولانا ابوالفضل محمد کرم الدین صاحب رح ‘‘ اپنی مشہور کتاب ’’آفتاب ہدایت و روافض بدعت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’یہاں نحر کا معنی یہی ہے کہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر ہاتھ باندھے ہوئے نماز پڑھو ۔ امام فخر رازی نے تفسیر کبیر (جلد8 ص 712) میں آیت مذکورہ کی تفسیر میں جناب مدینہ العلم علی المرتضی کا قول یوں نقل کیا ہے :” والاشہر وضعھا علی النحر علی عادۃ الخاشع ‘‘ وانحر کا اشہر اور اظہر معنی یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے جیسے خشوع وخضوع کا طریقہ ہے ۔ ایسا ہی تفاسیر در منثور ، معالم التنزیل ، ،تنویر المقیاس حسینی وغیرہ اور کتب بخاری ، ترمذی ، دارقطنی وغیرہ میں حضرت علی اور ابن عباس اور دیگر جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات سے یہی معنی لکھا گیا ہے۔ پھر ایسی صریح اور صاف آیت کے ہوتے ہوئے دوسری کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی ‘‘ ۔ [آفتاب ہدایت: ص 430 بحوالہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں ص9]

قارئین ملاحظہ فرمائیں کی دیوبندیوں کے رئیس المناظرین صاف طور سے اعلان کررہے ہیں کہ ’’وانحر کا اشہر اور اظہر معنی یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے جیسے خشوع وخضوع کا طریقہ ہے‘‘ ۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ یہ بھی فرمارہے ہیں کہ ’’ایسی صریح اور صاف آیت کے ہوتے ہوئے دوسری کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی‘‘

شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ہمارے حنفی حضرات بھی عجیب ہیں کہ روافض کے مقابلے میں نماز میں ہاتھ باندھنے کا ثبوت قران مجید کی آیت ’’فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ‘‘ سے پیش کرتے ہیں بلکہ سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر کرتے ہیں ، مگر اہل حدیث کے مقابلہ میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا انکار کرتے ہیں ، انا للہ ونا الیہ راجعون‘‘ [ نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں ص9] ۔
اس کے بعد حنفی مناظر کا مذکورہ اقتباس نقل کرکے لکھتے ہیں:
’’یہاں باقی تفصیل سے قطع نظر دیکھئے کہ ’’سینے پرہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے ‘‘ کو ’’خشوع و خضوع ‘‘ کا طریقہ تسلیم کیا گیا ہے اورخشوع وخضوع کے اسی طریقہ کو مدلل طور پر مولانا ضیاء اللہ صاحب نے اس رسالہ میں بیان کیا ہے۔ رافضیوں کے مقابلہ میں اگر یہ مسئلہ ’’صریح اور صاف آیت ‘‘ سے ثابت ہوتا ہے تو اہل حدیث سے ’’کسی دوسری دلیل کی ضرورت‘‘ کیوں محسوس کی جاتی ہے ؟ اعدلوا ھو اقرب للتقوی‘‘[ نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں ص9] ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سند کی تحقیق


اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اس کے تمام رجال ثقہ ہیں تفصیل ملاحظہ ہو:

عقبة بن ظبيان کا تعارف :
علی رضی اللہ عنہ سے اس روایت کے راوی ’’عقبہ بن ظبیان ‘‘ ہیں ۔ انہیں ’’عقبہ بن ظہیر ‘‘ بھی کہاجاتا ہے ، یہ یہ علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور عاصم الجحدری کے والد کے استاذ ہیں ۔چنانچہ:

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
عقبة بن ظبيان ويقال عقبة بن ظهير روى عن على روى عاصم الجحدري عن أبيه عنه
عقبہ بن ظبیان ، انہیں عقبہ بن ظہیربھی کہاجاتا ہے ، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور ان سے عاصم الجحدری نے اپنے والد کے واسطہ سے روایت کیا ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 313]

اور یہ ثقہ ہیں چنانچہ:
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
عقبة بن ظبيان يروي عن على روى عنه عاصم الجحدري
عقبہ بن ظبیان یہ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور ان سے عاصم الجحدری نے روایت کیا ہے[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 5/ 227]

امام ضياء المقدسي رحمه الله (المتوفى643):نے ’’المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما‘‘ میں ان سے روایت لی ہے دیکھئے: [ المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما 2/ 292]
اور آپ اس کتاب میں صرف ثقہ ہی سے روایت لیتے ہیں ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام ضیاء المقدسی کے نزدیک بھی یہ روای ثقہ ہیں۔

ان دو محدثین کی توثیق کے خلاف کسی ایک بھی محدث نے عقبہ بن ظبیان پر جرح نہیں کی ہے لہٰذا یہ بلا شک و شبہ ثقہ ہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
عبد الله بن رؤبة العجاج البصری کا تعارف:
عقبہ بن ظبیان سے اس روایت کو نقل کرنے والے عاصم الجحدری کے والد ہیں ۔جیساکہ سند میں ’’عن ابیہ ‘‘ (اپنے والد سے) کے الفاظ کے ساتھ صراحت موجود ہے ۔اس لئے اتنی بات طے ہوگئی کہ یہ روای عاصم الجحدری کے والد ہی ہیں ۔اب یہ معلوم کرنا ہے کہ ان کے والد کون ہیں اور ان کا درجہ کیا ہے ۔
توعرض ہے کہ ان کے والد کا نام العجاج ہے ۔ چنانچہ:

امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
عاصم بن الجحدرى بصرى وهو عاصم بن العجاج
عاصم بن الجحدری یہ بصری ہے اور یہ عاصم بن العجاج ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 349]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
هو عاصم بن العجاج أبو محشر الجحدري
یہ عاصم بن العجاج ابومحشر الجحدری ہیں[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 8/ 141]

اب یہ دیکھنا کہ العجاج کون ہیں تو عرض ہے کہ یہ ’’عبد الله بن رؤبة العجاج البصری “ ہیں۔
کیونکہ العجاج کے لقب سے یہی مشہور ہیں چنانچہ:

امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571) نے ان کے بارے میں کہا:
المعروف بالعجاج
یہ (عبد الله بن رؤبة) العجاج کے لقب سے معروف ہیں[تاريخ دمشق لابن عساكر: 28/ 128]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
ويعرف بالعجاج الراجز المشهور
یہ العجاج مشہور شاعر کے لقب سے معروف ہیں[الإصابة لابن حجر: 5/ 87]

نیز ’’عاصم الجحدری‘‘ ، یہ بصری ہیں جیساکہ ابن ابی حاتم کا قول گذرا ، نیزدیکھیں: [الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 5/ 240]
اور ’’عبد الله بن رؤبة‘‘ بھی بصری ہیں۔چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں ’’التميمي السعدي‘‘ کہا ہے ۔دیکھئے :[الإصابة لابن حجر: 5/ 87] نیز دیکھیں:[شعراء النصرانية: 8/ 228 ]
بلکہ ان کے سمیت ان کے نیچے کے تمام رواۃ بصری ہیں۔

لقب ’’العجاج‘‘ کی شہرت اور عاصم الجحدری اور العجاج کے علاقہ کی یکسانیت اس بات کی دلیل ہے کہ عاصم الجحدری کے والد عبداللہ بن رؤبة العجاج ہی ہیں۔ اب ان کی توثیق ملاحظہ ہو:


امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے انہیں ثقہ کہا ہے دیکھئے:[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 5/ 287]

اور امام ہیمثمی رحمہ اللہ نے طبرانی کے حوالے ان کی ایک روایت نقل کی اور اس سند میں صرف امام طبرانی کے شیخ سے عدم واقفیت ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
رواه الطبراني عن شيخه رفيع بن سلمة ولم أعرفه، وبقية رجاله ثقات
اسے طبرانی نے اپنے شیخ رفیع بن سلمہ سے روایت کیا اور میں انہیں جان نہیں سکا اور اس کے بقیہ رجال ثقہ ہیں[مجمع الزوائد للهيثمي: 8/ 44]

یعنی طبرانی کے شیخ کے علاوہ اس سند کے بقیہ رواۃ کو امام ہیثمی رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے اور اس سند میں عجاج بھی ہیں جیساکہ خود امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔دیکھئے:[مجمع الزوائد للهيثمي: 8/ 44]

امام ابن عدی کی ایک سند میں ان کا ذکر ہے۔ دیکھئے:[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 123]
اور امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ان کی تضعیف نہیں کیا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ کی نظر میں یہ ثقہ ہیں۔چنانچہ خود امام ابن عدی رحمہ اللہ نے کہا:
ولا يبقى من الرواة الذين لم أذكرهم إلا من هو ثقة أو صدوق
باقی جن رواۃ کا تذکرہ میں نے نہیں کیا ہے وہ ثقہ یا صدوق ہیں[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 1/ 79]

امام ابن دقيق العيد رحمه الله (المتوفى702) ایک راوی کو ثقہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
وقد شرط ابن عدي أن يذكر في كتابه كل من تكلم فيه، وذكر فيه جماعة من الأكابر والحفاظ، ولم يذكر أسدا، وهذا يقتضي توثيقه
امام ابن عدی نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ اپنی کتاب میں ہر متکلم فیہ راوی کا تذکرہ کریں گے اور اس کتاب میں انہوں نے اکابر اورحفاظ تک کا تذکرہ کیا ہے لیکن اسد کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔ اس بات کا تقاضا یہ ہے کہ یہ راوی امام ابن عدی کے نزدیک ثقہ ہے[نصب الراية :1/ 179 بحوالہ : الإلمام بأحاديث الأحكام لابن دقید العید]
نیز دیکھیں:[ابن عدي و منهجه في كتاب الكامل في ضعفاء الرجال:ص171]

معلوم ہوا کہ یہ روای امام ابن حبان ، امام ہیثمی اور امام ابن عدی رحمہم اللہ کے نزدیک ثقہ ہیں۔
ان تین محدثین کی توثیق کے علاوہ کسی بھی محدث نے ان پر جرح نہیں کی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
عاصم الجحدري البصری کا تعارف :


امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة
یہ ثقہ تھے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 6/ 349 واسنادہ صحیح]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکرکرتے ہوئے کہا:
عاصم بن العجاج الجحدري من عباد أهل البصرة
عاصم بن العجاج الجحدری یہ اہل بصرہ کے عابدوں میں سے تھے[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 5/ 240]

ان دو ائمہ کی توثیق کے برخلاف کسی بھی محدث نے ان پر جرح نہیں کی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
حماد بن سلمة بن دينار البصرى کا تعارف:
کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں‌ البتہ بخاری میں ان کی مرویات تعلیقا ہیں ، موصوف بھی ثقہ ہیں۔

امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
بصري ، ثقة،
آپ بصری اور ثقہ ہیں[تاريخ الثقات للعجلي ط الباز (261) ص: 131]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
ثقة ثبت
آپ ثقہ اور ثبت ہیں[سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص: 316]۔

امام یحیی بن سعید نے ان سے روایت کیا ہے،امام ابن معین نے کہا:
مات يحيى بن سعيد القطان وهو يحدث عن حماد بن سلمة
یحیی بن سعید القطان موت تک حمادبن سلمہ سے روایت کرتے رہے[تاريخ ابن معين - رواية الدوري 4/ 347]۔

