- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
حدیث قرع نعال میں ڈاکٹر عثمانی کی تحریف
ڈاکٹر موصوف نے بخاری کی اس حدیث ’’اَلْعَبْدُ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَ تُوُلِّیَ وَ ذَھَبَ اَصْحَابُہٗ حَتّٰی اِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ فَاَقْعَدَاہُ‘‘
اس ترجمہ سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ گویا کسی گزرے ہوئے شخص کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ معاملہ ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے۔ موصوف نے اس حدیث میں زبردست خیانت کی ہے اور مغالطہ دیا ہے۔ حالانکہ اس حدیث کا یہ ترجمہ بالکل نہیں ہے۔ اور اس حدیث کے کئی طرق بھی موجود ہیں جس سے اس حدیث کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس حدیث کا آسان سا ترجمہ اس طرح ہے:جب بندہ قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر اُن کی (فرشتوں کی) جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے آجاتے ہیں اور اس کو بٹھاتے ہیں … (ایمان خالص نمبر ۲ ص:۲۴)۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ پھیرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ دو فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں اور اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں‘‘۔
وقال ابن التین انہ کرر اللفظ والمعنی واحد
ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ الفاظ (تولی اور ذھب) مکرر آئے ہیں اور دونوں الفاظ کا معنی ایک ہی ہے۔(فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد۳ ص:۱۶۱)۔
آگے فرمایا:
و سیأتی فی روایۃ عیاش بلفظ و تولی عنہ اصحابہ وھو موجود فی جمیع الروایات عند مسلم وغیرہ
اور عنقریب جناب عیاش (ابن الولید) رحمہ اللہ کی روایت وتولی عنہ اصحابہ کے الفاظ کے ساتھ آگے آرہی ہے اور یہ الفاظ (وتولی عنہ اصحابہ) (جو اوپر والی احادیث کے مفہوم کو صحیح طور پر متعین کرتے ہیں)۔ صحیح مسلم وغیرہ کی تمام روایات میں موجود ہیں۔ (ایضاً:۳/۱۶۱)۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے جس روایت کی نشاندہی کی ہے اس کے الفاظ یوں ہیں:
ان العبد اذا وضع فی قبرہ و تولی عنہ اصحابہ و انہ لیسمع قرع نعالھم اتاہ ملکان فیقعد انہ (بخاری کتاب الجنائز باب جاء فی عذاب القبر:۱۳۷۴و مسلم:۲۸۷۰)
اس واضح تفصیل کے باوجود ڈاکٹر موصوف نے اس حدیث کا جو عجیب و غریب ترجمہ کیا ہے وہ ان کے الفاظ میں دوبارہ ملاحظہ فرمائیں:بے شک بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں تو ابھی وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں اور اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں۔
اس عجیب و غریب ترجمہ کو ملاحظہ کریں۔ اس ترجمہ سے ایسا لگتا ہے کہ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک بندے کا ذکر کیا تھا کہ جسے قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کے ساتھ یہ تمام حالات پیش آئے۔ حالانکہ یہ واقعہ یوں نہیں ہے بلکہ اس حدیث میں ایک عام قانون بیان کیا جارہا ہے کہ ’’بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے۔ آگے کے الفاظ ’’وَتُوُلِّیَ وَ ذَھَبَ اَصْحَابُہٗ‘‘ کا ترجمہ جو موصوف نے کیا ہے وہ ایک شاہکار ہے، لکھتے ہیں: ’’اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے‘‘۔ حالانکہ تولی کا یہ ترجمہ انتہائی غلط اور سخت قسم کی دھاندلی ہے۔ اور بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کہ یہ دونوں الفاظ ہم معنی ہیں اور ان کو مکرر لایا گیا ہے۔ اور پھر اس کی وضاحت عیاش بن الولید کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ جس کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’وَتَوَلّٰی عَنْہُ اَصْحَابُہٗ‘‘ اور اس کے ساتھ اس سے منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں۔’’قتادہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر ان کی (فرشتوں کی) جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے آجاتے ہیں اور اس کو بٹھاتے ہیں‘‘۔ (ایمان خالص نمبر۲ ص:۲۶)۔
