کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
قال موسى: حدثناحماد بن سلمة، سمع عاصما الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن ظبيان، عن علي، رضي الله عنه: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} وضع يده اليمني على وسط ساعده على صدره.
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر اپنے سینے پررکھنا مرادہے [التاريخ الكبير للبخاري: 6/ 437 ، السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 45 واسنادہ صحیح]
وضاحت :
’’ساعد‘‘ بازو کے کہنی سے لیکر کلائی تک کے حصہ کو کہتے ہیں۔چنانچہ
لسان العرب میں ہے:
’’الساعد‘‘ کے معانی میں ’’القاموس الوحید‘‘ کے مؤلف لکھتے ہیں:
دائیں ہاتھ کو اگر بائیں بازو کے ساعدکے درمیان رکھا جائے گا تو دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے سرے بائیں ہاتھ کی کہنی کے قریب پہنچیں گے ۔ یعنی دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے بازو پر آئے گا ۔ اور ایسی صورت میں دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے ۔ چنانچہ اس حدیث میں اس کیفیت کے ذکر کے ساتھ ساتھ سینے پر ہاتھ باندھنے کی بھی صراحت موجود ہے۔
علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا قران مجید سے بھی ثابت ہے۔ بلکہ احناف میں سے بھی کئی حضرات نے علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر سے استدلال کرتے ہوئے یہی بات کہی ہے ۔
حتی کہ بعض احناف نے اسی بنیادپر شیعوں کی تردید کی ہے جو نماز میں ہاتھ باندھتے ہی نہیں ، چنانچہ دیوبندی مکتبرفکر کے ’’رئیس المناظرین مولانا ابوالفضل محمد کرم الدین صاحب رح ‘‘ اپنی مشہور کتاب ’’آفتاب ہدایت و روافض بدعت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’یہاں نحر کا معنی یہی ہے کہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر ہاتھ باندھے ہوئے نماز پڑھو ۔ امام فخر رازی نے تفسیر کبیر (جلد8 ص 712) میں آیت مذکورہ کی تفسیر میں جناب مدینہ العلم علی المرتضی کا قول یوں نقل کیا ہے :” والاشہر وضعھا علی النحر علی عادۃ الخاشع ‘‘ وانحر کا اشہر اور اظہر معنی یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے جیسے خشوع وخضوع کا طریقہ ہے ۔ ایسا ہی تفاسیر در منثور ، معالم التنزیل ، ،تنویر المقیاس حسینی وغیرہ اور کتب بخاری ، ترمذی ، دارقطنی وغیرہ میں حضرت علی اور ابن عباس اور دیگر جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات سے یہی معنی لکھا گیا ہے۔ پھر ایسی صریح اور صاف آیت کے ہوتے ہوئے دوسری کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی ‘‘ ۔ [آفتاب ہدایت: ص 430 بحوالہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں ص9]
قارئین ملاحظہ فرمائیں کی دیوبندیوں کے رئیس المناظرین صاف طور سے اعلان کررہے ہیں کہ ’’وانحر کا اشہر اور اظہر معنی یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے جیسے خشوع وخضوع کا طریقہ ہے‘‘ ۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ یہ بھی فرمارہے ہیں کہ ’’ایسی صریح اور صاف آیت کے ہوتے ہوئے دوسری کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی‘‘
شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
قال موسى: حدثناحماد بن سلمة، سمع عاصما الجحدري، عن أبيه، عن عقبة بن ظبيان، عن علي، رضي الله عنه: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} وضع يده اليمني على وسط ساعده على صدره.