اوریحیی بن سعد صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں‌ :
امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
يحيى بن سعيد القطان يكنى أبا سعيد بصري ثقة، نقي الحديث، وكان لا يحدث إلا عن ثقة
یحیی بن سعید القطان ، ان کی کنیت ابوسعید ہے ۔ یہ بصری اور ثقہ ہیں اور عمدہ احادیث والے ہیں، یہ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے تھے[تاريخ الثقات للعجلي ط الباز (261) ص: 472]

تنبیہ :
حمادبن سلمہ پراختلاط کا الزام مردود ہے امام ابن معین رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے، آپ فرماتے ہیں:
حديث حماد بن سلمة في أول أمره وآخر أمره واحد
حمادبن سلمہ کی شروع اور آخر کی تمام احادیث ایک جیسی ہیں[تاريخ ابن معين - رواية الدوري 4/ 312]۔
معلوم ہوا کہ بقول امام ابن معین رحمہ اللہ ''حماد بن سلمة'' شروع سے لیکر اخیرتک ثقہ تھے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
موسى بن إسماعيل البصری کا تعارف:
آپ بخاری ومسلم سمیت کتب ستہ کے معروف ومشہور اور بہت بڑے ثقہ راوی ہیں۔
تمام محدثین نے بالاتفاق انہیں ثقہ کہا ہے۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
كان ثقة كثير الحديث
آپ ثقہ اور کثیر الحدیث ہیں[الطبقات الكبرى ط دار صادر 7/ 306]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة مأمون
آپ ثقہ اور مامون ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 136 واسنادہ صحیح]

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ثقة كان ايقظ من الحجاج الأنماطي ولا أعلم أحدا بالبصرة ممن أدركناه أحسن حديثا من أبى سلمة
یہ ثقہ اور حجاج انماطی سے زیادہ باخبر تھے ، میں نے بصرہ میں جن لوگوں کو پایا ہے ان میں سے ابوسلمہ (موسی بن اسماعیل) سے بہتر حدیث والا کسی کو نہیں جانتا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 136]

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الحافظ، الإمام، الحجة، شيخ الإسلام
آپ حافظ ، امام ، حجت اورشیخ الاسلام ہیں[سير أعلام النبلاء للذهبي: 10/ 360]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
موسى بن إسماعيل التبوذكي أبو سلمة أحد الأثبات الثقات اعتمده البخاري فروى عنه كثيرا
موسی بن اسماعیل التبوذکی ، ابوسلمہ یہ ثقہ وثبت لوگوں میں سے ایک ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ نے ان پراعتماد کیا ہے اور ان سے بکثر روایت کیا ہے[مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 446]

تنبیہ:
ابن خراش (ضعیف ورافضی) سے منقول ہے:
تكلم الناس فيه، وهو صدوق
لوگوں نے ان کے بارے میں کلام کیا ہے اور یہ صدوق ہیں[تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية 9/ 41]

عرض ہے کہ ابن خراش سے یہ بات ثابت ہی نہیں ہے کیونکہ ابن خراش سے اسے نقل کرنے والا ’’محمد بن محمد بن داود الكرجي‘‘ ہے اور یہ مجہول ہے۔مزید یہ کہ خود ابن خراش بھی مجروح وضعیف بلکہ رافضی ہے۔دیکھئے:[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 5/ 518]

امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن خراش کی مرمت کرنے کی خاطر امام موسی بن اسماعیل کا تذکرہ ’’میزان‘‘ میں کیا اور اس کے بعد کہا:
لم أذكر أبا سلمة للين فيه، لكن لقول ابن خراش فيه: صدوق، وتكلم الناس فيه.
قلت: نعم تكلموا فيه بأنه ثقة ثبت يا رافضي

میں نے ابوسلمہ (موسی بن اسماعیل) کا تذکرہ اس لئے نہیں کیا ہے کہ ان کے اندر ضعف تھا بلکہ اس لئے کیونکہ ان کے بارے میں ابن خراش نے کہا: یہ صدوق ہیں اور لوگوں نے ان کے بارے میں کلام کیا ہے۔
میں (امام ذہبی ) کہتاہوں :جی ہاں !اے رافضی (ابن خراش) ! لوگوں نے یہی کلام کیا ہے کہ یہ ثقہ اور ثبت ہیں [ميزان الاعتدال للذهبي: 4/ 200]
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
متن میں اضطراب کا دعوی اور اس کا جائزہ


ابن الترکمانی وغیرہ کا اس روایت کے متن میں اضطراب کا دعوی باطل ہے ۔اس کی وضاحت کے لئے ہم تمام طرق کے الفاظ کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس روایت کے مرکزی راوی ''عاصم الجحدري'' ہیں۔
ان سے درج ذیل دو طریق سے یہ روایت منقول ہے ۔

  • اول: حماد بن سلمة بن دينار البصرى
  • دوم: يزيد بن زياد بن أبي الجعدالكوفى
پہلاطریق

پہلے طریق میں یعنی حماد بن سلمہ کے طریق میں حماد بن سلمہ سے اسی روایت کو درج ذیل نو(9) راویوں نے نقل کیا ہے:
موسى بن إسماعيل
حجاج بن المنهال
أبو صالح الخراساني
شيبان بن فروخ
مهران بن أبى عمر
أبو عمر، عمر الضرير
أبو الوليد الطيالسي
مؤمل بن اسماعیل
عبدالرحمن بن مہدی
ان نو (9) راویوں میں سے نے چھ (6) راویوں نے بالاتفاق ایک ہی طرح کے الفاظ یعنی ''على صدره'' (یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا ) کے الفاظ نقل کئے ہیں،چنانچہ:

''موسی بن اسماعیل''کی روایت:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
قال موسى: حدثنا حماد بن سلمة، سمع عاصما الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن ظبيان، عن علي، رضي الله عنه: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} وضع يده اليمني على وسط ساعده على صدره.
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر اپنے سینے پررکھنا مرادہے[التاريخ الكبير للبخاري: 6/ 437 واسنادہ صحیح، السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 45 واسنادہ صحیح]

''حجاج بن المنهال الأنماطى'' کی روایت:
امام ابن المنذر رحمه الله (المتوفى319)نے کہا:
حدثنا علي بن عبد العزيز، قال: ثنا حجاج، قال: ثنا حماد، عن عاصم الجحدري، عن أبيه عن عقبة بن ظبيان، عن علي بن أبي طالب رضوان الله عليه: " أنه قال في الآية {فصل لربك وانحر}فوضع يده اليمنى على ساعده اليسرى ثم وضعها على صدره "
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108) کی تفسیربیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے۔[الأوسط لابن المنذر: 3/ 91 رقم1284 واسنادہ صحیح، ومن طریق حجاج اخرجہ ایضا الثعلبی فی تفسیرہ : 10/ 310 واسنادہ صحیح]

''ابوصالح الخراسانی '' کی روایت:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا أبو صالح الخراساني، قال: ثنا حماد، عن عاصم الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن ظبيان، أن علي بن أبي طالب رضى الله عنه قال في قول الله:{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}قال: وضع يده اليمنى على وسط ساعده الأيسر، ثم وضعهما على صدره.
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے اللہ تعالی کے فرمان:{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108 ) کی تفسیرمیں فرمایاکہ: اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے۔[تفسير الطبري: ت شاكر 24/ 652 ، صحیح المتن بالمتابعات لاجل ابن حمید]

''شيبان بن فروخ'' کی روایت:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو بكر أحمد بن محمد بن الحارث الفقيه، أنبأ أبو محمد بن حيان أبو الشيخ، ثنا أبو الحريش الكلابي، ثنا شيبان، ثنا حماد بن سلمة، ثنا عاصم الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن صهبان كذا قال: إن عليا رضي الله عنه قال في هذه الآية {فصل لربك وانحر} قال: " وضع يده اليمنى على وسط يده اليسرى، ثم وضعها على صدره "
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے۔[السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 46 حدیث نمبر2337 واسنادہ حسن]

''مهران بن أبى عمر العطار '' کی روایت:
امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثنا ابن حميد، قال: ثنا مهران، عن حماد بن سلمة، عن عاصم الجحدري، عن عقبة بن ظهير، عن أبيه، عن علي رضى الله عنه{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}قال: وضع يده اليمنى على وسط ساعده اليسرى، ثم وضعهما على صدره
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے (نمازمیں) دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے۔[تفسير الطبري:ت شاكر 24/ 652 ، صحیح المتن بالمتابعات لاجل ابن حمید]

''أبو عمر، حفص بن عمر الضرير'' کی روایت:
امام طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
حدثنا أبو بكرة، قال: حدثنا أبو عمرو الضرير، قال: أخبرنا حماد بن سلمة، أن عاصما الجحدري أخبرهم، عن أبيه، عن علي بن أبي طالب، كرم الله وجهه، في قوله: {فصل لربك وانحر} قال: " وضع يده اليمنى على الساعد الأيسر، ثم وضعهما على صدره "
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کے قول {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے (نمازمیں) دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے۔[أحكام القرآن للطحاوي 1/ 184 حدیث نمبر323 ،صحیح المتن واسنادہ شاذ]

قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ ان روایوں نے متفقہ طور پر ''على صدره'' (یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا ) کے الفاظ بیان کئے ہیں ۔باقی بچے ساتویں راوی تو انہوں نے بھی معنوی طور پر یہی بات بیان کی ہے چنانچہ:

''أبو الوليد الطيالسي''کی روایت:
خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أخبرنا أبو الحسن محمد بن أحمد بن رزقويه حدثنا عثمان بن أحمد بن عبد الله الدقاق حدثنا عبد الله بن عبد الحميد القطان حدثنا أبو بكر الأثرم حدثنا أبو الوليد حدثنا حماد بن سلمة عن عاصم الجحدري عن أبيه عن عقبة بن ظبيان سمع عليا رضي الله عنه يقول{فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ}قال وضع اليمنى على اليسرى تحت الثندوة
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108) کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنی چھاتی کے نیچے (یعنی سینے پر) رکھنا مراد ہے ''۔[موضح أوهام الجمع والتفريق 2/ 340 حدیث نمبر 379 واسنادہ صحیح]

اس روایت میں ’’الثندوۃ‘‘ کے الفاظ ہیں ۔
''الثندوۃ''کے معانی چھاتی ہوتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے:
والثندوة للرجل: بمنزلة الثدي للمرأة
’’ثندوہ‘‘ مرد کی چھاتی کو کہا جاتا ہے جس طرح عورت کی چھاتی کو ’’ثدی‘‘ کہا جاتا ہے[لسان العرب : 1/ 41].