قرآن مجید کی بعض آیات کی وضاحت جس طرح دوسری آیات کرتی ہیں یعنی قرآن اپنی تفسیر خود کرتا ہے، بالکل اسی طرح احادیث بھی ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ اور دوسری حدیث کے پیش نظر اس حدیث کا معنی بالکل واضح ہو جاتا ہے اور موصوف کی تحریف بھی واضح ہوتی ہے۔ اس حدیث میں آگے الفاظ ہیں: حَتّٰی اِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ موصوف نے اس کا ترجمہ کیا ہے: ’’یہاں تک کہ وہ یقینی طور پر ان کی (فرشتوں کی) جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ فرشتے آجاتے ہیں‘‘۔ یہاں بھی موصوف نے زبردست خیانت کا ارتکاب کیا ہے اور ھم (جمع) کی ضمیر کو ملکان (تثنیہ) کی طرف پھیر دیا جو کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ ان الفاظ کا سادہ سا ترجمہ یہ ہے:
امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عبد بن حمید کی سند سے ذکر کیا ہے جس کے الفاظ یوں ہیں:’’یہاں تک کہ وہ ابھی ان (ساتھیوں) کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ دو فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں۔ یعنی ھم کی ضمیر اصحاب کی طرف پلٹے گی کیونکہ فرشتے تو ابھی آئے بھی نہیں تو ضمیر کس طرح ان کی طرف پلٹے گی۔اور اس کی وضاحت بھی صحیح مسلم کی روایت سے ہوتی ہے۔
اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَ تَوَلّٰی عَنْہُ اَصْحَابُہٗ اِنَّہٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ قَالَ یَأتِیْہِ مَلَکَانِ فیقعد انہ … (مسلم:۲۸۷۰)
اس حدیث میں اِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ پر جملہ ختم ہو جاتا ہے لہٰذا لامحالہ ھم کی ضمیر اصحاب کی طرف ہی پلٹتی ہے اور آگے قَال یأتیہ ملکان سے نیا جملہ شروع ہوتا ہے جس میں ملائکہ کے آنے کا ذکر ہے۔ یہ روایت شبان ابن عبدالرحمن کے واسطے سے ہے جسے اس نے قتادہ سے روایت کیا ہے۔ اس حدیث میں اوپر کا جملہ اس بات پر ختم ہو گیا تھا کہ میت ان (ساتھیوں) کی جوتیوں کی چاپ سنتی ہے اور اس کے بعد والا جملہ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس (میت) کے پاس دو فرشتے آتے ہیں۔ پھر قبر میں فرشتے اصلی شکل و صورت میں آتے ہیں، انسانوں کی طرح جوتے پہن کر نہیں آتے کہ ان کی جوتیوں کی چاپ سنی جا سکے۔ فافھم۔اور اس طرح کی ایک مزید روایت کی وضاحت بھی امام مسلم رحمہ اللہ نے کی ہے کہ جسے سعید نے قتادہ سے روایت کیا ہے اور ایک اور روایت جو عمرو بن زرارہ کی سند سے ہے اور اس وضاحت سے موصوف کا مفروضہ بالکل پاش پاش ہو جاتا ہے۔ چنانچہ عمرو بن زرارہ رحمہ اللہ کی سند سے جو روایت ہے اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:’’بے شک بندہ جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے منہ پھیر کر جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں‘‘۔
اِنَّ الْمَیِّتَ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ اِنَّہٗ لَیَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِھِمْ اِذَا انْصَرَفُوْا (مسلم:۲۸۷۰)
اس حدیث میں ملائکہ کے آنے کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ صرف دفن کر کے واپس جانے والوں کا ذکر ہے جس سے روز روشن کی طرف واضح ہو گیا کہ میت واپس جانے والے ساتھیوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے۔ اس حدیث کے بھی بہت سے شواہد موجود ہیں۔بے شک جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے جبکہ وہ (اسے دفنا کر) واپس پلٹتے ہیں۔