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} (الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر اپنے سینے پررکھنا مرادہے [التاريخ الكبير للبخاري: 6/ 437 ، السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 45 واسنادہ صحیح]
وضاحت :
’’ساعد‘‘ بازو کے کہنی سے لیکر کلائی تک کے حصہ کو کہتے ہیں۔چنانچہ
لسان العرب میں ہے:
والساعد: ملتقى الزندين من لدن المرفق إلى الرسغ
ساعد کہتے ہیں ، دونوں گٹوں کے درمیان کہنی سے لے کر کلائی تک کا حصہ[لسان العرب: 3/ 214]
’’الساعد‘‘ کے معانی میں ’’القاموس الوحید‘‘ کے مؤلف لکھتے ہیں:
بریکٹ اور اس کے اندر کے الفاظ القاموس الوحید ہی کے ہیں۔بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کا حصہ) [القاموس الوحید: ص 769]
دائیں ہاتھ کو اگر بائیں بازو کے ساعدکے درمیان رکھا جائے گا تو دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے سرے بائیں ہاتھ کی کہنی کے قریب پہنچیں گے ۔ یعنی دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے بازو پر آئے گا ۔ اور ایسی صورت میں دونوں ہاتھ خود بخود سینے پر آجائیں گے ۔ چنانچہ اس حدیث میں اس کیفیت کے ذکر کے ساتھ ساتھ سینے پر ہاتھ باندھنے کی بھی صراحت موجود ہے۔
علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا قران مجید سے بھی ثابت ہے۔ بلکہ احناف میں سے بھی کئی حضرات نے علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر سے استدلال کرتے ہوئے یہی بات کہی ہے ۔
حتی کہ بعض احناف نے اسی بنیادپر شیعوں کی تردید کی ہے جو نماز میں ہاتھ باندھتے ہی نہیں ، چنانچہ دیوبندی مکتبرفکر کے ’’رئیس المناظرین مولانا ابوالفضل محمد کرم الدین صاحب رح ‘‘ اپنی مشہور کتاب ’’آفتاب ہدایت و روافض بدعت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’یہاں نحر کا معنی یہی ہے کہ داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر ہاتھ باندھے ہوئے نماز پڑھو ۔ امام فخر رازی نے تفسیر کبیر (جلد8 ص 712) میں آیت مذکورہ کی تفسیر میں جناب مدینہ العلم علی المرتضی کا قول یوں نقل کیا ہے :” والاشہر وضعھا علی النحر علی عادۃ الخاشع ‘‘ وانحر کا اشہر اور اظہر معنی یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے جیسے خشوع وخضوع کا طریقہ ہے ۔ ایسا ہی تفاسیر در منثور ، معالم التنزیل ، ،تنویر المقیاس حسینی وغیرہ اور کتب بخاری ، ترمذی ، دارقطنی وغیرہ میں حضرت علی اور ابن عباس اور دیگر جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات سے یہی معنی لکھا گیا ہے۔ پھر ایسی صریح اور صاف آیت کے ہوتے ہوئے دوسری کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی ‘‘ ۔ [آفتاب ہدایت: ص 430 بحوالہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں ص9]
قارئین ملاحظہ فرمائیں کی دیوبندیوں کے رئیس المناظرین صاف طور سے اعلان کررہے ہیں کہ ’’وانحر کا اشہر اور اظہر معنی یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے جیسے خشوع وخضوع کا طریقہ ہے‘‘ ۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ یہ بھی فرمارہے ہیں کہ ’’ایسی صریح اور صاف آیت کے ہوتے ہوئے دوسری کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی‘‘
شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
اس کے بعد حنفی مناظر کا مذکورہ اقتباس نقل کرکے لکھتے ہیں:’’ہمارے حنفی حضرات بھی عجیب ہیں کہ روافض کے مقابلے میں نماز میں ہاتھ باندھنے کا ثبوت قران مجید کی آیت ’’فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ‘‘ سے پیش کرتے ہیں بلکہ سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر کرتے ہیں ، مگر اہل حدیث کے مقابلہ میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا انکار کرتے ہیں ، انا للہ ونا الیہ راجعون‘‘ [ نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں ص9] ۔
’’یہاں باقی تفصیل سے قطع نظر دیکھئے کہ ’’سینے پرہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے ‘‘ کو ’’خشوع و خضوع ‘‘ کا طریقہ تسلیم کیا گیا ہے اورخشوع وخضوع کے اسی طریقہ کو مدلل طور پر مولانا ضیاء اللہ صاحب نے اس رسالہ میں بیان کیا ہے۔ رافضیوں کے مقابلہ میں اگر یہ مسئلہ ’’صریح اور صاف آیت ‘‘ سے ثابت ہوتا ہے تو اہل حدیث سے ’’کسی دوسری دلیل کی ضرورت‘‘ کیوں محسوس کی جاتی ہے ؟ اعدلوا ھو اقرب للتقوی‘‘[ نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں ص9] ۔