دیوبندیوں کی ڈکشنری القاموس الوحید میں ہے:
الثندوہ : مرد کا پستان[القاموس الوحید: 224]

اس پر مزید تفصیل آگے آرہی ہے ۔ بہرحال ’’الثندوہ ‘‘ چھاتی کے معنی میں ہے اور اور ’’تحت الثندوہ‘‘ کا مطلب ہے چھاتی کے نیچے یعنی سینہ ۔ اس لئے اس روایت میں بھی معنوی طور پر وہی بات بیان ہوئی ہے جسے بقیہ چھہ (6) رواۃ متفقہ طور پر بیان کیا ہے۔ اور روایت بالمعنی میں الفاظ میں اس طرح کا فرق ہوجاتا ہے لیکن مفہوم ایک ہی رہتا ہے ۔ایسی صورت کا اضطراب نہیں کہا جاتا ۔

تنبیہ بلیغ:
ابوالولید الطیالسی کی اسی روایت کو اثرم ہی کے حوالہ سے ابن عبدالبر نے [التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 20/ 78] میں نقل کیا ہے ۔ اور اس میں بھی اصل قلمی نسخہ میں ’’تحت الثندوۃ‘‘ ہی کے الفاظ ہیں ۔ لیکن اس کتاب کے محقق نے ’’ثندوۃ‘‘ کو ’’السرۃ‘‘ بناکر اس روایت میں کھلی تحریف کردی ۔اور مزے کی بات یہ کہ اس نے حاشیہ میں لکھ بھی دیا کہ اس لفظ کو ’’السرہ‘‘ اسی نے بنایا ہے ، اور اصل قلمی نسخے میں ’’السرہ‘‘ کے بجائے ’’الثندوہ‘‘ ہے۔ اس پر مکمل بحث آگے آرہی ہے۔
فی الحال اتنا عرض ہے کہ التمہید کے قلمی نسخے کے ساتھ ساتھ خطیب بغدادی کی روایت میں بھی یہاں ’’الثندوہ‘‘ کا لفظ ہونا اس کی بات کی زبردست دلیل ہے کہ اس روایت میں اصل لفظ ’’الثندوہ‘‘ ہی ہے۔
لہٰذا التمہید کے مطبوعہ نسخہ میں محقق کا اپنی مرضی سے اسے ’’السرہ‘‘ بنا دینا بہت بڑا عجوبہ ہے۔مزید تفصیل احناف کے دلائل پر بحث کے ضمن میں آرہی ہے۔دیکھئے:

بہرحال اس روایت میں بھی معنوی طور پر سینے پر ہاتھ باندھنے ہی کا ذکر ہے۔
اب باقی بچیں دو روایات تو صرف اور صرف انہیں دو روایات میں ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں ہے چنانچہ:
مؤمل بن اسماعیل کی روایت:
أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
ثنا أبو بكرة، قال: حدثنا مؤمل، قال: حدثنا حماد بن سلمة، قال: حدثنا عاصم الجحدري، عن عقبة بن صهبان، عن علي رضي الله عنه، في قوله عز وجل: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} ، قال: " وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة "
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کے قول {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108) کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے نمازمیں دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پررکھنا مراد ہے۔[أحكام القرآن للطحاوي 1/ 184]

عبدالرحمن بن مھدی کی روایت:
حدثنا ابن بشار، قال: ثنا عبد الرحمن، قال: ثنا حماد بن سلمة، عن عاصم الجحدري، عن عقبة بن ظبيان عن أبيه، عن علي رضى الله عنه {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} قال: وضع اليد على اليد في الصلاة
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کے قول {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے نمازمیں (دائیں) ہاتھ کو اپنے (بائیں) ہاتھ پررکھنا مراد ہے۔[تفسير الطبري 24/ 652]

قارئیں ملاحظہ فرمائیں کہ نو روایات میں سے سات روایت ہاتھ باندھنے کی جگہ کا ذکر اور اس کے برخلاف صرف اور صرف دو روایات ہی میں ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں ہے۔لہٰذا سات روایات کے مقابلہ میں صرف دو روایات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
مزید یہ کہ ان سات روایات اور دو روایات کے مابین کوئی متضاد اختلاف نہیں ہے ،یعنی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ سات رواۃ نے جو بات بیان کی ہے اس کے بالکل الٹا دو رواۃ نے کوئی بات بیان کی ہے ۔بلکہ یہاں ذکر اور عدم ذکر کا اختلاف ہے ، یعنی تمام رواۃ نے ہاتھ باندھنے کا ذکر کیا ہے اور سات رواۃ نے ہاتھ باندھنے کی جگہ بھی ذکر کی لیکن دو رواۃ نے صرف ہاتھ باندھنے کا ذکر کیا اور اس کی جگہ کا ذکر نہیں کیا ۔گویا کہ یہاں اختلاف اضافہ اور کمی کا ہے ، اور اس طرح کے معاملہ میں بغیردلیل کے اضافہ کرنے والے کی بات کا رد نہیں کیا جاسکتا اور یہاں اضافہ کرنے والوں کی بات کو رد کرنے کرنے کے لئے سرے سے کوئی دلیل موجود ہیں نہیں بلکہ دلیل تو اس بات کی موجود ہے کہ اضافہ کرنے والوں کی بات کو قبول کیا جائے کیونکہ اس اضافہ کوسات لوگوں کی جماعت نے بیان کیا ہے ۔


دوسرا طریق

دوسرا طریق ''يزيد بن زياد بن أبي الجعد'' کا ہے اوران کے طریق میں ہاتھ باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں ہے۔چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا وكيع قال حدثنا يزيد بن أبي زياد عن أبي الجعد عن عاصم الجحدري عن عقبة بن ظهير عن علي في قوله {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} قال وضع اليمين على الشمال في الصلاة
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کے قول {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108) کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے نمازمیں دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پررکھنا مراد ہے۔[مصنف ابن أبي شيبة: 1/ 343 واخرجہ ایضا عبدالرزاق فی تفسیرہ 3/ 467 والدارقطنی فی سننہ 1/ 285 وفی الافراد ص : 165 کلاھما من طریق وکیع بہ۔ واخرجہ ایضا البخاری فی التاريخ الكبير : 6/ 437 من طریق قتیبہ عن حمید بہ ، ولفظہ وضعها على الكرسوع.]