(۳) تیسری حدیث: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بنو نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر بدکا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا دے ناگہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں معلوم ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے؟ ایک شخص نے کہا میں (جانتا ہوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کب مرے ہیں؟ وہ بولا شرک کے زمانے میں۔
ان ھذہ الامۃ تبتلی فی قبورھا فلولا ان لا تدا فنوا لدعوت اللّٰہ ان یسمعکم من عذاب القبر الذی اسمع منہ
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:’’یہ اُمت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے پس اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی قبر کا عذاب سنادے جس طرح میں سنتا ہوں‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ ہم نے کہا کہ ہم جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’قبرکے عذاب سے اللہ کی پناہ چاہو۔ ہم نے کہا ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ظاہر اور باطن فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ ہم نے کہا ہم ظاہر اور باطن فتنوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
(صحیح مسلم کتاب الجنۃ، مشکاۃ المصابیح، مسند احمد ۵/۱۹۰، مصنف ابن ابی شیبہ ۳٭۳۷۳)۔’’تم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگو‘‘۔ ہم نے کہا: ہم دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں‘‘۔
اس حدیث کو سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابوسعید الخدری نے بیان کیا ہے۔ اس واقعہ کو سیدنا جابر رضی اللہ عنہما (مسند احمد ۳/۲۹۶، الصحیحۃ ۱٭۲۴۳) سیدہ اُمّ مبشر رضی اللہ عنہا (مسند احمد ۶/۳۶۲، مصنف ابن ابی شیبہ ۳/۳۷۳، صحیح ابن حبان، الصحیحۃ ۳/۴۳۰) اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ (مسند احمد ۳/۲۰۱۔ ۱۰۳۔ ۱۵۳۔ ۱۷۵۔ ۲۸۴۔ ۱۱۱۔ ۱۷۶۔ ۲۷۲۔ النسائی:۱/۲۹۰، صحیح ابن حبان:۷۸۶) بھی بیان کرتے ہیں۔ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے متعدد روایات میں یہ واقعہ مروی ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(مسند احمد۳/۱۰۳، ۱۱۴، ۲۰۱۔ سنن النسائی ۲۰۵۸، ابن حبان: ۳۱۲۶۔ اثبات عذاب القبر للبیہقی:۱۰۴۔ و قال الالبانی و شعیب الارنووط و اسنادہ صحیح (مسند للامام احمد مع الموسوعۃ ۱۹/۶۶)۔ و صححہ علیزئی فی عمدۃ المساعی فی تحقیق سنن النسائی:۲۰۶۰)۔ تفصیل ’’الدین الخالص‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنو نجار کے باغوں میں سے ایک باغ میں داخل ہوئے: فسمع صوتا من قبر فسأل عنہ متی دُفن ھذا فقالوا یارسول اللّٰہدُفن ھذا فی الجاھلیۃ و أعجبہ ذلک و قال ………… تو آپ نے ایک قبر میں سے عذاب کی آواز سنی تو آپ نے اس شخص کے متعلق پوچھا کہ یہ کب دفن کیا گیا ہے؟۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ یہ دورِ جاہلیت میں دفن ہوا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سن کر خوش ہوئے (کہ شکر ہے کہ یہ کوئی مسلمان نہ تھا)۔ اور پھر فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تم مردے دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذاب قبر سنا دے۔
اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ میت کو اسی ارضی قبر میں عذاب ہوتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تمنا تھی کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم عذاب قبر کو سنتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت بھی عذاب قبر کو سنے لیکن پھر اس خوف سے کہ لوگ عذاب کو سن کر مردے دفن کرنا چھوڑ دیں گے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا نہ فرمائی۔ ظاہر ہے کہ مردے اسی ارضی قبر ہی میں دفن ہوتے ہیں، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تمنا کا اظہار فرمایا۔ لیکن ڈاکٹر موصوف نے اس حدیث کے اہم حصہ کو نقل ہی نہیں کیا اور اسے شیر مادر سمجھ کر ڈکار گئے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
ظاہر ہے کہ ان الفاظ کے نقل کرنے سے موصوف کی تأویل کی قلعی کھل جاتی لہٰذا اسی بنا پر اس نے یہ الفاظ ہی نقل نہیں کئے اور حدیث کے آدھے حصے کا جواب دینے ہی پر اکتفاء کیا۔ نیز سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ وضاحت بھی ہے کہ آپ نے قبر سے عذاب کی آواز سنی اور پھر صحابہ کرام سے پوچھا کہ یہ شخص کب دفن ہوا ہے؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ھذا اسم اشارہ قریب استعمال کیا اور صحابہ کرام نے بھی جواب میں ھذا کا لفظ ہی استعمال کیا۔ اب عذاب قبر کی اس سے زیادہ وضاحت ممکن نہیں ہے۔ فافہم۔’’یہ اُمت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے، پس اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دُعا کرتا کہ وہ تم کو بھی قبر کا عذاب سنا دے جس طرح میں سنتا ہوں‘‘۔
(۴) چوتھی حدیث:
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی پس اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( بخاری:۱۳۷۲، مسند احمد ۶/۱۷۴، سنن النسائی کتاب السھو۔ باب:۶۴۔ ح:۱۳۰۸۔ الصحیحہ:۱۳۷۷)۔نعم عذاب القبر حق جی ہاں قبر کا عذاب حق ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ من عذاب القبر ۶۳۶۶، مسلم ۱۳۲۱)۔اور دوسری روایت میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مدینہ کی دو بوڑھی عورتیں ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ان اھل القبور یعذبون فی قبورھم۔ بے شک قبر والے اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں۔
پس میں نے ان عورتوں کو جھوٹا قرار دیا اور مجھے یہ بات اچھی نہ لگی کہ میں ان کی بات کو سچ مانوں۔ پھر وہ عورتیں چلی گئیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئی تھیں اور میں نے پورا واقعہ بیان کیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صدقتا انھم یعذبون عذابا تسمعہ البھائم کلھا۔
’’ان دونوں نے سچ کہا ہے۔بے شک قبر والوں کو (ان کی قبروں میں) عذاب ہوتا ہے جسے تمام چوپائے سنتے ہیں‘‘۔
پس اس (واقعہ) کے بعد میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز نہیں پڑھی مگر اس میں قبر کے عذاب سے پناہ مانگی۔
۱۔ اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ مردوں کو ان کی قبروں میں عذاب ہوتا ہے۔
۲۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس عذاب کو تمام چوپائے سنتے ہیں۔ اور اس سلسلہ کی دیگر احادیث بھی موجود ہیں۔ ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں:
یسمع من یلیہ غیر الثقلین (بخاری۱۳۳۸، ۱۳۷۴)۔
(قبر میں میت کو جب لوہے کے گرز سے مارا جاتا ہے تو) اس کے چیخنے چلانے کی آواز کو (قبر کے) قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں سوائے انسان و جنات کے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ جب میت چارپائی پر چیختی چلاتی ہے:
یسمع کل شئی الا الانسان و لو سمع الانسان لصعق (بخاری:۱۳۱۶)۔
اوپر والی حدیث سے ثابت ہو گیا کہ قبر کے قریب کی تمام چیزیں عذاب قبر کو سنتی ہیں۔ اس حدیث کا اگر یہ مطلب ہوتا کہ عذاب کسی اور مقام پر ہو رہا ہے تو پھر من یلیہ کا کیا مطلب ہو گا؟ لہٰذا یہ حدیث دو ٹوک الفاظ میں عذاب قبر کو ثابت کرتی ہے۔ اور اس کے بعد والی حدیث بھی ثابت کرتی ہے کہ اسی میت کو عذاب ہوتا ہے کیونکہ میت چارپائی پر ہی چیخنے چلانے لگتی ہے۔ (کیا لوگ چارپائی بھی برزخ میں اٹھائے پھرتے ہیں؟) اب اس سے زیادہ عذاب قبر کی وضاحت کس طرح ممکن ہے؟ نیز ان احادیث سے جانوروں اور ہر چیز کے عذاب قبر کی آواز کو سننے کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔ یعنی قبر کے قریب کی ہر چیز عذاب قبر کو سنتی ہے۔اس کی آواز کو ہر چیز سنتی ہے لیکن انسان نہیں سن سکتا اور اگر انسان اسے سن لیتا تو بے ہوش ہو جاتا۔
مثال: بلی کی بصارت انسان کی نسبت بہت زیادہ ہے اور وہ اندھیرے میں دیکھ سکتی ہے۔ چوپایوں کے سونگھنے، سننے اور محسوس کرنے کی حس انسان سے کہیں زیادہ ہے۔ لہٰذا وہ عذاب قبر سن سکتے ہیں جیسا کہ آجکل موبائل فون کی ٹرانسمیشن انتہائی زیادہ ہے جو کہ انسانی سماعت سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ ٹرانسمیشن انسانی کان تو نہیں سن سکتا لیکن موبائل فون اُس کو سن لیتا ہے اور پھر اُسی ٹرانسمیشن کو انسانی سماعت کے مطابق ڈھال کر ہمیں سنا دیتا ہے۔
اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں: پہلی بات یہ کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی پہلے عذاب قبر کو نہیں مانتی تھیں لیکن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا تو وہ فوراً اس پر ایمان لے آئیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے انکار کی وجہ غالباً یہود سے ہر معاملے میں مخالفت بھی تھی۔ لہٰذا وہ سمجھیں کہ اس مسئلہ میں بھی ان سے مخالفت ہو گی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں یہود کی موافقت کی۔
مسند احمد میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ سیدنا سعید بن عمرو بن سعید اُموی بیان کرتے ہیں کہ
(مسند احمد(۶/۸۱) فقال ابن حجر العسقلانی: ما رواہ احمد باسناد علی شرط البخاری (فتح الباری (۳/۲۳۶)۔ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ایک یہودی عورت اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت کیا کرتی تھی۔ اُمّ المؤمنین فرماتی ہیں کہ انہوں نے یہودیہ سے اس کے سوا کوئی نیکی کی بات نہیں پائی کہ اس نے کہا: (اے عائشہ) اللہ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ھل للقبر عذاب قبل یوم القیامۃ کیا قیامت سے قبل قبر میں بھی عذاب ہو گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں … عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہودیہ کا واقعہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود نے جھوٹ کہا اور اللہ پر بھی جھوٹ بات کہی ہے۔ قیامت کے عذاب کے علاوہ (اس سے قبل) کوئی عذاب نہیں ہے۔ اُمّ المؤمنین فرماتی ہیں کہ اس واقعہ کے کچھ دن بعد جتنا کہ اللہ نے چاہا ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نصف النہار کے وقت نکلے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑا لپیٹے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے کہا: ’’اے لوگو! تم پر فتنے سیاہ رات کی طرح سایہ افگن ہوں گے۔ اے لوگو اگر تم ان حقیقتوں کو جان لو کہ جنہیں میں جانتا ہوں تو تمہارا رونا زیادہ ہو جائے اور ہنسنا کم ہو جائے۔ اے لوگو! اللہ تعالیٰ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگو۔ فان عذاب القبر حق پس بے شک قبر کا عذاب برحق ہے۔