لیکن اس اختلاف کی بنیاد پر سند کو مضطرب نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ دونوں طریق قوت میں یکساں نہیں ہیں بلکہ حماد بن سلمہ کا طریق یزید بن زیاد بن ابی الجعد کے طریق سے زیادہ قوی اور مضبوط ہے۔ اسی دو وجوہات ہیں:
پہلی وجہ:
یزیدبن زیاد حفظ و ضبط میں حمادبن سلمہ کے بالمقابل کمتر ہیں ۔
اورکئی محدثین نے ان کے حفظ وضبط کی کمی کی صراحت کی ہے چنانچہ:
امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
يزيد بن زياد فغير حافظ
یزیدبن زیاد حافظ نہیں ہے[مسند البزار: 1/ 465]
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
شيخ
یہ شیخ ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 9/ 262 واسنادہ صحیح]
یادرہے ''شیخ" بہت کم تر درجہ کی تعدیل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں محدثین کے اقوال کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہا:
يزيد بن زياد بن أبي الجعد الأشجعي الكوفي صدوق
یزیدبن زیاد بن ابی الجعد الاشجعی کوفی ، یہ صدوق ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 7714]
جبکہ حمادبن سلمہ بخاری تعلیقا اور مسلم اور سنن اربعہ کے مشہور و معروف رجال اور ائمہ حدیث میں سے ہیں ۔ محدثین نے اعلی صیغوں سے ان کی توثیق کی ہے چنانچہ:
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة ثبت
یہ ثقہ اور ثبت ہیں[سؤالات ابن الجنيد لابن معين: ص: 316]
بعض لوگوں نے بغیر کسی دلیل کے ان پر اختلاط یا تغیر حفظ کا الزام لگایا ہے لیکن امام ابن معین رحمہ اللہ نے ایسی لوگوں کی تردید کی ہے چنانچہ امام ابن معین رحمہ اللہ ہیں:
حديث حماد بن سلمة في أول أمره وآخر أمره واحد
حمادبن سلمہ کی شروع اور آخر کی تمام احادیث ایک جیسی ہیں[تاريخ ابن معين - رواية الدوري 4/ 312]۔
معلوم ہوا کہ بقول امام ابن معین رحمہ اللہ ''حماد بن سلمة'' شروع سے لیکر اخیرتک ثقہ تھے ۔
نیز امام ابن معین رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا:
إذا رأيت إنسانا يقع في عكرمة وفي حماد بن سلمة فاتهمه على الإسلام
جب تم کسی ایسے انسان کو دیکھو جو عکرمہ اور حمادبن سلمہ کے بارے میں زبان درازی کرتا ہے تو سمجھ جاؤ اس کا اس کا اسلام ٹھیک نہیں [تاريخ دمشق لابن عساكر: 41/ 103 واسنادہ صحیح]
لہٰذا حمابن سلیمہ رحمہ اللہ جیسے امام بلکہ امیر المؤمنین فی الحدیث کے خلاف یزید بن زیاد بن ابی الجعد کی بات چنداں قاتل اعتبار نہیں ہے۔

دوسری وجہ:
عاصم الجحدری بصری ہیں[الثقات لابن حبان ت االعثمانية: 5/ 240]
اورامام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کہا:
ما حدث أحد بالبصرة أحسن حديث من حماد بن سلمة.
بصرہ میں حمادبن سلمہ سے بہتر کسی نے احادیث بیان نہیں کی [سؤالات أبي عبيد الآجري للإمام أبي داود السجستاني - الفاروق ص: 180]
امام ابوداؤد رحمہ اللہ کے اس قول کی روشنی میں بصرین سے حماد بن سلمہ سے بہتر کسی کی حدیث ہوہی نہیں سکتی ہے۔
ان وجوہات کی بناپر یزیدبن زیاد بن ابی الجعد کے مقابلہ میں امام حمادبن سلمہ رحمہ اللہ ہی کی روایت راجح ہے۔
اور جب دو مختلف روایات میں دونوں ہم پلہ اور قوت میں مساوی نہ ہوں تو یہاں اضطراب کا حکم نہیں لگے گا بلکہ راجح ومرجوع کا حکم لگے گا چنانچہ:

امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643)نے کہا:
المضطرب من الحديث: هو الذي تختلف الرواية فيه فيرويه بعضهم على وجه وبعضهم على وجه آخر مخالف له، وإنما نسميه مضطربا إذا تساوت الروايتان. أما إذا ترجحت إحداهما بحيث لا تقاومها الأخرى بأن يكون راويها أحفظ، أو أكثر صحبة للمروي عنه، أو غير ذلك من وجوه الترجيحات المعتمدة، فالحكم للراجحة، ولا يطلق عليه حينئذ وصف المضطرب
مضطرب وہ حدیث ہے جس کی روایت میں اس طرح اختلاف ہو کہ بعض ایک طرح روایت کریں اور بعض اس کے مخالف دوسری طرح روایت کریں ، اور ہم ایسی حدیث کو اس وقت مضطرب کہیں گے جب طرفین کی روایت مساوی اورایک درجے کی ہو ۔ لیکن اگر دونوں میں سے کوئی روایت راجح قرار پائے اس طرح کہ دوسری روایت اس کے ہم پلہ نہ ہو ، بایں طور کہ اس کے روای احفظ ہوں یا مروی عنہ کے ساتھ اس نے زیادہ مدت کذاری ہو ، یا اس کے علاوہ معتمد وجوہ ترجیحات میں سے کوئی ہو تو حکم راجح روایت کے اعتبار سے لگے گا اورایسی صورت میں یہ روایت مضطرب نہیں ہوگی۔[مقدمة ابن الصلاح: ص: 94]

امام نووي رحمه الله (المتوفى 676)نے کہا:
المضطرب هو الذي يروى على أوجه مختلفة متقاربة، فإن رجحت إحدى الروايتين بحفظ راويها أو كثرة صحبته المروي عنه، أو غير ذلك: فالحكم للراجحة، ولا يكون مضطرباً۔
مضطرب وہ حدیث ہے جو مختلف ایسے طرق سے مروی ہو جو آپس میں ہم پلہ ہوں اور اگر دو روایات میں ایک روایت راجح قرار پائے اس کے روای کے احفظ ہونے کے سبب یا مروی عنہ کے ساتھ کسی راوی کی کثرت صحبت کے سبب یا کسی اور وجہ سے تو حکم راجح روایت کے اعتبار سے لگے گا اورایسی صورت میں یہ روایت مضطرب نہیں ہوگی۔ [التقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث ص: 6]۔

لہٰذا حمادبن سلمہ کا طریق درج بالا وجوہ کی بناپر راجح قرارپائے اور اس کے مطابق یہ روایت صحیح قرار دی جائے گی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
سند میں اضطراب کا دعوی اور اس کا جائزہ


ابن الترکمانی وغیرہ کا اس روایت کی سند میں اضطراب کا دعوی کرنا باطل ہے ۔اس کی وضاحت کے لئے ہم تمام سندوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس روایت کے مرکزی راوی ''عاصم الجحدري'' ہیں۔ان سے درج ذیل دو طریق سے یہ روایت منقول ہے ۔

  • اول: حماد بن سلمة بن دينار البصری
  • دوم: يزيد بن زياد بن أبي الجعدالكوفى
پہلا طریق

پہلے طریق میں یعنی حماد بن سلمہ کے طریق میں حماد بن سلمہ سے اسی روایت کو درج ذیل نو(9) راویوں نے نقل کیا ہے:

موسى بن إسماعيل
حجاج بن المنهال
أبو الوليد الطيالسي
أبو صالح الخراساني
شيبان بن فروخ
مهران بن أبى عمر
أبو عمر، عمر الضرير
مؤمل بن اسماعیل
عبدالرحمن بن مہدی

اختلاف کی صورتیں اور ترجیح :
ان تمام راویوں کی بیان کردہ سندوں کو بھی ہم نے متن کے اضطراب پر بحث کرتے ہوئے گذشتہ سطور میں پیش کردیا ہے ۔ ان سب پر نظر ڈالی جائی تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عاصم الجحدری کے شاگردوں نے سند کو چار کیفیت میں روایت کیا جس کی تفصیل یہ ہے :

سند کی پہلی کیفیت : (حمادعن عاصم عن ابیہ عن عقبہ بن ظبیان عن علی رضی اللہ عنہ):
سند کی یہ کیفیت سب سے بڑی تعداد نے بیان کی ہے جو درج ذیل ہیں:
موسى بن إسماعيل
حجاج بن المنهال
أبو الوليد الطيالسي
أبو صالح الخراساني
یہ کل چار شاگرد ہیں، ان سب کے الفاظ گذشتہ سطور میں پیش کے جاچکے ہیں ۔ان سبھوں نے متفقہ طور پرسندکی مذکورہ کیفیت بیان کی ، اس کے برخلاف اتنی بڑا تعداد سے سند کی کوئی بھی کیفیت مروی نہیں ہے لہٰذا یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ سند کی یہی کیفیت راجح ہے۔


سندکی دوسری کیفیت: (عاصم الجحدری کے استاذ ، ان کے والد کے علاوہ کوئی اور):
سند کی اس کیفیت میں اختلاف کی نوعیت یہ ہے کہ عاصم الجحدری کے استاذ کی جگہ ان کے والد کا تذکرہ کرنے کے بجائے دوسرے کا تذکرہ ہے۔ یہ کیفیت بیان کرنے والے صرف تین رواۃ ہیں:
مهران بن أبى عمر
مؤمل بن اسماعیل
عقبہ بن صبھان
اوران تینوں کے الفاظ بھی باہم متفق نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے مهران بن أبى عمر نے عاصم سے اوپر ’’عقبہ بن ظہیر‘‘ کا ذکر کیا ۔ اورمؤمل بن اسماعیل نے عاصم سے اوپر ’’عقبہ بن صبھان‘‘ کا ذکر کیا ہے ۔ اور عبدالرحمن بن مہدی نے عاصم سے اوپر ’’عقبہ بن ظبیان‘‘ کا ذکر کیا ہے جیساکہ ان سب کے الفاظ نقل کئے جاچکے ہیں۔یاد رہے کہ عقبہ بن ظہیر اور عقبہ بن ظبیان ایک ہی راوی کے نام ہیں۔

اور ان تین لوگوں کے برخلاف پانچ(5) شاگردوں نے متفقہ طور پر عاصم سے اوپر ان کے والد کا تذکرہ کیا ہے یہ پانچوں شاگرد درج ذیل ہیں:
موسى بن إسماعيل
حجاج بن المنهال
أبو الوليد الطيالسي
أبو صالح الخراساني
أبو عمر،حفص،الضرير
ان پانچوں کے الفاظ اوپر نقل کئے جاچکے ہیں ۔ظاہر ہے پانچ(5) شاگردوں کے متفقہ بیان کے مقابلہ تین لوگوں کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔بالخصوص جب کہ ان تینوں کی مخالفت بھی الگ الگ الفاظ میں ہے۔

سند کی تیسری کیفیت:(عقبہ کے استاذ کی جگہ علی کے بجائے عقبہ کے والد کا ذکر):
سند کی اس کیفیت میں اختلاف کی نوعیت یہ ہے کہ عقبہ کے استاذ کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرنے کے بجائے عقبہ کے والد کا تذکرہ ہے۔ یہ کیفیت بیان کرنے والے صرف دو رواۃ ہیں:
مهران بن أبى عمر
عبدالرحمن بن مہدی
اور ان دو لوگوں کے برخلاف چھہ (6) شاگردوں نے متفقہ طور پر عقبہ سے اوپر علی رضی اللہ عنہ ہی کا تذکرہ کیا ہے یہ چھہ شاگرد درج ذیل ہیں:
موسى بن إسماعيل
حجاج بن المنهال
أبو الوليد الطيالسي
أبو صالح الخراساني
شيبان بن فروخ
مؤمل بن اسماعیل
ان چھہ (6) شاگردوں کے الفاظ اوپر نقل کئے جاچکے ہیں ۔ظاہر ہے کہ چھہ (6) شاگردوں کے متفقہ بیان کے مقابلہ صرف دو شاگردوں کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

سند کی چوتھی کیفیت: (عاصم اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان اتصال یا انقطاع):
سند کی اس کیفیت میں اختلاف کی نوعیت یہ ہے کہ عاصم کے والد اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان سے ’’عقبہ ‘‘ کا تذکرہ ساقط ہے۔ یہ کیفیت بیان کرنے والے صرف اور صرف ایک راوی ہیں ’’أبو عمر، حفص بن عمر الضري‘‘ ہیں۔
اور ان کے برخلاف پانچ(5) شاگردوں نے متفقہ طور پر عاصم کے والد اور علی رضی اللہ عنہ کے بیچ ’’عقبہ‘‘ کاتذکرہ کیا ہے یہ پانچ شاگرد درج ذیل ہیں:
موسى بن إسماعيل
حجاج بن المنهال
أبو الوليد الطيالسي
أبو صالح الخراساني
شيبان بن فروخ
ان پانچوں شاگردوں کے الفاظ اوپر نقل کئے جاچکے ہیں ۔ظاہر ہے کہ پانچ (5) شاگردوں کے متفقہ بیان کے مقابلہ صرف ایک شاگرد کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

سند کی چھوتھی کیفیت: (عقبہ کے والد ظبیان یا صبہھان):
سند کی اس کیفیت میں اختلاف کی نوعیت یہ ہے کہ عقبہ کے والد کا نام ظبیان کے بجائے ’’صبھان‘‘ بتلایا گیا ہے یہ کیفیت بیان کرنے والے صرف دو رواۃ ہیں:
شيبان بن فروخ
مؤمل بن اسماعیل
اور ان دو لوگوں کے برخلاف پانچ (5) شاگردوں نے متفقہ طور پر عقبہ کے والد کا نام ’’ظبیان‘‘ بتلایا ہے ۔ یہ پانچوں شاگرد درج ذیل ہیں:
موسى بن إسماعيل
حجاج بن المنهال
أبو الوليد الطيالسي
أبو صالح الخراساني
عبدالرحمن بن مھدی
ان پانچوں شاگردوں کے الفاظ اوپر نقل کئے جاچکے ہیں ۔ظاہر ہے کہ پانچ (5) شاگردوں کے متفقہ بیان کے مقابلہ صرف دو شاگردوں کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اس اختلاف کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے کیونکہ اصل روای کا نام عقبہ بتانے میں رواۃ کا اتفاق ہے۔اب ان کے والد کے نام میں اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان دونوں ناموں ''ظبیان اور ''صبھان'' میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ اس لئے ایک دو راوی کو اشتباہ ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ۔علاوہ بریں یہ دونوں راوی ثقہ ہیں لہٰذا ان میں کوئی بھی راوی ہو بہر صورت سند کی صحت برقرار رہتی ہے۔
بہرحال اگر ترجیح کی بات کی جائے تو ''ظبیان'' کانام ہی راجح قرار پائے گا۔ کیونکہ ''صبھان'' کانام بتلانے والے صرف دو لوگ ہیں ۔ ان کے مقابلہ میں پانچ لوگ متفقہ طور ’’ظبیان‘‘ نام بتلاتے ہیں،ظاہر کہ کے پانچ لوگوں کے مقابلہ میں صرف دو کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

دوسرا طریق

دوسرا طریق ''يزيد بن زياد بن أبي الجعد'' کا ہے اوران کے طریق میں سند میں عاصم الجحدری اور عقبہ بن ظبیان کے بیچ ''ابیہ '' کا واسطہ نہیں ہے۔جیساکہ یہ سند گذشتہ سطور میں متن کے اضطراب پر بحث کرتے ہوئے پیش کی جاچکی ہے، اور وہیں پر یہ بھی بتایا جاچکا ہے کہ یزید بن زیاد بن ابی الجعد کی یہ روایت حماد بن سلمہ کی روایت کے ہم پلہ نہیں ہے بلکہ دو وجوہات کی بناپر حماد بن سلمہ ہی کی روایت راجح ہے۔
لہٰذا جہاں ترجیح کے دلائل مل جائیں ، وہاں پر اضطراب کا حکم نہیں لگے گا جیساکہ اس سلسلے میں امام ابن صلاح اور امام نوی رحمہما اللہ کی صراحت پیش کی جاچکی ہے۔ دیکھئے:

اس کتاب پرنقد و تبصرے کے لئے درج ذیل دھاگے میں تشریف لائیں
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top