اس تفصیلی روایت سے یہ وضاحت بھی ہو گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس واقعہ سے پہلے عذاب قبر کی تفصیلات سے واقف نہ تھے چنانچہ اس واقعہ کے چند دن بعد اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب قبر کے متعلق اطلاع دی جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت ایک یہودی عورت میرے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ کہنے لگی کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانپ گئے اور فرمایا کہ یہود آزمائے جائیں گے۔ پھر چند راتیں گزر گئیں تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تجھے معلوم ہے کہ مجھ پر یہ وحی نازل ہوئی ہے کہ تمہاری قبروں میں آزمائش ہو گی؟
(صحیح مسلم۔ کتاب المساجد باب استحباب التعوذ من عذاب القبر:۱۳۱۹۔ مسند احمد ۶/۸۹)۔اُمّ المؤمنین عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے اس دن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ھل شعرت انہ اوحی الی انکم تفتنون فی القبور قالت عائشۃ فسمعت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد یستعیذ من عذاب القبر
بخاری و مسلم میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے چنانچہ عمرۃ' بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوال کرتے ہوئے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ تجھے قبر کے عذاب سے بچائے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگ اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائذا باللّٰہ من ذٰلک ۔ میں اس سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت اپنی سواری پر سوار ہوئے پھر (اس دن) سورج کو گرہن لگ گیا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف ادا فرمائی یہاں تک کہ) سورج روشن ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
انی قد رایتکم تفتنون فی القبور کفتنۃ الدجال … اسمع رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد ذالک یتعوذ من عذاب النار و عذاب القبر
بے شک میں نے دیکھا کہ تم قبروں میں آزمائے جاؤ گے دجال کے فتنے کی طرح۔ … میں نے اس دن کے بعد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ۔ اور صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں:
فقال ما شاء اللّٰہ ان یقول ثم امرھم ان یتعوذوا من عذاب القبر
(صحیح بخاری کتاب الکسوف باب التعوذ من عذاب القبر فی الکسوف جلد۱ صفحہ ۱۴۳ عربی ح:۱۰۴۹۔ صحیح مسلم کتاب الکسوف ج۱ صفحہ۲۹۷ عربی ح:۲۰۹۸)پھر آپ نے (خطبہ میں) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ قبرکے عذاب سے پناہ مانگیں۔
(بخاری کتاب الکسوب باب صلوۃ النساء مع الرجال فی الکسوف ح:۱۰۵۳۔ مسلم کتاب الکسوف باب۳۔ ح:۲۱۰۳)۔سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس وقت آئیں جب کہ سورج کو گرہن لگ چکا تھا اور لوگ کھڑے ہوئے نماز ادا کر رہے تھے۔ اور عائشہ رضی اللہ عنہا بھی نماز ادا کر رہی تھیں۔ ……… (سورج کے روشن ہو جانے اور نماز سے فارغ ہو جانے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مڑے تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا کہ کوئی چیز بھی ایسی نہیں کہ جسے میں نے اس مقام پر نہ دیکھ لیا ہو یہاں تک کہ جنت اور جہنم کو بھی اور میری طرف یہ وحی بھی کی گئی کہ بے شک تم قبروں مین دجال کے فتنہ کے مثل یا اس کے قریب آزمائے جاؤ گے۔ اور قبر میں تمہارے پاس فرشتے آئیں گے اور تم سے کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟ جو مومن یا موقن (یقین رکھنے والا) ہو گا وہ کہے گا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ہمارے پاس کھلے دلائل اور ہدایت لے کر آئے پس ہم نے مان لیا اور ہم ایمان لے آئے اور ہم نے اتباع اختیار کی۔ پس اس سے کہا جائے گا کہ آرام سے سو جا۔ ہمیں معلوم تھا کہ آپ یقین رکھنے والے ہیں۔ اور جو منافق یا مرتاب (شک کرنے والا) ہو گا وہ کہے گا کہ میں نہیں جانتا۔ میں تو وہی کہتا ہوں کہ جو لوگ کہتے تھے۔
عذاب قبرکی حقیقت- ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی